پارلیمنٹ کے سامنے اپوزیشن پارٹیوں اور پنجاب حکومت کی دھرنی
تحریر: شاہد جنجوعہ(ہیلی فیکس، برطانیہ)
میرا ایک دوست اپنی فیملی اور بچوں کو پہلی دفعہ پاکستان ماں باپ سے ملانے گیا،سفر کی تھکاوٹ کے بعد خوب نیند کی اور صبح جب ناشتے کی میز پر بیٹھا تو دیکھا کہ والد صاحب نے بیلدار پلیٹ میں فروٹ سجا کے رکھا ہوا ہے اور تازہ مکھن کے ساتھ مکئی کی روٹی بھی پڑی ہے، اس کے بچوں کو داد ا ابو فروٹ کھانے کی تلقین کر رہے ہیں مگر وہ چپ چاپ پلیٹ کو بغو ردیکھے جارہے ہیں، اچانک ایک بچہ اٹھا اور ایک چیز اٹھائی جسے جا کر اپنے کھلونوں والے باکس میں ڈال دیا۔دادا ابو کو غصہ چڑھ گیا اوربولابچے بڑے بدتمیزاور اکڑ والے ہیں، لیکن میرا دوست والد کو کچھ جواب دیئے بغیر ہنسے جا رہا تھا لیکن سرپر جب والد نے ڈانڈا مارا اور کہا بتاؤ یہ کیا مذاق ہے ؟ اب اس نے والد کو بتایا کہ ابو جان یورپ میں تو بڑے بڑے کیلے ہوتے ہیں یہ اس چتری والی کیلی کو دیکھ کر آپ کا پوتا سمجھا کہ یہ کوئی کھلونا ہے جسے وہ اپنے باکس میں رکھ آیا۔
دراصل آج پارلیمنٹ کے سامنے عوامی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی سیاسی، انقلابی اور مذہبی جماعتوں کی خوبصورت دھرنی دیکھ کر یہ واقعہ یاد آگیا اور سوچنے لگا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ اور دھرنے کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دینے والے سیاستدان آج پارلیمنٹ کے سامنے اپنی بے مثال، لازوال طاقت اور عوامی نمائندگی کا مظاہرہ کر رہے تھے، شرکاء کی تعداد اور چہروں کو بغور دیکھنے کے بعد مجھے ان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور ان کے گھریلو ملازمین کے سوا عوام اور سول سوسائٹی سے کوئی فرد نظر نہیں آیا لیکن کیا مجال کہ عینک والی سرکار جس نے ملک اور قوم کی بجائے ایک خاندان کے قصیدے گانے کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ لب کشائی کرے کیسے ٹی وی اینکر کی زبان سے ملک کی تین بڑی جماعتوں نو ن لیگ، جماعت اسلامی اور سنی تحریک کی قیادت میں 3 سو افراد کی دھرنی دیکھ کر یہ مشورہ صادر ہو کہ بھائی جان آپ کے پاس پارلیمنٹ کی چابی موجود ہے تو بارش میں بھیگنے کا کیا فائدہ؟ دو منٹ اور چہل قدمی کر کے پارلیمنٹ کے اندر چلے جائیں جہاں ہر روز آپ لذیذ کھانے اور پنک ٹی پیتے ہیں۔ چلیں اس دھرنی کے بہانے آپ جو گھر کے ملازمین ساتھ لے آئیں انکو بھی ذرا اندر کی سیر ہی کرادیں ورنہ عوام کی کیا مجال کہ وہ ان خوبصورت ایوانوں میں کبھی داخل ہونے کا خواب بھی دیکھ سکیں۔
پچھلے ہی مہینے ڈی چوک اور اس سے ملحقہ علاقے میں جو کئی کلومیٹر تک کا رقبہ ہے لاکھوں کے دھرنے کو 50 ہزار کہا جاتا رہا آج اسی سرکاری عینک سے دیکھیں تو اس دھرنی کے شرکاء کی تعداد کیا ہوگی؟ پنجاب گورنمنٹ کی ہر طرح سے مدد اور فری ٹرانسپورٹ کے باجود سوال یہ ہے کہ عوام ان کی دھرنی میں شریک کیوں نہیں ہوتے ، جماعت اسلامی اور سنی تحریک کے کارکنان بھی نہیں آئے کیا وہ کہیں قادری صاحب کی تحریک میں تو شامل نہیںہو گئے؟ دھرنے میں شریک ہر رکن پارلیمنٹ اپنا سوٹ کیس بھی لایا ہے تاکہ اگر موسم خراب ہوجائے اور کپڑے بھیگ گئے تو پارلیمنٹ میں اپنے رہائشی کمروں میں نہا دھوکے تیار ہو کے پھر عوام کے سامنے اپنی بے گناہی ثابت کرتے اور دھرنی میں کامیابی کے دعوے کرنے ٹاک شوز میں شامل ہو جائے گا، مگر بیچاری عوام کیوں آتی ان کے لئے جماعت اسلامی یا سنی تحریک نے کسی روحانی اجتماع یا درس قرآن کا تو اہتمام نہیں کیا تھا نہ ہی ان کے لئے کسی نے بریانی اور خشک میوے بھیجنے تھے۔
اس کامیاب دھرنی کی مبارکبادرحمن ملک کو بھی جاتی ہے کہ وہ خود ہی بول اٹھے کہ نواز شریف بڑے بھائی ہیں اور ان کے اس تاریخی کارنامے سے ملک میں جمہوریت خوب مضبوط ہوگی۔ قادری صاحب سے تو ان کا اختلاف بس اتنا تھا کہ جمہوریت کے کاندھوںپر انہوں نے لاکھوں عوام کا بوجھ ڈال دیا تھامگر آج کا یہ تاریخی کارنامہ اس لئے بھی عوام کو ہمیشہ یاد رہے گا کہ وہ پارلیمنٹ میں پہنچنے کے خواب چھوڑدیں پارلیمنٹ کے اندر کی کرسیاں تو ایک طرف باہر کا علاقہ بھی اشرافیہ کے لئے ہے ان کے ملازمین بھی خوش ہیں کہ چلو ایک دن کی چھٹی سہی ۔۔۔۔۔۔۔۔اس دھرنی کے بہانے اسلام آباد اور مارگلہ کی پہاڑیوں کی بھی سیر ہو جائے گی۔
تبصرہ