ناروے : منہاج القرآن اوسلو ناروے کی دعوت پر ناروے کی تنظیم SIAN کی مرکز آمد
کثیرالثقافتی معاشروں کو باہم دِگرقریب ہونے میں وقت لگتاہے کیونکہ ہرمذہبی اکائی اپنی الگ شناخت، روایت اور نظام رکھتی ہے اور کوئی بھی اپنی پہچان اور روایت وشناخت کو کھونا نہیں چاہتی، اسلام اس معاملے بہت وسعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب اکائیوں کو اپنی اپنی روایت کے تحت آزادانہ عمل پیرا ہونے کی گارنٹی دیتا ہے، اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ کسی کے جھوٹے خدا کو بھی برامت کہو، مبادا کہ وہ تمھارے سچے خداکو برا کہنے لگ جائیں۔اگر باہمی احترام کی یہ روایت قائم نہ رہے تو معاشرے تمدنی انحطاط کوشکار ہوجاتے ہیں۔ اس لیے اگر کوئی التباس یاذہنی و فکری الجھن پیداہوتو اس کو احتجاج کی بجائے بحث وتمحیص کی طرف لایاجاناچاہیے۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں اس کی بہترین مثال وفدِ نجران ہے، جومخالفت کی نیت سے آیامگرآقا علیہ السلام نے ان کے لیے اپنی مسجد کے دروازے کھول دیے اور اپنی ہاتھوں سے ان کی ضیافت کی۔ اسی طرح آج بھی نبی رحمت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی امت کافریضہ بنتا ہے کہ ‘‘وجادلھم بالتی ھی احسن’’ کی روایت کو زندہ کریں۔مخالفین اسلام کو بھی اس حقیقت کو اب تسلیم کرلیناچاہیے کہ اگرایک دوسرے کے مذہبی اعتقادات کونشانہ بنایا جاتا رہا تو پھر تمدن آپس میں ٹکراتے رہیں گے، برداشت کاکلچر ختم ہوجائے گا اور مسائل کاایک گورکھ دھندا شروع ہوجائے گا۔
منھاج القرآن انٹر نیشنل ناروے نے آقا علیہ السلام کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے 20 جولائی کو اسلام کے خلاف مظاہرہ کرنے والی تنظیم SIAN کواپنے مرکز پر ڈائیلاگ کے لیے دعوت دی۔ چونکہ ناروے میں یہ ایک نئی روایت کا آغاز تھا، کہ اسلام مخالفین کو کسی اسلامی ادارے کی طرف سے باضابطہ باہم گفت وشنید کی دعوت دی جارہی تھی اس لیے تمام میڈیا اس طرف مبذول ہو گیا۔ اس کی تمام اخبارات نے بھر پور کوریج کی۔ مقررہ دن مذکورہ تنظیم کے نمائندے سیکیورٹی کے حصار میں منھاج القرآن کے مرکز پر پہنچے۔ مگر سیکیورٹی پولیس اس پیغام کے ساتھ واپس چلی گئی کہ ہمیں آپ پراعتمادہے کہ آپ تحمل وبرداشت کے ساتھ ڈائیلاگ کریں گے۔ پروگرام سے کچھ دیر قبل میڈیا اور ٹی وی چینلزکے نمائندے مرکز پہنچ گئے۔ آنے والے تمام مہمانوں کے لیے منھاج القرآن کی جانب سے کھانے کااہتمام بھی کیاگیاتھا۔اسلامی روایات کے مطابق اس پروگرام کا آ غازکلامِ الٰہی کی مقدس آیات سے ہوا جس کی سعادت علامہ حافظ صداقت علی صاحب کوحاصل ہوئی۔سامنے پروجیکٹر پر ان آیات کا ترجمہ پیش کیاگیا۔
صدر منھاج القرآن انٹرنیشنل ناروے اعجازاحمدوڑائچ نے آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے منھاج القرآن انٹرنیشنل کاتعارف کروایااورحاضرین کوبتایا کہ 90سے زائد ممالک میں منھاج القرآن کاباقاعدہ نیٹ ورک قائم ہے۔اور اس وقت دنیا میں اقوام کے مابین امن اور محبت کے فروغ کے لیے منھاج القرآن کئی دہائیوں سے باقاعدہ سرگرمِ عمل ہے۔ بعد ازاں منھاج القرآن کے تمام فورمز نے اپنی اپنی کارکردگی اور سرگرمیوں سے متعلق حاضرین کوآگاہ کیا۔ SIAN تنظیم کے ایک راہنما Arne Tumyنے حجاب اور دہشت گردی کے حوالے سے روایتی تنقیدی گفتگو کی جس کو ان کی توقعات کے برعکس تمام حاضرین نے تحمل سے سنا، جس سے اشتعال انگزیزی کاان کا مقصد فوت ہو گیا۔اسی طرح اس تنظیم کے دوسرے راہنما Rony Alte نے بھی یہی بات کی کہ اسلام میں عورتوں پرظلم کیاجاتاہے، حجاب پرمجبورکیاجاتاہے، مسلمان مرد ایک سے زیادہ شادیاں کرتے ہیں، اور اسلام کاتصور جہاد قتل وغارت کا درس دیتا ہے وغیرہ۔ان کی تنقیدی گفتگو کوتحمل سے سننے کے بعد ان موضوعات کے مختلف پہلوؤں دیگر زاویوں سے جانچنے پرکھنے اور پرزورعلمی انداز میں اس کا رد کرنے کے لیے منھاج القرآن یوتھ لیگ کے جوانوں نے بھرکردار اداکیا۔
منہاج سسٹرز لیگ کی نمائندگی کرتے ہوئے اقراء اعجاز نے اپنی تمہیدی گفتگو میں حاضرین پر یہ واضح کردیا کہ ان کی معلومات حقائق پر مبنی نہیں ہیں،اس لیے اسلام کے بارے میں انھوں نے جو کچھ کہا وہ ایک خود ساختہ تصور ہے جو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے کوسوں دور ہے۔ حجاب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اقراء اعجاز نے کہا کہ میں اپنی مرضی سے حجاب پہنتی ہوں اور اس میں خوشی محسوس کرتی ہوں، میرے اوپر کسی کاکوئی دباؤ نہیں۔ حجاب کو تعلق اگر مذہب سے تو اس کو تعلق تو مختلف معاشرتی روایات کے ساتھ بھی ہے، اور دنیا میں ایسی بے شمار خواتین ہیں جو مسلمان نہیں مگرحجاب کرتی ہیں کیونکہ یہ ان کی ثقافت کا حصہ ہےآپ ہندو اور سکھ معاشروں میں اس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔علاوہ ازیں اقراء نے حاضرین کو اسلام کے انسانیت کے بارے میں جو عظیم تصور ہے اس کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔ منہاج یوتھ لیگ کے صدر اویس اعجاز نے جہاد کے صحیح تصوّرکواجاگر کرتے ہوئے اس کی مختلف اقسام پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ جہالت اور غربت کو معاشرے سے ختم کرنا بھی جہاد ہے، اور تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد کرنا بھی جہاد ہے۔ منہاج ویمن لیگ کی صدر محترمہ عائشہ اقبال خان نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اسلام پر یہ الزام دینا کہ وہ مسلمانوں کو باہم افہام وتفھیم سے روکتا ہے سراسر غلط ہے ہے۔انھوں نے بتایا کہ میں اپنی مرضی سے یہاں پر اور اپنی جاب اور نارویجن سوسائٹی میں حجاب پہنتی ہوں اور احسن طریقے سے معاشی فلاح ، بہبود کے لیے سرگرم اور متحرک ہوں، اس لیے کسی کے ذاتی فعل یا پسندوناپسندکر براہِ راست اسلام کے ساتھ جا کر نتھی کردینا سوائے تعصف اور تنگ ذھنی کے کچھ نہیں ہے۔
ڈائریکٹرمنھاج القرآن علامہ محمد اقبال فانی نے اپنی گفتگو میں معتریضین کی طرف سے اٹھائے گئے مختلف ابہامات کا جواب دینے سے پہلے ان کا شکریہ اداکیا کہ وہ ان سوالات کا صحیح جواب لینے کے لیے ایک صحیح مرکز پرآئے ہیں۔ اگر ہم اپنے دل ودماغ کو کھلا رکھیں اور لوگوں کے اڑائے گئے غبارپراپنی رائے قائم کرنے کی بجائے اسلام کی تعلیمات کوبراہِ راست اسلام کے بنیادی ذرائع سے سمجھیں تو التباسات پیدا ہی نہ ہو۔ انھوں نے کہا کہ اسلام سراسر امن، رحمت، پیار اور محبت کا دین ہے۔ اورنبی اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے امن قائم کرنے اور ایک اچھا معاشرہ بنانے کے لیے کہ نہ صرف مدینہ یہود ونصاری بلکہ دیگر غیر مسلم اکائیوں کے ساتھ بھی معاہدات کیے ہیں، اور ایک دوسرے کی مذہبی روایات کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔ Arne Tumy کے اس اعتراض کو رد کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ کہنا کہ قرآن شدت اور انتہاء پسندی کی تعلیم دینا ہے محض قرآن کو نہ پڑھنے کی وجہ سے ہے۔ قرآن مجید کی 6666 آیات میں سے صرف 36 آیات میں جہاد کالفظ استعمال ہوا ہے، اور ان 36 آیات میں بھی فقط دو ایسی ہیں جہاں جہاد اور قتال کو جمع کیاگیاہے، اور وہ دو بھی ذاتی تحفظ کا حق دیتی ہے، اور یہ حق نہ صرف دنیا کے تمام دساتیر بلکہ اقوامِ متحدہ کا دستور میں قبول کرتا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کے فتوے کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہم پوری دنیا میں امن کے پیامبر ہیں، اور ہر قسم کی شدت پسندی کا مقابلہ کررہے ہیں۔ اس لیے جو کوئی اس اعلیٰ مقصد کے لیے کام کرنا چاہتا ہے ، وہ ہمارا ساتھ دے۔
صدر منھاج القرآن اعجازاحمدوڑائچ صاحب نے پروگرام کی نظامت کے فرائض کو بہت عمدگی سے نبھایا، جس سے پورے پروگرام کا ماحول مثبت اور اچھا رہا،اور منھاج القرآن انٹرنیشنل ناروے حقیقی اسلام کا پیغام ان تک پہنچانے میں کامیاب رہا۔ پروگرام کے آخر پر صدر اعجاز احمد وڑائچ نے مہمان تنظیم کا اور مہمانوں کا شکریہ ادا کیا جبکہ مہمانوں نے میزبانوں کا شکریہ ادا کیا۔اس پروگرام کی رپورٹ کو ناروے کے تمام بڑے اخبارات نے شائع کیا۔
رپورٹ: قیصرمحمود
تبصرہ