قبولیتِ اعمال کی بنیادی شرائط، صدق و اخلاص
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اﷲَ مُخْلِصًا لَّه الدِّیْنَo
’’بے شک ہم نے آپ کی طرف (یہ) کتاب حق کے ساتھ نازل کی ہے تو آپ اﷲ کی عبادت اس کے لیے طاعت و بندگی کو خالص رکھتے ہوئے کیا کریں‘‘۔
الزمر، 39: 2
اس آیت مبارکہ میں آقا علیہ السلام کے ذریعے اور واسطے سے امت کو تلقین کی گئی ہے کہ اپنی عبادت کو اخلاص سے مزین کریں۔ یعنی جب عبادت کریں تو عبادت میں اخلاص اور sincerity ہو۔ عبادت کے پیچھے effective force اخلاص کی ہو اور اطاعت و بندگی خالصتاً اللہ کے لیے ہو۔
اخلاص کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
اَ لَا ِﷲِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ۔
(لوگوں سے کہہ دیں:) سُن لو! طاعت و بندگی خالصتاً اﷲ ہی کے لیے ہے۔
الزمر، 39: 3
گویا اطاعت (obedience) اور بندگی کی قبولیت کی شرط یہ ہے کہ وہ اخلاص پر مبنی ہو۔ مذکورہ دونوں آیات مبارکہ میں اخلاص کا حکم دو بار الگ الگ طریق سے دیا گیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ بات یوں بھی تو کہی جاسکتی تھی کہ ’’اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کیا کریں،، یا ’’مخلص ہو کر اللہ کی عبادت کریں،، مگر یوں بات نہیں فرمائی بلکہ حکم فرمایا: اللہ کی عبادت اس حال اور کیفیت کے ساتھ کریں کہ اللہ کی اطاعت و بندگی اللہ کے لیے خالص رہے۔
اس اسلوب کو اختیار کرنے کی غرض و غایت یہ ہے کہ محض وقتی طور پر کسی عبادت کی ادائیگی کے دوران اختیار کیا جانے والا اخلاص مطلوب و مقصود نہیں بلکہ ہمہ وقتی اخلاص ہی انسان کو مقبول بارگاہ الہٰی بناتا ہے مثلاً جب نماز کا وقت ہوا تو اُس وقت اخلاص اپنے دل میں پیدا کر کے اخلاص کے ساتھ نماز پڑھ لی، عبادت کر لی مگر بقیہ چوبیس گھنٹے کی زندگی میں اللہ کی بندگی خالصتاً نہ رہی، زندگی کا شعار خالصتاً اللہ کے لیے نہ رہا۔ جب نماز سے فارغ ہو گئے تو باقی پورا دن اخلاص سے خالی گزرا۔ اگر ساری زندگی تابعِ بندگی نہ کی تو پھر فرض تو ادا ہو جاتا ہے، مگر اُس کی روحانی برکات اور انوار و ثمرات انسان کو نصیب نہیں ہوتے۔ نتیجتاً انسان اللہ کے قرب سے محروم رہتا ہے۔ اخلاص کی اسی اہمیت ہی کے پیش نظر اللہ رب العزت نے اخلاص اختیار کرنے کے ایک حکم کے معاً بعد دوسری مرتبہ بھی مخلص ہوجانے کا حکم صادر فرمایا۔
اطاعت و عبادت میں فرق
جب ہم سے اللہ کی رضا اور اس کے حکم کی پیروی میں کوئی خاص فعل صادر ہوتا ہے تو اس عمل کا نام عبادت ہے۔ مثلاً روزہ، حج، رزق حلال کمانا، سچ بولنا، نیکی و احسان کرنا، الغرض اللہ کے لئے اور اللہ کے حکم کے تابع ہوکر کیا جانے والا عمل عبادت کہلاتا ہے۔ اِن عبادات (مخصوص اعمال و افعال) کے علاوہ بقیہ وقت کو اللہ کی نذر کر دینا اطاعت کہلاتا ہے۔ اگر نیت ہر وقت یہ ہو کہ میں اللہ کے تابع ہوں اور میرا حاکم، میرا قادر اور میرے اوپر متصرف اللہ ہے، میں نے ہر کام اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم کے مطابق کرنا ہے اور ہر عمل میں اس کی ناراضگی سے بچنا اور اس کی خوشنودی کا طالب رہنا ہے، تو یہ اطاعتِ الہٰی کہلاتا ہے۔
اگر ذہن میں یہ تصور قائم رکھا اور زندگی پر اس تصور کی حکمرانی قائم ہوگئی تو آہستہ آہستہ یہ تصور لا شعور میں سرایت کرجاتا ہے یعنی پھر انسان سے غیر ارادی طور پر بھی وہ کام سرانجام پاتا رہتا ہے، حتی کہ یہ کام اس کی عادت بن جاتی ہے۔ آغاز میں ارادے اور توجہ کے ساتھ اچھے کام کئے جاتے ہیں، پھر کرتے کرتے یہ عادت اتنی develop ہو جاتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کے مطابق غیر ارادی طور پر بھی وہ کام ہونے لگتا ہے۔ مثلاً جب یہ تصور انسان کے ذہن، لاشعور اور ارادہ میں اس حد تک سرایت کر جائے تو بے دھیانی میں بھی مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دایاں پائوں ہی پہلے اندر داخل کرے گا اور مسجد سے باہر نکلتے ہوئے بایاں پاؤں ہی باہر آئے گا۔ بے شعور ہونے کے باوجود پائوں کو بھی اتنا شعور ہوجاتا ہے اور وہ اس بات کا عادی ہو جاتا ہے۔
گویا ایسی صورت بن جاتی ہے کہ دھیان کرنے کی ضرورت نہیں رہتی اور دھیان خود بخود اللہ کا ہو جاتا ہے۔ جب زندگی خاص اعمال و افعال (عبادات) کے اوقات کے علاوہ بھی اللہ کی رضا کے تابع ہو جائے تو اُس کو اطاعت کہتے ہیں۔ عبادت اور اطاعت کا فرق ایک جملہ میں یوں سمویا جاسکتا ہے کہ
عبادت وقتی ہوتی ہے جبکہ اطاعت ہمہ وقتی ہوتی ہے۔
عبادت وقتی ہوتی ہے جبکہ اطاعت سے کوئی لمحہ خالی نہیں ہوتا۔ اہل اللہ کا یہی حال ہوتا ہے کہ وہ اپنی اطاعت کاملاً اللہ کے ساتھ خالص کر لیتے ہیں لہذا ان کی زندگی کی ساری گھڑیاں عبادت بن جاتی ہیں۔ اب ان کی عبادت مخصوص افعال اور اعمال تک محدود نہیں رہتی بلکہ ان کی زندگی کا ہر عمل اور ہر لمحہ عبادت بن جاتا ہے۔ حتی کہ ان کا کھانا پینا بھی عبادت بن جاتا ہے۔
اطاعت کو اس دوسری مثال سے بھی سمجھیں کہ جب بھی ہم کھائیں تو دائماً ایک نیت رکھا کریں کہ اس لیے کھاؤں تاکہ میرا جسم اللہ کی بندگی کے قابل رہے، اس میں اتنی طاقت رہے کہ اللہ کے دین کی خدمت کر سکوں۔ اس نیت کے ساتھ کھانا بھی عبادت بن جاتا ہے۔ افسوس! ہماری زندگی تو اس کے الٹ ہو گئی ہے۔ ہماری عبادت کا مقصد صرف رزق میں اضافہ کی دعا تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ عبادت کے بعد ہم میں سے اکثریت دعا کرتی ہے کہ مولیٰ میرا رزق بڑھا دے، ہمارا دھیان ہی رزق پر ہے۔ بے شک یہ دعا جائز ہے، سنت ہے، کرنی چاہئے۔ آقا علیہ السلام نے چونکہ ہر سطح کے لوگوں کو تعلیم دی ہے اور کسی ایک سطح کے طبقے کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ لہذا جنہیں رزق کی ضرورت یا رزق کا دھیان رہتا ہے تو آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا میں یہ بھی ہے کہ مولیٰ میرے رزق کو وسیع کر دے۔
ایسے عبادت گزار بھی ہیں جو یقین کے طلبگار ہیں، ان کو یہ دعا تلقین کی کہ ’’باری تعالیٰ میرے یقین میں اضافہ فرما دے‘‘۔ الغرض ہر سطح اور ہر طبقہ کے لوگ اپنے حسب حال دعا کرتے ہیں۔ جس جس سطح کا کوئی آدمی ہے، اُس کی روحانی سطح کا سامان آقا علیہ السلام نے عطا فرما دیا ہے۔ مگر ہم نے رزق میں اضافہ کی دعا کو اطاعت ہی بنا لیا ہے۔ اگر اتنی نیت کر لی کہ رزق اللہ کی اطاعت اور بندگی کے لیے کھائیں اور اُس طریق سے کھائیں جو آقا علیہ السلام کی سنت ہے تو یہ کھانا بھی عبادت ہے۔ مغربی کلچر میں یہ عادت ہے کہ وہ لوگ بائیں ہاتھ سے کھاتے ہیں۔ ان کے ہاں دائیں بائیں کا کوئی تصور نہیں لیکن اسلام میں یہ تصور موجود ہے۔ لہذا بچوں کی تربیت میں اس بات کا التزام کریں کہ انہیں آقا علیہ السلام کی سنت کی اتباع میں دائیں ہاتھ سے کھانے کی تلقین کریں۔ سنت سمجھتے ہوئے دائیں ہاتھ سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر شروع کریں گے تو یہ عمل عبادت بن گیا۔ کیوں؟
اس لئے کہ ارشاد فرمایا:
فَکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اﷲِ عَلَیْہه۔
سو تم اس (ذبیحہ) سے کھایا کرو جس پر (ذبح کے وقت) اﷲ کا نام لیا گیا ہو۔
الانعام، 6: 118
یہ اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امر بن گیا اور اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امر کی تعمیل عبادت ہے۔
اس مثال کا اطلاق ہر کام پر کر لیں۔ چاہیں تو آج کے نام نہاد آئیڈیل سامنے رکھ لیں یا آقا علیہ السلام کی تعلیم اور حضور علیہ السلام کے کردار کو آئیڈیل بنا لیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اﷲِ۔
فرما دیجیے: اﷲ کی اس زینت (و آرائش) کو کس نے حرام کیا ہے۔
الاعراف، 7: 32
اس فرمان کی روشنی میں اچھی چیزوں کے انتخاب و استعمال کی اجازت ہوگئی مثلاً اچھے لباس پہنیں۔ مگر کرنا یہ ہے کہ ایسے لباس لیں جو زینت تو ہو لیکن جسم ننگا نہ ہو۔ بیٹیاں ایسا لباس خریدیں جس میں جسم عیاں نہ ہو، بازو ننگے نہ ہوں، لباس تنگ نہ ہو، ساتر ہو، تا کہ لباس جسم کو ڈھانپ لے۔ لباس ستر کا نام ہے۔ جو لباس جسم کے خدوخال کو نہ ڈھانپے وہ لباس نہیں ہے۔ لباس لَبِسَ یَلْبَسُ سے ہے، جس کا معنیٰ ہی یہ ہے کہ اس طرح چھپانے والی چیز جس سے مغالطہ لگ جائے۔ اسی سے التباس بھی ہے یعنی confusion ہو جانا۔ مراد یہ کہ لباس وہ ہے کہ پہنا ہوا ہو تو پتہ نہ چلے کہ جسم کے عضو کہاں ہے؟ دیکھنے والے کو مغالطہ لگ جائے، اس کو لباس کہتے ہیں۔ پس اگر آقا علیہ السلام کے حکم کی اتباع کی نیت کر لی جائے تو جو چاہیں پہنیں، جتنا خوبصورت لباس چاہیں پہنیں، ایسا لباس پہننا بھی عبادت بن جائے گا۔ اس نیت کے ساتھ لباس کو سینا بھی عبادت ہو گیا۔ حتی کہ میلا لباس دھونا بھی عبادت بن جائے گا کیونکہ نیت دل میں یہ رکھی کہ اجلا، ستھرا صاف لباس پہننا میرے آقا علیہ السلام کی سنت ہے۔ دھونا تو ویسے بھی تھا لیکن نیت یہ کر لی جائے تو عبادت بن جائے گا کہ میلا لباس آقا علیہ السلام نے پسند نہیں کیا اور نہ اللہ پسند کرتا ہے۔ اس لئے کہ
اَﷲُ جَمِیْلٌ وَ یُحِبُّ الْجَمَال۔
اللہ خود خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔
الغرض ہمارا ہر عمل عبادت بن جائے گا جب نیت یہ ہو کہ میرا یہ کام اللہ کے رضا کے لیے ہے۔
اسی طرح رزق حلال کمانا بھی عبادت بن جائے گا، آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بعض گناہ حج، روزہ اور زکوٰۃ سے بھی معاف نہیں ہوتے مگر رزق حلال کمانے میں جو تکلیفیں ہوتی ہیں ان تکلیفوں سے وہ گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں۔ اگر نیت رزق حلال کی کر لیں تو وہ تکلیفیں بھی باعث رحمت ہیں۔ اللہ کی بندگی میں اخلاص سے ہی زندگی کاملاً اطاعت کا پیکر بنتی ہے۔ اگر اللہ کی بندگی میں یہ اخلاص ہماری زندگی میں چھا جائے تو پوری زندگی اطاعت و عبادت بن جاتی ہے اور انسان کا ہر ہر عمل اجر و نور پیدا کرتا ہے۔
مسلسل ایک عرصے تک یہ عمل جاری رکھنے سے یہ انسان کی فطرتِ ثانیہ یا عادت بن جاتی ہے اور اہتمام کے ساتھ کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔ یہ عادت اتنی راسخ ہو جاتی ہے کہ خودبخود ہوتی چلی جاتی ہے، اس کو استحضارِ نیت کہتے ہیں۔ یعنی اللہ کی بندگی کے لیے نیت کو حاضر کرنا۔ ایک عرصے تک استحضارِ نیت کرتے ہیں، پھر رفتہ رفتہ یہ عادت انسان کا حال بن جاتی ہے اور زندگی تابعِ عبادت ہو جاتی ہے۔
صدق و اخلاص کی اعلیٰ منزل کا حصول
صدق و اخلاص کی اعلیٰ و عظیم منزل کا حصول کیونکر ممکن ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے بھی طریقہ سمجھا دیا۔ فرمایا:
یٰٓـاَیُّها الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اﷲَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَo
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو۔
التوبة، 9: 119
ایمان اور تقویٰ کے برعکس صدق و اخلاص پڑھنے پڑھانے اور محنت مشقت سے نہیں ملتا بلکہ صدق، صادقوں کی صحبت سے ملتا ہے اور اخلاص مخلصوں کی سنگت سے ملتا ہے۔ قرآن مجید نے اس مقام پر ایک راز سے پردہ اٹھایا ہے۔ اتَّقُوا اﷲَ کی طرح یہاں یہ نہیں فرمایا کہ صدق اختیار کرو بلکہ فرمایا: وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَo صدق والوں کی صحبت میں وقت گزارو گے تو صدق ملے گا۔ مخلصوں کی صحبت میں وقت گزارو گے تو اخلاص ملے گا۔ جتنا زنگ صاحبان صدق و اخلاص کی صحبت اور ان کی زیارت سے اترتا ہے، کسی عمل سے نہیں اترتا۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج وہ صدق و اخلاص والے نہیں رہے۔
دلوں کے زنگ دور کرنے کا طریقہ
دلوں کے زنگ دور کرنے کے لئے دو چیزیں از حد ضروری ہیں:
- صحبت
- ریاضت
صحبت کی پہچان فقط اتنی ہے کہ جب تک صحبت میں رہیں اُس کا فرق نظر آئے۔ انسان اپنے قلب میں فرق محسوس کرے۔ کوئی توقع کرے کہ وہ ریاضت و مجاہدہ بھی نہ کرے اور خالی صحبت سے ساری زندگی سنور جائے تو ایسا ناممکن ہے۔ صحبت سے کسی کی ساری زندگی کبھی نہیں سنوری بلکہ اس کے لئے مجاہدہ، ریاضت اور تزکیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰـتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَة
’’جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے‘‘۔
البقرة، 2: 151
یہ ایک پورا process ہوتا ہے جو ساری زندگی جاری رہتا ہے۔ زندگی بدلنے کے لیے صحبت ایک چابی ہے جو دل کا تالا کھولتی ہے، دل کا تالہ کھلنے کے بعد اب جو اس میں رکھنا ہے، وہ محنت و کمائی ہی کی بدولت ہے۔ صحبت کی پہچان فقط یہ ہے کہ دورانِ صحبت کیفیات بدلتی ہیں۔ اس صحبت میں بیٹھنا چاہئے کہ دورانِ صحبت دل گواہی دے کہ کیفیات بدل رہی ہیں۔ اگر دورانِ صحبت دل کی کیفیات نہ بدلیں تو اس صحبت میں نہ بیٹھا کرو خواہ وہ میری ذات ہی کیوں نہ ہو۔ جہاں دل کا حال نہ بدلے اس صحبت میں نہ بیٹھو اس لئے کہ یہ بے کار صحبت کی علامت ہے۔ آقا علیہ السلام نے خیر الجلساء کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
أَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِخِیَارِکُمْ؟
کیا پھر تمہیں بتا نہ دوں کہ اچھے لوگ کون ہیں؟
خِیَارُکُمْ الَّذِینَ إِذَا رُءُوا ذُکِرَ اﷲُ عَزَّ وَجَلَّ۔
’’تم لوگوں میں سب سے اچھا شخص وہ ہے کہ جسے جب لوگ دیکھیں تو انہیں اﷲ یاد آجائے‘‘۔
(ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب من لا یؤبه له، 2: 1379، رقم: 4119)
گویا اللہ کا یاد آنا ان اہل اللہ کی رؤیت کے ساتھ خاص ہے۔ جب رؤیت نہ رہی، صحبت سے اٹھ کر چلے گئے تو ممکن ہے اللہ بھی یاد نہ رہے۔ بعض لوگوں کومغالطہ لگتا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ جب کسی سے نسبت ہو گئی، ان کی صحبت و سنگت نصیب ہو گئی لہٰذا اب ہر چیز کے ضامن وہ ہو گئے، ہمیں کسی محنت، ریاضت و عبادت کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ شیطانی سوچ ہے، گمراہی و جہالت ہے۔ آقا علیہ السلام نے یہ ضمانت نہیں دی ہے تو کوئی اور کیا دے گا۔۔۔؟
حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پریشان حال روتے ہوئے اور نَافَقَ حَنْظَلَۃُ، نَافَقَ حَنْظَلَۃُ (حنظلہ منافق ہو گیا) کہتے ہوئے آرہے ہیں، سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راستے میں ملے اور ماجرا پوچھا؟ عرض کیا: صورت حال یہ ہے کہ جب میں آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں بیٹھتا ہوں اُس وقت تو حال بدل جاتا ہے، یوں لگتا ہے کہ جنت و دوزخ کو سامنے دیکھ رہا ہوں، اس لمحے دنیا بھول جاتی ہے لیکن جب آقا علیہ السلام کی صحبت سے اٹھ کر گھر آ جاتا ہوں تو پھر حال بدل جاتا ہے اور اسی دنیا میں کھو جاتا ہوں۔ اس حال سے میں نے سمجھا کہ میں منافق ہو گیا ہوں۔
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: پریشان نہ ہو، میرا بھی یہی حال ہے۔ آؤ مل کر چلتے ہیں اور آقا علیہ السلام کی بارگاہ سے رہنمائی لیتے ہیں۔
حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور ماجرا عرض کیا۔ آقا علیہ السلام مسکرا پڑے اور فرمایا: تم منافق نہیں ہوئے بلکہ یہی ایمان ہے۔ یہ جو اتار چڑھاؤ آتے ہیں، یہ ایمان ہے۔ اس لئے کہ اس حال کی وجہ سے جو فکر تمہیں دامن گیر ہوئی کہ میں منافق ہو گیا، یہ ایمان ہی تو تمہیں بے تاب کر رہا ہے کہ تم تڑپ رہے ہو۔ اگر ایمان نہ ہوتا تو تمہیں اس حال کے بدل جانے پر کوئی احساس ہی نہ ہوتا، اب کیفیت بدل جانے پر جو فکر و غم ہے، یہی غم ایمان کی علامت ہے۔ نفاق اُن لوگوں میں ہوتا ہے جن کی حالت بھی بدل گئی اور انہیں اس حال کے بدل جانے کا کوئی غم بھی نہیں۔
پھر فرمایا کہ اگر تمہاری حالت میری صحبت سے چلے جانے کے بعد بھی وہی رہے، میری صحبت میں رہو یا گھر میں ہو ایک جیسا حال رہے تو پھر فرشتے تمہارے راستوں میں تم سے مصافحہ کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں۔
مسلم، الصحیح، کتاب التوبة، بَابُ فَضْلِ دَوَامِ الذِّکْرِ وَالْفِکْرِ 4: 2106، رقم: 2750
صحبت کی پہچان دوران صحبت ہے، بعد میں پھر اس کو قائم رکھنے کے لئے محنت کی ضرورت ہے۔ سارا کچھ رفاقت اور سنگت کے کھاتے میں ڈال کر بری الذمہ ہوجانے کا طرز درست نہیں۔ صرف سنگت میں آجانے سے بیڑے پار کرنے کا جو تصور لوگوں نے دے رکھا ہے یہ اصل میں ان لوگوں نے اپنی جیبیں بھرنے کے لیے دے رکھا ہے۔ چودہ سو سال میں اسلاف امت میں بڑے بڑے غوث، قطب، ائمہ، تابعین، اتباع التابعین گزرے مگر کسی نے بغیر عمل کے بیڑے اس طرح پار نہیں کرائے۔ آج ہمارے دور میں بغیر عمل کے جو بیڑے پار کروانے کے دعوے کئے جاتے ہیں یہ اصل میں بیڑے ڈبوئے جا رہے ہیں۔
امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں جب ان کے شاگرد حاضر ہوتے تو وہ انہیں بیعت کرتے وقت وعدہ لیتے کہ ’’مجھ سے وعدہ کرو کہ اگر تم بخشے گئے تو مجھے بھی بخشوا لو گے‘‘۔ جن کے ہاتھ میں سب کچھ تھا وہ اس طرح کے عاجز لوگ تھے اور ہم لوگ جن کے ہاتھ میں ہے ہی کچھ نہیں، ہم لوگوں کے عقیدے اور اعمال بھی برباد کرتے ہیں۔
صحبت اور رؤیت نے یاد الہٰی کا جو پودا لگایا اب اس کو برقرار رکھنے کے لئے محنت کی ضرورت ہے۔ پہلے دور میں صحبتیں بھی چالیس چالیس سال تک ہوا کرتی تھیں مگر پھر بھی ریاضت معطل نہیں ہوتی تھی، تاکہ صحبت سے جو حاصل کیا ہے، وہ محفوظ ہو جائے۔ صحبت سے achievement ہوتی ہے اور ریاضت اس کو maintain رکھنے کا سبب ہے۔ صحبت reception کا باعث بنتی ہے جبکہ اُس کو برقرار رکھنا ریاضت، مجاہدہ اور عمل ہے۔
خلوت میں بیٹھنے کی دو نیتیں
بری صحبت سے خلوت بہتر اور خلوت سے اچھی صحبت بہتر۔ بری صحبت سے خیر نہیں ملتی بلکہ وہاں سے چغلی، غیبت اور دیگر برائیاں ملیں گی۔ جب خلوت میں بیٹھیں تو کبھی یہ خیال نہ رکھیں کہ اس لیے الگ تھلگ رہتا ہوں اور مجلسوں سے بچتا ہوں تا کہ میں برائی سے بچوں۔ یہ گناہ ہے، اس تصور سے خلوت نقصان دہ ہو جائے گی۔ یہ تصور اور یہ نیت خلافِ اخلاص ہے اور روحانی طور پر ہلاکت انگیز ہے۔ جب خلوت میں بیٹھیں تو دو نیتیں رکھیں:
- اس لیے مجلس چھوڑی ہے کہ لوگ میرے شر سے بچ جائیں۔ لوگوں کے اعمال میری وجہ سے خراب ہوں گے اور میں ان کی آخرت کی خرابی کا باعث بنوں گا۔
- اس لیے خلوت میں بیٹھا ہوں کہ میرا نفس ایک کتا ہے، جو ہر ایک کو کاٹتا ہے لہٰذا میں اس نفس کو قید کر کے اس پر نگران بن کے بیٹھا ہوں۔
اچھی صبحت کی برکات
طویل عبادت سے بھی دل کے زنگ نہیں اترتے جو صحبت سے اترتے ہیں۔ افسوس ہم نے دنیا کمانے کے لیے کئی مفروضے گھڑ لیے۔ لوگوں کے عقائد بھی بگاڑے، عمل بھی خراب کئے اور یہ خرابی ہمارے مسلک میں بھی ہے۔ عقیدہ درست ہے مگر اس کا غلط استعمال کیا تو تباہی ہو گئی۔ عمل سے لوگ عاری ہو گئے اور رسموں پر سارا مدار کر لیا۔ رسمیں اچھی تھیں، اچھی ہیں مگر ان کی برکات تب میسر آتی ہیں جب دین کی اعلیٰ شرائط بھی پوری ہوں۔ فرض چھوڑنے والے سے سنتیں قبول نہیں ہوتیں اور سنت ترک کرنے والے سے نفل قبول نہیں ہوتے۔
حضور اکرم صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اچھی صحبت کی تین علامتیں ہیں۔
- اُن کے چہروں کو دیکھو تو خدا یاد آ جائے
- اُن کے اعمال کو دیکھو تو آخرت یاد آ جائے
- اُن کا کلام سنو تو دین کا فہم و حکمت نصیب ہو جائے
یعنی اُن کے اعمال آخرت کی یاد دلائیں، اگر اعمال، آخرت کی یاد نہیں دلاتے تو صحبت بے کار ہے۔ اُن کا کلام سنو تو اس سے دین کی حکمت اور فہم نصیب ہو تو یہ خیر الجلساء ہیں۔ صحبت سے فیض ملتا ہے مگر اس کی حفاظت کے لیے ریاضت، مجاہدہ اور استقامت چاہیے۔
اخلاص کے درجات
اخلاص کے دو درجے ہیں:
- مخلِص
- مخلَص
جو ابتدائے اخلاص میں ہو اُس کو مخلِص کہتے ہیں۔
جس نے راستہ سارا طے کر کے منزل پا لی، اُس کو مخلَص کہتے ہیں۔
عامۃ الناس مسلمانوں کو حکم دیا کہ مخلِص ہو جاؤ۔
فَادْعُوا ﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہه الدِّیْنَ۔
’’پس تم اللہ کی عبادت اس کے لیے طاعت و بندگی کو خالص رکھتے ہوئے کیا کرو
غافر، 40: 14
یہ قرآن مجید میں درجہء مخلِصین ہے۔
اور جو راہِ اخلاص طے کر لیتے اور منزل پر پہنچ جاتے ہیں، با کمال ہو جاتے ہیں اُن کو اللہ رب العزت مخلَصین کہتا ہے۔ جب شیطان نے کہا میں تیرے سب بندوں کو گمراہ کروں گا تو اسے بھی امرِ الٰہی سے حفاظتِ الٰہی کے تحت استثنیٰ کرنا پڑا۔ اُس نے کہا:
قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَo اِلَّا عِبَادَکَ مِنْہهمُ الْمُخْلَصِیْنَo
’’اس نے کہا: سو تیری عزّت کی قسم، میں ان سب لوگوں کو ضرور گمراہ کرتا رہوں گاo سوائے تیرے اُن بندوں کے جو چُنیدہ و برگزیدہ ہیں‘‘۔
ص، 38: 82۔، 83
مخلَصین، محفوظین ہو جاتے ہیں، وہ اللہ کی حفاظت میں چلے جاتے ہیں۔ شیطان کے حملے مخلِصین پر ہوتے رہتے ہیں اور وہ اُن کو بہکاتا رہتا ہے جبکہ غیر مخلصین پر حملے نہیں کرتا، اس لئے کہ جو مخلص نہیں ہوتے وہ ریاکار ہوتے ہیں اور وہ پہلے ہی سے شیطان کی آرمی کے سپاہی ہوتے ہیں، اس کی پارٹی کے لوگ ہوتے ہیں۔ قرآن نے ان کو اولیاء الشیطان کہا کہ وہ شیطان کے دوست ہوتے ہیں، حملہ دوستوں پر نہیں، دشمنوں پر کیا جاتا ہے۔ جو ریا کار ہیں اور اخلاص سے خالی ہیں وہ شیطان کے دوست ہیں، اس لیے شیطان ان کی حفاظت کرتا ہے، اسے ان پر حملہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ شیطان اپنے دوستوں پر حملہ نہیں کرتا۔ اللہ مخلَصین کی صورت میں موجود اپنے دوستوں کو حملوں سے محفوظ رکھتا ہے۔
جو اخلاص میں باکمال ہو جاتے ہیں اللہ ان کو اپنا دوست بنا لیتا ہے اور وہ شیطان کے حملے سے بچ جاتے ہیں اور جو ریا کار ہوتے ہیں شیطان ان کو اپنا دوست بنالیتا ہے لہذا اُن پر اُسے حملوں کی ضرورت ہی نہیں رہتی کیونکہ وہ پہلے ہی اس کی راہ پر ہیں۔ لہذا شیطان کے حملے کے لیے مخلِصین، عامۃ الناس، عام مسلمان کا ایک ہی طبقہ رہ جاتا ہے۔ اس میں علمائ، صالحین، عاملین، قرائ، نعت خواں، پیر، تاجر، نیکوکار، پرہیزگار سبھی شامل ہیں۔ چونکہ یہ لوگ نیکی کی راہ پر ہیں اور نیکی کی راہ پہ چلنے والے شیطان کے دشمن ہیں۔ لہذا انہی پر شیطان حملہ کرتا ہے اور اُن کو بہکاتا ہے۔
اللہ رب العزت نے جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا تو فرمایا:
وَاْذ کُرْ فِی الْکِتٰبِ مُوْسٰٓی اِنَّه کَانَ مُخْلَصًا وَّکَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاo
اور (اس) کتاب میں موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کیجیے بے شک وہ (نفس کی گرفت سے خلاصی پاکر) برگزیدہ ہوچکے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھے۔
مریم، 19: 51
یہاں مخلَصاً فرمایا مخلِصاً نہیں فرمایا، اس لئے کہ مخلَص درجہ اخلاص میں کمال پر ہوتے ہیں اور نفس کے چنگل سے آزاد ہوتے ہیں جبکہ مخلِص still نفس کا قیدی ہوتا ہے مگر مخلِص اس لیے ہے کہ وہ قید سے آزادی کی کوشش کر رہا ہے،محنت اور ریاضت کر رہا ہے لہذا جب وہ آزادی کو پائے گا تو مخلَص کے درجہ میں داخل ہوجائے گا۔
(جاری ہے)
تبصرہ