عوام کے بنیادی آئینی حقوق کی آگاہی میں قائد انقلاب کا کردار - (شیخ عبدالعزیز دباغ)
عالمی منظر نامہ اور اسلامی تشخص سے آگہی کا محاذ
9/11 کے بعد امریکہ نے دنیا بھر میں بالعموم اور عالم اسلام میں بالخصوص القاعدہ کی بیخ کنی کا اعلان کر دیا اور القاعدہ کو امت مسلمہ کا نمائندہ جانتے ہوئے اسلام کو دہشت گردی کا مذہب قرار دینے کے لئے مغربی میڈیا پر اسلام فوبیا کا محاذ کھول دیا۔ امریکی ٹی وی چینلز پر مسلح دہشت گردوں کو انٹرویو کے لئے بٹھا دیا جاتا اور ان سے شریعت کے نفاذ پر سوالات پوچھے جاتے اور یوں مسلمانوں کے بارے میں امن دشمن اور انتہاء پسندی کا تاثر عام ہونے لگا۔ اس اقدام سے اسلام کے دینِ امن ہونے کے تشخص پر کاری ضرب لگی۔ امریکہ اور یورپی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کا جینا دوبھر ہوگیا۔ دہشت گردوں کوجہادی کا نام دے کر اسلام میں جہاد کے تصور کو مسخ کیا گیا۔ توہین آمیز خاکوں، فلموں اور کارٹونوں کی اشاعت کے واقعات ہونے لگے جن کے خلاف عالم اسلام میں شدید غم و غصے کا اظہار ہوتا اور اس ردِ عمل کو ان کے انتہا پسندانہ رویے کی دلیل بنا کر پیش کیا جانے لگا۔ اس طرح مسلمانوں کے خلاف نفرت کلچر کی وباء پھوٹ پڑی اور امن عالم بڑے خطرے سے دوچار ہوگیا۔
تحریک منہاج القرآن، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی سرپرستی اور رہنمائی میں دنیا کے 90 ممالک میں اپنا تنظیمی وجود رکھتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے کوشاں ہے کہ دنیا کے ہر معاشرے میں اسلام کے صحیح تشخص کو اجاگر اورعام کیا جائے اور مختلف معاشروں میں آباد مسلمانوں کو مقامی آبادی کے ساتھ وحدت کے رشتے میں پرویا جائے۔ 9/11 کے بعد پیدا ہونے والی تشویش ناک صورتحال میں شیخ الاسلام نے اسلام کے دین امن کے صحیح تشخص کے دفاع میں بھرپور جدوجہد کی منصوبہ بندی کی اور وہ اسلام کے تصور امن کے پرچار اور مغربی معاشروں میں مسلمانوں کی Integration کے محاذوں پر کمربستہ ہوگئے۔ چنانچہ مجلہ منہاج القرآن کے 2010ء اور اس کے بعد کے شماروں کا بغور مطالعہ کریں اور minhaj.org کے ہوم پیج اور دیگر websites کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ شیخ الاسلام امن کے فروغ اور اسلام کے حقیقی تشخص کی بحالی کے لئے مسلسل سفر میں ہیں۔ اگر آپ کے ہوائی اسفار کے فضائی اوقات کو جمع کیا جائے تو یہ کئی سالوں پر محیط ہوگا۔ آپ نے بنیاد پرستی کا قلع قمع کرنے کے لئے Deradicalization کے لئے تربیتی ورکشاپس کا سلسلہ بھی شروع کیا۔۔۔ دہشت گردی کے خلاف کانفرنسیں منعقد کیں۔۔۔ مذہبی انتہاء پسندی کے ماحول میں عقائد صحیحہ کا دفاع کیا۔۔۔ محبت اور رواداری کے فروغ کی کاوشیں کیں۔۔۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے تحریکی فورم بنایا اور یہاں تک کامیابیاں حاصل کیں کہ آج گرجا گھروں میں محافلِ میلاد کا انعقاد بھی کیا جانے لگا ہے۔۔۔عالم اسلام کے اس بطلِ جلیل نے مسلمانوں کی غیر مسلم معاشروں میں معاشرتی وحدت قائم کرنے کا تاریخی کردار ادا کیا۔ مقامی معاشروں اور رہنماؤں کو ا سلام اور مسلمانوں کے مذہبی رویوں کی قیامِ امن میں افادیت کے پہلو سے روشناس کرایا۔۔۔ مختلف مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کو ان معاشروں میں Integrate کرنے کے لئے تربیتی کیمپس لگائے۔۔۔ لٹریچر تخلیق کیا۔۔۔ ورکشاپس کیں اور ضبط نفس کے حصول کے لئے نوجوان نسل کو تصوف کی تعلیمات کی تربیت کے مراحل سے گزارا اور اس مقصد کے لئے ھدایہ کیمپس باقاعدگی سے منعقد کئے۔۔۔ نوجوانوں کو Moderation اور Tolerance کے راستے پر چلانے کے لئے مربیانہ انقابی کردار ادا کیا۔۔۔ عملی محاذ پر اپنی بصیرت کی وہ شمعیں روشن کیں جس سے غیر مسلم دنیا میں اسلامی تہذیب کے خدوخال جھلملانے لگے۔
دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے خلاف عالمی سطح پر شیخ الاسلام کی مصروفیات فتح و کامرانی حاصل کرنے کے لئے ایک ایسے جرنیل کی طرح تھیں جو خود ہی فوج ہو اور خود ہی سپہ سالار۔۔۔ جسے خود ہی اپنے اسلحہ کا حصول بھی ممکن بناتا ہو اور اس کو بروقت صحیح نشانے پر داغنے کا کام بھی خود ہی کرنا ہو۔۔۔ اس چومکھی جنگ میں شیخ الاسلام نے فتح کے وہ جھنڈے گاڑے کہ مغربی دنیا اسلام کو دین امن کی حیثیت سے ماننے پر مجبور ہوگئی۔۔۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف آپ کے فتویٰ کو اپنی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل کیا۔ مختلف سربراہان مملکت آپ سے مشاورت بھی کرنے لگے اور امریکن تھینک ٹینک آپ کو مدعو کر کے آپ کے خیالات سے مستفید ہونے لگے۔اس سلسلے میں جہاد کے موضوع پر جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں آپ کا یادگار خطاب خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
یہ اسلامی تشخص سے آگہی کی وہ عالمی جنگ تھی جو آپ نے تنہا لڑی اور پریشان حال مسلمانوں کو تحفظ اور سلامتی کی نعمت سے ہمکنار کیا۔
دہشت گردی کے خلاف اور بیدارئ شعور کیلئے عظیم جدوجہد
عالمی محاذ سے کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد شیخ الاسلام نے مملکت خداداد پاکستان میں درآنے والے دہشت گردی و انتہاء پسندی کے عذاب سے عوام پاکستان کو بچانے اور ملک کے غریب، مظلوم اور مقہور عوام کو تحفظ، رہنمائی، قوت اور کامیابی کا زینہ فراہم کرنے کے لئے اپنا فیصلہ کن کردار ادا کرنے کا عزم کیا۔ اب یہاں سے قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا انقلابی کردار نکھر کر سامنے آتا ہے۔ چنانچہ دنیا بھر میں ملت ا سلامیہ کے مفادات ، دینِ اسلام کے تشخص کے تحفظ اور غیر مسلم ممالک میں آباد مسلمانوں کی نئی نسل کی کماحقہ نظریاتی، اخلاقی اور روحانی تربیت کرنے کے بعد قائد انقلاب اپنے وطن کے مظلوم عوام کی طرف راجع ہوئے اور بیس کروڑ عوام کو ان کے حقوق سے آگاہی اور ان حقوق کے حصول کے لئے انقلابی جدوجہد کا معرکہ برپا کرنے کے لئے آپ نے پاکستان واپس آنے کا پروگرام ترتیب دیا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری مدظلہ نے کینیڈا سے براہ راست رابطہ کرتے ہوئے 19 نومبر 2011ء کو لاہور کے ناصر باغ اور 20 دسمبر 2011ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں بیدارئ شعور کے عظیم اجتماعات سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے پوری قوم کے ذہن میں اپنے آئینی حقوق سے آگاہی اور ان کے حصول کی جنگ کی تخم ریزی کی۔ بعد ازاں الیکٹرانک میڈیا پر انٹرویوز کی یلغار کر دی جس سے آگہی کا سورج پوری آب و تاب سے طلوع ہونے لگا اور لوگ ایک منزل سے آشنا ہونے لگے۔
یہ دسمبر 2012ء کی بات ہے کہ 2009ء کو کینیڈا تشریف لے جانے کے تقریباً چار سال بعد آپ وطن واپس آئے اور مینار پاکستان پر لاکھوں ہم وطنوں کی طرف سے اپنے استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان کردیا۔ یہ بظاہر تو جشن استقبال تھا لیکن درحقیقت عوام نے اپنے قائد کے لئے اپنے دلوں میں اٹھنے والے محبت کے طوفان کو شدید سردی میں بھی ایک الاؤ کی صورت روشن کردیا۔ جب آپ نے لوگوں سے عہد وفا لیا تو لوگ جھوم جھوم اٹھے اور ان کی یہ کیفیت لانگ مارچ سے بھی اظہر من الشمس ہوگئی جب برستے اولوں میں بھی مردو زن جوان، بوڑھے بچے سب استقامت کا پہاڑ بن کر جم کر بیٹھے رہے۔ یہ لانگ مارچ تاریخ کا ایک انوکھا اور ریکارڈ مارچ تھا جس میں کوئی پتا بھی نہ ٹوٹا، کوئی گملا بھی نہ ٹوٹا اور ملک کی دولت کو لوٹنے والے اور عوام کو ان کے بنیادی آئینی حقوق سے محروم کرنے والے حکمران دم بخود رہ گئے۔ اس جدوجہد کے دوران قائد انقلاب نے حکمرانوں کے سامنے چند مطالبات رکھے۔
مطالبات سادہ، سمجھنے میں آسان اور آئینی تھے کہ عوام پاکستان کو وہ انتخابی نظام قبول نہیں جو آئین کی دفعات 62، 63 اور 218 کی خلاف ورزی سے وجود میں آیا ہے۔ لہذا 11 مئی 2013ء کو ہونے والے انتخابات کے لئے یہ لازم ہے کہ انتخابی نظام Electoral System کو آئینی دفعات کے تابع کیا جائے، نمائندوں کی جانچ پڑتال ہو، صادق اور امین نمائندے انتخابات لڑیں اور ایسے لوگ جو کرپشن کرتے رہے ہوں، سزا یافتہ ہوں یاجو ٹیکس نادہندہ ہوں اور جن کے اثاثہ جات کا کوئی ریکارڈ نہ ہو انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہ دی جائے۔ اس کے علاوہ ایک بنیادی نکتہ یہ بھی تھا کہ پاکستان الیکشن کمیشن کی آئین پاکستان کے مطابق تنظیم نو کی جائے کیونکہ اس میں صوبوں کے ایسے نمائندوں کو ممبر بنایا گیا ہے جو حکمران جماعتوں کے باہمی گٹھ جوڑ سے مقرر کئے گئے ہیں اور جو انتخابی عمل کو شفاف نہیں رہنے دیں گے۔
لانگ مارچ کے نتیجے میں جو معاہدہ طے ہوا اس پر حکمرانوں نے عمل درآمد نہ کیا۔ سپریم کورٹ میں براجمان چیف جسٹس نے بھی پہلو تہی سے کام لیا اور حکمران جماعت اور اپوزیشن کے مک مکا کے معاون و مددگار بن گئے۔ اس صورت حال میں آپ نے اعلان کر دیا کہ ہونے والے عام انتخابات کسی طرح بھی شفاف نہیں ہو سکتے، وسیع پیمانے پر دھاندلی ہو گی اور عوام کا مینڈیٹ چوری کیا جائے گا اور ایسی حکومت وجود میں آئے گی جو لوٹ مار کے ایجنڈے پر کام کرے گی اور مملکت خداداد پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائے گی۔ لہذا پاکستان عوامی تحریک 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کرتی ہے۔
عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کے باہمی گٹھ جوڑ اور مک مکا کے باوجود قائد انقلاب نے ہمت و حوصلہ نہ ہارا بلکہ اس استحصالی اور جابرانہ سیاسی نظام کے خلاف اپنی انقلابی جدوجہد کو مزید تیز کردیا۔ ایک طرف آپ حسب سابق ٹی وی انٹرویوز، خطابات اور تحریروں کی مدد سے عامۃ الناس کو ان کے بنیادی آئینی حقوق سےآگاہ کرتے رہے اور دوسری طرف 11 مئی 2013ء عام انتخابات کے دن آپ نے وطن عزیز کے 60 بڑے شہروں میں احتجاجی کیمپس لگائے۔ جہاں ووٹرز ووٹ ڈال رہے تھے وہاں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان عوام الناس کو قائد انقلاب کا یہ پیغام پہنچا رہے تھے کہ ’’ہونے والے انتخاب ان کے آئینی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا ایک مکروہ کھیل ہے‘‘۔ یہ یقیناً ایک دلیرانہ اقدام تھا۔ ڈاکہ زنی ہوگئی، عوام کو ان کے آئینی حقوق سے مکمل طور پر محروم کر دیا گیا اور ہر کوئی یہ پکار اٹھا ’’طاہرالقادری ٹھیک کہتے تھے‘‘۔
بنیادی آئینی حقوق کی بحالی کی جدوجہد
عوام الناس کو اُن کے بنیادی حقوق سے آگہی کی بھرپور عملی جدوجہد کا فیز 1، انتخابات 2013ء تک تھا۔ جس کے دوران اس فرسودہ سیاسی نظام کی جڑیں اکھاڑنے اور بیدارئ شعور کے لئے قائد انقلاب اور کارکنان تحریک نے عوام پاکستان کے ساتھ مل کر بھرپور کردار ادا کیا۔ انتخابات کے بعد بھی انٹرویوز، خطابات، ورکرز کنونشنز اور اجتماعات کے ذریعے بیداری شعور کا سلسلہ قائد انقلاب کی طرف سے جاری رہا۔ عوام الناس، میڈیا جانبدار حلقے قائد انقلاب کے دیئے گئے ایجنڈے کو حق بجانب سمجھتے ہوئے اس کے حق میں اپنی آواز بلند کرنے لگے۔ چنانچہ حکمرانوں نے خطرے کو بھانپتے ہوئے جبرو تشدد کے ذریعے انقلابی کارکنان کو کچلنے کی حکمت عملی تیار کر لی۔ نتیجتاً 17 جون2014ء کو ماڈل ٹاؤن میں PAT کارکنان پر گولیاں برسائی جاتی ہیں۔ اس سفاکانہ اور بہیمانہ دہشت گردی کے دوران 14 افراد شہید اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ حکمرانوں کی بدحواسی اور اپنے جعلی اقتدار کے چھن جانے کا خوف انہیں خون کی ندیاں بہانے کے باوجود چین نہیں لینے دیتا اور 23 جون 2013ء کو قائد انقلاب کو اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترنے سے جبراً روکتے ہوئے جہاز کا رخ لاہور کی طرف پھیردیتے ہیں۔
حکمرانوں کی طرف سے کئے گئے یہ جملہ اقدامات قائد انقلاب اور ان کے کارکنان کے لئے وارننگ تھے کہ اگر آپ نے عوام کو اُن کے حقوق سے آگہی اور اقتدار عوام تک پہنچانے کے لئے اپنی انقلابی جدوجہد کو ختم نہ کیا تو ہم کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔ جوں جوں اقتدار کے ایوانوں کی طرف سے ظلم و ستم میں شدت دیکھنے کو آتی ہے، اس سے کئی گنا بڑھ کر قائد اور کارکنان کے جذبات و حوصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔10 اگست یوم شہداء تھا، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے لئے قرآن خوانی کرنے کے لئے آنے والے قافلوں پر بھی گولیاں چلائی گئیں اور درجنوں شہادتیں ہوئیں۔ یوم شہداء پر آپ نے 14 اگست 2014ء کو اسلام آباد کی طرف انقلاب مارچ کا اعلان کردیا۔ حکومتی مظالم مزید بڑھتے ہیں اور 12 اگست سے 14 اگست تک ماڈل ٹاؤن کا محاصرہ کرتے ہوئے پورا لاہور بند کردیا جاتا ہے۔ ماڈل ٹاؤن میں اناج تو دور کی بات ہے پینے کا پانی بھی نہیں آنے دیا جارہا تھا۔ ملک بھر سے کارکنان کی گرفتاریوں کا عمل بھی شروع کردیا جاتا ہے۔ یہ ظلم و ستم، گرفتاریوں، کریک ڈاؤنز کا سلسلہ 10 اگست سے لے کر آج تک قائم ہے۔
ایسی صورت حال میں قائد انقلاب کی قائدانہ ذمہ داری ہزار گنا بڑھ چکی تھی۔ ان دنوں کے ٹی وی انٹرویوز PAT اور MQI کے پاس آگہی کا ایک خزانہ ہے جسے بار بار سنتے رہنا چاہئے۔ آپ کی وہ ساری گفتگو دراصل عوام کے بنیادی آئینی حقوق کے ابلاغ کا وہ موجزن سمندر ہے جس سے عوام الناس کو مستفیض ہونے کا موقع نصیب ہوا۔ اس کا اندازہ کرنے کے لئے اگر آپ صرف 14 اگست کو انقلاب مارچ پر روانہ ہونے سے آدھا گھنٹہ پہلے دی جانے والی پریس بریفنگ سن لیں اور 70دن کے دھرنے کے بعد 21 اکتوبر کو دھرنے سے کیا گیا آخری خطاب سن لیں تو عوام کے بنیادی آئینی حقوق سے آگاہی میں قائد انقلاب کا کلیدی کردار واضح ہو جائے گا۔
٭ آبپارہ (اسلام آباد) پہنچنے کے بعد کے خطابات اور 30 اگست کی رات تک دھرنے کے شرکاء سے آپ کا روزانہ رابطہ ایسے خطابات پر مشتمل ہے جس میں آپ نے کھل کر پاکستانی عوام کو حکمرانوں کے ان ظالمانہ ہتھکنڈوں سے آگاہ کیا جن کے ذریعے وہ عوام کو دھرنے میں آنے سے روک رہے تھے کہ کیسے مختلف قومی شاہراہوں کو کنٹینرز سے بند کردیا گیا، کیسے پولیس نے آنے والے نہتے لوگوں کی گرفتاریاں کیں، 25 ہزار سے زائد کارکنان کو جیلوں میں بند کردیا اور انہیں مارا پیٹا ، لہولہان کیا بلکہ اپاہج تک کردیا۔ جو پہنچ چکے تھے انہیں اشیائے خوردونوش تک رسائی سے کیسے محروم رکھا جارہا تھا، ان پر ماڈل ٹاؤن سٹائل حملے کی تیاری کیسے کی جارہی تھی۔ قائد انقلاب نے عوام کو اپنی روزانہ کی پریس بریفنگ کے ذریعے اور خطابات کے ذریعے ہر بات سے آگاہ رکھا اور انہیں رہنمائی دی کہ انقلاب کے اس مرحلے میں انہیں کیا کرنا چاہئے۔ان کی ذہنی، جسمانی اور روحانی توانائیاں کیسے بحال رکھی جا سکتی ہیں ، باہمت، پر عزم اور صاحب استقامت رہنے کے لئے انہیں کیا کرنا ہے اور اپنی حفاظت کے لئے کیا کیا اقدامات ناگزیر ہیں۔ وہ قائد بھی تھے، باپ بھی تھے، مربی بھی تھے اور ایک سپہ سالار بھی۔
حتی کہ 30 اور 31 اگست کی درمیانی خونی رات آگئی اور پھر وہ ہوا جو چشم فلک نے بھی آج تک نہ دیکھا تھا۔ نواز شریف حکومت کے دہشت گردوں نے سیدھی گولیاں ماریں اور زہر آلود آنسو گیس کی شیلنگ کی جس سے 700 سے زائد زخمی اور 10 افراد شہید ہوگئے۔ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ آج بھی سانس کی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ اس قیامت کے دوران اور بعد میں بھی شیخ الاسلام نے عوام کو ان کے آئینی حقوق کے حوالے سے آگاہی اور کرپٹ حکمرانوں کے بہیمانہ عزائم کو بے نقاب کرتے رہنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
آپ نے عوام کو بالخصوص حکمرانوں کی کرپشن سے آگاہ کیا ور انہیں بتایا کہ وہ کس طرح عوام کو قرضوں کے طوفان کی نذر کرچکے ہیں۔ اگر گذشتہ 28 سالوں میں پاکستان کی مختلف حکومتوں نے 6000 ارب روپے قرضہ لیا تھا تو نواز حکومت نے ایک سال میں مزید 6000 ارب قرضہ لے لیا اور اسے بیرون ملک منتقل کرنے کے انتظامات کرلئے۔ اگر وہ قرضہ ملک میں عوام کی بہود کے لئے استعمال کیا ہوتا تو پھر آج بجلی کا بحران، گیس کا بحران، پٹرول کابحران اور اب آٹے کا بحران جیسے مصائب و آلام سے عوام دوچار نہ ہوتے۔
یہی نہیں آپ نے حکمرانوں کی اس لوٹ مار سے بھی پردہ اٹھادیا جو وہ ریکوڈک سونے کی کان بیچ کر حاصل کرنا چاہتے تھے یا جس طرح سٹیل مل کو انہوں نے ٹھپ کردیا۔ PIA اور سول ایوی ایشن کا بیڑا غرق کردیا، Realstate کے دھندے سے پیسہ بنایا۔ بجلی اور گیس کا Tarif سات سو گنا بڑھا دیا اور Taxes کی مد میں عوام کو لوٹ کر کھاگئے۔ حکمرانوں نے کیا کیا ہتھکنڈے اختیار کئے، آپ نے عوام کو سب کچھ بتادیا اور انہیں اس قابل کردیا کہ وہ سوچ سکیں کہ یہ حکمران نہیں لٹیرے ہیں جن سے جان چھڑانے کے لئے ہر ممکن جدوجہد کرنا ہوگی، قربانیاں دینا ہوں گی اور جان پر کھیلنا ہو گا اور عوام یہ سب کچھ کرنے پر تیار تھے کیونکہ اب وہ اپنے حقوق سے کاملاً آگاہ ہو چکے تھے۔
٭ ستمبر2014ء کے پورے مہینے میں دھرنے سے کئے جانے والے خطابات اس آگہی کا روشن باب ہیں جو آپ نے عوام سے آئینی حقوق اور حکومتی کرپشن کے حوالے سے کئے۔ خصوصاً 15 ستمبر کا خطاب جو انٹرنیشنل یوم جمہوریت کے موقع پر ہوا خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ 9 ستمبر کا خطابات اقلیتی حقوق پر تھا، 10 ستمبر سے 20 ستمبر کے خطابات کرپشن سے آگاہی پر تھے اور اس کے بعد کے خطابات آئینی حقوق اور بیرونی قرضوں اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے تھے۔
٭ اکتوبر2014ء کے خطابات انہی حقوق کے حصول کی جدوجہد کے لئے ملک گیر دھرنے کے حوالے سے منصوبہ بندی پر کئے گئے۔اس دوران شیخ الاسلام نے لوگوں کو آگہی دینے کا یہ طریقہ بھی اپنایا کہ مخالفین کے اعتراضات کا تجزیہ آئین پاکستان کی رو سے کرتے اور عوام کو بتاتے کہ آئین کی کون کون سی دفعات کی کن کن طریقوں سے خلاف ورزی کی جارہی ہے ۔ اس طرح یہ حقیقت بھی کھلتی چلی گئی کہ وہ جنہیں قانون ساز کہا جاتا ہے انہیں قانون اور آئین کا کوئی شعور ہی نہیں جو کہ مضحکہ خیز ہونے کی ساتھ ساتھ قومی تحقیر و تذلیل کا باعث بھی ہے۔
شیخ الاسلام کے یہ تمام خطابات ہمیں minhaj.tv کی ویب سائٹ پر مل سکتے ہیں جبکہ minhaj.org پر بھی ان کے Links موجود ہیں۔ اس کے علاوہ انقلاب مارچ سے قبل جولائی 2014ء میں آپ کے 10 روز پر مشتمل چھ خطابات ’’انقلاب کے بعد کا پاکستان کیسا ہوگا‘‘ کو سننا بہت ضروری ہے۔ 11 مئی 2014ء کو 60 شہروں میں سنا جانے والا Video Link خطاب بھی اس سلسلے میں انتہائی اہم ہے۔
روحِ انقلاب اور آگاہی حقوق کی پیغمبرانہ جدوجہد
انقلاب کی قرآنی اور دینی تاریخی اہمیت کو سمجھنے کے لئے اگر 23 جولائی 2014ء کا لیلۃ القدر کا خطاب سنا جائے تو ہر عام و خاص جان جائے گا کہ عوام کے بنیادی آئینی حقوق کی بحالی کا پیغمبرانہ پس منظر کیا ہے اور ہمارے ظالم حکمرانوں کو فرعون، ہامان، قارون اور دیگر پیغمبر دشمن کرداروں کے ساتھ کیا نسبت حاصل ہے۔ اس خطاب کا ماحصل یہ ہے کہ
جب حضرت نوح علیہ السلام مبعوث ہوئے تو کفار نے یہ کہہ کر ان کی تضحیک کی کہ معاشرے کا کوئی ایک معتبر اور مالدار شخص بھی ان کے ساتھ نہیں، نہ ہی ان کی اپنی کوئی مالی حیثیت ہے۔ ان کے ساتھ تو معاشرے کے مجبور، مقہور اور غریب عوام ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں۔ دراصل ان کا پیغامِ توحید تھا ہی اس معبود واحد پر ایمان کی دعوت جو مقتدر اعلیٰ ہے اور جس کا حکم یہ ہے کہ غریبوں، محتاجوں، مسکینوں اور یتیموں کے حقوق کو تسلیم کیا جائے کیونکہ وہ بھی یکساں واجب التکریم ہیں، انہیں بھی جینے کا حق ہے، انہیں بھی تحفظ کا حق حاصل ہے، انہیں بھی تعلیم کی ضرورت ہے، ان کی بیماریوں کا بھی علاج ضروری ہے ، انہیں بھی زندگی کی آسائشوں کے حصول کا حق ہے۔ لہذا ارتکاز زر کی لعنت سے معاشرے کو آزاد کیا جائے اور تمام عوام کو ان کے معاشرتی، معاشی، سیاسی، سماجی اور قانونی حقوق دیئے جائیں اور ان کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ اپنے مسائل خود حل کرنے کے لئے فیصلے خود کریں اور وسائل تک ان کی رسائی ہو کہ وہ غربت سے نجات پائیں۔
حضرت صالح علیہ السلام کے ساتھ ان کی قوم نے وہی سلوک دہرایا اور بعد میں آنے والے تمام انبیاء کے ساتھ یہی سلوک کیا گیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فرعون کے خلاف پیغمبرانہ جدوجہد کا تذکرہ قرآن پاک میں سب سے زیادہ ملتا ہے۔ فرعون تو اس حد تک چلا گیا کہ وہ بنی اسرائیل کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا اور لڑکوں کو تہ تیغ کردیتا۔ بالآخر اسے اس کے ظالم ساتھیوں وزیروں اور لوگوں کے ساتھ غرق کر دیا گیا۔
اللہ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت حق دی تو کفار مکہ آپ کے جانی دشمن بن گئے وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہ تھے کہ غریبوں اور محتاجوں کو ان کے حقوق دیئے جائیں جبکہ سورۃ الماعون میں مذکور فرمان کی روشنی میں یہ واضح تھا کہ یتیموں اور محتاجوں کو ان کے حقوق کا نہ دیئے جانا دین کو جھٹلانا ہے۔
ہجرت مدینہ کے بعد میثاق مدینہ سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین کی مالی، معاشی ، کاروباری اور معاشرتی مشکلات کا خاتمہ کرنے کے لئے مواخات پر عمل کروایا۔ ایک انصاری کو ایک مہاجر کا بھائی بنادیا۔ دونوں میں گھر بار کی شراکت لازم قرار دی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست مدینہ میں نہ کوئی بھوکا رہا، نہ کوئی بے روزگار۔ تجارت کو فروغ ملا حتیٰ کہ مہاجرین و انصار یکساں متمول ہوگئے۔
یہی نہیں بلکہ آپ نے اختیارات بھی عوام الناس تک تفویض فرمادیئے۔ دس دس کے گروپ پر ایک نقیب اور دس دس نقیبوں پر ایک ایک عریف مقرر کردیا جیسے آج کے دور میں یونین کونسلز میں کونسلرز ہوتے ہیں اور ان پر میئر اور لارڈ مئیرز ہوتے ہیں۔ اس طرح سب لوگ اپنے اپنے مسائل خود حل کرنے لگے اور وسائل ہر کسی کی دسترس میں چلے گئے۔ خلفائے راشدین نے بھی اپنے اپنے ادوار میں انہی اصولوں کو اپنایا جس سے ہر شہری کو اس کے تمام حقوق میسر آنے لگے۔
یہ وہ طرز حکومت ہے جس کے تحت وسائل عام انسانوں تک پہنچ جاتے ہیں اوروہ اپنے مسائل کو خود حل کرنے لگتے ہیں اور ہر طرف خوشحالی پھیلانے لگتی ہے۔ قائد انقلاب نے اس پورے عرصے میں دھرنے کے شرکاء کو بالخصوص اور 18 کروڑ پاکستانیوں کو بالعموم الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے آئین پاکستان 1973ء میں موجود پہلی 40 دفعات میں درج ان کے بنیادی آئینی حقوق روزانہ خطابات کے ذریعہ ازبر کرادیئے۔ حتیٰ کہ اگر کسی ان پڑھ سے بھی پوچھیں کہ سیکشن 5 میں کیا لکھا ہے۔۔۔؟ 8 میں کیا درج ہے۔۔۔؟ سیکشن 25 کا موضوع کیا ہے تو وہ فوراً یوں بتادے گا جیسے وہ بچپن ہی سے سب کچھ جانتا ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ حکومت کس طرح انہیں حقوق سے محروم کئے ہوئے ہے تو وہ رقوم تک بتادیں گے کہ اتنے کروڑ یا اتنے ارب کی لوٹ کھسوٹ ہوئی ہے۔۔۔ فلاں نے کی ہے اور اس طریقے سے کی ہے۔۔۔ اتنا بیرونی قرضہ ہے، اتنا گردشی قرضہ ہے۔۔۔ بجلی کے بحران کی یہ وجوہات ہیں اور پٹرول کے بحران کے پیچھے یہ عوامل کار فرما ہیں۔
یہ ہے وہ بیدارئ شعور جو قائد انقلاب کی انقلابی جدوجہد کا ماحصل ہے۔ یہ ہے عوام کو ان کے بنیادی آئینی حقوق سے وہ آگہی جسے اب ان سے کوئی چھین نہیں سکتا اور اب آئندہ ہونے والے انتخابات کو دھاندلی سے پاک رکھنے اور صادق اور امین نمائندوں کو اسمبلیوں تک لے جانے کے لئے عوام کو کیا کرنا ہے، اس سے وہ بخوبی آگاہ ہیں۔
ہمہ جہت شخصیت
اس موقع پر یہ امر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ قائد انقلاب ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں اور ان کی ہمہ جہتی آپ کی شخصیت کا وہ نمایاں پہلو ہے جس کے بغیر آپ کی شخصیت کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر آپ کی جدوجہد پر طائرانہ نگاہ دوڑائی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں اسلامی تعلیماتِ امن کے فروغ پر بھی عمل ہو رہا ہے اور پاکستان میں داخلی محاذ پر corrupt electoral systemکے خلاف عملی جدوجہد بھی جاری ہے۔۔۔ عوام کو ان کے ان بنیادی آئینی حقوق سے بھی آگاہ کیا جا رہا ہے۔۔۔ ظالم حکمرانوں کی دھوکہ دہی کے طریقے بھی بے نقاب کررہے ہیں۔ قائد انقلاب جہاں پاکستان میں رائے عامہ کی تربیت کو اپنا مطمع نظر بناچکے ہیں وہاں وہ امت مسلمہ کے لئے اپنی اس منصبی ذمہ داری سے لمحہ بھر کے لئے بھی غافل نہ ہوئے کہ آپ نے رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مقدسہ کی تدوین نو کرنی ہے اور اس کی اشاعت کا منصوبہ بھی پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ قارئین کے لئے یہ امر یقینا باعث حیرت ہوگا کہ ایک طرف وہ لندن Wembley Hall میں Peace for Humanity Conference جیسے عالمی اجتماع میں مذاہب عالم کے رہنماؤں کو ساتھ لے کر اسلام کا مذہب امن کے طورپر پرچار کررہے ہیں تو دوسری طرف یورپ کے قارئین کو Muhammad the Merciful، Islam on Mercy & Companion, Supreme Jihad اور Relations of Muslims and non-Muslim اور Muhammad the Peace Maker جیسی شہرہ آفاق کتب کا تحفہ بھی دے رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 30,000 احادیث پر مشتمل دور حاضر کی علمی، معاشی، معاشرتی، سیاسی اور قانونی ضروریات کے مطابق تدوین نو اور نئی ابواب بندی کے ساتھ 15 جلدوں پر مشتمل معارج السنن کے نام سے ایک Compendium بھی تیار کر رہے ہیں۔
اپنی اس انقلابی جدوجہد کے دوران جہاں آپ نے عوام پاکستان کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا اور دھرنے کی صورت میں اپنا رابطہ قائم کررکھا تھا اور عوام کو آئین پاکستان میں موجود آئینی حقوق سے آگاہی کی تربیت بتدریج دیئے چلے جارہے تھے وہاں معارج السنن کی جلدوں کی تدوین کے کام کی سرپرستی فرماتے ہوئے فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ریسرچ سکالرز کے ساتھ تقریباً روزانہ چار چار گھنٹوں کی نشستیں بھی کررہے تھے۔ ناسازی طبع اور ڈاکٹرز کی ہدایات کے باوجود اپنی ذمہ داریوں کا احساس و ادراک کرتے ہوئے شیخ الاسلام عوامی رابطے اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو دی جانے والی ہدایات کے کام کو منقطع نہ کرسکے اور تکلیف جھیلتے رہے۔ آپ کے انہماک، آپ کی مصروفیت، آپ کی توانائی اور ہمہ وقت تازگی ایک غیر مرئی معاملہ ہے جو کہ ایک راز ہے۔ میں گذشتہ 17 برس سے آپ کو دیکھ رہا ہوں، آپ کا اسٹائل اور اندازِ کار یہی ہے۔ کھانے پینے کا کوئی ہوش نہیں۔۔۔ دن رات تحقیقی کام بھی جاری ہے۔۔۔ تخلیقی کام بھی جاری ہے۔۔۔ تنظیمی امور ترتیب پارہے ہیں۔۔۔ عالمی شخصیات سے رابطے بھی جاری ہیں۔۔۔ دنیا بھر میں موجود تنظیموں سے رابطہ بھی برقرار ہے۔۔۔ الیکشن کمپین بھی جاری ہے۔۔۔ گاڑی میں ریسرچ سکالر اپنے اپنے پراجیکٹ لے کر بھی بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ windowسے لوگوں کے ساتھ خطاب بھی فرمارہے ہیں۔۔۔ گاڑی میں بیٹھے سکالرز کو ہدایات بھی دے رہے ہیں اور ان کا کیا ہوا کام بھی چیک کررہے ہیں۔۔۔ دن گزرا ہے، رات ہوگئی ہے، سیاست دانوں کے ساتھ میٹنگز بھی ہورہی ہیں۔ تصنیفات پر کام بھی ہو رہا ہے۔۔۔ مگر اس دوران صرف صبح کا چائے کا ایک کپ ہی ظاہری طور پر لی گئی غذا ہے۔ سلام ہے، آپ کی عظمت پر کہ اپنے مشن کے ساتھ جدوجہد خلوص اور انہماک کی وجہ سے اس قدر کم خوراک کے باوجود کام کی رفتار کم ہوئی ہے نہ چہرے میں تازگی اور بشاشت میں کوئی فرق آیا ہے۔ اللہ کریم اپنی رحمت سے شیخ الاسلام کو صحت کاملہ عطا فرمائے اور آپ کا سایہِ شفقت ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
تبصرہ