صاحبزادہ حسین محی الدین قادری کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب
مورخہ 30 جون 2012ء کو صاحبزادہ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری (صدر فیڈرل کونسل تحریک منہاج القرآن) کے اعزاز میں شاندار تقریب مرکزی سیکرٹریٹ میں گوشہ درود کے صفہ ہال میں منعقد کی ہوئی۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری حال ہی میں آسٹریلیا سے پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کر کے پاکستان تشریف لائے ہیں۔
استقبالیہ تقریب میں امیر تحریک صاحبزادہ فیض الرحمٰن درانی، نائب امیر تحریک بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان، قائمقام ناظم اعلیٰ شیخ زاہد فیاض، نائب ناظم اعلیٰ جی ایم ملک، نائب ناظم اعلیٰ رانا فاروق احمد، نائب ناظم اعلیٰ رانا محمد ادریس قادری، نائب ناظم اعلیٰ رانا فیاض احمد، وائس چانسلری منہاج یونیورسٹی لاہور پروفیسر ڈاکٹر علی محمد، پرنسپل کالج آف شریعہ بریگیڈیئر (ر) عبیداللہ رانجھا، جاوید اقبال قادری، حاجی منظور حسین قادری، سید فرحت حسین شاہ، ڈاکٹر علی اکبر قادری، شاہد لطیف قادری، ساجد محمود بھٹی، راجہ جیمل اجمل، جواد حامد، افتخار شاہ بخاری، دیگر ناظمین، سربراہان شعبہ جات، سٹاف ممبران اور تعلیمی ادارہ جات کے سربراہان و اساتذہ کرام کے علاوہ طلبہ کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز صبح 11:00 بجے تلاوت کلام مجید سے کیا گیا، بعد ازاں بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نذرانہ عقیدت پیش کیا گیا۔ ہال کا منظر اس وقت دیدنی تھا جب صاحبزادہ حسین محی الدین قادری کو خطاب کے لیے دعوت دی گئی۔ حاضرین کا جوش و خروش عروج پر تھا، سب نے کھڑے ہو کر ان کا بھرپور استقبال کیا، پورا ہال تالیوں کی آواز سے گونج رہا تھا، ہر چہرے پر مسکراہٹیں رقص کر رہی تھیں اور ہر دل میں ان کے لیے خوشی و مسرت کے جذبات ابل رہے تھے۔
صاحبزادہ حسین محی الدین قادری نے استقبالیہ تقریب میں اصلاح احوال اور اخلاقیات پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ امر بدیہی ہے کہ ایک اچھا معاشرہ اچھے افراد ہی سے تشکیل پاتا ہے۔ اگر افراد صالح سیرت و کردار کے زیور سے آراستہ ہونگے تقویٰ اور صالحیت ان کے کردار کی نمایاں خصوصیات ہونگی تو ایسے افراد کے اجتماع سے ایک نیک صالح اور مثالی معاشرہ وجود میں آئے گا اور اگر افراد کمزور، بودی اور کھوکھلی سیرتوں کے مالک ہونگے تو ان کی شخصیتیں تقویٰ، پرہیزگاری، ایثار و قربانی، عاجزی و انکساری اور ہمت و جرات سے عاری ہونگی تو ایسے افراد کے وجود پر منحصر ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس دنیا میں حسد، غیبت، عناد، دنیا کا حرص، لالچ، بغض، عداوت اور دنیا جمع کرنے کی آگ لگی ہے۔ تصوف نفس اور حرص و ہوس کو توڑ کر آزاد ہو جانے کا نام ہے۔ صوفیاء کا خمیر یہاں سے اٹھتا ہے۔ جو حرص دنیا نہیں رکھتے۔ اوائل دور میں جب لوگوں میں روحانیت کی بھوک تھی، خوبیاں تھیں، اس وقت تصوف کا نام کم تھا لیکن تصوف کی حقیقت بہت عروج پر تھی۔ آج تصوف کا نام رہ گیا، لیکن حقیقت غائب ہو گئی۔ جس اہل اللہ کو دیکھتے تو اس کے ظاہر و باطن کے احوال تصوف کے ساتھ ہوتے، اب حالت یہ ہے کہ تصوف صرف موضوع رہ گیا، باقی تفصیل چلی گئی۔
انہوں نے کہا کہ تصوف حسن عبادات کا نہیں حسن معاملات کا نام ہے۔ لوگوں کے ساتھ معاملات درست کر لیے جائیں تو اللہ عبادات کی توفیق بھی دے دیتا ہے۔ تصوف علم صحیح کے ساتھ ہو تو زاویہ نگاہ بدل دیتا ہے مگر افسوس آج تصوف کا دعویٰ تو ہے مگر عمل نہیں۔ تصوف اپنے حقوق قربان کرکے دوسروں کو حقوق دلانے کا نام ہے۔ تصوف صبر، محنت، شجاعت اور عدل کے رویوں کو اپنانے اور جہالت، ظلم، شہوت اور غضب کے رویوں سے آزاد ہونے کا نام ہے۔
تقریب سے اظہار خیال کرتے ہوئے دیگر مقررین نے صاحبزادہ حسین محی الدین قادری کو اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے اور وطن واپسی پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کی۔ تقریب کا اختتام دعائے خیر سے ہوا۔
تبصرہ