آج کا المیہ ہے کہ قوم نے نااہلوں کو رہبر بنا لیا ہے۔ مسکین فیض الرحمن درانی
افسوس جن کے ذمہ ملک و ملت کی جان، مال اور عزت کی ذمہ داری تھی
وہ لٹیرے بن چکے ہیں
ایک دوسرے کے گلے کٹنے کا عمل روز کا معمول بن چکا، خدا کا خوف دلوں سے ہجرت کر گیا
تصوف رسوم اور علوم کا نہیں حسن خلق کا نام ہے
تحریک منہاج القرآن کے مرکزی امیر صاحبزادہ فیض الرحمن درانی کا درس عرفان القرآن سے
خطاب
مرکزی امیر تحریک منہاج القرآن صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی نے کہا ہے کہ دنیا ہمارا کعبہ بن چکی اور ہم عملا اللہ سے تعلق توڑ چکے ہیں۔ دنیاوی مفادات کا حصول پہلی ترجیح بن چکا، معاشرے کی غالب اکثریت نفسانی خواہشات کے پیچھے بھاگ کر اپنا ایمان تباہ کر رہی ہے۔ ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کا استعمال دنیاوی آسائشوں کے حصول کے لیے رہ گیا ہے۔ آج کا المیہ ہے کہ قوم نے نااہلوں کو رہبر بنا لیا ہے۔ شر پسند، کرپٹ اور گمراہوں کو عزت کے مناصب پر بٹھا دیا گیا ہے۔ عدل کرنے کی ذمہ داری پر فائز ظالم بن چکے اور دوسروں کے حق کو کھا جانا، ان کی عزت کو کھلونا بنانا ان کا مشغلہ بن چکا ہے۔
وہ گذشتہ تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام مرکزی سیکرٹریٹ میں منعقدہ درس عرفان القرآن سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ افسوس جن کے ذمہ ملک و ملت کی جان، مال اور عزت کی ذمہ داری تھی وہ لٹیرے بن چکے ہیں۔ ملک میں دہشت گردی کا راج ہے۔ ایک دوسرے کے گلے کٹنے کا عمل روز کا معمول بن چکا، خدا کا خوف دلوں سے ہجرت کر گیا، پرتعیش زندگی کے لیے لوٹ مار عروج پر ہے۔
صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی نے کہا کہ خیر کے لیے خرچ کرنے میں بخیلی اور غیر شرعی افعال پر دل کھول کرخرچ کرنا متمول لوگوں کا وطیرہ بن چکا ہے۔ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی عزت نفس مجروح کرنا معمول بن گیا ہے۔ شہرت اور ناموری کی خاطر غریبوں کی مدد کا ڈھونگ بھی رچایا جاتا ہے۔ کبر، حسد، بغض، عداوت، بے حیائی اور ظلم کے رویوں پر فخر کیا جانے لگا ہے جبکہ اہل تصوف ان رویوں کو ظلم سے تعبیر کرتے ہیں۔ تصوف رسوم اور علوم کا نہیں حسن خلق کا نام ہے اور سرتاپا سراپا اخلاق ہونے کا نام ہے۔
انہوں نے کہا کہ تصوف حسن عبادات کا نہیں حسن معاملات کا نام ہے۔ لوگوں کے ساتھ معاملات درست کر لیے جائیں تو اللہ عبادات کی توفیق بھی دے دیتا ہے۔ تصوف علم صحیح کے ساتھ ہو تو زاویہ نگاہ بدل دیتا ہے مگر افسوس آج تصوف کا دعویٰ تو ہے مگر عمل نہیں۔ تصوف اپنے حقوق قربان کر کے دوسروں کو حقوق دلانے کا نام ہے۔ تصوف صبر، محنت، شجاعت اور عدل کے رویوں کو اپنانے اور جہالت، ظلم، شہوت اور غضب کے رویوں سے آزاد ہونے کا نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج جہالت کے خلاف جنگ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے علم نافع حاصل کرنا ہو گا، علم کے حصول کے بغیر ہمارا کوئی مستقبل نہ ہو گا، خود احتسابی کے رویوں کو پروان چڑھانا ہو گا تاکہ مثبت قدریں پروان چڑھیں اور ہمارا معاشرہ منفی رویوں سے پاک ہو سکے۔
تبصرہ