10 جنوری کی مہلت ورنہ عوامی مارچ : ڈاکٹر طاہرالقادری
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 23 دسمبر 2012ء کو مینار پاکستان لاہور میں بیس لاکھ سے زائد لوگوں کے تاریخ ساز ’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘ عوامی جلسے سے خطاب کیا۔ انہوں نے نظام درست کرنے کے لیے حکومت کو دس جنوری 2013ء کی مہلت دی ہے۔ اگر پاکستان کا کرپٹ اور فرسودہ نظام درست کرنے کے لیے ان کے پیش کردہ آئینی و قانونی مطالبات نہ مانے گئے تو پھر 14 جنوری 2013ء کو اسلام آباد کی سڑکوں پر چالیس لاکھ افراد کا پرامن احتجاجی مارچ ہوگا۔
مینار پاکستان کے سائے تلے تاریخ ساز ’عوامی استقبال‘ جلسے میں بیس لاکھ سے زائد لوگوں نے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو خوش آمدید کہا جو برصغیر کے عوامی جلسوں کی تاریخ میں ایک بے مثال و منفرد ریکارڈ ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے اراکین و دیگر قائدین سمیت پچاس رکنی وفد، تحریک تحفظ پاکستان، اے پی ایم ایل، جے یو پی نیازی، معروف ممتاز ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود سمیت مختلف مذہبی و سیاستی جماعتوں کے رہنماؤں، علماء و مشائخ، تاجر، طلبہ اور تمام مکاتب فکر کے نمائندے بھی اس موقع پر موجود تھے۔ خطاب کے آغاز میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے صوبہ خیبر پختونخواہ کے سینئر صوبائی وزیر اور اے این پی کے رہنما بشیر احمد بلور کے لیے بھی اجتماعی طور پر دعائے مغفرت کرائی۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے 20 لاکھ سے زائد افراد کے عوامی اجتماع کے سامنے حلفیہ کہا کہ اس جلسے کے لیے کسی بھی ملکی یا غیر ملکی حکومت یا ایجنسی نے ایک روپیہ بھی امداد نہیں دی بلکہ تمام اخراجات تحریک منہاج القرآن کے کارکنان اور عوام نے خود اپنی جیب سے کیے ہیں۔ یہی عوام اس ملک میں تبدیلی کا سویرا دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے حلف اٹھا کر یہ بھی کہا کہ وہ کسی بیرونی طاقت کے کہنے پر پاکستان نہیں آئے، نہ ہی کوئی بیرونی ایجنڈا پاکستان لانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’سیاست نہیں، ریاست بچاو‘ نعرے کا ہرگز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ میں اس ملک میں انتخابات رکوانے آیا ہوں، بلکہ میں انتخابات میں اصلاحات کے لیے آیا ہوں۔ کیونکہ جمہوریت کا سب سے بڑا حامی میں خود ہوں۔ آپ نے تیسرا حلف یہ دیا کہ اس اجتماع کی بنیاد ہرگز آئین پاکستان یا جمہوریت کے خلاف نہیں۔ اس عوامی جلسے کا مقصد کسی فوجی ایکشن یا ملٹری ٹیک اوور کی طرف اشارہ نہیں۔ اگر ایسا ہوا تو میں خود ملک کے تمام جمہوری اور سیاسی قائدین کے ساتھ فوجی ٹیک اوور کو روکنے والوں میں سب سے آگے ہوں گا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ میں اِس ملک میں ایسا نظام چاہتا ہوں جس میں تھانہ کلچر کا خاتمہ ہو، دیوانی مقدمات کا فیصلہ صرف ایک ماہ میں ہو جائے اور فوج داری مقدمات کا فیصلہ پندرہ دن میں ہوجائے۔ عبوری حکومت کے حوالے سے آپ نے کہا کہ اگر مقررہ نوے دنوں میں لاء اینڈ آرڈر قائم نہ ہو تو آئین اس سے زیادہ وقت کی بھی اجازت دیتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 254 میں ہے کہ جب کوئی کام یا چیز آئین کے تقاضے کے مطابق مخصوص وقت میں نہ ہوسکے تب بھی وہ کام خلاف قانون نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جس ملک کے اراکین اسمبلی پارلیمنٹ میں صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوں تو ایسے نظام سے عوام کیا بہتری کی امید رکھ سکتے ہیں۔ اس ملک میں کرپشن کا یہ عالم ہے کہ اگر عام آدمی بجلی یا سوئی گیس کے بلز ادا نہیں کرتا تو وہ الیکشن نہیں لڑسکتا۔ دوسری جانب اسمبلی میں بیٹھے حکمران ٹیکس چور ہیں اور ستر فیصد اراکین اسمبلی ٹیکس نہیں دیتے، مگر ان کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔
جلسے میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے پاکستان کے نظام کو درست کرنے کے لیے عملی لائحہ عمل پیش کیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ تحریک منہاج القرآن کے پوری دنیا میں موجود کارکنان کا جذبہ ہے کہ اگر میں انہیں اشارہ کروں تو وہ صرف تین ماہ میں پورے پاکستان کا بیرونی قرضہ ادا کرسکتے ہیں۔
اصولوں کی سیاست
ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ ہم ایسی سیاست چاہتے ہیں جو قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کے اصولوں کے مطابق اتحاد، تنظیم، اخوت اور وحدت سے ملک کو ایک اکائی میں پرو دے۔ میں سیاست پر یقین رکھتا ہوں اور مدینے کی ریاست کا قیام سیاست محمدی کا آغا تھا۔ میں صدیق اکبر اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے سیاسی اصولوں کو معاشرے میں قائم کرنا چاہتا ہوں۔ حکومت پانچ سال میں غربت ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ایک طرف وہ خود سیکڑوں ایکڑ کے محلات میں رہتے ہیں اور دوسری طرف غریب کے پاس کھانے کو لقمہ ہے نہ سر چھپانے کو چھت۔ ہم ایسی سیاست کو مسترد کرتے ہیں۔
عدلیہ کی بالا دستی
انہوں نے عدلیہ کے حوالے سے کہا کہ جدید دور میں عدلیہ کا مضبوط اور مستحکم ہونا ناگزیر ہے۔ آج اس جلسے میں اٹھارہ کروڑ عوام کے نمائندے آئین کی حکمرانی اور عدلیہ کی بالادستی کے لئے کھڑے ہیں۔
کبھی ہم دنیا کی واحد اسلامی نیوکلیئر پاور تھے، اب ہم ایک ناکام ریاست کے طور پر ابھر کر سامنے آر ہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق بلوچستان میں حکومتی رٹ ختم ہوچکی ہے، کراچی کے فیصلے میں بھی وفاقی حکومت کو ناکام قرار دیا گیا ہے۔ آئین کے مطابق ان کے پاس حکومت کرنے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کل سب کچھ غیر آئینی ہو رہا ہے۔ میں عدلیہ سے سوال کرتا ہوں کہ ملک کو کس قانون کے تحت چلایا جا رہا ہے؟
آئین کی بالادستی ملکی سالمیت کے لیے ضروری ہے
آج پاکستان کی بقاء خطرے میں ہے۔ سیاسی جماعتیں کہتی ہیں کہ فوج مداخلت کرتی ہے۔ اگر ہم فوج کی مداخلت روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں ملک کو آئین کے مطابق چلانا ہوگا۔ حکومت کی کارکردگی بہتر کرنا ہوگی۔ اس وقت ملک آئین کے مطابق نہیں چل رہا کیونکہ آئین کا تیسرا آرٹیکل کہتا ہے کہ ریاست ہر قسم کا استحصال ختم کرے جبکہ معاشرے میں ہر طرف استحصال ہو رہا ہے۔ اسی طرح آئین کا آرٹیکل 9 کہتا ہے کہ کسی بھی شہری کی جان و مال اور آزادی کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا جب کہ کمزور امیدوار اور ان کے حمایتی انتخابات میں ڈرتے ہوئے حصہ نہیں لیتے۔
الیکشن کمشنر کے پاس قانونی اختیار نہیں کہ وہ لوگوں کے جان و مال کی ضمانت دے سکے۔ آئین کے آرٹیکل 37 کے مطابق ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو معاشی انصاف فراہم کرے۔ کیا ان تمام برائیوں کا سو فیصدی خاتمہ ہو چکا ہے؟ اگر نہیں تو انتخابات کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ آرٹیکل 38 کہتا ہے کہ لوگوں کی زندگی اور معاشی حالات کو بہتر بنایا جائے، ہرشہری کو خوراک دی جائے لیکن یہ کسی کو بھی میسر نہیں۔ آرٹیکل 218 کے مطابق انتخابات ایماندارانہ اور منصفانہ ہوں اور اس میں کوئی ناجائز طریقہ استعمال نہ ہو، کرپشن کا خاتمہ ہو لیکن ان تمام شرائط میں سے ایک بھی شرط پوری نہیں کی گئی۔ اگر اس کے باوجود انتخابات ہوتے ہیں تو یہ آئین کے خلاف ہوں گے۔
اصغرخان کیس
اصغرخان کیس میں صدر کو غیر جانبدار رہنے کے لئے کہا گیا ہے لیکن وہ غیرجانبدار نہیں تو کیا یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں؟ نیب کے مطابق ملک میں دس سے بارہ ارب روپے کی روزانہ کرپشن ہوتی ہے اور پانچ ہزار ارب روپے کی سالانہ کرپشن ہوتی ہے۔
پارلیمنٹ میں ٹیکس چوری
آج پاکستانی پارلیمنٹ کے ستر فیصد ارکان اسمبلی نے ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کرائیں۔ 42 ہزار سے زائد آمدنی پر ٹیکس دینا لازمی ہوتا ہے جبکہ انکم ٹیکس ایکٹ کے مطابق اگر کوئی اپنی آمدن چھپاتا ہے تو اسے دو سال سزا، جرمانہ یا بیک وقت دونوں چیزیں ہو سکتی ہیں۔ جب قانون بنانے والے خود قانون توڑیں اور ٹیکس جمع نہ کرائیں تو انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ پارلیمنٹ میں بیٹھیں۔ کیا یہ کھلی دھاندلی نہیں؟
جعلی ڈگریاں
آرٹیکل 62 کہتا ہے کہ رکن اسمبلی کو دانا، نیک سیرت، اعتدال پسند، ایماندار اور امین ہونا چاہیے۔ لیکن چند لوگوں کے سوا باقی سب آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہیں اترتے۔ اس طرح سپریم کورٹ نے91 ارکان اسمبلی کو جعلی ڈگریوں پر نااہل قرار دیا، پارلیمنٹ نے بی اے کی شرط ختم کردی جس سے وہی لوگ دوبارہ الیکشن جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچ گئے۔ جعلی ڈگری لینے والوں اور ڈگری دینے والے مدرسوں کے لئے بھی یہ باعث شرم ہونا چاہیے۔ اگر انقلابی تبدیلی لائے بغیر انتخابات ہوئے تو یہی گھوڑے جیت کر پارلیمنٹ میں آ جائیں گے اور یہ مذاق قیامت تک یونہی چلتا رہے گا۔
آئینی بحران کا حل
اگر ملک میں آئین کی بالا دستی نہ ہوئی تو ملالہ کی طرح کوئی بھی محفوظ نہیں ہوگا۔ حکومت لوگوں کو جان و مال کی حفاظت اور معاشی استحکام دینے میں ناکام ہوچکی ہے۔ میرے پاس ملک کو موجودہ آئینی اور معاشی بحرانوں سے نکالنے کے لئے قابل عمل ایجنڈا موجود ہے جسے نافذ العمل کر کے قلیل مدت میں خاطر خواہ نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
انتخابات
انہون نے کہا کہ میرے ایجنڈے میں انتخابات ملتوی کرانا شامل نہیں مگر ہم اس نظام کے خلاف ہیں جس میں پارٹی امیدواروں سے پانچ، دس کروڑ روپے لے کر ٹکٹ فروخت کیے جائیں۔ ہم انتخابات میں آئین، دستور، گڈ گورننس کی بحالی اور ہر سطح پر کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اب دھاندلی اور استحصال کا الیکشن نہیں ہوگا۔
انتخابات کی آئینی مدت
ہم انتخابی عمل میں اصلاح چاہتے ہیں۔ آئین میں لکھا ہے کہ آئین کے مطابق شفاف انتخابات کرانا ضروری ہے۔ نوے روز میں انتخابات کرائے جائیں لیکن آئین میں یہ بھی لکھا ہے کہ نوے دن سے زائد عرصہ بھی لگ جائے تو بھی غیر آئینی نہیں جس کی وجہ آئین کا آرٹیکل 254 ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی کام یا چیز جس کا آئین تقاضا کرے کہ اسے اتنی مدت میں ہونا چاہیے، اگر یہ کام مقررہ مدت میں ختم نہ ہو سکے تو آئین کے مطابق تب بھی یہ خلاف آئین نہیں ہوگا۔ عدالت عالیہ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ آئین کے اس آرٹیکل کو پڑھے۔
آئندہ انتخابات آئین کے مطابق نہ ہوئے اور آئین کی تمام شرائط پوری نہ ہوسکیں تو عوام غیر آئینی انتخابات قبول نہیں کریں گے۔
پارلیمنٹ میں ہر طبقہ کی نمائندگی
انہوں نے کہا کہ انتخابی عمل میں ہر ایک کے لئے مخصوص کوٹہ رکھیں گے جس میں ہر شعبہ زندگی کے لوگوں کو نمائندگی ملے گی۔ صحافی، وکیل، کسان اور نوجوان منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں جائیں گے۔ پارلیمنٹ میں تاجروں، کسانوں اور اساتذہ سمیت تمام شعبوں کے لئے کوٹہ مختص کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سیاسی پارٹیوں کی جانب سے پانچ دس کروڑ لے کر انتخابی ٹکٹیں دینے پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔ ملک میں شفاف انتخابات کے لئے فوج کی نگرانی میں انتخابات اور پولنگ اسٹیشنوں پر سیاسی جماعتوں کے کارندوں اور امیدواروں کے داخلے پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔ انتخابی حلقوں میں کسی بھی پارٹی کا کیمپ نہیں لگانے دیں گے۔ انتخابات سرکاری عملہ اور فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں۔ انتخابات کے دنوں میں پولیس افسروں کو تین ماہ کے لئے دوسرے مقامات پر ٹرانسفر کر دیا جائے گا۔
انہوں نے بین الاقوامی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تبدیل ہو رہا ہے، ہمیں اپنی ریاست کو محفوظ بنانا ہے اور اس کےلئے تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔
غریبوں کے حقوق
ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے چند لٹیروں کے لئے پاکستان نہیں بنایا تھا۔ ہم وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور غنڈوں سے ملک کی باگ ڈور چھین کر غریبوں کو دیں گے۔ ہم ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جہاں انسان انسان کو نگل رہا ہے، ہمیں اس معاشرے کو تبدیل کرنا ہوگا۔ عدل و انصاف کے اصولوں کے بغیر ریاست ترقی نہیں کر سکتی۔
غربت، مہنگائی کا خاتمہ
انہوں نے کہا جو لوگ پانچ سال میں غربت، مہنگائی، بیروزگاری کا خاتمہ نہیں کر سکے ہم انہیں ایکشن ری پلے کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
رشوت کا خاتمہ
ہر غریب کو تحفظ ملے اور پولیس رشوت نہ لے۔ اس کے لئے پولیس کی تنخواہوں میں چار گنا اضافہ بھی کرنا پڑے تو کیا جائے گا۔
کرپشن
پاکستان کرپشن میں 139ویں درجے پر ہے۔ اس کی معاشی حالت بیس درجے گر گئی ہے۔ اس طرح ہمارے ملک میں روزانہ اربوں کرپشن ہو رہی ہے۔ اگر پانچ ہزار ارب کی کرپشن کو روک دیا جائے تو ہر غریب کو چھت میسر آسکتی ہے۔ میں مفت تعلیم، صحت، یکساں نصاب تعلیم، روزگار اور سستے انصاف کو یقینی بنانا چاہتا ہوں۔
انتہاء پسندی و دہشت گردی
اس وقت ملک نہ صرف دہشتگردی کا شکار ہے بلکہ دہشتگردی کا برآمد کنندہ بھی بنا ہوا ہے۔ بیرون پاکستان بم دھماکوں میں ملوث شخص پاکستان سے گرفتار ہوتا ہے جبکہ پشاور ائیر بیس پر ہونے والے حملوں میں مارے جانے والوں کے جسم پر ٹیٹوز کندہ ہیں جو غیر ملکی ہاتھوں کے ملوث ہونے کا ثبوت ہیں۔ ہم دہشتگردی اور ڈرون حملوں کا خاتمہ چاہتے ہیں اور تمام طبقات کو بشمول غیر مسلموں کو یکساں تحفظ دینا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا شکار عناصر اگر عدل و انصاف، معاشرتی و قانونی اور آئینی و حقیقی اسلامی اقدار کی بات کریں گے تو ڈاکٹر طاہرالقادری تمہارے ساتھ کھڑا ہوگا۔ اگر مساجد، امام بارگاہوں، غریبوں کے جان و مال کی حفاظت کی بات ہو
گی تو تم میرا ساتھ دو گے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ فوج شوق سے اقتدار میں نہیں آتی لیکن جب ملک کے تمام ادارے تباہ ہو رہے ہوں تو فوج کو روکا بھی نہیں جا سکتا۔ میں فوجی مارشل لاء کے خلاف ہوں اور ہمیشہ اس کی مخالفت کی ہے۔ لیکن میں یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی مک مکا کر کے ملک میں سیاسی مارشل لاء لگائے گا تو ہم اسے بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ پاکستان کو صرف آئین کے مطابق ہی چلایا جا سکتا ہے۔ فوج کی مداخلت روکنے کے لئے عدل و انصاف قائم کرنا اور پارلیمنٹ کو موثر بنانا ہوگا۔
مطالبات
ہمارے مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو چالیس لاکھ سے زائد عوام چودہ جنوری 2013ء کو نماز جمعہ کے بعد گھروں سے نکل پڑیں۔ اس کے لئے عوام اپنے گھر، زیورات اور کپڑے بھی بیچنے سے دریغ نہ کریں۔ ان شاء اللہ ہمارے جلسے کی طرح ہمارا مارچ بھی پرامن ہوگا۔
تبصرہ