پیمرا کے ضابطہ اخلاق کی بعض شقیں آزادی اظہار کے حق سے متصادم ہیں: پاکستان عوامی تحریک
ماڈل ٹاؤن میں بے گناہوں کو قتل کرنے والوں کو قاتل کہنا بھی جرم ہو گا؟ مرکزی سیکرٹری اطلاعات
لاہور (22 اگست 2015) پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ایم نوراللہ نے کہا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کیلئے جاری ہونے والے ضابطہ اخلاق کی بعض شقیں آزادی اظہار کے آئینی حق سے متصادم ہیں۔ حکومت اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو روکنے کیلئے اس ضابطہ اخلاق کا غلط استعمال کر سکتی ہے جسے پہلے ہی میڈیا کی آزادی ہضم نہیں ہو رہی۔ سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر مسلط کیا جانے والا ضابطہ اخلاق قابل عمل اور مفید ثابت نہیں ہو گا۔ گزشتہ دس سالوں میں پاکستان کی واحد کامیابی میڈیا کی آزادی ہے جس کے جمہوری رویوں پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں اور حکومتی اداروں کے شتربے مہار اختیارات پر قدغن لگی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ماڈل میں 14 بے گناہوں کو شہید اور 90 سے زائد کو گولیوں سے چھلنی کر نے والوں اور ان کے سرپرستوں کو اگر قاتل کہا جائے گا اور ان کے اس اقدام کو دہشتگردانہ اقدام کہا جائے گا تو کیا یہ بھی قابل گرفت ہو گا؟۔ حکومت میڈیا کے آئین و عوام دوست کردار کو محدود کرنا چاہتی ہے مگر حکومتی ڈنڈے سے آزادی اظہار کے حق کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے نام لیے بغیر کہا کہ بعض صحافی جعلی خوراک اور ادویات تیار کرنے والے انسانیت کے دشمن عناصر کو بے نقاب کرتے چلے آرہے ہیں۔ وہ سماج دشمن عناصر کے جعل سازی کے کارخانوں کے اندر گھس کر انہیں بے نقاب کرتے ہیں کیا ایسے صحافی اور چینلز بھی قابل گرفت قرار پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان عوامی تحریک مادر پدر آزاد ی کے حق میں نہیں تاہم حکومت اگر ضابطہ اخلاق کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرے گی تو اس سے مزید تباہی آئے گی۔
تبصرہ