سٹڈی سرکل : موجودہ انتخابی نظام کی خرابیاں
موجودہ انتخابی نظام کی خرابیاں:
- اس نظام کے تحت عوام کی نمائندہ اکثریتی حکومت نہیں بنتی۔
- یہ نظام اسلامی تصور نمائندگی کے خلاف ہے۔
- نمائندگی کاتناسب
- سرمایہ داروں جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ
- دھن، دھونس، دھاندلی کا آزادانہ استعمال
- مہنگاترین نظام
- کمزور حکومتوں کی تشکیل
فرض کیجئے ایک حلقہ انتخاب میں ایک لاکھ رجسٹرڈ ووٹر ہیں ان میں سے 50,000 افراد نے اپنا حق رائے دہی اپنے پسندیدہ امیدواروں کے حق میں استعمال کیا۔ کل 5 امیدواروں نے انتخاب میں حصہ لیا ایک امیدوار نے 12,000 ووٹ حاصل کئے، دوسرے نے 11,500 ووٹ حاصل کئے، تیسرے نے 11,000، چوتھے نے 9,500 اور پانچویں نے 8,000 ووٹ حاصل کئے۔ اس طرح موجودہ نظام کے تحت 12,000 ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار اس حلقے کا نمائندہ قرار دے دیا جائے گا حالانکہ 38,000 افراد اسے نمائندہ نہیں بنانا چاہتے اور 50,000 افراد نے بوجوہ اپنا رائے حق دہی استعمال ہی نہیں کیا مگر وہ صرف اس لئے کامیاب قرار دیا گیا کہ اس نے اپنے حریف امیدوار کے مقابلے میں 500 ووٹ زیادہ لئے ہیں اور اب وہ ایک لاکھ افراد کے حلقہ انتخاب کا نمائندہ تصور کیا جائے گا۔
پاکستان کی فیڈرل شریعت کورٹ میں 1988ء کے انتخابات کے بعد بہت سی درخواستیں موجودہ نظام انتخابات اور انتخابی قوانین کو کالعدم قرار دینے کے لئے دائر کی گئیں اور ان درخواستوں کے دلائل کی بنیاد پر فیڈرل شریعت کورٹ نے بھی موجودہ نظام انتخاب کو قرآن و سنت کے اصولوں کے خلاف قرار دیا تھا۔ ان درخواستوں کی سماعت کے دوران سب سے بڑی دلیل یہی پیش کی گئی تھی کہ موجودہ نظام انتخاب میں انتخابی مہم ایک میلے یا سرکس کے انداز میں چلائی جاتی ہے۔
مجموعی ٹرن آؤٹ کے اعتبار سے ان انتخاب کا جائزہ لیا جائے تو 1977ء کے عام اِنتخابات میں کاسٹ ہونے والے ووٹوں کی شرح کا تناسب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 63 فیصد تھا، جو کہ بعد ازاں آنے والے اِنتخابات میں بتدریج کم ہوتا رہا۔ 1988ء کے عام اِنتخابات میں ٹرن آؤٹ 43.07 فیصد ہوا، 1990ء کے عام اِنتخابات میں 45.46 فیصد تک پہنچ گیا، 1993ء کے عام اِنتخابات میں 40.28 فیصد پر آگیا، 1997ء کے عام اِنتخابات میں 35.42 فیصد کی نچلی سطح پر آگیا جوکہ 2002ء کے عام اِنتخابات میں 41.26 فیصد کی سطح پر پہنچایا گیا۔ بعد ازاں 2005ء میں ہونے والے بلدیاتی اِنتخابات میں ووٹوں کا ٹرن آؤٹ 30 فیصد کی اِنتہائی نچلی سطح تک گر گیا حالانکہ یہ الیکشن لوکل سطح پر منعقد ہوئے اوران میں لوگوں نے زیادہ بڑھ چڑ کر مقامی نمائندوں کو ووٹ دیے۔ اِس تقابل سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام موجودہ مہنگے اور بدعنوان انتخابی نظام سے مایوس ہوچکے ہیں اور اْنہیں موجودہ نظام انتخابات کے ذریعے ملک میں کوئی مثبت تبدیلی آنے کا کوئی اِمکان دکھائی نہیں دیتا۔
موجودہ نظام انتخابات صرف سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اس نظام کے تحت صرف سرمایہ دار اور جاگیردار ہی منتخب ہو سکتے ہیں۔ عوام کی پسند کو محدود کر دیا جاتا ہے اور جب اقتدار ان طبقات کے ہاتھ میں آتا ہے تو یہ صرف ایسے قوانین وضع کرتے ہیں اور دستور اور قانون میں ایسی ترامیم کرتے ہیں جن سے صرف ان کے اعلیٰ سطحی مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ عوام کے مفاد میں کوئی فیصلہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی پالیسی بنتی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج تک غریب عوام کی بہتری کے لئے ان بالادست طبقات کے ہاتھوں کوئی اصلاحات نافذ نہیں ہو سکیں۔
اس نظام میں امیدوار چونکہ محض ایک ووٹ کی برتری سے بھی کامیاب ہو سکتا ہے اس لئے ناجائز ذرائع اور سرکاری پشت پناہی کے حامل امیدوار اپنے مدمقابل کو شکست دینے اور خوفزدہ کرنے کے لئے دھن، دھونس اور دھاندلی کے تمام ممکنہ طریقوں کا آزادانہ استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہر انتخاب میں برسر اقتدار حکومتوں اور بالادست طبقات نے دھن، دھونس اور دھاندلی کی بنیاد پر الیکشن جیتے اور پھر الیکشن جیتنے کے بعد بھی اپنے مدمقابل کو ذلیل و رسوا کرنے اور اس سے ہر ممکن انتقام لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اسے انتہائی بیہمانہ اور غیرشریفانہ طریقوں سے نقصان پہنچاتے رہے۔
اس نظام کے تحت نمائندگان کروڑوں روپے خرچ کرکے اسمبلی میں پہنچتے ہیں۔ ایک ایم این اے اپنے حلقے میں 30کروڑ روپے کم از کم خرچ کرتا ہے جبکہ ایک ایماندار، محنتی، محب وطن، پڑھا لکھا شخص تو الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
اس نظام انتخابات کے ذریعے جتنی بھی حکومتیں بنیں کمزور ثابت ہوئیں اور حکومتوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج اور بیوروکریسی کو اپنا پیشہ وارانہ کردار چھوڑ کر سیاسی کردار ادا کرنا پڑا نتیجتاً سیاسی نظام میں عدم استحکام رہا۔ حکومتیں اپنی کمزوری کے باعث جلد ٹوٹتی رہیں اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ملک پر حکمرانی کرتے رہے۔ ملک سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی انحطاط کا شکار ہو گیا۔ سیاسی جماعتوں کو اب اس نظام میں نہ تو کسی ٹھوس پروگرام کے پیش کرنے کی ضرورت رہی ہے اور نہ کسی دستور و منشور کی۔ انہیں نہ کوئی جانتا ہے اور نہ پڑھتا۔ ہر جماعت کو جیتنے والے امیدواروں (Winning Horses) کی ضرورت ہوتی ہے اور انہی کے ذریعے انتخاب جیتا جاتا ہے اس میں عوام کا کردار محض نمائشی اور رسمی رہ گیا ہے اس نظام میں یہی پہلو حکومتوں کو کمزور اور سیاسی نظام کو غیر مستحکم رکھتا ہے۔ اسی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر فوجی آمریت بار بار جمہوری بساط لپیٹتی ہے اور پھر ملک اندھیروں کی نظر ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں موجودہ سیاسی نظام اور بالخصوص ظالمانہ انتخابی نظام جو درحقیقت سرمایہ داروں، وڈیروں، لٹیروں، جگوں، ٹھگوں اور رسہ گیروں کے مفادات کے تحفظ کا نظام ہے دراصل یہی نظام پاکستان میں مثبت اور پرامن سیاسی تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پارٹیوں کی تبدیلی، چہروں کی تبدیلی، حتی کہ اداروں (فوج و پارلیمنٹ) کی تبدیلی کا تماشا گذشتہ کئی دہائیوں سے دیکھا اور دکھایا جارہا ہے لیکن ملکی حالات سنورنے کی بجائے بگڑتے چلے جارہے ہیں اور آج ہمارا پیارا وطن خاکم بدہن ایک جہنم کدہ بن چکا ہے۔ موجودہ انتخابی نظام کے تحت اگلے 10 الیکشن بھی موجودہ سیاسی قیادتوں، پارٹیوں کو مزید مضبوط اور ملک کو مزید کمزور تو کرسکتے ہیں لیکن قوم کے بنیادی مسائل کا حل کبھی نہیں دے سکتے۔
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
آئیے اس حقیقت کا ادراک کرکے اسے تسلیم کریں اور چراغ سے چراغ جلاتے ہوئے یہی احساس آگے منتقل کرکے عوام کو اس ظالمانہ، غریب کش انتخابی نظام کو تج کرکے اسکی جگہ متناسب نمائندگی یا ایسا کوئی اور انتخابی نظام اپنانے کا شعور پیدا کریں کہ جس کے ذریعے ہم مڈل کلاس عوام میں سے اہل، صالح، ایماندار اور محب وطن لوگ پاکستان کے قانون ساز اداروں تک پہنچ کر ملک و قوم کے بہتر مستقبل کا تعین کرسکیں۔
آن لائن مطالعہ اور ڈاون لوڈنگ کے لیے کلک کریں
انتخابات یا نظام انتخاب؟
تبصرہ