تقریب بیاد اقبال سے ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن کا خطاب
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے یوم وصال کے موقع پر مرکزیہ مجلس اقبال بااشتراک ایوان اقبال کمپلیکس کے زیراہتمام تقریب بیاد حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ منعقد ہوئی۔ یہ تقریب مورخہ 21 اپریل 2012ء کو ایوان اقبال، خیابان اقبال (ایجرٹن روڈ) لاہور میں منعقد ہوئی۔ جس سے ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد اظہر، مجیب الرحمن شامی، اوریا مقبول جان، اور سجاد میر نے خطاب کیا۔
تقریب کی صدارت سینیٹر اعتزاز احسن نے کی۔ جبکہ میاں افضل حیات (صدر مرکزیہ مجلس اقبال)، عارف نظامی (سیکرٹری جنرل مرکزیہ مجلس اقبال) اور ارشاد احمد عارف (جوائنٹ سیکرٹری مرکزیہ مجلس اقبال) مہمان خصوصی تھے۔
پروگرام کا آغاز تلاوت کلام مجید سے ہوا جس کی سعادت پروفیسر قاری منیر احمد نے حاصل کی۔ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سعادت قاری محمد رفیق نقشبندی نے حاصل کی جبکہ کلام اقبال جمشید چشتی نے پیش کیا۔
ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شاعر مشرق عظیم سیاست دان، دانشور ہی نہیں بلکہ قوم کے سب سے بڑے فکری رہنما تھے۔ ڈاکٹر اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمانوں کو جہد مسلسل کی تلقین کی اور نوجوان نسل کو سادہ اور فطری زندگی پر قناعت کا درس دیا۔ شاعر مشرق نے اپنے کلام میں مسلمانوں کو ہرحال میں اپنی خودداری اور غیرت کی حفاظت کرنے کی تلقین کی ہے۔
ڈاکٹر عباسی نے کہا کہ حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ کا سیاسی مسلک ان کے اسلامی عقائد اور نظریات کے تابع تھا۔ چنانچہ 1930ء میں اسلامی مرکزیت کے خطے کے طور پر پاکستان کا تصور پیش کر کے وہ جابجا اسلامی سلطنت کے خدوخال بیان کرتے ہیں اور اسلامی قیادت کی تیاری کے لیے اسلامی تعلیمات مہیا کرتے ہیں۔
علامہ نے قوم اور ملت کی تشکیل کے لیے جغرافیائی وفاداری کا مادی تصور رد کر دیا تھا اور اس کی جگہ جینے اور مرنے کے لیے عقیدے، تہذیب اور تاریخی روایات کو منتخب کیا۔ وہ امت مسلمہ کو ایک نظریاتی قوم کے طور پر زندہ دیکھنا چاہتے تھے۔
ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے کہا کہ اس وقت پاکستانی قوم کو نام نہاد جمہوریت کے جال میں پھنسا دیا گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت اور تجارتی سیاست جس کا رواج اس وقت پاکستان میں عروج پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت ہی کم لوگوں کو چھوڑ کر غالب اکثریت اس ملک کے اقتدار کے ایوانوں اور سیاست پر ایسے لوگوں کی قابض ہے جن کا امانت میں کوئی کردار نہیں، دیانت میں کوئی درجہ نہیں۔ اخلاص میں کوئی مقام اور وفاداری میں کوئی سطح نہیں، قوم انہیں لوگوں کی راہنمائی اور اقتدار کا حق دار سمجھتی ہے۔ ہزار گالی بھی دیتی ہے اور ووٹ بھی جا کر انہیں کو دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ قوم اس وقت تک اقبال کے خواب کی حقیقی تعبیر نہیں دیکھ سکتی جب تک سرمایہ داروں، وڈیروں اور جاگیرداروں کے مکر کی چالوں سے آگاہ نہیں ہو جاتی اور ان کے مکروہ چہروں سے نقاب نوچ کر اپنے لیے کوئی اور راستہ منتخب نہیں کر لیتی۔
تقریب کے آخر پر پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کے لئے خصوصی دعا بھی کی گئی۔
تبصرہ