تحریک منہاج القرآن کا سالانہ عالمی روحانی اجتماع (لیلۃ القدر) 2011ء
تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف میں 27 اگست 2011ء کو لیلۃ القدر کا عالمی روحانی اجتماع منعقد ہوا۔ جس سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خطاب کیا اور خصوصی دعا کی۔ روحانی اجتماع میں شہر اعتکاف کے ہزاروں معتکفین و معتکفات کے علاوہ لاکھوں عشاقان مصطفیٰ مرد و خواتین نے بھرپور مذہبی جوش و خروش سے شرکت کی۔ پروگرام کی تمام کارروائی اے آر وائی کیو ٹی وی Qtv اور www.Minhaj.tv نے شہر اعتکاف سے براہ راست نشر کی جبکہ اس شب کی خصوصی دعا Geo TV، دنیا ٹی وی، City 42، سماء ٹی وی اور دیگر ٹی وی چینلز پر بھی نشر کی گئی۔
پروگرام میں امیر تحریک منہاج القرآن مسکین فیض الرحمن درانی، سجادہ نشین آستانہ عالیہ بھیرہ شریف صاحبزادہ امین الحسنات شاہ سمیت دیگر علماء و مشائخ نے خصوصی شرکت کی۔ علاوہ ازیں ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، سینئر نائب ناظم اعلیٰ شیخ زاہد فیاض سمیت تحریک کے تمام مرکزی قائدین بھی پروگرام میں موجود تھے۔ عالمی روحانی اجتماع کے لیے جامع المنہاج کے اندر اور اطراف و اکناف میں بڑی ڈیجٹیل اسکرینیں بھی لگائی گئی تھیں۔
پروگرام کا آغاز نماز تروایح کے بعد شب ساڑھے 10 بجے تلاوت قرآن پاک اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوا۔ قاری اللہ بخش نقشبندی نے تلاوت قرآن پاک کا شرف حاصل کیا۔ نعت خواں حضرات میں حسان منہاج محمد افضل نوشاہی، منہاج نعت کونسل ظہیر بلالی برادران اور امجد بلالی برادران، عنصر علی قادری اور شہزاد برادران کے علاوہ دیگر ثناء خواں حضرات نے آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں ہدیہ عقیدت پیش کیا۔ اس کے علاوہ علامہ غلام مرتضی علوی نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی نئی کتب کا تعارف پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ شیخ الاسلام کی اب تک 415 سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں۔
شب گیارہ بجے عالمی روحانی اجتماع کے شرکاء نے باجماعت صلوۃ التسبیح ادا کی۔
صاحبزادہ علامہ ظہیر احمد نقشبندی نے منہاج ویلفیئر فاونڈیشن کے پلیٹ فارم سے تحریک منہاج القرآن کی فلاحی خدمات اور بالخصوص "آغوش" کا تعارف پیش کیا۔
ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے عالمی روحانی اجتماع کے شرکاء کو استقبالیہ پیش کیا۔ آپ نے کہا کہ ہم اعتکاف میں روایتی رسم ادا کرنے نہیں آئے بلکہ یہ اعتکاف پاکستان میں سلامتی و ترقی کے لیے ہے۔ جس میں ہم اپنے گناہوں کی معافی مانگنے آئے ہیں، ملک پاکستان اور عالم اسلام کی ترقی و سلامتی کی دعائیں مانگنے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہر اعتکاف دور پرفتن میں امن کا پیغام ہے۔ جس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مرد قلندر بن کر امت کو عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جام پلا رہے ہیں۔ جو اعتکاف کے روحانی ماحول میں دنیا کو بیداری شعور کا پیغام دے رہے ہیں۔ جو اپنے خطابات سے دنیا میں دہشت گردی کے خاتمے کی بات کر رہے ہیں۔ شیخ الاسلام نے ساری دنیا کو بتایا کہ اسلام دہشت گردی، تنگ نظری اور انتہاء پسندی کا نام نہیں بلکہ یہ امن کا دین ہے۔
ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے کہا کہ تحریک منہاج القرآن کی 30 سالہ جدوجہد تاریخ ساز ہے۔ جس کو مزید تاریخی بنانا ہے۔ آج اس روحانی اجتماع میں ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم جہاں جائیں گے، لوگوں کے لیے امن کا پیغام، نفع کا پیغام اور سہولت کا پیغام لے کر جائیں گے۔
سجادہ نشین آستانہ عالیہ بھیرہ شریف صاحبزادہ پیر امین الحسنات شاہ نے بھی عالمی روحانی اجتماع سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ شہر اعتکاف وہ بستی ہے، جس کے ذریعے روحوں کا گدلا پن دور کیا جا رہا ہے۔ آج لیلۃ القدر ہے، جس میں قرآن نازل ہوا۔ اس مبارک رات کے صدقے ہم شہر اعتکاف میں اللہ کی رحمتوں کا نزول دیکھ رہے ہیں۔ جس سے اپنا دامن بھر رہے ہیں۔ آج کی رات ہمیں اپنی آنکھوں میں شرمندگی کے آنسو سجانے ہیں۔ ہمیں اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگنا ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ میں تحریک منہاج القرآن اور اس مصطفوی مشن کی ترقی کے لیے دعا گو ہوں۔
شیخ الاسلام کے خطاب سے قبل شب 1 بجے حسان منہاج محمد افضل نوشاہی نے نعت مبارکہ پیش کی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عالمی روحانی اجتماع کے لاکھوں عشاقان مصطفیٰ سے خصوصی خطاب کیا۔ آپ نے اخلاق حسنہ کے موضوع پر خطاب کیا۔ آپ نے کہا کہ تمام صوفیاء کا تصوف کی تعریف کے باب میں اس بات پر اتفاق ہے کہ تصوف آٹھ بنیادی خصلتوں کو اپنے اندر جمع کر لینے کا نام ہے۔ جو شخص ان خصلتوں کو جمع کر لے وہ باکمال صوفی کہلانے کا حقدار ہے۔ وہ آٹھ خصلتیں سخاوت، رضاء الٰہی، اشارہ، قربت، دنیا سے بے رغبتی، سیاحت، گدڑی اور فقر پر مشتمل ہیں۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ سخاوت تصوف کی پہلی شرط ہے۔ اس لیے کوئی بخیل شخص صوفی نہیں ہو سکتا۔ سخاوت کا یہ عالم کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی قربانی تک پیش کر دی۔ ایک مرتبہ بھی یہ تاثر نہ دیا کہ اللہ نے بیٹے کی قربانی کیوں مانگی ہے۔ دوسری اللہ نے سیدنا ابراہیم سے ان کی زندگی کی قربانی مانگی، جب نار نمرود میں تھے۔ آپ کی سخاوت کا مال کے حوالے سے بھی امتحان لیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ دوسری چیز رضا سے مراد ہر حال میں اللہ سے خوش رہنا ہے۔ سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی قربانی رضا کی بہترین مثال ہے۔ انہوں نے اپنے والد سے کہا کہ آپ چھری چلا دیں اور اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابرین میں پائیں گے۔ یہ رضا تھی، اور رضا میں مقام فناء تھا۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ اس دنیا میں حسد، غیبت، عناد، دنیا کا حرص، لالچ، بغض، عداوت اور دنیا جمع کرنے کی آگ لگی ہے۔ تصوف نفس اور حرص و ہوس کو توڑ کر آزاد ہو جانے کا نام ہے۔ صوفیاء کا خمیر یہاں سے اٹھتا ہے۔ جو حرص دنیا نہیں رکھتے۔ اوائل دور میں جب لوگوں میں روحانیت کی بھوک تھی، خوبیاں تھیں، اس وقت تصوف کا نام کم تھا لیکن تصوف کی حقیقت بہت عروج پر تھی۔ آج تصوف کا نام رہ گیا، لیکن حقیقت غائب ہو گئی۔ جس اہل اللہ کو دیکھتے تو اس کے ظاہر و باطن کے احوال تصوف کے ساتھ ہوتے، اب حالت یہ ہے کہ تصوف صرف موضوع رہ گیا، باقی تفصیل چلی گئی۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ آج ہم اس ظلم پر پہنچ چکے ہیں کہ اہل کو نااہل اور نااہل کو اہل بنا دیا گیا، جس کی وجہ سے ہم پر اللہ کا عذاب نازل ہو رہا ہے۔ جس سے اسلام کی قدروں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ آج حکمرانوں کو دین مصطفیٰ کی بجائے صرف اپنی کرسی کی فکر ہے۔ اس میں قصور وار وہ لوگ ہیں، جنہوں نے نااہل لوگوں کو اپنا حکمران بنا لیا ہے۔
آپ نے کہا کہ حسن خلق کے تین درجات ہیں۔ جس میں پہلا درجہ "تحسین الخلق مع الخلق" ہے۔ مخلوق کے مقام اور حقوق کو پہچاننا اور ان کے ساتھ بھلائی کرنا۔ تصوف کا درس یہ ہے کہ اے بندے ہر شخص کو تجھ سے امن اور نفع پہنچے۔ تو خلق سے محبت کرے اور مخلوق کو تجھ سے نجات ہو۔ یعنی تو اللہ کی مخلوق کے لیے باعث نجات ہو، اور کسی کو بھی تجھ سے نقصان نہ پہنچے۔
شیخ الاسلام نے آخر میں کہا کہ آج کا المیہ ہے کہ قوم نے شر پسند، کرپٹ اور گمراہوں کو عزت کے مناصب پر بٹھا دیا ہے۔ عدل کرنے کی ذمہ داری پر فائز ظالم بن چکے اور دوسروں کے حق کو کھا جانا، ان کی عزت کو کھلونا بنانا ان کا مشغلہ بن چکا ہے۔ افسوس جن کے ذمہ ملک و ملت کی جان، مال اور عزت کی ذمہ داری تھی وہ لٹیرے بن چکے ہیں۔ ملک میں دہشت گردی کا راج ہے۔ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کا عمل روز کا معمول بن چکا، خدا کا خوف دلوں سے ہجرت کرگیا، پرتعیش زندگی کے لیے لوٹ مار عروج پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ خیر کے لیے خرچ کرنے میں بخیلی اور غیر شرعی افعال پر دل کھول کرخرچ کرنا متمول لوگوں کا وطیرہ بن چکا ہے۔ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی عزت نفس مجروح کرنا معمول بن گیا ہے۔ شہرت اور ناموری کی خاطر غریبوں کی مدد کا ڈھونگ بھی رچایا جاتا ہے۔ کبر، حسد، بغض، عداوت، بے حیائی اور ظلم کے رویوں پر فخر کیا جانے لگا ہے جبکہ اہل تصوف ان رویوں کو ظلم سے تعبیر کرتے ہیں۔ تصوف رسوم اور علوم کا نہیں حسن خلق کا نام ہے اور سرتاپا سراپا اخلاق ہونے کا نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ تصوف حسن عبادات کا نہیں حسن معاملات کا نام ہے۔ لوگوں کے ساتھ معاملات درست کر لیے جائیں تو اللہ عبادات کی توفیق بھی دے دیتا ہے۔ تصوف علم صحیح کے ساتھ ہو تو زاویہ نگاہ بدل دیتا ہے مگر افسوس آج تصوف کا دعویٰ تو ہے مگر عمل نہیں۔ تصوف اپنے حقوق قربان کرکے دوسروں کو حقوق دلانے کا نام ہے۔ تصوف صبر، محنت، شجاعت اور عدل کے رویوں کو اپنانے اور جہالت، ظلم، شہوت اور غضب کے رویوں سے آزاد ہونے کا نام ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج جہالت کے خلاف جنگ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے علم نافع حاصل کرنا ہوگا، علم کے حصول کے بغیر ہمارا کوئی مستقبل نہ ہوگا، خود احتسابی کے رویوں کو پروان چڑھانا ہوگا تاکہ مثبت قدریں پروان چڑھیں اور ہمارا معاشرہ منفی رویوں سے پاک ہو سکے۔ خطاب کے بعد انہوں نے ملکی سلامتی، استحکام اور امت مسلمہ کے احوال کی درستگی کے لیے رقت آمیز دعا کرائی۔ ان کی دعا کے دوران لاکھوں لوگ گریہ و بکا کرتے رہے اور اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہے۔
تبصرہ