بیداریء شعور : دو قومی نظریہ اور آج کا پاکستان
(تحریر شاہد جنجوعہ ہیلی فیکس)
قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ "پاکستان اُسی دن وجود میں آگیا تھا جب برصغیر کے پہلے شخص نے اسلام قبول کیا تھا"۔ یہ بظاہر ایک جملہ ہے لیکن اس ایک جملے میں قیام پاکستان کا پورا پس منظر بیان کر دیا گیا ہے۔ یعنی جونہی کوئی شخص کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اس کا روحانی تعلق ایک ایسی قوم سے قائم ہو جاتا ہے جس کا نہ صرف عقیدہ مختلف ہے بلکہ انسانی زندگی کے جتنے بھی پہلو ہو سکتے ہیں وہ ہر لحاظ سے دوسروں سے ممیز و منفرد ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ محض نظریہ اپنے اندر کوئی مقصد نہیں رکھتا جب تک نظریے سے ہم آہنگ عملی کردار دنیا کے سامنے پیش نہ کر دیا جائے۔ یعنی اس نظریے کے پیرو اپنے دل، زبان اورذہن کو سچائی اور راست گوئی کا خو گر بنا لیں حتیٰ کہ سوچ، ارادہ، جذبہ اور قول و عمل ہر چیز کو نظریے کے پیکر میں ڈھال لیں اور فردکا ظاہر و باطن اس نظریے کا عکاس اور مظہر بن جائے۔ گویا امانت و دیانت انسان کی زندگی کا یوں شیوہ بن جائے کہ وہ خود بھی ہر قسم کی خیانت سے بچے اور خیانت کرنے والوں کے خلاف علم جہاد بلند کرے۔ انسانی شخصیت کا یہ خاصا اسلام کو جوہر اخلاق کا عنوان اور ایمان کی جان ہے جس کی طرف بنی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا:
"جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں " اور جس میں ایمان نہیں بلا شبہ وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر مسلمان نہیں۔ امانت صرف مالی اشیاء تک محدود نہیں اس کا دائرہ قانونی اور اخلاقی ذمہ داری تک وسیع ہوتا چلا گیا ہے حقوق کی ادائیگی، فرائض کی انجام دہی اور معاہدوں کی پاسداری، نظریہ پاکستان کے یہ بنیادی خصائص اگر کسی انسان کے عمل میں نہ ہوں تو ایسے شخص کونظریہ اسلام میں منافق گردانا جائے گا۔ ایسے شخص کے ہاتھ میں ایک خاندان کے معاملات دینا کوئی گوارا نہیں کرتاچہ جائیکہ ایسے بد عنوان شخص کے ہاتھ ریاست کے انتظامی قانونی اور مالی امور سپرد کر دیے جائیں۔
آج جب پاکستان کے اندر آئین کی شق 62 اور 63 کا ذکر ہوتا ہے تو ایسے افراد اور انکے مفادات کے کی لابنگ کرنے والے ایک ہوا کھڑا کر دیتے ہیں اور عوام کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ شاید یہ ملک پاکستان جو اسلام کے نام پر اور نظریہ پاکستان کے عملی نفاذ کے لیے حاصل کیا گیا تھا اس میں کوئی دیانت داراور ایماندا ر شخص نہیں رہتا گویا ان کے بقول سارا پاکستان ہی چوروں اور ڈاکوؤں سے ہی بھرا پڑا ہے ایسی سوچ اسلام کے بنیادی اصولوں اور نظریہ پاکستان کا کھلا مذاق اور شعائر اسلام کی توہین ہے۔ ایک اسلامی ملک کے ذرائع ابلاغ کے ذریعے نوجوان نسل کے ذہن میں جمہوریت کے ارتقاء کےنام پر موجودہ سیاسی نظام کو چلانے کے لیے ایک مجبوری بنا کر ہر اگلے پانچ سال کے لیے انہی بد عنوان، ڈاکوؤں، ٹیکس چوروں اور قومی خزانے کو باپ کی جاگیر سمجھ کر بندر بانٹ کر لینے والوں کو امیدوار کے طور پر قبول کر لینے کا درس دیا جا رہا ہے۔ جنہیں اپنے جرائم کی پاداش میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے تھا ان کے ہاتھ ریاست پاکستان میں امن و امان کے قیام، عدل و انصاف کی فراہمی، قانون کی عملداری، مجروموں کی بیخ کنی اور رعایا کی خوشحالی کی ذمہ داری دینے کا درس گویا بلی کو دودھ کی رکھوالی پر بٹھانا ہے۔ خود ساختہ دانشور قوم کو نظریہ پاکستان کو مبہم قرار دے کر اس سے بغاوت کا درس دے رہے ہیں۔ عوام سے کیے گئے وعدوں سے منہ موڑنے والوں، خائن، لسانی، نسلی اور صوبائی عصبیتوں کی بنیاد پر پاکستان کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے والوں، چوروں اور ڈاکوؤں کے ہاتھ حکومت کی باگ ڈور ایک بار پھر تھما دینے کا سبق دیا جا رہا ہے۔ ایک اسلامی ملک میں جو سرا سر نظریہ اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہےایسے زر خرید دانشوروں کو جوتے مار مار کر اور عبرت ناک سزادے کر جیل کی کال کوٹھری میں بند کیا جانا چاہیے تا کہ آئندہ کسی کو اسلامی شعائر اور خصائص کوتوہین آمیز انداز میں محض62، 63 کہہ کر سر عام مذاق اڑانے کی جرات نہ ہو سکے۔ آج حلال و حرام میں فرق مٹایا جا رہا ہے، مکاری، عیاری جیسے بُرے اوصاف کو کامیاب سیاست کے لوازمات قرار دیا جا رہا ہے۔ آج سے چند سال پہلے فحش گوئی، بے حیائی اور ڈانس جن کو اسلامی معاشرے میں برا سمجھا جاتا تھا اس کو آرٹ کا نام دے کر بڑی خوبصورتی سے کلچر کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ عریانی، فحاشی، ناجائزدولت کمانے کے لیے اداروں کی تباہی اور کرسی کے حصول کے لیے بولیاں لگتی دیکھ دیکھ کر ہمارا ذہن عادی ہو چکا ہے، اور اب ہم ان برائیوں کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ برائی کا احساس تک مٹتا جا رہا ہے۔ اب اگرکسی دن قتل و اغوا برائے تاوان یا بم دھماکے کی خبر نہ آئے تو عجیب سا لگنے لگتا ہے۔ عوام کو خبر سے زیادہ سنسنی خیزی کا عادی بنا دیا گیا۔ کردار کا یہ ناسور اژدھا بن کرقومی جسد کو کھا ئے جا رہا ہے۔ غداری، منافقت، ضمیر فروشی، قول و فعل میں تضاد، جھوٹ، بددیانتی اور ہوس اقتدار قومی کردار کے نمایاں پہلو بن کر دنیا بھر میں پاکستان کی شناخت بن گئے ہیں۔ جو جتنا چرب زبان ہو وہ اتنا ہی عقلمند گردانا جاتا ہے۔ "الحقوق الانسانیہ فی الاسلام" کے صفحہ نمبر 217 پر اظہار رائے کی آزادی کے حق میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری رقمطراز ہیں " اظہار رائے کی آزادی میں حق تقریر، حق رائے اختلاف اور تنقید کا حق اور جدید الفاظ میں صحافتی آزادی بھی شامل ہے اور اسلام نے یہ حق ہر فرد کو عطا کیا ہے" مگر آج اس صحافتی آزادی کو اسلام کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کے ایک وزیر کا بیان جس میں اس نے حضرت عمررضی اللہ عنہنے فرمایا جسے ابن جوزی نے اپنی سیرت کتاب مین نقل کیا کہ "اگر دریا ئے فرات کے کنارے کوئی بکری بھی بے سہارا ہونے کی وجہ سے مر جائے تو میرا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے بارے میں مجھ سے جواب طلبی فرمائے گا" کا سر عام مذاق اڑایا گیا مگر اس کے باوجود کسی منصف یا مُلاّ کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ وہ معاشرہ جہاں افراد معاشرہ کے اقتصادی حقوق کا احترام نہ ہو کبھی پر امن نہیں رہ سکتا۔ ایک اسلامی ملک میں سیاسی اور حکومتی عہدے نہ کسی کی خاندانی وراثت ہیں نہ تجارت بلکہ یہ تو سراسر قومی امانت ہیں اور ان کے اہل ایسے افراد ہوتے ہیں جو سیاسی تنظیم و تدبیر کے ماہر ہوں اور جو لوگوں کےمفاد عامہ کے بہتر امین بن سکیں اور جن سے عوام بھی ریاستی امور سے لے کر ان کے ذاتی کردار تک کے بارے میں ان سے باز پُرس کر سکیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اس ملک کو اپنے باپ دادا کی جاگیر اور مال غنیمت سمجھ کر لوٹا۔ حکومت اور اپوزیشن سمیت سب ہی نے اس بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ دھوئے۔ دنیا میں ایسی بےشمار مثالیں موجود ہیں جہاں قومیں ہمارے ملک ہی کی طرح بد نظمی اور مشکلات و مصائب کا شکار ہیں مگر انہوں نے جرات مندانہ فیصلے کیے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے ساتھ آزاد ہونے والی وہ ریاستیں طاقتور اقوام بن کے ترقی کے اس مقام تک جا پہنچیں کہ ساری دنیا کی معیشت آج ان سے وابستہ ہے۔ ہماری قیادت نے بطور قوم زندہ رہنے کے تقاضوں کو یا تو سمجھا ہی نہیں یا ذاتی مفادات کے قلعے سے ان کی سوچ باہر ہی نہ نکل سکی، انہوں نے قوم کو اپنے آہنی شکنجوں میں جکڑا ہوا ہے۔
پھر یکا یک "سیاست نہیں ریاست بچاؤ " کی ایک ہوا چلی جس امید ہو چلی تھی کہ حالات بدلیں گے، نظریہ پاکستان کہ وہ کرادر زندہ ہونگے جن کا عملی مظاہرہ دنیا نے لانگ مارچ کے دوران اسلام آباد میں دیکھا تھا۔ جس کے نتیجے میں غریب اور متوسط طبقات کو ایوانوں میں نمائندگی کا حق ملے گا۔ مگر شاید ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے الفاظ میں، قدرت نے ابھی کئی اور چہروں سے شرافت کے پردے چاک کرنے ہیں۔ جو قوم کو ایک بار پھر سبز باغ دکھا رہے ہیں اور جنہوں نے اپنے بیانات کے ذریعے قوم کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اسلامی معاشرے میں جج حقوق انسانی کے محافظ، قانون کے نگہبان اور عدل و انصاف کے ضامن ہوتے ہیں ان کا منصب معاشرے میں سب سے اہم ہونے کی وجہ سے علم و دانش، معاملہ فہمی، بصیرت، دور بینی اور فہم و ذکاء ایسے اوصاف کا حامل ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جس کے بغیر معاملات کی تہہ تک رسائی اور حقائق کا کھوج لگا کر صحیح فیصلہ کرنا ممکن ہوتا ہے، ان پر بھی کچھ حدود و قیود بھی لگتی ہیں وہ بھی شرافت کی مقرر کردہ حدود سے کسی صورت تجاوز نہیں کر سکتے۔ کسی غلط اقدام کو صحیح اور جائز کر ناجائز نہیں ٹھہرا سکتے۔ معاشرے کو انحراف سے روکنا اور آزادی اظہار رائے کو آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہنا چاہیے ان پر لازم ہے کہ کام سکون و اطمینان کی حالت میں خاموشی سے مقدمہ کی سماعت کریں اور اگر انہیں سکی طرح کا اضطراب و تشویش لاحق ہو اور جج اگر ذہنی، فکری اعتدال کی حالت میں نہ ہو تو اس خود کو مقدمے سے الگ کر لینا چاہیے۔ ہر فریق سے یکساں سلوک کرنا اور قانونی مساوات کو یقینی بنانا اس کی قانونی ذمہ داری ہے۔ جج کا ہر گز یہ کام نہیں کہ سائل کہ محض اپنے ذاتی شک یا پسند ونا پسند کی بنیاد پر واپس بھیج دے۔ اسلامی سلطنت میں تو کوئی غیر مسلم بھی اگر عدالت میں امیر المومنین کے خلاف مدعی بن کر آ جائے تو اس کو بھی رد کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہے "اَفَلَا شَقَّقَتْ عَنْ قَلْبِه حَتّٰی تَعْلم اَقَالَهَا اَمْ لا" جس کا مطلب ہے کہ کیا تجھے معلوم ہو گیا کہ اس نے دل سے پڑھا ہے یا نہیں، ایک قاضی پر لازم ہے کہ وہ حجت اور دلیل سے اصل مقدمے کو سنے اور اس پر جرح و تعدیل کر کے حق اور انصاف کے مطابق فیصلہ دے۔
ہر روز عدالتوں میں پیش ہونے والوں کے نظریہ پاکستان کے خلاف بیانات کس سے ڈھکے چھپے ہیں مگر ان کےمعاملے میں تو قانون اور صحافت کی زبانیں گنگ ہیں اور دوسری طرف ملکی حالات اور قانون کی عدالت میں بظاہر جنگ ہار کر ڈاکٹر محمد طاہر القادری جیت گیا۔ کیونکہ وہ جس معاملے کو عدالت میں لے گئے تھے وہ روز روشن کی طرح عیاں تھا۔ عدلیہ نے اپنے بارے میں پہلے سے ہی قائم تاثر کو برقرار رکھا اور ایک بار پھر ایک روایت قائم کر دی اور خود کو ایسا گہرا اخم لگایا جو کینسر کی طرح پھیل رہا ہے، ہر آنے والے دن ان کی کارکردگی سوالیہ نشان بنتی جا رہی ہے اصغر خان کیس اور توقیر صادق کیس عدلیہ کے گلے میں ہڈی بن کر پھنس گیا ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے بارے میں سارے خدشات کہ ان کو ایجنسیاں لا رہی ہیں، پیچھے امریکہ ہے، بیرونی ایجنڈہ ہے، جمہوریت کو تباہ کر کے فوج کو لانا چاہتا ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت سے مل کر انتخابات کا التوا مقصد ہے۔ عدلیہ کے ساتھ کوئی ڈیل ہے اور پھر کینیڈا بھاگ گیا ہے، کونسا طعنہ رہ گیا ہے کردار کشی کی کونسی مہم ہے جو نہیں چلائی گئی مگر چند دن ہی گزرے ہیں ہر ایک کی زبان پر وہی سوالات جو ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اٹھائے تھے وہی خدشات جس کا انہوں نے اظہار کیا تھا اب تو لگتا ہے سب انہی کی بولی بول رہے ہیں۔ جملہ معترضہ کے طور پر خان صاحب کا بھی ذکر کرتے جائیں کہ نواز شریف کو سکول ماسٹر کہنے والے بس پائے کھانے کی دیر ہے اپنا سارا انقلابی مشن اور سیاسی جماعت تک بھول گئے پاکستان بدلنے کی ساری آرزوئیں پائے کی چکنائی میں لگتا ہے جم گئی ہیں وہی حال دوسرے خان صاحب کا، نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ ناقدین کا خیال ہے کہ خان صاحب دس سے پندرہ سیٹیں بھی لے جائیں تو بڑی غنیمت ہے اور اگر ایسا ہو گیا تو انہیں اپنے ممبر سنبھا ل کر رکھنا مشکل ہو گا۔ یہ نہ ہو کہ پہلی ہی بولی میں سارا مال بِک جائے اور وہ ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو لیکن اس ملک میں جہاں پارٹیاں بدلنا باعث عار نہ ہو وہاں جن کو یہ چسکا لگا چکا ہے کچھ بعید نہیں کہ ایسا ہی ہو۔ ان حالات میں اگر خان صاحب کو خود بھی صدر مملکت زرداری صاحب سے وزیر ثقافت یا وزارت تعلیم کا حلف لینا پڑے تو ان کی قسم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
اس پاکستان کو قدرت نے ہر نعمت سے سرفراز کر رکھا ہے۔ قوم نے اندر تعمیری جذبات کی کمی بھی نہیں عوام پینسٹھ 65 سال سے لوٹنے والوں سے تنگ بھی ہے کیونکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے غربت اور بے روز گاری بڑھ رہی ہے اوپر سے کرپشن لوٹ مار اور بم دھماکے نہ جانے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک کو کس کی نظر کھا گئی۔ پریشانی ضرور ہے لیکن مایوسی کفر ہے سب مسائل کی جڑ دیانتدار غیور اور مخلص قیادت کا فقدان ہے، ادارے تباہ حال ہیں قلیل اور طویل مدتی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے اگر عوام خان صاحب سے مایوس ہوئی تو ڈاکٹر محمد طاہر القادری اور ان کی ٹیم کا امتحان ہو گا، لیکن ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنی خداد بصیرت و صلاحیت سے قوم کی آخر امید ثابت ہونگے اور قوم کی ڈوبتی کشتی کو بحفاظت بھنور سے نکال کر منزل مقصود کی طرف لے جائیں گے۔
شاہد جنجوعہ (ہیلی فیکس، برطانیہ)
تبصرہ