جیو نیوز : ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا نجم سیٹھی کو خصوصی انٹرویو
میں آج ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے گھر میں ہوں ان کا انٹرویو کرنے آیا ہوں بڑا مشکور ہوں کہ انھوں نے سب سے پہلا انٹرویو واپسی پر مجھے دیا ہے۔ دو باتیں کہنا چاہتا ہوں ڈاکٹر طاہر القادری کے تعارف کی کوئی ضرورت نہیں ہے مگر کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوگئی ہیں، اس میں میرا بھی تھوڑاسا Role تھا تو وہ میں تسلیم کرنا چاہتا ہوں اور correction کرنا چاہتا ہوں، پہلی بات یہ کہ حال ہی میں میں نے ایک پروگرام ’’آپس کی بات‘‘ میں کچھ باتیں کہیں کچھ غلط تھیں، وہ باتیں ڈاکٹر صاحب نے مجھے clear کردی پہلے میں خود ہی clear کردوں۔
پہلی بات یہ کہ کبھی بھی انہوں نے کسی قسم کی ملازمت نواز شریف صاحب یا شریف براداران یا شریف فیملی کی نہیں کی۔ clear ہے وہ بات اس کے اوپر اب اور بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
نمبر دو کہ ڈاکٹر صاحب نے کبھی بھی الیکشن میں حصہ نہیں لیا ماسوا 2002ء الیکشن میں۔ میں کہہ گیا تھا کہ کہیں شاید 1990ء کے الیکشن میں حصہ لیا۔ ایسی بات نہیں ہے۔ ایک ہی الیکشن میں حصہ 2002ء میں لیا اور اس میں دو سیٹوں پہ الیکشن میں حصہ لیا ایک میں ہار گئے اور ایک میں جیت گئے اور جہاں ہارے بھی بڑے چند ووٹوں سے۔
تیسری بات یہ کہ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں ایک وڈیو facebook پہ چل رہی تھی جہاں انہوں نے ڈنمارک کے اندر کسی انٹرویو میں کچھ بات کہیں توہین رسالت کے قانون کے بارے میں اور لوگوں کا یہ کہنا کہ پاکستان میں انہوں نے اس کے برعکس بات کی، ہم نے تفتیش کی ہے ڈاکٹر صاحب نے بڑی لمبی چوڑی بات کی تھی۔ کافی چیز اس کے Out of Context لی گئی، میں اس بحث میں اب جانا نہیں چاہتا وہ ایک detail بحث ہے، تسلیم کرتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے، مگر میں ڈاکٹر صاحب سے آج ضرور یہ پوچھوں گا کہ ان کی آج Actual position کیا ہے اس قانون کے بارے میں اور اس کی Application کے بارے میں اور اس کے Procedure کے problems کیا ہیں۔ آج فائنل وضاحت لے لیں گے تو یہ موٹی موٹی باتیں تھیں کچھ باتیں اور بھی ہیں وہ ہم انٹرویو کے دوران ضرور ڈاکٹر صاحب سے کریں گے۔
نجم سیٹھی : السلام علیکم ڈاکٹر صاحب
شیخ الاسلام : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
نجم سیٹھی : ڈاکٹر صاحب ظاہر ہے کہ سارے ہی یہ کہہ ہے ہیں کہ عمران خان صاحب کی سونامی چل رہی تھی کہ اوپر سے آپ ایک نیا طوفان لے کر آگئے ہیں۔ تو ڈاکٹر صاحب یہ کیوں الیکشن Round the corner ہیں۔ آپ نے ہمارے ساتھ پچھلے پانچ سال سے share نہیں کیے ہمارے دکھ اور درد اور آپ جیسے کہ ایک bomber کی طرح B 52 Bomber کی طرح آگئے ہیں اور ایک نیا طوفان لے کر آگئے ہیں، ایک اتنا بڑا جلسہ کیا آپ نے ماشاء اللہ اور آپ اس سے بھی کچھ بڑا کرنے جا رہے ہیں اسلام آباد تو ہم تو پریشان ہیں ڈاکٹر صاحب، ایجنڈا کیا ہے؟
شیخ الاسلام: اب آپ کیا چاہیں گے کہ بات یہاں شروع کریں یا جو آپ نے کہا کہ ڈنمارک والے میٹر Blasphemy Law پر تھوڑی سی بات چلے وہ Blasphemy lawوالی بات کلیئر کر دیں۔
نجم سیٹھی: جلدی سے کلیئر کر دیں آج کی بات کیا ہے۔ بڑی کلیئر بات وہ پرانی بات چھوڑ دیں۔
شیخ الاسلام: جو بات میں نے پاکستان میں کہی تھی اپنی 14 گھنٹے کی speech میں اس کی DVD موجود ہے۔ Exactly وہی بات میں نے ڈنمارک میں نیشنل Tv کانفرنس میں کہی۔ میرا stand ہر جگہ یہی تھا اور میں نے ڈنمارک کے Tv چینل میں یہ کہا اور کانفرنس میں کہ یہ Blasphemy law کوئی بھی Law ہو اس کے دو حصے ہوتے ہیں Substantive Law اور Procedural Law۔
Substantive Law ، Crime اور اس کی punishment Quantum of، کو Fix کرتاہے کہ کیا crime ہے اور اس کی سزا کیا ہے۔ وہ capital Punishmentہے۔ وہ آپ اتفاق کرتے ہیں۔ اس سے میرا اتفاق ہے اول دن سے آج تک۔
Procedural Law کس طرح FIR ،loudge ہوگی۔ کہاں اس کیس کی سماعت ہوگی، Evidence کیسی ہوگی۔ ٹرائل کون کرے گا۔ کس درجے کا مجسٹریٹ کرے گا وغیرہ وغیرہ جو Procedure سے related ہیں۔ up to the judgment اس پر اول دن سے میرے تحفظات ہیں۔ یہ تحفظات میں نے اپنی اردو کی 14 گھنٹے کی speech میں بھی بیان کیے ہیں۔ اور وہ available ہیں youtube پر اور CDs میں بھی ہیں۔ اور ڈنمارک میں بھی یہ بیان کیا ہے۔
نجم سیٹھی:بالکل کلیئر ہوگیا۔
شیخ الاسلام: بلکہ ڈنمارک میں میں نے یہاں تک کہا ہے کہ Blasphemy law پر death Punishmet تورات میں بھی ہے، وہ گوسپل انجیل میں بھی ہے اور قرآن میں بھی ہے۔ تو موسوی قانون، عیسوی قانون اور محمدی قانون unanimous ہیں ۔ اس subject پر، لہٰذا اختلاف کا آپ کو right نہیں ہے ۔
نجم سیٹھی: ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب
شیخ الاسلام: Procedural Law میں اختلاف جائز ہیں، وہ میرے بھی ہیں۔
نجم سیٹھی: ڈاکٹر صاحب ایک سوال ضرور رہ جاتا ہے یہ جو توہین رسالت کا قانون
شیخ الاسلام: ایک جو بات میں نے کر دی چونکہ آپ نے بات پوچھ لی یہ میری پوری out of context چونکہ چڑھایا گیا ہے۔ فیس بک پر اور youtube آج کل بند ہے پاکستان میں لوگوں کو میری پوری بات سننے کا موقع نہیں ملا۔ یہ پوری CD دے رہا ہوں۔ میرے تمام انٹرویوز اور لیکچرز اس کے اندر موجود ہیں۔
مہربانی۔
اور اس سے بڑھ کر کوئی اور ثبوت نہیں
نجم سیٹھی: ڈاکٹر صاحب میرا ایک سوال رہ گیا اس کے بارے میں یہ application اس کی کیا مسلمان اور غیر مسلم پر equal ہے۔ یا اس کی application میں فرق ہے۔
شیخ الاسلام: اس میں یہ ہے کہ فقہ مالکی، شافعی، اور حنبلی تین مذاہب تو متفق ہیں کہ یہ equal application ہے۔ اس میں کوئی exception نہیں۔ فقہ حنفی میں دو views ہیں۔ امام ابو حنیفہ امام ابو یوسف، امام محمد اور اوائل دو تین صدیوں کے جو jurpodent تھے ان کا ویو تھا کہ Non Muslim اس وقت ذمی ہوتے تھے ان پر applicable نہیں۔ مسلمانوں پر ہے۔ مگر حنفی jurpodent جو بعد کے پانچ چھ سات صدیوں کے انہوں نے باقی تین آئمہ کے ساتھ اتفاق کرکے اس کی Applicability کو General ، Common سب کے لئے کر دیا۔
نجم سیٹھی: آپ کا کس طرف جھکاؤ ہے۔
شیخ الاسلام: میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب اس وقت جب انہوں نے امام اعظم ابو حنیفہ نے کہا تھا کہ ان پر applicable نہیں وہ ذمی کے status میں رہتے تھے Protection اور گارنٹی دی جاتی تھی آج ان کا status ذمی کا نہیں ہے۔ وہ equal citizen ہیں۔ وہ nation's ہیں۔ لہٰذا جس طرح ان کے rights equal ہیں اس طرح ان کی application بھی equal ہے وہ national's ہیں۔ لہٰذا اگر وہ مرتکب ہوں گے تو آج میں ان کی اسی سزا کا جو مسلمان کے لئے ہے capital Punishment اسی کا قائل ہوں وہ سزا enforce ہوگی۔ Procedural Law میں ایک تحفظات ہیں۔
نجم سیٹھی: تو ڈاکٹر صاحب بات clear ہوگئی تو اب آئیے تاکہ بات clear ہو جائے۔ اب آئیے آپ کیسے لپک کے پہنچ گئے ہیں پاکستان پانچ سال کے بعد غائب تھے آپ۔
شیخ الاسلام: اچھا یہاں ایک بڑی دلچسپ بات آپ نے کی تو میں بھی دلچسپ جواب سے شروع کرتا ہوں میں تو پانچ سال کے بعد لپک کے آگیا تو سیٹھی صاحب یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو آٹھ سال بعد لپک کے آئے ہیں۔
نجم سیٹھی: مگر ان کو تو جلا وطن کیا گیا تھا۔ اب اگلی بات آپ خود گئے۔
شیخ الاسلام: اچھا میں خود گیا اس میں بھی ایک دلچسپ ہے جلاوطن کرتے ہوئے وہ Agreement لکھ کر گئے تھے۔Democratic political کا لیڈر کہ آپ ہمیں صرف safe جانے کا راستہ دے دیں اور 10 سال miltary Dectator کو exclusive کا right دے کر جا رہے ہیں۔
نجم سیٹھی: چلو بات مان لیتے ہیں۔
شیخ الاسلام: جب agreement ہوگیا۔
نجم سیٹھی: چلو مان لیا
شیخ الاسلام: تو dectator کو 10 سال دے کر چلے گئے اور الیکشن سے 15 دن پہلے آئے تو قوم نے نہیں پوچھا کہ اچانک کیوں آئے۔
نجم سیٹھی: چلیں ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب
شیخ الاسلام: اور کئی 10 سال کے بعد بھی آئے ہیں۔ ان سے بھی نہیں پوچھا میں تو 5 سال جلاوطن نہیں رہا ہوں، میں تو آتا رہا ہوں ربیع الاول میں اعتکاف میں اعتکاف کے دنوں میں بعض Reason کی وجہ سے میں دو تین سال نہیں آیا۔ مگر میں 2، 3 سال پاکستان کی Community سے لا تعلق نہیں رہا۔ میں نے all over the world پوری دنیا میں radicalism اور terrorism کے خلاف پاکستان کا کیس لڑا ہے۔ امت مسلمہ کا کیس لڑا ہے اور دہشتگردی کے خلاف میں نے جنگ لڑی ہے۔
نجم سیٹھی: جی یہ آپ نے سب کچھ کیا اس میں کوئی شک نہیں، بہت عمدہ اور اچھا رول ادا کیا ہے مگر ڈاکٹر صاحب انہوں نے سعودی عربیہ کی Nationality نہیں لی انہوں نے برطانیہ کی Nationality نہیں لی کیا مجبوری تھی آپ کو Canadian Nationality لینے کی۔
شیخ الاسلام: یہ بھی بڑا realvent اور valid سوال ہے۔ شکریہ ادا کرتا ہوں۔ لوگ شور مچا رہے ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ Canadian Nationality رکھنے میں کسی کو problem کیا ہے۔ اس کا Simple جواب تین پوائنٹ میں کسی ایک جگہ Dual nationality کو بین نہیں کرتا۔ ایک artical شور مچانے والا شخص دکھا دے کہ Constitution of Pakistan اجازت نہیں دیتا کہ پاکستانی دوسری nationalty نہیں رکھ سکتا۔ میں کل withdraw کر دوں۔ آئین اجازت دیتا ہے۔ پاکستان کا قانون اجازت دیتا ہے۔ پاکستان گورنمنٹ کے state of Pakistan کے agreement ہیں۔ تمام ممالک کے ساتھ جو ہمارے Common wealth میں تھے۔ اسرائیل انڈیا اور کچھ ملکوں کو چھوڑ کے legal agreement ہیں dual Nationalty اور پاکستان ان agreement کو پالتا ہے۔
نجم سیٹھی: ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب
شیخ الاسلام: تو قانون منع نہیں کرتا تو problem کسی کو کیا ہے۔ صرف ایک artical ہے۔ Constitution کے 62 میں کہ اگر کوئی شخص پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنا چاہے اور جب Oath لیتا ہے، تو اس ٹائم ممبر آف پارلیمنٹ بننے کے لیے اس کے پاس صرف ایک پاکستانی Nationality ہونی چاہیے، دوہری nationality نہیں ہونی چاہیے۔ بھائی جب جس نے الیکشن لڑنا ہو گا تو اس کے پاس دوہری nationality ہے تو اس وقت وہ decide کرے گا کہ وہ پارلیمنٹ کے الیکشن میں جا رہا ہے تو وہ withdraw کر لے گا۔ that its سیدھی سی بات ہے اس پر تو پرابلم نہیں بنتا۔
نجم سیٹھی: چلو ڈاکٹر صاحب اس کا ایک سوال اور کھڑا ہوتا ہے
شیخ الاسلام: اس کا تو Problem نہیں ہے۔
نجم سیٹھی: نہیں ڈاکٹر صاحب Problem ہے۔ Problem ایسے ہے کہ جب آپ ایک کسی اور ملک کی nationality لیتے ہیں تو Loyalty divide ہو جاتی ہے۔ Technicaly ،Loyalty divide ہو جاتی ہے۔ نمبر ایک کہ وہ ایک مسئلہ ہے کہ ہم ابھی لوگوں کو پارلیمنٹ سے نکال رہے ہیں کہ انہوں نے یہ چھپایا اس کے ساتھ یہ بھی سوال کھڑا ہوتا ہے کہ 2002 میں جب آپ نے الیکشن لڑا تھا کیا اس وقت آپ کے پاس Nationality تھی یا نہیں تھی۔
شیخ الاسلام: آپ کے سوال کے دو جز ہیں۔ دوسرے کا پہلے جواب دے دیتا ہوں۔
2002 کی بات اگر کسی کو شبہ ہے میں نے بھی سنا ہے بعض TV.Chanels پر اور بعض اخبارات میں۔ یہ ٹوٹل یا غلط فہمی ہے یا غلط بیانی ہے۔ 2002 کے زمانے میں جب میں نے الیکشنContest کیا میرے پاس ہرگز Canadian Nationality نہیں تھی حتیٰ کہ جب 2004 میں میں نے Resign کیا اس وقت بھی میرے پاس دوسری Nationality نہیں تھی۔ اس کے ایک سال بعد 2005 میں لی ہے۔ لہٰذا اس الیکشن میں کوئی نہیں تھی۔
لہٰذا ختم ہو گئی بات اب اس کے بعد یہ جو کہتے ہیں نہ divide ہو جاتی ہے۔ اگرActully divide ہوتی تو پاکستان کا Constitution اپنے شہریوں کو منع کر دیتا دیکھئے انڈیا کے Constitution اور انڈیا کے Law میں Dual Nationality ممنوع ہے۔ انڈیا اپنے انڈین citizens کو اجازت نہیں دیتا کہ کوئی دوسری Nationality کر لے یا دوسری withdraw کر لیں ایک رکھیں۔ پاکستان اجازت دیتا ہے اس کا مطلب ہے State of Pakistan ،Law of the Land،گورنمنٹ آف پاکستان Nationality لینے کی صورت میں Loyalty کی Divsion کو نہیں مانتی اور وہ کہتی ہے کہ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ overseas پاکستانی ہیں۔ جو آپ کو کروڑوں Billions اور Millions کے حساب سے ڈالر زرِ مبادلہ بھیجتے ہیں۔ پاکستان کو Support کرتے ہیں Investment کرتے ہیں۔ پاکستان ان کے اوپر فخر کرتا ہے۔ Overseas Ministry بناتے ہیں۔ تو انکے Loyalty جہاں ہے پاکستان کی soul بقا کے ساتھ ہے۔
نجم سیٹھی: دو سوال کھڑے ہوتے ہیں میرے ذہن میں۔
پہلا یہ کہ اگر ایسے ہی ہے تو آئین جو ہے وہ Public life کے اندر Dual Nationality پسند نہیں کرتا۔ اگر ایک Public servant یا پارلیمنٹ میں ہیں کسی قسم کی Public Service کر رہے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ اس کے لیے Dual Nationality ، Acceptable نہیں ہے ایک تو پبلک سروس کی بات کر رہے ہیں۔ آپ تو عوامی باتیں کر رہے ہیں آپ تو پارلیمنٹ کی بات کر رہے ہیں۔ آپ تو الیکشن لڑنے کی بات کر رہے ہیں تو پھر یہ آپ کے راستے میں ایک رکاوٹ ہے۔
شیخ الاسلام: سیٹھی صاحب اس میں فرق ہے آئین نے پبلک سروس کے لیے سیاسی struggle کرنے کے لیے، دینی struggle کرنے کے لیے ایجوکیشنل سروس کے لیے شوشل سیکٹر کی سروس کے لیے۔ ویلفیئر سروسے کے لیے، Political سروس کے لیے ایجوکیشنل سروس کے لیے ، شوشل سیکٹر کی سروس کے لیے، ویلفیئرسروس کے لیے کسی چیز پر Dual Nationality کی بنا پر آئین اور Law of Pakistan نے بین نہیں کیا ہے۔
صرف Specifie پیرل ہے کہ اگر آپ President ،Prime Minister یا ممبر آف پارلیمنٹ یا ممبر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے جارہے ہیں۔ اس وقت آپ کو outh لینی ہوتی ہے کہ میرے پاس ایک Nationality ہے۔ دوسری کہ withdraw کرنا ہوتا ہے۔ اس سے ایک دن پہلے تک آئین آپ کو مجبور نہیں کرتا۔ کھلی اجازت دیتا ہے۔ تو جس نے الیکشن جانا ہو گا۔ اگر میں نے جانا ہو گا اکر میں نے فیصلہ کیا جانا ہے تو وہ دوسری Nationality ، By Choice ہوتی ہے۔ پاکستان کی Nationality ، By Birth، اور By origin،Natureکی ہے۔ ایک دن میں آدمی withdraw کرکے ختم کر سکتا ہے۔ کرنا ہو گا تو ختم ہو جائے گی۔
نجم سیٹھی: تو ڈاکٹر صاحب آپ نے ابھی فیصلہ نہیں کیا؟
شیخ الاسلام: میں نے فیصلہ کیا نہیں۔
نجم سیٹھی: کیوں نہیں کیا؟ آپ یہاں ہلانے آگے سارے Head Office کو آپ نے ابھی فیصلہ نہیں کیا۔ کہ آپ نے پبلک لائف میں Participate کرنا ہے۔
شیخ الاسلام: تو Ntaionality with draw کرنے کا سوال تب پیدا ہو گا جب یہ Dicision لے لوں گا کہ میں الیکشن میں جارہا ہوں اور خود Context کر رہا ہوں تو میرے لیے ایک منٹ کی بات ہے withdraw کر لوں گا، لیکن کیوں نہیں فیصلہ کیا الیکشن میں کہ میری آمد دراصل الیکشن لڑنے کے لیے نہیں ہے۔ ابھی ہم نے اس پر سوچا نہیں ہے۔ پارٹی نے ابھی اس کے اوپر discusنہیں کیا۔ ہماراFocus، Single piont aganda پر ہے
Election Reform اگر کرائے بغیر یہی الیکشن، Action Replay کی طرح جیسے پچھلے 60 سال میں ہوتے آرہے ہیں۔ اسی نظام نے محترمہ فاطمہ جناح کو بھی ہرایا اور اسی نظام نے Elected Leaders کو پھانسی چڑھایا ہے۔ اگر الیکشن Reforms ہو جو پاکستان نے کبھی نہیں کی اور دنیا کے 14 سے زائد ملک میں ہمارے جیسے جو Continuously ، Electoral Reforms کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے پاکستان کی پارلیمنٹ نے کبھی سوچا ہی نہیں کے 18 کروڑ عوام جو Electoral process سے آؤٹ ہیں سوائے پرچی ڈالنے کے ان کے لیے کوئی Right نہیں کے وہ ٹکٹ لے سکے۔ لہٰذا میں آیا ہوں، singal اس Focus کے ساتھ تاکہ میں Electoral reforms کروں، جمہوریت کے مطابق اور Constitution کے مطابق اس Parameter سے باہر نہیں۔ اب میں آتا ہوں ایک سوال کی طرف اس کی طرف میں بعد میں آتا ہوں سوال ایک میرے ذہن میں ہے۔
نجم سیٹھی: اب مجھے یہ بتائیے کہ مجبوری کیا تھی۔ دوسریNationality لینے کی
شیخ الاسلام: یہ بھی ایک Relevent سوال ہے۔ وہ یہ بعض لوگوں یہ بھی غلط فہمی ہے کہ شاید یہ کسی Threatکی وجہ سے گیا تھا۔ آپ نے اچھا کیا پوچھ لیا، میرے ذہن میں ہی نہیں تھا کہ سوال آپ نے کیوں کیا۔
اب reallise کر رہا ہوں
نجم سیٹھی: لوگ کہتے ہیں کہ threat تھی آپ کو
شیخ الاسلام: مجھے کوئی threat نہیں ہے۔ بڑے لوگوں کو threatsہے، وہ چلے گئے ہیں، نہیں میں کسی threat کی وجہ سے نہیں گیا۔ اگر threat کی وجہ سے گیا ہوتا تو آج یہاں پاکستان میں نہ ہوتا۔ اور دو ملین کا اجتماع نہ کرتا اور 14جنوری کو Millions مارچ کا اعلان نہ کرتا۔ میں کسی threat سے ڈرنے والا آدمی نہیں ہوں زندگی موت کا مالک اﷲ ہے۔ میرا میڈیکل reason تھا۔ میں پارلیمنٹ سے Resign کرچکا تھا 2004 میں۔ تو پولیٹکل پارلیمنٹ میں وقت میرا تھا نہیں۔ منہاج القرآن کی آرگنائزیشن کے day to dayروٹین آفس سے میں تین سال قبل اپنے آپ کو الگ کر دیا تھا۔ Powerdalicate کر دی تھی۔ سیٹھی صاحب میں صرف گھر میں ریسرچ کرتاتھا۔ تصنیف و تالیف تو مجھے تکلیف ہوئی اور اس کے نتیجے میں ڈاکٹرز نے مجھے کہا کہ وہاں رہ کر آپ treatment کریں۔ تو میں نے کہا پاکستان جاؤں تو انہوں نے کہا آپ کی مصروفیت میں نے کہا میں پولیٹیکل اور آرگنائزیشن مصروفیات سے فارغ ہوں۔ dalicate کردی ہے۔
انہوں نے کہا پھر آپ جہاں رہیں۔ ٹیلی فون پر انٹرنیٹ پر لوگ رہنمائی لیتے تو میں ریسرچ کے لیے بیٹھا ہوں اور اس کا نتیجہ یہ ہوں کہ سکون سے وہاں بیٹھ کر پونے پانچ سو کتابیں تصانیف میری publish ہو گئی ہیں۔
نجم سیٹھی: یہ بتائیں کہ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم کو آپ استعمال کر رہے ہیں، for a political ambitionفنڈ ریزنگ ۔ آپ کہتے ہیں آپ نے اس پلیٹ فارم سے کی کہ یہ صحیح ہے جائز ہے یہ۔
شیخ الاسلام: آپ نے بڑا دلچسپ اور اہم سوال کیا ہے
نجم سیٹھی: دو منٹ ہیں ۔ڈاکٹر صاحب ذرا جلدی
شیخ الاسلام: دو منٹ میں ہی Categorical جواب ہے اس کا منہاج القرآن کے فنڈ سے پوری قوم کے اٹھارہ کروڑ افراد سن لیں۔ ایک پائی بھی منہاج القرآن کے فنڈ سے نہ کبھی پہلے استعمال کی تھی نہ آج کے جلسے میں استعمال کی ہے۔
نجم سیٹھی: ڈاکٹر صاحب یہ کوئی اوپر سے پیسے آگئے۔
شیخ الاسلام: آگے چلتے ہیں نہ کہ میری زندگی کا یہ اصول ہے، کہ ہم منہاج القرآن کے اندر ہمارے ۵۰ ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ ہم ایک ڈیپارٹمنٹ کا پیسہ دوسرے پر نہیں لگاتے۔ جس ڈیپارٹمنٹ کے لیے جو پیسہ آتا ہے حرام ہے کہ دوسرے شعبہ پر خرچ ہو وہ اسی پر لگے گا۔ چہ جائے کہ ہم سیاسی اجتماعات پر لگائیں۔ میں اس تاثر کو رد کرنا چاہتا ہوں کہ منہاج القران کا فنڈ ہمارے نزدیک حرام ہے امانت میں خیانت ہے۔ کسی جگہ لگانا
نجم سیٹھی: تو پیسے کس جگہ سے آئے۔
شیخ الاسلام: اب سوال relavent ہے۔
نجم سیٹھی: کروڑوں روپے لگ رہے ہیں
شیخ الاسلام: بالکل کہاں سے آئے بعض لوگ جو سیاسی banefacies ہیں۔ اس پولیٹیکل سسٹم کے اور Electoral system کے کہ انہی کو ہی problem ہو ا ہے۔ نہ وہ پوچھ رہے ہیں، قوم نے تو نہیں پوچھا، نہیں
نجم سیٹھی: نہیںقوم بھی پوچھ رہے ہیں، اچھا اب اس کا جواب یہی دیتا ہوں کہاں سے آئے ہیں، یہ تو ایک جلسہ ہے، اﷲ کا شکر ہے کہ میں اس جیسے سو جلسے کسی کے سامنے سوال کا دامن پھیلائے بغیر کر سکتا ہوں۔ لوگوں کا اپنا Problem ہے کہ ان کی عالمگیر تنظیمیں نہیں ہیں اور وہ کرپشن پر belive کرتے ہیں۔ اور جاگیرداروں اور سرمایہ داروں اور وڈیروں اور لٹیروں کے لوٹے ہوئے پیسے پر base کرتے ہیں۔ منہاج القرآن کے سیٹھی صاحب دنیا کے ۹۰ ممالک میں آرگنائزیشن setup ہے۔
نجم سیٹھی: ۹۰ملکوں میں
شیخ الاسلام: چالیس ملک چھوٹے ہیں،جن کی origin پاکستانیوں کی نہیں، افریقین ہیں۔ موریشز ہیں، فیجیز ہیں ان کو چھوڑ دیں امریکہ North،candian ، انگلینڈ، یورپ اور پورا جاپان تک لے لیں 50 بڑے ملک صرف ان کو لے لیں۔ ہمارے دو سے تین ہزار ہر ملک میں کم از کم لائف ممبرز رفقائ، جنرل ممبرز ہیں۔ اور زیادہ سے زیادہ ۷ہزار سے ۸ ہزار تک رفقاء ہر Country میں ہیں۔ لاکھ ڈیڑھ لاکھ ممبرز ہیں آپ کے اگر آپ دو ہزار بھی لگا لے minimum line یہ arrange فی country ۔ 50countries کے 90 Countries ؟؟؟ 50 لاکھ تو میرا ممبر بنتا ہے اور وہاں ایک عام ڈرائیور اس کے لیے ایک ہزار پونڈ دینا ایسے ہے جیسے یہاں ایک ہزار روپے
نجم سیٹھی: ہزار پونڈ کا مطلب ہے، ڈیڑھ لاکھ روپے
شیخ الاسلام: اور وہ پونڈ ڈیڑھ لاکھ بن گیا۔ ہزار یورو دنیا ایک ڈرائیور بھی ہزار دو دو تین تین ہزار یورو کر دیتا ہے۔ تو میرے رفقاء جب بھی کبھی Event ہوتاہے۔ وہ منہاج القرآن کے لیے نہیں Event کے نام پر project کے نام پر براہِ راست خرچ کرتے ہیں۔
نجم سیٹھی: جیسے عمران خان فنڈ ریزنگ کرتا ہے اسی طریقے سے آپ کے ممبرز بھی کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام: اچھا ایک فرق ہے عمران خان صاحب تو فنڈریزنگ پبلک سے بھی کرتے ہیں۔ اپنے رفاہی اچھے کاموں کے لیے ہم اس پبلک کی طرف بھی نہیں جاتے۔ میرا تو اپنے لاکھوں ممبرز کا نیٹ ورک منہاج القران کا اتنا ہے۔ کہ ہم پبلک کے پاس جانے کے بجائے جب Eventآتا ہے۔ کوئی پولیٹیکل یا کوئی ایجوکیشنل یا میلاد کا Event یا اعتکاف کا یا 27ویں شب رمضان کا تو صرف دس ہزار ایک ہزار رفقاء بھی ایک لاکھ یورو یا ڈالر یا پونڈ دے دیں تو 10 کڑور بن جاتا ہے۔ اگر دو ہزار ممبرز صرف دے دیں اور ہم 50 ہزار میںسے 48 ہزار کو touch بھی نہ کریں تو 20 کروڑ بن جاتا ہےJust one thousand اور پھر اس سے ہم نہیں لیتے، میں clear کردوں۔
جو سوال جن کے ذہنوں میں ابھرے ہیں، وہ منہاج القرآن میں نہیں کرتے وہ لوگ ٹکٹ لے کے خود آجاتے ہیں۔پورے پاکستان کے جن ضلعوں، تحصیلوں میں اور خود حرچ کرتے ہیں، آپ جیبوں سے بسیں بک کروا کے لوگوں کو لاتے ہیں اور لوکل لوگ بھی اپنے گھروں کے زیور، موٹر سائیکل، گاڑیاں، کاریں اور پلاٹ تک بیچ کر لائیں ہیں۔
نجم سیٹھی: ناظرین آپ نے ڈاکٹر صاحب کی باتیں سن لی بڑی solid باتیں کر رہے ہیں۔ یہ کوئی مشکل بات تو نہیں ہے۔ سمجھنے کی ہے۔ ایک لاکھ یا دس لاکھ ایک ملین یا دو ملین پونڈ وہاں اکٹھا کرنا اور کروڑوں میں یہ پیسے اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ کوئی چھوٹی موٹی بات نہیں۔ تو اس لئے اب میں بریک لینا چاہوں گا۔ اور بریک کے بعد اور بہت سے سوال ہیں پھر ڈاکٹر صاحب سے بات کرتے ہیں۔
نجم سیٹھی: ڈاکٹر صاحب آپ نے کہا ہے کہ ملٹری کی اور Judicially stateholders ہیں ان کو Consult کیا جائے اور ان کو Include کیا جائے۔ اگلی Applicable care taker govt. بنانے میں۔ میں آپ کو ایک چیز یاد دلا دوں۔ ملٹری کو تو ہمیشہ ہی consult کیا گیا۔ جب چاہتے بھی نہیں تھے تو ملٹری consult ہو جاتی تھی۔ 1998 میں ملٹری نے caretaker govt. بنائی۔ 1990 میں ملٹری نے caretaker govt. بنائی۔ 1993 میں غلام اسحاق صاحب کے ساتھ ملٹری نے car taker govt بنائی۔ 1996 میں فاروق لغاری صاحب کے ساتھ مل کر جنرل جہانگیر کرامت نے اور ملٹری نے بنائی۔ اس کے بعد ملٹری نے خود ہی take over کر لیا اور caretaker govt. بھی خود بنائی اور الیکشن بھی خود conduct کیے۔ تو ڈاکٹر صاحب ملٹری کا ریکارڈ caretaker govt. کوئی خاص اچھا نہیں ہیں۔ اس process میں
شیخ الاسلام: پہلی بات تو یہ بھی بڑا relevent سوال ہے۔ اور important ہے۔ پہلی بات تو یہ بھی بعض لوگوں کو مغالطہ لگا ہے انہیں چاہیے کہ میری speech کوسنے 23 دسمبر کو براہ راست کسی ایک جگہ میں نے نہیں کہا۔ کہ care taker govt. میں عدلیہ یا آرمی کو include کریں۔ یہ میرا Stand ہی نہیں ہے۔ یہ میں نے کہا ہی نہیں۔ لوگ اپنے مغالطے کو در کر لیں۔ میں نے صرف یہ بات کہی ہے کہ constution میں amendment ہوئی۔ 20th amendment اس میں صرف یہ کیا گیا کہ پہلے اپوزیشن سے consultion کرکے agreement کر دیا۔ اب میں نے یہ کہا اس کا مطلب اگر دو ہی پارٹیاں agreement کرکے فیصلہ کریں گی تو پورا صوبہ تو آؤٹ ہوگیا۔ وہ state holder نہیں ہے جہاں سب سے بڑی تحریک چل رہی ہے۔ علیحدگی کی اللہ معاف کرے۔ پاکستان کی بقاء related ہے۔ تو گویا اس کو آپ نے out کر دیا پورے Process سے ان کو بھی state holder ہیں۔ان کو بھی include کریں۔ کچھ اورPotical پارٹیاں ہیں۔ پولیٹیکل باہران کو بھی include کریں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا زمانہ تھا یا جس زمانے میں بھی بیسیوں مرتبہ within پارلیمنٹ outside the parliment ، یا پولیٹیکل لیڈرز کو بلا کر consultation ہوتی تھی۔ اور کئی موقعوں پر یا آرمی میں consult کرتے ہیں۔ جب National security اور national integrity کا law order دینے کا، اورterrorism کا matter آتا ہے تو consult کرتے رہتے ہیں اور عدلیہ کی consultation سے مراد ان سے advice لینا consultation کی روشنی میں Interpertion لینا۔ پولیٹیکل State holder ساروں کا اعتماد ہو۔ صرف دو کا نہیں۔ تو نتیجہ یہ ہوگا کہ 18 کروڑ عوام اس care taker govt. پہ اعتماد کریں گے اور اس اعتماد والی govt. کے تحت الیکشن ہو گا۔ تو دھاندلی کا الزام نہیں لگے گا۔
نجم سیٹھی: ڈاکٹر صاحب دیکھیں نا ملٹری کو judicially نے اور چیف الیکشن کمیشن نے already involveکر لیا ہے request کی ہے۔
order کی verification میں اور آگے جب الیکشن ہوں گے تو پولنگ اسٹیشن کے لئے بھی تو ملٹری کی involvement اور consultation تو already involvement ہوگی۔ اسی طریقے کے ساتھ اگر کوئی غیر قانونی یا غیر قسم آئینی کوئی بات ہوتی ہے تو سپریم کورٹ strike down کر دے گا۔ اگر care taker govt کے اندر کوئی غلط بندے آ جاتے ہیں جن کے charator کے اوپر داغ ہے تو ایک سیکنڈ میں intenption آ جائے گی۔ اور عدالت جس موڈ میں ہے ان کو فارغ کر دے گی اس کو اتنا بڑا ایشو بنانے کی ضرورت کیا ہے۔
شیخ الاسلام: سیٹھی صاحب میں سمجھتا ہوں ایسا نہیں ہوگا بلکہ آپ نے جو بات کی اس میں میرے موقف کی تائید میں دلیل نکلی ہے۔ جب آپ فرما رہے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے delimitation میں دوبارہ vote کے اندراج میں اور law and order میں mantain کرنے میں پولنگ day میں ملٹری کو request کر دی۔ بھائی جب بات اتنی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں ملٹری کو involve کر رہے ہیں تو جو سب سے بڑی چیز ہے، جس پر ہر چیز کا انحصار ہے کہ care taker govt بنانے جا رہے ہیں۔ وہ پوری قوم کی اعتماد کی ہو تو جب چھوٹے چیزوں میں consult کر رہے ہیں۔ تو میجر چیز میں consult کرنے میں کیا حرج ہے۔ consult کریں
نجم سیٹھی: مگر آپ کو کیوں کوئی انفارمیشن تو نہیں ہے۔ ا
شیخ الاسلام: نفارمیشن نہیں ہے وہ نہیں ہو رہا۔ نہ عدلیہ سے advice لی جا رہی ہے میرا غرض صرف single point ہے۔ واضح طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ دنیا کہ کسی آئین کو سیٹھی صاحب آپ اٹھا کے دیکھ لیں۔ آپ امریکہ کا دیکھئیے۔ کینیڈا کا دیکھئیے۔ بریٹشن آئین دیکھیے۔ فرانس کو دیکھئے۔ جرمنی کا دیکھئیے۔ دنیا میں جمہوریتیں ہیں، یہ کہیں نہیں ہے کہ صرف دو پارٹیاں آپس میں بیٹھ کر agreement کے ساتھ care taker govt مقرر کر لیں، یہ پاکستان کی دنیا میں کوئی نئی جمہوریت آ گئی ہے، کہ دو پارٹیاں اندر مک مکا کر لیں۔ نہیں care taker govt. has to be cross the boarder اس کو ہر لحاظ سے has been totally impartional اس care taker govt. میں vision ہو۔ اس میں courage ہو۔ اس میں ability ہو۔ sport ہو کہ وہ الیکشن آئین کے مطابق پانچ شرائط پر کرائے۔ وہ آئین free بھی ہو الیکشن honest بھی ہو۔ just بھی ہو all corrupt practices سے پاک بھی ہو۔ consultion کی شرطیں ہیں۔
نجم سیٹھی: بالکل یہ شرطیں ہی مجھے آگے آئیے practically اس کیسے empliment کیا جائے۔ آپ نے یہ کہا ہے آپ نے 10، 12 ، 14 دن دے دیئے ہیں کہ یہ guranties آپ کو ملنی چاہیے نہیں تو آپ اسلام آباد جا رہے ہیں۔ ٹھیک ڈاکٹر صاحب مجھے یہ بتائیے۔
fair independen الیکشن کیمشن جس کے اوپر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔ نہ فوج کو ہے۔ نہ Judicially کو ہے، نہ اپوزیشن کو ہے، نہ عمران خان کو ہے نہ جماعت اسلامی کو ہے، کسی کو problem نہیں ہے۔ سپریم کورٹ اتنا stronge ادارہ کھڑا ہے ہر چیز کو دیکھ رہا ہے ابھی تک کسی نے یہ بات نہیں کہی ہے۔ کہ care taker govt. کسی مک مکا کے تحت ہوگی۔ تو میں یہ آپ سے عرض کر رہا ہوں کہ مجھے ایسے لگ رہا ہے، ڈاکٹر صاحب یہ آپ نے 14 دن کے اندر بڑا لمبا چوڑا ایجنڈا کھڑا کر دیا ہے۔ کون فیصلہ کرے گا کہ اچھا مسلمان کون ہے۔ کون نہیں ہے۔ کیسے روکا جائے گا۔ ان corrupt لوگوں کو نکلیں نے کون ہے Proof لے کر آئے گا۔ کیسے یہ Proof نکلے گا۔ ابھی جو already قانون بنتے ہیں۔ جی جی، اس کے علاوہ اور کون سے قانون بنوانا چاہتے ہیں، اور کیسے implement کروانا چاہتے ہیں 15 دن کے اندر اندر۔
شیخ الاسلام: یہ بڑی improtant بات آپ نے کی۔ میں اس موقع پر عرض کر دوں۔ پہلے یہ جو پندرہ دن کا یا اٹھارہ دن کا یا تین ہفتوں کا نوٹس دیا ہے۔ 10 جنوری تک یہ clear ہو جانا چاہیے کہیہ تمام ایجنڈا electoral reform کا یہ implement کرنے کا نوٹس نہیں دیا۔ اچھا یہ اتنا بڑا ایجنڈا میں توقع نہیں کرتا کہ تین ہفتوں میں govt. کر لے گی۔ یہ اگر کسی کو مغالطہ ہے تو He should be very clear ، i am clear میں نے ان کو یہ ایجنڈا نافذ کرنے کا نہیں کہا۔ میں نے تو صرف single point ایجنڈا دیا ہے کہ 10 جنوری تک تمام stake holder کی consaltation کے ساتھ پوری قوم کے اعتماد کے ساتھ
honest، impartional ، powerful اور able vision والی according to consultation، care taker govt. صرف مقرر کر دیں۔ نمبر 1 نمبر2 الیکشن کمیشن ایک نیک نام ایک عادل آدمی مقرر کر دیا۔ مگر اس کی مثال ایسے ہے۔ جیسے سرجن قابل بیٹھا دیں اور اس کے پاس سرجری کیلئے سامان ہی کوئی نہ ہو آپریشن تھیٹر میں اب عملہ ہی نہیں ہے۔ ان کے پاس، الیکشن کمیشن پاس ان کے قانون کے تحت legislation کا اختیار ہی نہیں ہے، قانون سازی کا اختیار نہیں ہے، وہ کسی کو برطرف نہیں کرسکتے۔ کسی کو ٹرانسفر نہیں کرسکتے تھانیداروں کو پولیس کو تو وہ ایگزیٹو کے نیچے ہیں۔
نجم سیٹھی: وہ کر تو سکتے ہیں،
شیخ الاسلام: یہی یہ فرق تبدیلی چاہتا ہوں۔ کہ یہ صرف ایسی caretaker government بنا دیں اور state holder caretaker government کی اور سارے پولیٹیکل لیڈرز کی مشاورت کے ساتھ صرف وہ جو شرائط پاکستان کے آئین نے درج کی ہیں۔ وہ electrolreforms کو empliement کریں۔ I dont need emendmentin constitution
نجم سیٹھی: پارلیمنٹ کے اندر ساری پارٹیاں ہیں۔ تو کوئی پارلیمنٹ تو آپ یہ accept کریں گے پارلیمنٹری کمیٹی بن جائے جس میں ساری پارٹیوں کی representat ہوجائے، ایک قسم کی national کمیٹی بن جائے اور جو بھی یہ فیصلہ ہوتے ہیں۔ caretaker government ہم ان کے نام ان کے آگے چلے جائیں۔ اور وہ فیصلہ کرلیں یہ ٹھیک ہے یہ ٹھیک نہیں ہے۔
شیخ الاسلام: یا پارلیمنٹ میں اگر عوام کے مفاد میں اور constitution کے مفاد میں اور حقیقی جمہوریت کے مفاد میں کسی کمیٹی نے اور پوری پارلیمنٹ نے کام کرنا ہوتا تو پانچ سال میں ہوچکے ہو۔ وہ پارلیمنٹ تو دہشت گردی جیسے گھناؤنے جرم کے خلاف قانون پاس نہیں کرسکی۔ وہ تو بلدیاتی الیکشن کو چار سال گزر گئے لیٹ ہوگیا۔ constitution کی خلاف ورزی اس کو منعقد نہیں کروا سکی۔ law and implementation نہیں ہوسکا اور اگر وہ کمیٹی بیٹھ کے کوئی electrolreforms کرے گی تو وہ جھرلو کے reforms ہوگئیں۔ اپنے مفادات کو محفوظ کرنیکی۔ اٹھارہ کروڑ عوام کے ساتھ جو دھاندلی ہو رہی ہے ان کے لیے reforms نہیں ہوگئیں۔
Those reforms should be taken care by care taken govt which important absolutely honest.
نجم سیٹھی: ڈاکٹر صاحب یہ بتائیے۔ کہ آپ care taken govt کی announcement اگلے 15 دنوں میں چاہتے ہیں۔ یا آپ کوئی statement ڈھونڈ رہے ہیں۔ جس سے یہ آپ کو اassurence ہوجائے۔کہ یہ جو آپ تجویز دے رہے ہیں، اس کے اوپر بات ہوگئی۔ اور کوئی راستے نکالے جائیں گے۔ اتنا تھوڑا ٹائم پانچ مہینے پڑے ہیں۔ الیکشن میں آپ نے پندرہ دن کا ٹائم دے کر اور ایک threatکردی ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ اتنے بڑے ایجنڈے کو salt out کرنا پندرہ دن کے اندر۔
شیخ الاسلام: یہ کوئی بڑا ایجنڈا نہیں ہے جی۔ بیٹھ کے ایک ہفتہ لگتا ہے۔ state holder کو اعتماد میں لے کے بیٹھ کے صرف ایک honest اور impartialآدمی اور اس کے ٹیم کے متعین کرنے کے لیے کرنا۔ یہ دیر اس لیے ہے کہ وہ اپنے پولیٹیکل مفادات اور الیکشن میں جو corruption کرنی ہے اس کے تحفظ کے لیے کس کو لایا جائے جو دونوں گھروں کو قبول ہو اس پہ وقت لگتا ہے۔ اگر یہ طے ہوجائے کہ دونوں گھروں کو قبولیت کی بات نہیں ہے۔ وہ لائیں جو impartional ہے پوری قوم کے لیے اور آئین کے مطابق الیکشن کروائے گا۔ اور پھر یہ بھی ساتھ عرض کردوں میں delay بھی نہیں چاہتا یہ تاثر بھی غلط ہے۔
نجم سیٹھی: جس میں آنا چاہارہا تھا۔ کیوں آپ نے بیان دیا جس میں آپ نے اٹلی کا حوالہ دیا۔ اس پر میں already بات کرچکا ہوں۔ مگر اس سے ایک confusionہوئی ہے اٹلی میں تو ایک care taken govt بنی۔ پارلیمنٹ کے approval کے ساتھ وہ بنی۔ پارلیمنٹ برقرار رہی اور جب کہ سب پارٹیوں نے agree کیا کہ کچھ مشکل حالات ہیں۔ ان کو resolve کرنا ہے۔ reform کرنی ہیں۔ سال وہ رہی جب پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا جس کی ضرورت نہیں وہ فارغ ہوگے یہاں تو care taken govt بنے گی۔ جب پارلیمنٹ فارغ ہوچکی ہوگئی تو impartional یہ ملا آپ کی بات سے۔ شاید آپ کوئی لمبا چوڑا care taken govt چاہ رہے ہیں۔ جس میں نہ پارلیمنٹ ہوگی نہ اور کوئی سیاسی جماعت ہوگئی۔ جو سارا reforms کا ایجنڈا ہے۔ آپ اس کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔ سال دو سال آکے چلائے کیا اس کو clear کردیں گے آپ کہ آپ کسی قسم کی آپ نے بھی ذکر کیا delay نہیں چاہتے یہ تو delay والی بات ہے۔
شیخ الاسلام: بڑا اچھا سوال کیا۔ میں آپ کے پروگرام کے ذریعے پہلی بات تو 23rd دسمبر کی میری speech کے پہلے پانچ منٹ کو سن لیں۔ دو چار بار لوگ سن لیں جن کو وہم ہے، اور جو یہ بار بار repeat کر رہے ہیں کہ میں الیکشن کا التواء چاہتا ہوں اور جو لیڈرز یہ کہہ رہے ہیں کہ ملتوی نہیں ہونے دیں گے۔ بھائی الیکشن ملتوی ہونے کی بات کس نے کی ہے۔ میں نے تو اپنے تین حلفوں میں یہ شامل کیا ہے کہ میں الیکشن ملتوی کروانے نہیں آیا۔ میرے ایجنڈے میں شامل نہیں نمبر ۱ نمبر ۲ میں آپ کی وساطت سے دوبارہ reinforce کر رہا ہوں اپنی statement کو
I am not favour of delay election, I am not in favour of any kind of military intervension I am not favour of derailing i am totally pro-democray pro constitution
consitution کے مطابق یہی چاہتا ہوں یہ تاثر غلط ہے۔ میں ترجیح دیتا ہوں یہ according to constitution ہو اور قوم زیادہ خوشی سے قبول کرے۔ جو آپ نے اٹلی کی بات کی وہ مثال میں نے اس خاطر نہیں دی کہ کوئی سال دو سال کے لیے اس طرح کی گورنمنٹ آئے وہ یورپین کورٹ آف جسٹس نے stepلیا تھا۔ ان کی مالی حالات اور کرپشن کی وجہ سے۔ central bord of europe کی سفارش پر تو باقی جو آپ نے بات کی۔ مگر ساری جو cabnet بنی وہ پارلیمنٹ سے نہیں تھی۔ non of them was from parliament اچھا اب میں وہ دو سال تجویز دینے کے لیے نہیں دی میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ پاکستان کے stake holder کو جن کے ذمہ داری پاکستان کے عدل کی فراہمی ہے اور جن کی ذمہ داری پاکستان کی حفاظت کرنا ہے اور پارلیمنٹ میں جن کی ذمہ داری پاکستان کی جمہوریت کو deliver کرنا ہے اور اٹھارہ کروڑ عوام کو یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ یورپ جیسا ملک، خطہ democracy کے لیے sustainable growth کے لیے اور کرپشن کے خاتمہ کے لیے اس حد تک جاسکتے ہیں تو ہم اتنا بھی کرنے کو تیار نہیں۔ کہ state holder مل کر، بیٹھ کر مشورہ کر کے ایک ایسی care taken govt بنائیں جس پر صرف دو گھر راضی نہ ہوں۔ سارے گھر راضی ہوں اور اٹھارہ کروڑ عوام۔ اور وہ care taken govt جو ایجنڈا میں دے رہا ہوں میں categorically i am very clearکہ 90 دن تو دور کی بات ہے۔ وہ 30 دنوں میں implementکرسکتی ہے۔ just one month اس کے پاس ability ہو، support ہو، Authority ہو۔ Bad imdentions نہ ہو۔ اور پارٹیز بھی اس کے ساتھ تعاون کریں تو وہ with in 90 days بھی ہوسکتا ہے کوئی problem نہیں۔
نجم سیٹھی: ڈاکٹر صاحب بڑی clear ہوگئی بات۔ یہ بھی وضاحت آگئی last question جی جی۔ ڈاکٹر صاحب ابھی آپ نے کہا۔ آپ بالکل کسی قسم کی ملٹری مداخلت کے حق میں نہیں ہیں۔ clear ہوگئی بات۔
شیخ الاسلام: یعنی taken over میں اس کے حق میں نہیں ہوں۔
نجم سیٹھی: مگر take over تو بڑی serious چیز ہوتی ہے، ملٹری intervension اور طریقے کی بھی ہوتی ہے میں اس کی بھی وضاحت پوچھنا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب دیکھیں 1993ء میں محترمہ نے دھمکی دی تھی کہ میں لانگ مارچ کروں گی۔ اور پھر نواز شریف صاحب کی ہوگی چھٹی جنرل وحید نے interrension کی ایک قسم کی۔ اور غلام اسحاق خان نے وہ لانگ مارچ نہیں ہوئی فارغ ہوگئے۔ پھر آپ کو یاد ہوگا کہ 2009 میں ملٹری کی approval کے ساتھ میاں صاحب نے لانگ مارچ کی پھر ملٹری کے approval کے ساتھ بند ہوگئی۔ گوجرانوالہ میں ٹھیک ہے۔ کوئی خدشہ یہ تھا پھر کوئی دونوں دفعہ ملٹری intervensionہوئی۔ لانگ مارچ چلانے کے لیے اور روکنے کے لیے۔ اس کے بعد اب آپ دیکھیں اب آپ جو یہ کرنے جا رہے ہیں۔ آپ بھی ایک بہت بڑا مجمع لے کر جا رہے ہیں۔ وہ …… ہی نظر نہیں آتا۔ وہ 40, 30, 20 ہزار لوگ مر کے اکٹھے کیے گئے تھے۔ میاں صاحب نے وہ ایک سول سوسائٹی کا مومنٹ تھا۔ آپ لاکھوں کی تعداد میں وہاں لوگ لے جا رہے ہیں۔ یہ تو clear cut ہے یہ آپ پھر کس قسم کی چاہتے ہیں کہ جنرل کیانی جو ہیں، وہ اٹھے اور جا کے president سے بات کریں۔ یا کسی اور سے بات کریں اور پھر آپ کو contant کریں رک جائیں رک جائیں، ہم کچھ کرنے جا رہے ہیں یہ تو بالکل history یہی ہے۔
شیخ الاسلام: اچھا میں سب سے پہلے آپ کے سوال کے جواب میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے میرے موقف کو مضبوط کرنے کے لیے دو دلائل دے دیئے اچھا بتائیں کیسے۔ کہ میں وہ کام کرنے جا رہا ہوں جو محترمہ بے نظیر بھٹو 1997ء میں کرچی ہیں، جو الزام مجھے یہ پیپلز پارٹی کے دوست لگا رہے ہیں، وہ مجھ سے پہلے سوچے کہ یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی سنت ہے۔ اگر ان کے مارچ سے ماوراء آئین کوئی اقدام نہیں ہو رہا ہے ان کے مارچ سے democracy derail نہیں ہو رہی۔ تو محترمہ بے نظیر بھٹو والا کام میں نے بھی announce کیا ہے۔ deternent نہیں کیا۔ ان کو یاد رکھنی چاہیئے اور
نجم سیٹھی: نواز شریف والا کام بھی آپ نے کیا۔
شیخ الاسلام: جو دوسری طرف سے کہہ رہے ہیں۔ وہ نواز شریف صاحب کا واقعہ کل کا واقعہ ہے۔ اگر وہ judicially بحال کرنے کے لیے لانگ مارچ کرسکتے ہیں، آدمی کی consultation سے مسئلہ solve ہوسکتا ہے، تو میں کون سا نیا جرم کرنے جا رہا ہوں۔ جو محترم نواز شریف صاحب نے نہیں کیا۔ یا محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے نہیں کیا۔جو ایسے انتخابات کردے جو پاکستان کی تاریخ میں نہ ہوئے ہوں۔ اور میرا intrest صرف یہ ہے کہ کسان بھی پارلیمنٹ میں بیٹھا ہوا دیکھو۔ تاجر بھی بیٹھے، صحافی بھی بیٹھے۔ نجم سیٹھی بھی بیٹھے۔ lawer بھی بیٹھے، صحافی بھی بیٹھے، تاجر بھی بیٹھے صنعت کار بھی بیٹھے، زمیندار بھی بیٹھے، قوم کے سارے طبقات جو محروم ہیں، جو پانچ سے 10کروڑ روپے کے ساتھ ٹکٹ نہیں خرید سکتے۔ انہوں نے کیا جرم کیا، ان کو بھی میں democracy میں partnerبنانا چاہتا ہوں، لہٰذا میں نے توpure prodemocratic مارچ کی بات کی ہے،
نجم سیٹھی: اگر اس مارچ میں کوئی حادثہ ہوگیا۔ Terrrism کی وجہ سے اس کی ذمہ داری ساری آپ کی ہوگی۔
شیخ الاسلام: انشاء اللہ تعالیٰ نہیں ہوگا اگر دو ملین 20 لاکھ کے قریب یہ 23rd دسمبر کو دنیا کے آپ کو threats تھے سارے اگر اللہ نے امن اور امان کے ساتھ گزار دیا اور ایک گملا نہیں ٹوٹا اور ایک پتھر اور شیشہ نہیں ٹوٹا میں نے 32 سال ان جوانوں کی تربیت کی ہے۔ یہ لیڈر پہ depent کرتا ہے کہ آپ باپ بنالیتے نہ لیڈر میں ڈسپلن سے نہ عوام میں۔ 32 سال میں ہمارا ڈسپلن نہیں ٹوٹا اسلام آباد بھی جائیں گے تو انشاء اللہ ایک شیشہ نہیں ٹوٹے گا۔
تبصرہ