رمضان المبارک: روحانی و معاشرتی اثرات اور تاریخی ایام
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو جن عبادات کے کرنے کا حکم دیا ہے ان کا مقصد محض پوجا پاٹ اور چند مخصوص حرکات کی صورت میں چند رسومات کی ادائیگی نہیں ہے بلکہ ان سب میں انسانی جسم و روح کی اصلاح اور بالیدگی کا ایک تصور کارفرما ہے۔ ان میں روحانی و مادی ہر دو اعتبار سے ایک فکر اور فلسفہ کارفرما ہے۔ ان سے کچھ مقاصد وابستہ ہیں جن کی تکمیل سے خالق کائنات اپنی شاہکار تخلیق انسان کی خاص نہج پر تربیت کرکے اسے مقامات علیا پر فائز کرنا چاہتا ہے۔ اس شہباز فطرت کو عالم ناسوت سے نکال کر عالم لاہوت و ملکوت میں محو پرواز کرنے کے لئے اس کے ظاہر و باطن کی تطہیر اور تزکیہ اولین شرط ہے۔ اس لئے خلّاقِ عالم نے اپنی قدرتِ تخلیق کے اس شاہکار کو نظام عبادات کی صورت میں ایک ایسا تربیتی نظام دیا ہے جو کسی اور مخلوق کو نہیں دیا گیا۔ الوہی نظام عبادت کے عناصر میں سے روزہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ذیل میں روزے کے روحانی اور سماجی و معاشرتی اثرات کے حوالے سے چند معروضات درج کی جارہی ہیں تاکہ قارئین رمضان المبارک کے ماہ مقدس میں ان میں غوروفکر اور عمل کے ذریعہ سے کماحقہ روزے کے ظاہر و باطنی آداب کو پورا کرکے اس کی حقیقی روحانی برکات سے لطف اندوز ہوسکیں اور انعامات ربانیہ کے حق دار قرار پاسکیں۔
روزے کی روحانی حکمتیں اور ثمرات
ایک زمیندار جب کھیت میں بیج بوتا ہے تو کچھ عرصہ کے بعد زمین سے نرم و نازک اور ملائم کونپلیں نکلتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ زمین میں کچھ خود رو جڑی بوٹیاں بھی پیدا ہوجاتی ہیں جو فصل کی افزائش میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ چنانچہ زمیندار گوڈی کرکے ان کو نکال دیتا ہے۔ اس طرح زمین کی افزائشی صلاحیت پوری طرح سے بیج کی طرف متوجہ ہوتی ہے نتیجتاً فصل عمدہ، بہتر اور نسبتاً زیادہ بھی ہوتی ہے۔ بلاتشبیہ و بلامثال سال بھر میں ایک مہینہ کے روزے نفس انسانی میں پیدا ہوجانے والی روحانی امراض غفلت، ریاکاری، غرور وتکبر وغیرہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ روزے روح کی تقویت اور اخلاق فاضلہ و اعمال صالحہ کی ادائیگی اور ان کی لذت و کیف میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔
ریاکاری کے جذبہ کی نفی
نماز، زکوٰۃ، حج اور دیگر عبادات اپنا ایک ظاہری وجود رکھتی ہیں۔ جن کی ادائیگی سے اکثر اوقات انسان کے اندر دکھلاوا اور ریاکاری کے جذبات بھی فروغ پانے لگتے ہیں، یوں ان سے اخلاص ایسی نعمت جو مقصود عبادت ہے، جاتی رہتی ہے مگر روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ جس سے ریاکارانہ جذبات کی نفی ہوتی ہے۔ اس لئے کہ خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا اور نہ کوئی طریقہ ہے جس سے روزہ دار کسی کو دکھاسکے کہ وہ روزے سے ہے۔ پس یہ اخلاص پر مبنی ایک ایسا معاملہ اور طریقِ بندگی ہے جو روزہ دار اور اس کے خالق کے درمیان ہی ہوتا ہے، کسی دوسرے کو اس کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔
احساس بندگی اور حاکمیت الہٰیہ
بندے کو اس جوادِ مطلق نے طرح طرح کی نعمتوں سے نواز رکھا ہے جن سے وہ فائدہ اٹھاتا اور لطف اندوز ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ان نعمتوں میں جیسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔ خوردونوش سے متعلقہ نعمتوں سے جب چاہتا ہے اپنے ذوق طعامی کی تسکین کرتا ہے مگر روزہ ایک ایسا عملِ عبادت ہے کہ انواع و اقسام کی نعمتیں، مشروبات و ماکولات اس کے سامنے موجود ہوتے ہیں، کوئی روکنے والا بھی نہیں ہوتا لیکن روزہ دار محض اپنے رب کی بندگی کے احساس، اس کی تابع فرمانی اور اس کی خوشنودی کی خاطر غروب آفتاب تک بھوک، پیاس کو برداشت کرتا ہے۔ اس لئے کہ اس کے قلب و نظر اور فکرو احساس پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت یوں غالب ہوتی ہے کہ وہ غروبِ آفتاب سے ایک لمحہ پہلے بھی کچھ کھانے پینے کو اس حاکم مطلق کی نافرمانی سمجھتا ہے۔ وہ خوشی و مسرت کے ساتھ سرافگندگی کے جذبات سے اس لمحہ خیر کا انتظار کرتا ہے کہ جب وہ لذت و فرحت افطار سے شاد کام ہو اور اس منعم حقیقی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اس کی بارگاہ میں کلمہ شکر ادا کرے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو روزے کا مقصود اصلی ہے اور جسے ہر مسلمان کے اندر پیدا کرنا مطلوب ہے کہ انسان اس دنیا میں آتے ہی ایسا روزہ رکھے کہ اس کی افطاری اس کے سفر حیات کے اختتام پر دیدار الہٰی کے ساتھ ہو۔
اخلاق صالحہ کی افزائش
روزے کو اللہ رب العزت نے تزکیہ نفس اور تقویٰ کا عمل قرار دیا ہے۔ حقیقت واقعی یہ ہے کہ اگر انسان ایک مہینہ میں آداب ظاہری و باطنی کو بجالاتے ہوئے اس کے روزے رکھ لے تو پھر اس کی برکات سے بندہ مومن کی سیرت و کردار میں صدق و اخلاص، زہدو ورع، صبرو استقامت، تحمل و برداشت، عبادت و ریاضت ایسے اوصاف پیدا ہوجاتے ہیں جو پورا سال انسان کو بادیہ ضلالت میں بھٹکنے سے بچائے رکھتے ہیں اور انسان استقامت کے ساتھ نیکی و طہارت کی راہ پر چلتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ پھر رمضان مبارک کا مہینہ آجاتا ہے جس میں پھر وہ ایک ماہ کی روحانی ورکشاپ میں تربیت لے کر رحمت خداوندی کے سایہ میں نئے سال میں قدم رکھتا ہے۔
روزے کے سماجی و معاشرتی اثرات
انسان معاشرے کی ایک اکائی ہے، بہت سے انسان ملتے ہیں تو ایک کنبہ وجود میں آتا ہے۔ بہت سے کنبے ملتے ہیں تو قبیلہ بنتا ہے اور متعدد قبائل ملتے ہیں تو معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ جس میں امیر غریب، کمزور و طاقتور، زبردست و زیردست، حاکم و محکوم، صحیح و سقیم ہر قسم کے لوگ شامل ہوتے ہیں اور باہم مل کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ اسباب معاش میں فرق ہونے کی وجہ سے ان کے سماج میں بھی نمایاں فرق اور تفاوت پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں عدم توازن جنم لیتا ہے۔ بہت سے لوگ منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں، انہیں اپنے مال و اسباب کی بھی خبر تک نہیں ہوتی مگر ایسے لوگوں سے عددی اعتبار سے کہیں زیادہ تعداد میں وہ لوگ پائے جاتے ہیں جو دو وقت کی روٹی کو بھی ترستے ہیں۔
اسلام کے عطا کردہ نظام عبادت میں جہاں ہر مسلمان کے لئے انفرادی طور پر عبادت و بندگی کے ذریعہ قرب خداوندی پانے کا حکم ہے وہاں اجتماعی طور پر پورے معاشرے میں بندگی و عبادت کے عملی اظہار کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے کہ جس سے افراد معاشرہ میں ممکنہ حد تک توازن پیدا ہو اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل پائے کہ جس میں ہر مسلمان خودی و خودداری کے مستحسن احساس کے ساتھ زندگی بسر کرسکے۔ اس حوالے سے روزے کے چند اہم سماجی و معاشرتی اثرات مختصر نکات کی صورت میں ملاحظہ ہوں:
1۔ روزہ رکھنے سے اہل ثروت کے دلوں میں اکثر فاقہ سے رہنے والے دوسرے انسانوں کے لئے ہمدردی اور غم خواری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں کیونکہ وہ روزہ کی صورت میں عملی طور پر بھوک اور پیاس کے تجربہ سے گزر رہے ہوتے ہیں۔
2۔ بھوک اور پیاس کا یہ تجربہ انہیں غریبوں اور حاجت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ان کی مدد پر ابھارتا ہے۔ اس ماہ مبارک میں جواد و کریم آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سخاوت کا ذکر کرتے ہوئے سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سخاوت موسلا دھار بارش کی مانند ہوتی تھی۔ حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں یوں تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سب لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے مگر ماہ رمضان میں جب جبرائیل امین آپ سے ملاقات کرتے تو عام دنوں کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی۔ (ظاہر ہے کہ یہ سخاوت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اپنی امت کے غرباء پر ہی تھی)۔
3۔ ماہ رمضان میں بالعموم لوگ صدقہ فطر کے علاوہ زکوٰۃ کی ادائیگی اور عام صدقہ کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ یوں ایک طرف دلوں سے دنیا کی محبت نکلتی ہے تو دوسری طرف صدقہ و زکوٰۃ کی ان رقوم سے غریب اور مفلوک الحال لوگوں کی مالی حالت بھی بہتر ہوتی ہے اور وہ معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح معاشرے میں معاشی عدم توازن میں کمی واقع ہوتی ہے۔ ماہ رمضان میں صدقہ و خیرات کی رغبت دلاتے ہوئے اس کے اجر و ثواب میں بھی اضافہ کردیا جاتا ہے۔
4۔ روزہ رکھنے سے انسان کے اندر احساس ذمہ داری پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح ایک اچھا معاشرہ تشکیل پاتا ہے جس کے افراد کے اندر اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو پورے طور پر ادا کرنے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
5۔ ماہ رمضان میں سحری و افطاری کی اوقات کار کے مطابق انجام دہی وقت کی پابندی کا درس ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ وہی قومیں ترقی و عروج کی منزل نشیں ہوتی ہیں جو وقت کی قدر کو پہچانتی ہیں اور اپنے فرائض کو وقت پر ادا کرتی ہیں۔
6۔ ماہ رمضان میں معاشرے کی اخلاقی، قانونی، تہذیبی اور اجتماعی اصلاح کی فضا پیدا کرتا ہے۔ مسلم معاشرے کے تمام افراد کے اندر زبردست جماعتی احساس پیدا کرتا ہے۔
7۔ روزہ امت مسلمہ میں ایک عالمگیر برادری کے احساس کو پختہ کرتا ہے۔
8۔ نسلی اور طبقاتی تفاخر کو ختم کرنے میں روزہ اہم ترین کردار ادا کرتا ہے کہ جب افطاری کے وقت امیر و غریب سب ایک دستر خوان پر جمع ہوکر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوکر خوشی و مسرت کی فضا میں روزہ افطار کرتے ہیں۔
9۔ روزہ معاشرے میں رہتے ہوئے روزہ داروں کو ایک دوسرے کی تکلیف کا احساس بھی دلاتا ہے اور پھر تکلیف میں مبتلا دوسرے بھائی کو اس سے نجات دلانے کے لئے اس کی مدد کرنے کے جذبات کو ابھارتا ہے۔
رمضان المبارک میں تاریخی ایام
رمضان المبارک فی نفسہ جہاں اپنے اندر بہت سی خیرو برکت رکھتا ہے وہاں تاریخ اسلام کے بہت سے واقعات کی مناسبت سے اس ماہ مقدسہ میں مختلف تقریبات کا انعقاد اسلاف امت کا معمول رہا ہے۔ ذیل میں ان میں سے چند تقریبات کا مختصر ذکر برائے افادہ درج کیا جاتا ہے۔
1۔یوم سیدہ فاطمۃ الزہرہ (3 رمضان المبارک11ھ)
سیدۃ النساء العالمین، نور دیدہ رحمۃ للعالمین حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سب سے لاڈلی اور چہیتی صاحبزادی تھیں۔ آپ کی ولادت 39 نبوی میں ہوئی۔ آپ کا لقب زہرہ، بتول ہے۔ آپ کا نکاح 18 سال 5 ماہ کی عمر میں حضرت علی کے ساتھ ہوا۔ حضرت سیدہ فاطمہ شکل و صورت اور سیرت و کردار میں اپنے والد گرامی تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کمال درجہ مشابہت رکھتی تھیں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:
’’طور و طریق کی خوبی، اخلاق و کردار کی پاکیزگی اور نشست و برخاست کی شائستگی میں، میں نے فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے زیادہ کسی اور کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مشابہ نہیں دیکھا‘‘۔
کتب حدیث میں آپ کے فضائل اتنی کثرت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں کہ ان سب کے لئے ایک ضخیم دفتر درکار ہے۔ ذیل میں صرف تین مختصر احادیث کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔ جس میں سید عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی زبان نبوت سے اپنی نور نظر سیدہ فاطمۃ الزہرہ کے شخصی فضائل و محاسن کو بیان فرمایا ہے:
حضرت مسور بن مخزمہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے۔ پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا‘‘۔
(بخاری، الصحیح کتاب المناقب، باب مناقب قرابۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،3/1361، الرقم:3510)
حضرت علی روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سیدہ فاطمہ سے فرمایا:
’’ بے شک اللہ تعالیٰ تیری ناراضگی پر ناراض ہوتا ہے اور تیری رضا پر راضی ہوتا ہے‘‘۔
(الحاکم، المستدرک، 3/167، رقم:4730)
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ سے مروی ہے:
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب سیدہ فاطمہ کو آتے ہوئے دیکھتے تو انہیں خوش آمدید (مرحبا) کہتے پھر ان کی خاطر کھڑے ہوجاتے، انہیں بوسہ دیتے، ان کا ہاتھ پکڑ کر لاتے اور انہیں اپنی نشست پر بٹھالیتے اور جب سیدہ فاطمہ، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنی طرف تشریف لاتے ہوئے دیکھتیں تو مرحبا کہتیں، پھر کھڑی ہوجاتیں اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بوسہ دیتیں۔
(ابن حبان، الصحيح،15/403،رقم:6953)
سیدہ فاطمۃ الزہرہ اپنے بابا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد چھ ماہ تک اس عالم رنگ و بو میں حیات رہیں مگر یہ چند ماہ فراق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں انتہائی کرب میں گزارے۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے آپ رضی اللہ عنہا کو جو محبت تھی وہ ہمیشہ آپ کو بے چین رکھتی۔ بالآخر 3 رمضان المبارک سن 11 ہجری کو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبوبہ بیٹی کا وصال ہوگیا۔
2۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ(10 رمضان المبارک 10 نبوی)
سیدہ خدیجۃ الکبریٰ بنت خویلد وہ مقدس اور خوش قسمت خاتون تھیں جنہوں نے نہ صرف سب سے پہلے نبوت کی تصدیق کی بلکہ آغاز اسلام میں ہی دعوت و تبلیغ دین کے مشکل اور کٹھن مراحل میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مشیر اور معین و مددگار ثابت ہوئیں۔ ان کی مثالی اور قابل رشک ازدواجی رفاقت نے سید عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قلب اطہر پر بڑے گہرے نقوش چھوڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اکثر سیدہ کا ذکر بڑے محبت بھرے انداز میں فرمایا کرتے تھے۔
خواتین میں سے سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف آپ ہی کو حاصل ہوا۔ اکثر مورخین کی رائے کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عقد مبارک کے وقت آپ کی عمر چالیس سال تھی جبکہ سید عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر شریف 25 سال تھی۔ حضرت خدیجہ عرب کی ایک متمول ترین خاتون تھیں مگر دامن نبوت سے وابستہ ہونے کے بعد آپ نے اپنی ساری دولت اپنے محبوب شوہر اور حبیب خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قدموں پر نثار کردی۔ نازو نعم میں پرورش پاکر جوان ہونے والی یہ خاتون جنہیں حضور ایزدی سے زندگی کی ہر آسائش حاصل تھی اور عسرت و غربت کا کبھی منہ تک نہ دیکھا تھا مگر اسلام لانے کے بعد دین حق کی خاطر اپنے شوہر نامدار کی معیت میں شعب ابی طالب کے اذیت ناک شب و روز اس خندہ پیشانی کے ساتھ گزارے کہ کبھی کوئی حرف شکوہ لب پہ نہ آیا۔ آپ انتہائی زاہدہ، عابدہ، شاکرہ، مجاہدہ اور صابرہ خاتون تھیں۔ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی زبان حق ترجمان سے ام المومنین خدیجۃ الکبریٰ کے مقام و مرتبہ اور اللہ رب العزت کے ہاں ان کی قدرو منزلت کو متعدد احادیث میں بیان فرمایا ہے۔ ان سب کا احاطہ اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں صرف چند احادیث کا ترجمہ نذر قرطاس کیا جاتا ہے:
- حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی پر اتنا رشک نہیں کرتی جتنا حضرت خدیجہ پر حالانکہ وہ میرے نکاح سے پہلے ہی وفات پاچکی تھیں۔ میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ان کا (کثرت) سے ذکر فرماتے ہوئے سنتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو حکم فرمایا کہ خدیجہ کو موتیوں کے محل کی بشارت دے دیجئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوئی بکری ذبح فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کو اتنا گوشت بھیجتے کہ جو انہیں کفایت کرجاتا۔
(بخاری، الصحیح، کتاب: فضائل اصحاب النبی، باب تزویج النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم خدیجۃ وفضلہا: 3/1388، رقم:3605)
- حضرت علی سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت حضرت مریم ہیں اور (اسی طرح) اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت خدیجہ ہیں۔
(مسلم، الصحیح، کتاب فضائل صحابہ: باب فضائل خدیجۃ ام المومنین، 4/1886، رقم:2430)
- حضرت انس سے روایت ہے کہ حضرت جبرائیل، نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آئے درآنحالیکہ حضرت خدیجہ بھی آپ کے پاس موجود تھیں۔ حضرت جبرائیلؑ نے عرض کیا کہ بے شک اللہ تعالیٰ حضرت خدیجہ پر سلام بھیجتا ہے۔ اس پر حضرت خدیجہ نے فرمایا بے شک سلام اللہ تعالیٰ ہی ہے اور جبرائیل پر سلامتی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر بھی سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو اور اس کی برکات ہوں۔
(الحاکم، المستدرک، 3/206، رقم4856)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی یہ مونس و غمخوار ، محسنہ اسلام 10 نبوی میں 10 یا 11 رمضان المبارک کو اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہوگئیں۔
3۔ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ (17 رمضان 58 ھ)
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ عالمہ، فاضلہ، محدثہ اور فقیہ امت تھیں۔ تمام ازواج مطہرات میں سے صرف آپ ہی کنواری خاتون تھیں جن کو حبالہ عقد میں لے کر حرم نبوت میں شامل کرنے کا شرف بخشا گیا۔ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ فقہی مسائل میں راہنمائی لینے کے لئے آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو آپ کے ساتھ کمال درجہ محبت تھی۔ احادیث طیبہ میں کثرت کے ساتھ آپ کے شخصی فضائل کو بیان کیا گیا ہے چند فضائل ملاحظہ ہوں۔
1۔ جبرائیل امین آپ کی خدمت میں سلام عرض کرتے تھے۔
2۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عورتوں میں سے سب سے زیادہ پیار حضرت عائشہ سے تھا۔
3۔ حضرت عائشہ کے پاس جو کچھ بھی آتا وہ فی الفور اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کردیتی تھیں۔
4۔۔ سیدہ عائشہ صدیقہ کو دنیا و آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اہلیہ بننے کا شرف ملے گا۔
5۔۔ سیدہ عائشہ بڑی فصیح الکلام تھیں۔
6۔ حضرت سیدہ فاطمہ کو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ رب کعبہ کی قسم! عائشہ تمہارے والد کو بہت زیادہ محبوب ہے۔
7۔ حضرت عائشہ شعر، فرائض اور فقہ کی سب سے بڑی عالمہ تھیں۔
8۔ امت کی تمام عورتوں کے علم سے بڑھ کر حضرت عائشہ صدیقہ کا علم ہے۔
9۔ حضرت عائشہ صدیقہ قرآن مجید، حلال و حرام اور نسب کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی تھیں۔
ذیل میں مذکور چند خصائص ایسے ہیں کہ جو پوری امت میں سے صرف اور صرف حضرت عائشہ صدیقہ کو ہی نصیب ہوئے کسی اور کا مقدر نہیں ہوئے۔
1۔ حضرت عائشہ کی گود میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر وحی نازل ہوئی۔
2۔ رفیق اعلیٰ سے ملاقات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سر انور حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ کی گود مبارک میں تھا۔
3۔ وصال سے قبل آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو مسواک فرمائی تھی وہ حضرت عائشہ نے اپنے منہ سے نرم کرکے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پیش کی تھی۔
4۔ وصال مبارک سے پہلے چند روز مرض الوصال میں حجرہ عائشہ کو ہی اقامت کے لئے شرف یاب کیا۔
5۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ابدی و دائمی راحت کدہ بننے کا شرف بھی حجرہ عائشہ کو حاصل ہوا۔
6۔ حضرت سیدہ عائشہ کی برآت میں پوری سورۃ نور اتاری گئی۔
7۔ امت مسلمہ کو تیمم کی اجازت حضرت سیدہ عائشہ کے تصدق حاصل ہوئی۔
8۔ آپ کی برکت سے ہی امت کو قانون قذف نصیب ہوا۔
9۔ حضرت عائشہ کے متعلق ہی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا: مجھے عائشہ کے معاملہ میں اذیت نہ دیا کرو۔
10۔ فرمایا: عائشہ کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر فضیلت حاصل ہے۔
11۔ امت کی اس عظیم فقیہ اور محدثہ نے دو ہزار دو سو دس (2210) ارشادات نبویہ کو امت تک پہنچایا یعنی روایت کیا ہے۔
آپ کا وصال مبارک سترہ رمضان المبارک اٹھاون ہجری (58ھ) کو ہوا۔ جنت البقیع میں آپ کی مرقد پرانوار واقع ہے۔
4۔غزوہ بدر (17 رمضان المبارک 2 ہجریـ)
تاریخ اسلام کا پہلا معرکہ جب اسلام اور کفر۔۔۔ حق اور باطل۔۔۔ سچ اور جھوٹ کی پہلی جنگ ہوئی۔ اس معرکہ میں فرزندان اسلام کی تعداد لشکر کفار کی تعداد سے ایک تہائی تھی۔ وسائل اور اسلحہ کے اعتبار سے بظاہر بہت کمزور تھے۔ جزیرہ عرب کا اجتماعی ماحول سراسر ان کے خلاف تھا۔ سردارانِ قریش ایک ہزار کی مسلح فوج لے کر 313 مجاہدین کی بے سروسامانی سے نبرد آزما ہونے کے لئے بڑے غرورو رعونت سے میدان میں آئے لیکن انہیں فیصلہ کن شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مورخین اس معرکہ کو غزوہ بدر الکبریٰ غزوہ بدر العظمیٰ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے اسے یوم الفرقان کے لقب سے یاد فرمایا ہے یعنی وہ دن جب حق اور باطل کے درمیان فرق آشکار ہوگیا۔
معرکہ بدر ایک محیرالعقول واقعہ ہے۔ نتیجہ کے اعتبار سے تاریخ انسانی میں اپنی مثال آپ ہے۔ 17 رمضان کو اسلامی فوج کے 22 جانبازوں نے اپنی جانیں اپنے نصب العین پر نچھاور کیں۔ دوسری طرف دشمن کے 70 آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور اپنا کوئی آدمی ان کے ہاتھ دیئے بغیر 70 ہی افراد کو جنگی قیدی بنایا۔ نیز مال غنیمت حاصل کیا۔ شیبہ، عتبہ، ابوجہل، ابوالخبتری زمعہ بن الاسود، عاص بن ہشام، امیہ بن خلف، منبہ بن الحجاج جیسے سرداران قریش اسلامی تیغ جہاد کا لقمہ بنے۔ ان کی قیادت کی صفیں الٹ کر رہ گئیں۔ قریش کی کمر درحقیقت اسی پہلے معرکے میں ٹوٹ گئی اور ان کا غرورِ قوت پامال ہوکر رہ گیا اور مصطفوی انقلاب کی یہ تحریک یکایک اپنا سر اونچا کرکے مستقبل کے نئے افق دیکھنے کے قابل ہوگئی۔
امت مسلمہ کو موجودہ زوال کی منحوس زنجیروں سے آزاد کرواکر پھر سے اوج ثریا پر فائز کرنے کے لئے اسی جذبہ ایمانی، اخلاص اور عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاکیزہ اور مقدس جذبات کو اپنے نہاں خانہ دل میں آباد کرنے، ذوق عبادت و اطاعت اور شوق شہادت کا چراغ روشن کرنے کی ضرورت ہے۔ جن جذبوں کی حدت اور تمازت غزوہ بدر کے موقع پر صحابہ کرام اپنے دلوں میں رکھتے تھے، آج پھر اسے انہیں زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے اقبال نے کہا تھا:
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
قرآن کے بیان کردہ اصول فتح مندی اَنْتُمُ الْاَعْلَوْن کی بلندیوں پر فائز ہونے کے لئے پہلے اِنْ کُنْتُمْ مُوْمِنِيْن کا مصداق اتم بننا شرط اول ہے۔
5۔فتح مکہ، فتح مبین (20 رمضان المبارک 8 ہجری)
بعثت نبوی سے لے کر 8 ہجری تک کا اکیس سالہ دور پیغمبر امن و سلامتی، داعیان اخوت و محبت اور دین رحمت کے لئے بڑا ہی صبر آزما اور کٹھن دور تھا۔ اہل ایمان نے بڑی کسمپرسی کے عالم میں مکہ کو چھوڑا اور حرم کعبہ سے جدائی کا صدمہ اٹھایا تھا۔ مدینۃ المنورہ ہجرت کے بعد بھی ان کے دلوں میں اپنے وطن اور بیت عتیق کی محبت مچلتی رہتی تھی۔ وہ اپنے وطن مالوف کی محبت میں بے تاب رہتے تھے لیکن اب حالات ایسی کروٹ بدل رہے تھے کہ شمع توحید کے پروانے جنہیں مدینہ ہجرت کرنے پر مجبور کردیا گیا تھا، وہ اپنی جبینوں میں سجدوں کی کرنیں سجائے دس ہزار کی تعداد میں اپنے مرشد و مربی آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قیادت میں مکہ میں اس نرالی شان کے ساتھ داخل ہوتے ہیں کہ پوری فضا اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور تلبیہ سے گونج اٹھتی ہے۔ پرستاران توحید حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ سلام کے تعمیر کردہ کعبہ کو ان بتوں کی نجاست سے پاک کردیتے ہیں جو قطار در قطار حرمت کعبہ کو پامال کرتے ہوئے اس میں سجائے ہوئے تھے۔ آج ہر متکبر اور سرکش کا غرور خاک میں مل چکا تھا۔ اہل ایمان کے خون کے پیاسے گردنیں جھکائے نبی رحمت، روف و رحیم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حضور نیاز مندانہ ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ انقلابات عالم میں سے اس عظیم ترین اور تاریخ انسانی کا منفرد ترین انقلاب کے بانی حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے رب کریم کی حمدو ثناء میں مصروف، فتح و ظفر کے پرچم لہراتے ہوئے بیت اللہ کے قریب پہنچتے ہیں۔
اس وقت کعبہ شریف میں 360 بت نصب تھے۔ امام الموحدین، ہادی برحق صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دست مبارک میں چھڑی تھی، زبان مبارک پر جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا۔ ’’حق آگیا، باطل مٹ گیا بے شک باطل مٹنے ہی والا تھا‘‘، کا ورد جاری تھا۔ چھڑی کے ساتھ بت کی طرف اشارہ کرتے تو وہ اسی وقت منہ کے بل زمین پر گرجاتا۔ چشم فلک نے ایسا منظر کبھی نہ دیکھا ہوگا، نہ قیامت تک دیکھے گا۔ خون کے پیاسوں سے کہا جاتا ہے آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں۔ جانی دشمن سے متعلق بھی یہ اعلان رحمت کردیا گیا کہ
من دخل دارابی سفيان فهو امن.
’’جس نے ابوسفیان کے گھر پناہ لے لی وہ امن پاگیا‘‘۔
یہاں تک کہ جس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا وہ بھی امن پاگیا۔ یہ تھی وہ شان دار اور تاریخی فتح جس کو قرآن مجید نے فتح مبین قرار دیا تھا۔ یہ پاکیزہ ساعتیں بھی ماہ رمضان کے حصہ میں آئیں۔
6۔شہادت علی المرتضیٰ (21 رمضان المبارک40 ہجری)
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی ذات گرامی وہ ہستی ہے جو بچوں میں سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ایمان لائی اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کرنے کا شرف حاصل ہوا۔آغوش نبوت میں تربیت کا اعزاز حاصل ہوا اور دلبند رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سیدہ فاطمہ بتول کے شوہر نامدار ہونے کا شرف ملا۔ آپ کے شخصی فضائل جو زبان نبوت نے ارشاد فرمائے اس قدر ہیں کہ ان کے بیان کے لئے کئی ضخیم دفتر درکار ہیں۔ فضائل مرتضوی میں چند ارشادات ملاحظہ ہوں:
1۔ سب سے پہلے نماز پڑھنے والے حضرت علی ہیں۔
2۔ حضرت علی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیلئے ایسے ہی ہیں جیسے حضرت ہارونؑ، حضرت موسیٰؑ کے لئے مگر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد نبوت نہیں۔
3۔ اللہ اور اس کا رسول حضرت علی سے محبت کرتے ہیں اور حضرت علی، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت کرتے ہیں۔
4۔ دعائے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم : اے اللہ! علی پر رحم فرما۔ اے اللہ! یہ جہاں کہیں بھی ہو، اس پر رحم فرما۔
5۔ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں۔
6۔ علی دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہیں اور میرے دوست ہیں۔
7۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عورتوں میں سے سب زیادہ محبوب اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ اور مردوں میں سے سب سے زیادہ محبوب حضرت علی تھے۔
8۔ فرمایا: اے لوگو! علی کی شکایت نہ کیا کرو، اللہ کی قسم وہ اللہ کی ذات میں یا اللہ کی راہ میں بہت سخت ہیں۔
9۔ آیت مباہلہ کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین کو بلایا پھر فرمایا: اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔
10۔ فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔
11۔ میرے بعد علی ہر مسلمان کا ولی ہے۔
12۔ فرمایا: اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ اور جو اس سے عداوت رکھے تو بھی اس سے عداوت رکھ۔
13۔ فرمایا: جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی، جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی، جس نے علی سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ سے بغض رکھا۔
14۔ فرمایا: مومن ہی علی سے محبت رکھے گا اور صرف منافق ہی علی سے بغض رکھے گا۔
15۔ عہد نبوی میں صحابہ منافقین کو ان کے حضرت علی کے ساتھ بغض سے پہچانتے تھے۔
16۔ فرمایا: جس نے علی کو برا بھلا کہا اس نے مجھے برا بھلا کہا۔
17۔ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔
18۔ فرمایا: علی کے چہرے کو تکنا بھی عبادت ہے۔
19۔ علی اور قرآن کبھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ کوثر پر میرے پاس یہ دونوں اکٹھے آئیں گے۔
20۔ فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کردوں۔
21۔ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ حضرت علی کا ذکر بھی عبادت ہے۔
(مزید تفصیلات کیلئے دیکھئے: غایۃ الاجابۃ فی مناقب القرابۃ، شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری، 113۔76)
حضرت علی کی کنیت ابوالحسن اور ابوتراب تھی جبکہ لقب حیدر تھا۔ نسب کے اعتبار سے آپ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حقیقی چچا زاد بھائی تھے۔ آپ کا شمار السابقون اور عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے۔ آپ نے عہد نبوی اور عہد شیخین میں اسلام کے لئے بے مثل خدمات سرانجام دیں۔ غزوات میں شریک ہوکر شجاعت و بہادری کی تاریخ رقم کی اور فاتح خیبر کا لقب پایا۔
آپ کا عہد اگرچہ شورشوں کے گرداب میں رہا لیکن اس کے باوجود آپ نے اپنے عہد خلافت میں نمایاں کارنامے سرانجام دیئے۔ رمضان المبارک 40 ہجری کے دوسرے عشرہ میں ایک روز آپ نماز فجر کی ادائیگی کے لئے مسجد میں تشریف لائے تو شقی القلب ابن ملجم جو مسجد کے ایک کونے میں چھپا ہوا تھا، اس نے اچانک آپ پر تلوار کے ساتھ حملہ کردیا جس سے آپ کے سر پر گہر ازخم لگا۔ اسی حال میں دو یا تین دن کے بعد 21 رمضان المبارک کو مصدر ولایت، سرچشمہ علم و معرفت راہی ملک بقاء اور واصل باللہ ہوگئے۔ نماز جنازہ آپ کے صاحبزادے حضرت امام حسن نے پڑھائی اور عربی نامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
7۔ اعتکاف
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف سنتِ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے۔ رمضان المبارک کی عبادات میں سے اعتکاف ایک ایسی عبادت ہے جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مواضبط اختیار فرمائی یعنی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہر سال رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف کیا۔ حضرت عبداللہ ابن عمر سے مروی ہے کہ
کان رسول الله صلی الله عليه واله وسلم يعتکف العشر الاواخر من رمضان.
(بخاری، الصحیح، کتاب الاعتکاف، باب لااعتکاف فی العشر الاواخر، 2:713، الرقم:1921)
’’حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے‘‘۔
نفس انسانی کی اصلاح کے لئے اعتکاف ایک ایسی عبادت ہے کہ اگر انسان دنیا کے سارے تعلقات و روابط کو چھوڑ کر محض رضائے الہٰی کے لئے رمضان کے صرف آخری دس دن اس کے تمام تر آداب و تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سنت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مطابق خلوت نشین ہوجائے تو اس ایک عشرہ کی روحانی برکات اور انوار و فیوضات سال بھر کی عبادت سے بڑھ کر ہے۔ اسی سنت نبوی کی بنیاد پر اہل اللہ کے ہاں خلوت نشینی اور چلہ کشی کا تصور پایا جاتا ہے کہ وہ دنیوی جکڑ بندیوں سے آزاد ہوکر چالیس دن کے لئے گوشہ نشینی اختیار کرتے ہیں اور فیوضات الہٰیہ سے اپنے ظاہرو باطن کو روشن و منور کرتے ہیں۔
مادہ پرستی کے اس دور میں انسان جب دنیا اور اس کی رنگینیوں میں اس قدر کھوچکا ہو کہ اپنے خالق کو بھی بھول چکا ہو ایسے میں دنیا و آخرت کی کامیابی کے طالب کے لئے ماہ رمضان کی یہ مقدس ساعتیں اور پرکیف دن اور راتیں غنیمت ہیں کہ وہ ان لمحات حیات کو ضائع کرنے کی بجائے ان میں کریم مالک کی بندگی کرکے اس کی کرم نوازیوں کا حق دار قرار پائے۔
8۔ جشن نزول قرآن (27 رمضان المبارک)
رمضان المبارک میں نماز تراویح میں ایک مرتبہ قرآن مجید ختم کرنا سنت صحابہ اور جمہور اہل اسلام کا معمول ہے۔ اس پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا مستحب ہے۔ صحابہ کرام کا یہ طریقہ رہا ہے کہ جب کوئی قرآن مجید ختم کرتا تو دعا کے لئے دوسرے مسلمان بھائیوں کو بھی دعوت دے کر بلالیا کرتے تھے۔ امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:
’’چاہئے کہ ختم قرآن میں اپنے گھر والوں اور دوستوں کو شریک کرے۔ طبرانی نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ جس دن وہ ختم قرآن کیا کرتے تھے تو اپنے کنبہ والوں کو جمع کرکے خدا سے دعا مانگا کرتے تھے۔ ابن ابی دائود نے حکم بن عتیبہ سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ مجھے مجاہد نے بلوایا اور جب میں وہاں پہنچا تو ابن ابی امامۃ بھی وہاں موجود تھے۔ ان دونوں نے مجھ سے کہا کہ ہم نے آپ کو اس لئے بلوایا ہے کہ ہم قرآن ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ختم قرآن کے وقت دعا قبول ہوتی ہے۔ مجاہد ہی سے روایت ہے کہ صحابہ ختم قرآن کے وقت جمع ہوجایا کرتے تھے۔ کیونکہ اس وقت رحمت کا نزول ہوتا ہے۔
(سيوطی، الاتقان فی علوم القرآن، ص:297)
حضور غوث الاعظم غنیۃ الطالبین میں روایت کرتے ہیں کہ جب شب قدر ہوتی ہے تو جبرائیل اللہ تعالیٰ کے حکم سے سبز جھنڈا اور جلو میں ملائکہ کی ایک جماعت کو لے کر زمین پر اترتے ہیں۔ جھنڈا کعبہ کی چھت پر گاڑ دیتے ہیں۔ جبرائیل کے چھ سو بازو ہیں وہ اپنے تمام پر صرف شب قدر میں ہی پھیلاتے ہیں جو مشرق و مغرب سے بھی پرے نکل جاتے ہیں۔ جبرائیل فرشتوں کو امت محمدیہ میں داخل ہونے کا حکم دیتے ہیں۔ فرشتے مسلمانوں میں داخل ہوکر قیام کرنے والے نمازی کو اور ذکر کرنے والے کو سلام کرتے ہیں اور ان سے مصافحہ کرتے ہیں۔ جب مسلمان دعا مانگتے ہیں تو فرشتے اٰمین کہتے ہیں۔ یہ حالت طلوع فجر تک جاری رہتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت اور رمضان کی پاکیزہ ساعتوں کو غنیمت جانتے ہوئے حضور حق میں اخلاص و گریہ و زاری کے ساتھ دعا کے ذریعہ اپنے اور پوری ملت اسلامیہ کے لئے خیرو برکت طلب کرنا ایک مومن صادق کا دینی فریضہ ہے جس سے کسی بھی صورت غافل نہیں ہونا چاہئے۔
خلاصہ کلام
رمضان المبارک کی قدسی صفات ساعتوں اور پاکیزہ لمحات میں جو محض رضائے الہٰی کے حصول کے لئے روزہ رکھتا اور اس کے ظاہری و باطنی آداب کو بقدر طاقت پورا کرتا ہے تو وہ رب غفور الرحیم اس کے باعث روزہ دار کے سابقہ گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ موجودہ دور میں دین سے دوری اور غفلت کے باعث ہم حضور ایزدی میں قیام و سجود کی لذتوں سے محروم ہوچکے ہیں اسی حرماں نصیبی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ جو روزہ تو رکھتے ہیں مگر روزوں کے آداب و تقاضوں میں غفلت کی وجہ سے ان انعامات الہٰیہ سے محروم رہتے ہیں جو ماہ رمضان کے ساتھ ہی مختص ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنی مخلوقات بالخصوص بندوں پر ہر لمحہ سایہ فگن رہتی ہے مگر رمضان کی شان ہی کچھ نرالی ہے کہ اس کے لیل و نہار اور شام و سحر میں اس کے دریائے رحمت میں کچھ اس قدر تموج پیدا ہوجاتا ہے کہ ان ساعتوں میں وہ ذات کریم اعمال صالحہ کے اجرو انعام میں اس طرح اضافہ فرماتا ہے کہ نفلی عبادت کا انعام فرائض کے برابر اور فرائض کا اجر ستر گنا تک بڑھادیتا ہے۔
پس ہمیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے اپنے دنیوی معاملات سے بے نیاز ہوکر رمضان کے اس مقدس ماہ میں رب کریم کے در اقدس پر ایک فقیر کی صورت حاضر ہوجائیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات و اکرامات کے مستحق ٹھہر سکیں۔
تبصرہ