کتاب علم کی تحصیل اور ترسیل کا قابل اعتبار ذریعہ ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری
کمپیوٹر یوزر نوجوان بک یوزر بھی بنیں، کتاب پڑھنے کا کلچر واپس
لائیں
سربراہ عوامی تحریک کا یوتھ کیلئے مجالس العلم کے عنوان سے خطابات کی سیریز کا پہلا
خطاب
لاہور (19 نومبر 2015) پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا ہے کہ کمپیوٹر جدید دور کا ناگزیر تقاضا ہے، تاہم کتاب آج بھی علم کی تحصیل اور ترسیل کا قابل اعتبار اور باوقار ذریعہ ہے۔ کمپیوٹر یوزر نوجوان بک یوزر بھی بنیں اور کتاب پڑھنے کا کلچر واپس لائیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے یوتھ کیلئے ’’مجالس العلم ‘‘ کے عنوان سے خطابات کی سیریز کے پہلے خطاب کے موقع پر کیا۔
انہوں نے کہا کہ ابہام سے پاک معلومات کیلئے علم کی بنیادوں تک رسائی ناگزیر ہے، اکابرین، محقیقین، فقہا، سائنس دانوں کی تحقیق کتاب کے ذریعے ہم تک پہنچی۔ انہوں نے کہا کہ میں کمپیوٹر یوزر نہیں بک یوزر ہوں۔ کتاب کو دیکھتا پڑھتا اور لکھتا ہوں۔ جلد نتیجہ اخذ کرنے کی خواہش نے آرام طلبی کو جنم دیا، نوجوانوں سے کہوں گا کہ علم کے معاملے میں سہل پسندی کو ترک کردیں اور مصدقہ معلومات تک رسائی کیلئے کتاب کو علم کے حصول کا ذریعہ بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ مختلف سائٹس پر موجود معلومات اور حوالہ جات اپنی صحت کے اعتبار سے سند نہیں ہیں یہ حوالہ جات اکثر و بیشتر درست نہیں پائے گئے اور اس سے فکری انتشار اور ابہام جنم لیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے کتاب پڑھنے اور کتاب خریدنے کا کلچر معدوم ہو رہا ہے۔ نئی نسل اسلاف کے اس کلچر کو واپس لائے۔ انہوں نے کہا کہ میں ہرگز ہرگز کمپیوٹر کی افادیت سے انکار نہیں کرتا تا ہم کتاب سے ٹوٹے ہوئے رشتہ کو بحال کرنے کرنے کا سب سے بڑا داعی اور محرک ہوں۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے بزرگ، اکابرساری ساری رات کتاب پڑھتے، کتاب پڑھاتے اورلکھتے تھے، ایک مسئلہ کو سلجھانے کیلئے درجنوں کتب انکے زیر مطالعہ رہتی تھیں، اسی محنت اور مشقت کی برکت سے مسائل کی گتھیاں سلجھتی چلی جاتی تھیں اور علم کا سفر رواں دواں تھا، آخر کیا بات ہے کہ آج علوم و فنون کے ذرائع کی فراوانی کے باوجود کوئی رومی، جامی، غزالی، بخاری پیدا نہیں ہو رہا؟ انہوں نے کہا کہ کتاب کی اہمیت اور افادیت آج ماضی ہی کی طرح اہم ہے۔
سربراہ عوامی تحریک نے مجالس العلم کے عنوان سے خطابات کے ایک تحقیقی سلسلے کا آغاز کیا ہے، وہ ہفتہ میں پانچ روز کینیڈا سے براہ راست ویڈیو لنک پر خطاب کررہے ہیں انکے ان علمی و تحقیقی خطابات کو اندرون بیرون ملک سینکڑوں مقامات پر سنا جا رہا ہے۔
تبصرہ