بیداری شعور: مصطفوی انقلاب کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری کی جدوجہد

مورخہ: 03 مئی 2013ء

تحریر: شاہد جنجوعہ (ہیلی فیکس)

فکر و عمل کے زاویے اور تقاضے ہر دور میں تغیر پذیر اور انقلاب آشنا رہتے ہیں۔ ایک دور تھا جب امت صدیوں آگے دیکھنے کی عادی تھی، آج فکر اور سوچ سے عاری ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس میں سیاسی طالع آزماؤں نے اقدار کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ حصول اقتدار کی خواہش کو جمہوریت کا تسلسل قرار دے کر جمہور کا استحصال کیا جارہا ہے۔ ان کا طریقہ واردات یہی ہے کہ عوام میں انتشار خیال پھیلائے رکھو اور ہر روز ایک نئی خبر، نیا انکشاف اور نیا وعدہ اور نئی قسمیں دیتے رہو تاکہ لوگوں کے مختلف طبقات کسی نظریے اور اصول میں یکسو نہ ہو سکیں کیوں کہ یکسوئی سنجیدگی کو فروغ دیتی ہے، سنجیدگی مثبت سوچ پیدا کرتی ہے جو انسان کو اقدام پر ابھارتی ہے۔ پہلے یہ کام حکمرانوں کو خود کرنا پڑتا تھا، پر آج آزاد میڈیا میں بولی لگتی ہے اور اس سازش کے فروغ کے لیے سازشی عناصر کی کوئی کمی نہیں۔ اس وقت بلاشبہ بڑے بڑے مسائل ہمیں اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہم خود ہیں۔ ہم بے یقینی کی گرداب میں الجھے ہوئے ہیں۔ اگرتاریخ کا بغور جائزہ لیں تو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آج انسانیت کو کوئی ایسا مسئلہ درپیش نہیں جو کل درپیش نہیں تھا۔ ہر آزار کا علاج یہ ہے کہ اس انحراف اور بد عہدی سے واپس لوٹا جائے جو کلمہ پڑھنے کے بعد خدا سے اور قیام پاکستان کے بعد اس ملک کے عوام سے کی گئی ہے۔ دنیا کی کوئی قوم اپنی نظریاتی اساس سے ہٹ کر زندہ نہیں رہ سکتی۔ ہماری اساس نظریہ اسلام اور ایمان کی اساس کلمہ طیبہ ہے۔ جس کا پہلا سبق نفسانی اور شیطانی قوتوں کا انکار اور خدا وحدہ، لاشریک کی ذات کبریا پر مکمل اعتماد و یقین ہے۔ اس یقین کا اظہار راست گوئی اور امانت داری ہے۔ اگر ان بنیادی خصوصیات سے انحراف کر کے کوئی مسلمان ہو سکتا ہے تو پیغمبر خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان ظالموں کی امانتیں واپس لوٹانے کے لیے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو بستر مرگ پر کبھی نہ سلاتے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے وہ نظریاتی عمارت - جس پر ایمان عقیدہ اور عمل کی عمارت استوار ہوتی ہے - کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ نظریہ اس وقت تک بے معنی ہوتا ہے جب تک اس کے ماننے والوں کا عمل اور رویہ اس کی تصدیق نہ کرے۔ آج ہماری ملی، قومی اور اجتماعی زندگی سے ایک ایک کر کے ہر قدر اور ہر اصول رخصت ہوتا جارہا ہے۔ امانت و دیانت جو مسلمانوں کی اولین پہچان تھے ہم نے ان کا اتنا مذاق بنایا کہ ان کا ذکر سن سن کر جسے لوگوں کو کوفت سی ہوگئی ہے۔ نتیجہ یہاں تک آپہنچا کہ کوڑے کے ڈھیر سے رزق تلاش کرتے غرباء کو دیکھ کر بھی نظام کی تبدیلی کا احساس نہیں ہوتا۔ پیغمبرانہ مشن کے دعوے داروں نے عبادات کو رسومات اور تعلیمات کو کہانیاں بنا کر ہی پیش کیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ خود بھی یقین سے محروم اور ان سے وابستہ افراد کا ریوڑ کافرانہ یقین اور مومنانہ بے یقینی کی کشمکش میں مبتلا ہوگیا۔ اب نہ منزل کی خبر نہ کامیابی کا یقین!

عوام کی رائے کا احترام، کاروبار حکومت میں عوام کی منشائ، داخلی اور خارجی معاملات میں عوام کو اعتماد میں لے کر چلنا اور یکساں ترقی کے مواقع بڑے پسندیدہ امور ہیں مگر یہ سب کچھ تو اسلامی نظام کا خاصا ہیں۔ ہاں رہ گئی بات اس جمہوریت کی جس میں حکومت عوام کے ذریعے بنتی اور چلتی ہے تو یہ بھی درست ہے۔ مگر ان سب باتوں میں اسلام اور جمہوریت میں کوئی تفاوت ہے نہ تفریق۔ اس کے بعد کا معاملہ قابل غور ہے جس کی خاطر قرار دادِ مقاصد اور پھر اس کے بعد کے مطابق آرٹیکل 62، 63 اور 218 کو آئین کا حصہ بنا دیا گیا تاکہ اس مملکت خدا داد میں کوئی سر پھرا یہ نہ کہہ سکے کہ یہاں عوام ہی کا اقتدار ہے اور عوام ہی کو حق و باطل، صحیح و غلط اور ردّ و بدل کا حق ہے۔

لیکن شومئی قسمت جنہوں نے اس نظریے کی حفاظت کرنا تھی انہوں نے فیصلے آئین اور مروجہ قانون کو قرآن اور اسلام کے تصور اخلاقیات پر ترجیح دے کر اپنی مرضی سے کیے۔ تاریخ ان مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ خود قرآن مجید میں آتا ہے ۔ حضرت ہود علیہ السلام قوم عاد کی طرف مبعوث کیے گئے، رد عمل کیا ہوا؟ قوم کے سرپنچ بولے: '(اے ہود!) بے شک ہم تمہیں حماقت (میں مبتلا) دیکھتے ہیں'۔ (الاعراف، ٧:٦٦)۔ حضرت نوح علیہ السلام کے معترضین بولے:

'سو ان کی قوم کے کفر کرنے والے سرداروں اور وڈیروں نے کہا: ہمیں تو تم ہمارے اپنے ہی جیسا ایک بشر دکھائی دیتے ہو اور ہم نے کسی (معزز شخص) کو تمہاری پیروی کرتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے ہمارے (معاشرے کے) سطحی رائے رکھنے والے پست و حقیر لوگوں کے (جو بے سوچے سمجھے تمہارے پیچھے لگ گئے ہیں)، اور ہم تمہارے اندر اپنے اوپر کوئی فضیلت و برتری (یعنی طاقت و اقتدار، مال و دولت یا تمہاری جماعت میں بڑے لوگوں کی شمولیت الغرض ایسا کوئی نمایاں پہلو) بھی نہیں دیکھتے بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیںo' (ہود، ١١:٢٧)۔ انبیاء کرام کی تاریخ ان الزامات کے ذکر سے بھری پڑی ہے۔ پاکستان سے باہر 3 یا 4 سال کینیڈا میں ڈاکٹر طاہر القادری نے کیا گزار لیے تھے کہ ان کی پاکستان سے وفاداری کو ہی مشکوک قرار دے دیا گیا۔

اگر میرا موضوع ڈاکٹر طاہر القادری کی قومی و ملی اور اسلامی خدمات ہوتا تو میں سیکڑوں صفحات بھر دیتا مگر ۔۔۔۔۔۔ میری بحث تو یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری جو کچھ کر رہے ہیں وہ ان کی اپنی مرضی نہیں بلکہ منشاء الٰہی ہے۔ اور منشاء الٰہی مصطفوی انقلاب کا مطمع نظر ہے۔ قرآن مجید میں ہے: 'اور ہم چاہتے تھے کہ ہم ایسے لوگوں پر احسان کریں جو زمین میں (حقوق اور آزادی سے محرومی اور ظلم و استحصال کے باعث) کمزور کردیے گئے تھے اور انہیں (مظلوم قوم کے) رہبر و پیشوا بنا دیں اور انہیں (ملکی تخت کا) وارث بنادیںo' (القصص، ٢٨:٥)

ایک مثبت سوچ، پاکیزہ خیال اور منشاء الٰہی کی تکمیل کے لیے23 دسمبر 2012 کو شیخ الاسلام پاکستان پہنچتے ہیں۔ مینارِ پاکستان کی سرزمین پر پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع منعقد ہوتا ہے جس میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اور اٹھارہ کروڑ عوام کے سامنے پوری دنیا کو گواہ بنا کر ڈاکٹر طاہر القادری تین حلف دیتے ہیں تاکہ آمد سے متعلق جو شکوک و شبہات پھیلائے جارہے تھے وہ ختم ہو جائیں۔ جو ارادہ اور منشاء لیے وہ وطن عزیز گئے تھے، اس میں ان کا اِخلاص سب پر واضح ہوجائے۔ آئیے! اٹھارہ کروڑ عوام کی عدالت میں دیے گئے اس حلف کو ایک بار دہرائیں کہ آخر اس شخص نے کہا کیا تھا ۔۔۔۔۔۔ کہ 'میں اﷲ رب العزت کو گواہ بنا کر اس کے حضور قرآن اور شفاعتِ محمدی کا حلف دے رہا ہوں کہ میری جدو جہد کے پیچھے دنیا کی کوئی طاقت، ملک ادارہ یا اندرونی و بیرونی ایجنسی شامل نہیں۔' ان کا مقصد کسی مخصوص جماعت کو گرانا، اٹھانا یااس پر الزامات لگانا نہیں۔ انہیں دنیا کی کسی ایجنسی ملک خفیہ طاقت کی مالی سپورٹ حاصل نہیں۔ ان کے ساتھ پاکستان کے عامۃ الناس، کارکنان اور رفقاء ہیں جن کی 32 سال انہوں نے تربیت کی اور آج اس مصطفوی جد و جہد میں وہ اپنی زندگی کی جمع پونجی اور سونا نقدی سب کچھ لے آئے ہیں۔ انہیں اس دنیا میں سب سے عزیز اپنے قائد کا مشن ہے جس کی تکمیل کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ چشم فلک نے اس دن دیکھا جب ڈاکٹر قادری کے ہاتھ فضا میں بلند ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں: لوگو آج کے لاکھوں کے اجتماع کی غرض و غایت ہرگز آئین پاکستان کی خلاف ورزی نہیں اور نہ ہی ان کا مقصد جمہوریت کا بستر گول کروانا ہے۔

میں نے زندگی میں بڑے بڑے اسکالرز، مدبر، فن خطابت کے ماہر عالمی لیڈروں کے خطابات بھی سنے اور ان سے استفادہ بھی کیا ہے مگر جو درد، اخلاص اور اثر ڈاکٹر طاہر القادری کے ان الفاظ اور التجا میں تھا اس پر تو آسمانی فرشتے بھی رشک کرتے ہوں گے۔ حسنِ ادب اور کمال بندگی کا خوب مظاہرہ تھا جب پوری دنیا میں اسلام کے امن پسند ہونے کا پیغام پھیلانے والا خود اپنی عوام اور ان پر قابض بھیڑیوں سے مخاطب تھا اور یوں گویا تھا کہ 'لوگو! آج مسلمان ہو کر ایک مسلمان بھائی کی بات کو غور سے سنو، دلیل سے قبول کرو اور دلیل سے رد کرو'۔ انہوں نے اپنے حلف میں کسی ملٹری ٹیک اوور کا آلہ کار بننے یا اپنے کسی خیال کی سختی سے تردید کر دی اور وعدہ کیا کہ ایسا کیے جانے کی صورت میں وہ عوام کے شانہ بشانہ افواج کو واپس بیرکوں تک پہنچانے تک ملک گیر احتجاج کی قیادت کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی جدوجہد کے عین مطابق - جو 32 سال پہلے انہوں نے شروع کی تھی - پاکستان میں سیاست کو غلاظت اور اجارہ داریوں سے پاک کرنے اور وڈیروں، ظالموں اور جابروں کے تسلط سے آزاد کر کے عین منشاء الٰہی کے مطابق غریب، محکوم اور مجبور 18 کروڑ عوام کو ان کا حق دلانے آئے ہیں۔ ان کا مقصد نظام انتخاب اور نظام سیاست میں اصلاح ہے۔ معاشی اور سیاسی استحصال کا خاتمہ ان کا مشن ہے۔ ان کا عزم ملک سے دہشت گردی کے خاتمہ اور امن کا قیام ہے۔ قتل و غارت گری، لاقانونیت اور ملک توڑنے کی سازشوں کو بے نقاب کرنا ہے۔ جس بے دردی سے ملکی خزانے کی بندر بانٹ جاری ہے اس کے آگے عوامی سیلاب باندھنا ہے۔ اس نظام میں اصلاح کے لیے انہوں نے انتخابی اصلاحات اور اگر ضرورت پڑے تو انتخابات کچھ آگے پیچھے کر دیئے جائیں تو بھی آئین پاکستان اس کی اجازت دیتا ہے کا ذکر کیا۔ لیکن اسے کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا، کسی نے ان سے جاکر مذاکرات نہیں کیے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو 65 سال کی ناکامیوں کی وجوہات سامنے رکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب سے ان مسائل کے حل کی تجاویز مانگی جاتیں اور پھر ساری عوام کے سامنے باقی قومی قیادت ان سے ڈائیلاگ کرتے۔ مگر وہ جنہوں نے سٹہ لگا کر 5 سال اپنی باری کا انتظار کیا تھا وہ خطرہ محسوس کرتے ہوئے اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئے۔ اقتدار کی نکیل ہاتھوں سے کھسکتی محسوس ہوتی دیکھ کر ان کی نیندیں حرام ہوگئیں۔ شاید اس اجتماع سے پہلے انہیں اندازہ نہیں تھاکہ عوام ان کے ظلم سے اتنے تنگ آچکے ہیں کہ وہ کسی نجات دہندہ کے انتظار میں یوں یخ بستہ سرد موسم کی پروا نہ کرتے ہوئے معصوم بچوں کو گود لیے شاہراہوں پر 5 دن یوں جم کر بیٹھیں گے کہ چاولوں کی دیگ پر لڑ مرنے والی قوم کے لاکھوں تربیت یافتہ سپاہی پورے شہر کے یوں محافظ بن جائیں گے کہ نہ پتہ گرے گا، نہ گملا ٹوٹے گا اور نہ ہی ان کے ہوتے ہوئے پورے شہر میں چوری اور ڈکیتی کی کسی واردات کی کوئی جرات کر سکے گا۔ اس منظر کا اس پاکستان کی شاہراہ دستور پر پیش آنا کسی نے خواب میں بھی نہ سوچا ہوگا۔ مختلف علاقوں، قبیلوں، نسلوں اور ماحول سے آئے ہوئے لوگ ہر سوال کے جواب میں یوں یک زبان دو قالب تھے جیسے یہ سب ایک ہی خاندان اور گھر کے افراد ہوں، کسی کے لب پر کوئی شکوہ نہ تھا، ہر کوئی ایک دوسرے کے لیے پیکر شفقت و محبت اور ایثار و قربانی کی ایک مثال تھا۔ جہاں انسان ایک دوسرے کے لیے اتنے نرم دل اور خوش مزاج ہوں وہاں قدرت ان پر انوار و تجلیات اور طرح طرح کے خشک و تر میوہ جات عطا کر رہی تھی۔ جیسے آسمان سے ان کے لیے من و سلویٰ اتر رہا ہو۔ گویا یہ پوری قوم کا ایک نمائندہ اجتماع تھا جو اسلام آباد میں بیٹھے مقتدر حلقوں تک بڑے مہذب انداز میں اپنے مطالبات پیش کر کے انہیں مذاکرات کی دعوت دے رہا تھا۔ حب الوطنی اور اسلامی انقلاب کے نام پر 65 سالوں سے عوام کو بیوقوف بنانے والی ساری قیادت لاہور میں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جمع ہو کر پنجاب کے ان بادشاہوں سے اظہار محبت اور ان کی قیادت پر بھرپور اعتماد کا اعلان کر رہے تھے جنہیں کل تک وہ ملک کا غدار اور عوام کو مشکلات میں جمہوریت سے اکیلے لڑنے کے لیے چھوڑ کر خود جدہ بھاگ جانے کا طعنہ دیتے رہے ہیں۔ ادھر اسلام آباد میں ڈاکٹر طاہر القادری کے کنٹینر میں حزب اقتدار کی ساری جماعتوں کے لیڈر 18 کروڑ عوام اور ساری دنیا کے سامنے انتخابی اصلاحات کا معاہدہ کر کے دو ہفتے بعد ہی اس پر عمل درآمد سے انکار کر بیٹھے۔ اپنے کردار سے انہوں نے ثابت کر دیا کہ امانت و دیانت، ایفاے عہد اور شرم و حیاء کی توقع ان سے کبھی نہ رکھنا، جس کا اٹھنا بیٹھنا صرف لوٹ مار کے لیے ہے۔

ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم غیر محسوس طریقے سے دین کا وہ حصہ - جو نظام حکومت جسے عرف عام میں سیاست کہا جاتا ہے - دین دشمنوں اور ایسے ہی عیار و مکار اور بدمعاش لوگوں کے حوالے کر دینے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوچکے ہیں۔ گویا اسلامی تعلیمات کا وہ حصہ جو کسی انسان اور مسلمانوں کی پہچان ہونا چاہیے تھا اسے نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ اس کا کھلا مذاق اڑایا گیا۔

23 دسمبر 2012ء سے آج تک میڈیا کے ہر شو میں quote ہونے والے ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میں یہ سیاسی لٹیرے سارے اختلافات بھلا کر یکجان ہو گئے ہیں تاکہ اقتدار کے ایوانوں میں کوئی حق کی آواز بلند نہ کر سکے۔ لیکن سر توڑ کوشش کے باوجود یہ سب مل کر بھی ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف ایک بات یا الزام سچا ثابت نہیں کر سکے، الزامات لگانے والے اپنی موت مرگئے۔ ان کی نیت پر شک کرنے والے - جنہیں عوام اپنا ہیرو سمجھ بیٹھی تھی - خوب بے نقاب ہوئے۔ ان کے چہروں پر پڑے منافقت اور آئین و قانون کے پردے چاک ہو گئے ہیں۔ گویا اب وہ عوام کے سامنے ننگے ہیں۔ انہیں شاید احساس نہیں تھا کہ اگر پانی کو راستہ نہ ملے تو وہ پتھر چیر کر باہر آجاتا ہے۔ اس طرح انقلاب بھی اپنی طاقت سے خود اپنا راستہ بنا لیتا ہے اور ایسی رکاوٹیں ہمیشہ ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہیں۔ مگر اشرافیا ہمیشہ اپنی نفسیات سے مجبور ہوتی ہے۔ اب آئے روز ہر کوئی بیچارے، بوڑھے اور بیمار الیکشن کمیشن پر سیکورٹی دینے میں ناکامی، تارکین وطن کو ووٹ کا حق نہ دینے، انتخابی جلسوں میں بے تحاشا اخراجات کرنے کا الزام لگاتا ہے۔ حتیٰ کہ اعلی عدلیہ بھی ان پر عدم اعتماد کر چکی ہے مگر ان کے خلاف فیصلہ اس لیے نہیں آتا کہ الزام خود پر آئے گا اور پھر شرم کے مارے انہیں منہ چھپانے کی بھی جگہ نہیں ملے گی ۔ انقلاب ایسے لاکھوں میں تنخواہ لینے والے افراد کی قطعی طور پر ضرورت نہیں بلکہ یہ غریب کی جنگ ہے جو آج بھی ڈاکٹر طاہر القادری کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ انتخابات وقت پر ہوئے یا ملتوی۔ بہر حال ان کی آئینی حیثیت پر سوالیہ نشان موجود ہے۔ اس جد و جہد کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ اسلامی انقلاب کے جھوٹے دعوے داروں کے منہ پر بھی تالے لگ گئے ہیں، ہمیشہ کی طرح اب وہ انتخابات میں اسلام اور کفر کی جنگ نہیں بنا سکیں گے۔

شاہد جنجوعہ (ہیلی فیکس، برطانیہ)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top