ریاست اگر برابری کی بنیاد پر دہشت گردوں سے مذاکرات کرے تو یہ حکومت کی نا اہلیت ہو گی۔ ڈاکٹر طاہر القادری
دہشت گردوں کی قوت اور طاقت کو توڑے بغیر ان سے مذاکرات کرنا قرآن
اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق نہیں
بدقسمتی سے حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں نے اللہ رسول کے حکم کے مطابق یہ اسوہ اپنایا
ہی نہیں
امریکہ کی غلامی اور اس سے جنگ میں نہیں جانا چاہیے، اپنی خود مختاری اور ملکی سا لمیت
کا سودا نہیں ہونا چاہیے
پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا ہے کہ ریاست اگر برابری کی بنیاد پر دہشت گردوں سے مذاکرات کرے تو یہ حکومت کی نا اہلیت ہو گی، دہشت گرد پہلے ہتھیار پھینکیں، پر امن راستہ اختیار کریں اور اگر وہ پھر مذاکرات کی شکل میں کوئی مطالبات رکھیں تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ انکی بات سنی جائے۔ جائز بات کو مانا جائے اور ناجائز کو رد کر دیا جائے۔ دہشت گردوں کی قوت اور طاقت کو توڑے بغیر ان سے مذاکرات کرنا قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق نہیں ہے۔ بدقسمتی سے حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں نے اللہ رسول کے حکم کے مطابق یہ اسوہ اپنایا ہی نہیں۔ اگر دہشت گردوں سے مذاکرات کرنے ہیں تو پھر چوروں، ڈاکوؤں، قاتلوں کو جیلوں میں کیوں ڈال رکھا ہے؟ ان پر مقدمات کیوں چل رہے ہیں ؟ان سے بھی مذاکرات کئے جائیں۔ قانون اور عدالتیں ختم کر دی جائیں اور ہر معاملہ مذاکرات کے ذریعے طے کیا جائے، مذاکرات کرنا جائز ہیں مگر انکے لئے ایک طریقہ اور وقت ہوتا ہے۔ پہلے ڈاکو، چور، جارح اور باغیوں کی قوت کو توڑا جائے، وہ ریاست کی رٹ کو تسلیم کریں۔ امن کے راستے پرمستقل مزاجی سے آ جائیں، پر امن ہو کر، ہتھیار پھینک کر مذاکرات کی بات کریں۔ دہشت گرد ریاست کے علاقوں پر قابض ہیں، ہزاروں معصوم لوگ انکے ہاتھوں شہید ہو چکے، سینکڑوں ہو رہے ہیں، فوج اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ہزارہ برادری والے میتیں لے کر پانچ پانچ دن تک بیٹھے رہتے ہیں، ان معصوم لوگوں نے کیا جرم کیا ہے انہیں کس گناہ کی سزا دی جا رہی ہے۔ مساجد، امام بارگاہوں، گرجا گھروں اور فوجی چھاؤنیوں پر حملے ہو رہے ہیں، شہریوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ دہشت گرد ریاست کی رٹ کو تسلیم کیے بغیر قوت اور طاقت سے اپنے مطالبات منوانا چاہتے ہیں، ان حالات میں حکمران مذاکرات کی بات کریں تو یہ انتہائی کمزور موقف ہو گا۔ جو لوگ دہشت گردوں سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں در اصل وہ بالواسطہ ان دہشت گردوں کو تحفظ دیتے ہیں، انکی فلاسفی کو تقویت دیتے ہیں۔ دہشت گردی کرنے والے شہید نہیں فساد انگیز ہیں، فتنہ پرور ہیں جو باہر کے ممالک سے پیسہ لے کر اس ملک کا امن برباد کر رہے ہیں وہ دہشت گرد ہیں۔ وہ اس ملک کی نیو کلیئر حیثیت کو نقصان پہنچانے کیلئے راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ وہ مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن میں بذریعہ ویڈیو کانفرنس منہاج القرآن علماء کونسل کے اہم اجلاس سے گفتگو کر رہے تھے۔ اس موقع پر علامہ سید فرحت حسین شاہ، علامہ امداد اللہ قادری، علامہ میر آصف اکبر، علامہ محمد حسین آزاد، علامہ ممتاز صدیقی، علامہ غلام اصغر صدیقی، علامہ عثمان سیالوی اور علامہ لطیف مدنی و دیگر بھی موجود تھے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ پاکستان میں علماء کا ایک طبقہ ہے جو دہشت گردوں کے حوالے سے کوئی واضح موقف اختیار کرنے کی بجائے اگر مگر شروع کر دیتے ہیں۔ گول مول مذمت کر کے سیدھا امریکہ پر چلے جاتے ہیں۔ ایسے نئے مضامین چھیڑ دیتے ہیں جس میں اصل موضوع اور سوالات پیچھے رہ جاتے ہیں اور قوم کو بھول بھلیوں میں الجھا دیتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ مذاکرات کا اصلاً انکار نہیں ہے۔ قوم کو نظریاتی طور پر تقسیم کر کے ابہام پیدا کر دیا گیا ہے۔ امریکہ کی غلامی اور اس سے جنگ میں نہیں جانا چاہیے، اپنی خود مختاری اور ملکی سا لمیت کا سودا نہیں ہونا چاہیے۔ مذہبی لوگ مدرسوں اور تبلیغ کے نام پر ڈالر اور ریال اکٹھے کرتے ہیں۔ جب تک پاکستان میں بیرونی پیسہ آ نا بند نہیں ہو گا اس وقت تک دہشت گردی جاری رہیگی۔ کئی ملک حکمرانوں کو اقتدار کی کرسی پر بٹھانے میں مدد دیتے ہیں۔
تبصرہ