11 مئی کا الیکشن مختلف سیاسی جماعتوں کے گھوڑوں کے مابین ہو گا، عوام کا کردار تماشائیوں سے زیادہ نہیں: ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
11 مئی کا الیکشن مختلف سیاسی جماعتوں کے گھوڑوں کے مابین ہو گا، عوام کا
کردار تماشائیوں سے زیادہ نہیں۔
انتخابات کی رسم کی ادائیگی کے بعد عوام کے حقوق سے کھیلنے کا عمل پھر شروع ہو جائے
گا۔
60 سے 65 فی صد ووٹر جو انتخابی عمل پر عدم اعتماد کرتے ہیں پاکستان عوامی تحریک کے
دھرنوں میں شرکت کریں۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
لاہور: پاکستان عوامی تحریک کے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا ہے کہ11مئی کا الیکشن مختلف سیاسی جماعتوں کے گھوڑوں کے مابین ہو گا اور اس ریس میں عوام کا کردار تماشائیوں سے زیادہ نہیں ہے ۔آج کل سیاسی پارٹیاں گھوڑوں کے چناؤ میں مشغول ہیں۔ اس مرحلے کے بعد 11مئی کو الیکشن کی رسم ادا کی جائے گی۔ جسکے بعدعوام کے حقوق سے کھیلنے کا عمل پھر شروع ہو جائے گا۔
پاکستان عوامی تحریک الیکشن پراسس کے غیر شفاف ہونے کے باعث اس پورے نظام انتخاب کو مسترد کر چکی ہے اور پولنگ ڈے کو پورے ملک میں پر امن دھرنے دے کر سیاسی عمل کے خلاف جمہوری انداز میں احتجاج کیا جائے گا۔ 60 سے65 فی صد ووٹر جو انتخابی عمل پر عدم اعتماد کرتے ہوئے پولنگ ڈے کو گھروں سے نہیں نکلتے۔ پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے عوام کی اس خاموش اکثریت کو موقع فراہم کریں گے کہ وہ انتخابی نظام کے خلاف ان میں شرکت کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور سے لندن سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اقتدار کی تبدیلی کا بہترین ذریعہ انتخابات ہیں اور حقیقی جمہوریت کا تسلسل ہی قوم کی پہلی ترجیح ہو نا چاہیے مگر اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے، یہ الیکشن کی رسم ضرور ہے جمہوریت نہیں۔
الیکشن جمہوریت کا جزو ہوتے ہیں اس عمل کو کل نہیں کہا جا سکتا۔ انتخابی عمل کا شفاف ہونا اور الیکشن کمیشن کا با اختیار، غیر جانبدار اور جاندار ہونا ہی عوام کو جمہوریت کے ثمرات دے سکتا ہے مگر بد قسمتی کہ ایسا نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کے بعدمعلق پارلیمنٹ میں مقتدر بننے والی پارٹی کی پہلی اور آخری ترجیح اتحادی جماعتوں کے نخرے اٹھا کر اقتدار بچانے پر مرکوز رہے گی اور عوام اور انکے حقوق کے درمیان خلیج اور گہری ہوتی جائے گی۔ کرپشن اور لوٹ مار پاکستان کی معیشت پر وہ ضرب کاری لگائے گی کہ خدانخواستہ ملک کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ کمزور سے ناکام ریاست کے سفر کو موجودہ الیکشن مہمیز لگائے گا اور آنے والی نسلوں کا مستقبل غیر محفوظ ہو سکتا ہے۔
تبصرہ