دہشتگردوں کے سہولت کار ’’مفاہمت‘‘ کے ساتھ قومی مفاہمت کی دھجیاں اڑا رہے ہیں: ڈاکٹر طاہرالقادری
قومی ایکشن پلان کے 20 نکات میں سے 18 پر عمل نہیں ہوا
افواج پاکستان، وفاق پاکستان اور ایکشن پلان پر دستخط کرنیوالے سیاسی رہنما قوم کو
جواب دہ ہیں
معاشی دہشتگردوں کیخلاف کارروائی سے انکار شہید بچوں کے خون سے غداری ہے، ویڈیو لنک
پر خطاب
قومی ایکشن پلان دہشتگردی کے خاتمہ کا قومی ڈاکومنٹ ہے، سبوتاژ نہیں ہونے دینگے
لاہور (15 دسمبر 2015) پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ افواج پاکستان، وفاق پاکستان اور قومی ایکشن پلان پر ستخط کرنے والی سیاسی قیادت عملدرآمد کے حوالے سے قوم کے سامنے جواب دہ ہے۔ معاشی دہشتگردوں اور سہولت کاروں کے خلاف کارروائی سے انکار سانحہ اے پی ایس پشاور کے بچوں سمیت 50 ہزار سے زائد شہیدوں کے خون سے غداری ہے۔ دہشتگردوں کے سہولت کار حکمران ’’مفاہمت‘‘ کے ساتھ قومی ایکشن پلان کے نتیجے میں پیدا ہونیوالی قومی مفاہمت کی دھجیاں اڑارہے ہیں۔ 20 نکاتی ایکشن پلان دہشتگردی کے خاتمہ کا قومی ڈاکومنٹ ہے، اسے سبوتاژ نہیں ہونے دیا جائیگا۔ جن کی دولت، بچے، جائیدادیں بیرون ملک ہیں انہیں پاکستان کے امن سے کوئی سروکار نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز پاکستان عوامی تحریک کی سنٹرل کور کمیٹی کے اجلاس سے ویڈیو لنک پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ قومی ایکشن پلان کی بنیادوں میں اے پی ایس کے معصوم شہید بچوں کا خون شامل ہے، اس قومی ڈاکومنٹ پر دستخط کرنے والے نتائج کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے بھاگ نہیں سکتے۔ انہوں نے کہا کہ قومی ایکشن پلان کے 20 نکات میں سے صرف 2 پر عمل ہواجن کا تعلق فورسز کے ایکشن سے ہے، بقیہ 18 نکات پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ سربراہ عوامی تحریک نے ایک سال گزر جانے کے بعد قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے حکومت کی ناکامیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مدارس کی رجسٹریشن ہوئی اور نہ غیر ملکی فنڈنگ بند ہوئی، اصلاحات سمیت فروغ امن نصاب کی تیاری میں بھی حکومت نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔ مذہبی و مسلکی انتہا پسندی کی روک تھام کی بجائے لاؤڈ سپیکر کے خلاف کریک ڈاؤن کر کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی۔ معاشی دہشتگردوں اور سہولت کاروں کے خلاف آپریشن رکوادیاگیا، قانون سازی کی پراسیکیوشن، انویسٹی گیشن اور پولیس اصلاحات میں پہلے سے زیادہ ابتری آئی۔ نیکٹا ایک سال بعد بھی فعال نہ ہو سکا اور تو اور وزارت داخلہ ایک سال مکمل ہونے پر بھی کالعدم تنظیموں کی مصدقہ فہرست تیار کرنے میں ناکام ہے۔ فاٹا کی ریفارمز کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے لاکھوں آئی ڈی پیز آج بھی دربدر اور بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اینٹی ٹیررازم فورس کے دو چار ’’سیمپل‘‘ متعارف کروانے کے بعد اس منصوبے کو بھی سرد خانے کی نذر کر دیا گیا کیونکہ حکمرانوں کے نزدیک قومی دولت کا واحد مصرف موٹروے، میٹرو اور اورنج ٹرینیں بنانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر انتہا پسندی کی روک تھام کیلئے ایک سال گزر جانے کے بعد بھی قانون سازی نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ کراچی آپریشن جملہ مقاصد کے حصول کی تکمیل تک جاری رکھنا قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے مگر حکمران ملکر اسے ناکام بنارہے ہیں اور آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں پہاڑوں میں حاصل ہونیوالی کامیابیوں کو سیاسی ایوانوں میں ضائع کیا جارہا ہے۔ آپریشن کو ایک صوبے یا ایک علاقے تک محدود رکھنے کی وجہ سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اگر معاشی دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کا دائرہ پنجاب سمیت پورے ملک تک بڑھایا جاتا تو کسی کو انگلی اٹھانے کی جرات نہ ہوئی۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ بیروزگاری، دہشتگردی کے فروغ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ حکومت نے اس ضمن میں نئی آسامیاں پیدا کرنا دور کی بات بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ کے ذریعے لاکھوں مزدور بیروزگار ہو گئے۔ وفاقی اداروں میں موجود 65 ہزار خالی اسامیوں پرایک بھرتی بھی نہیں کی گئی، ان خالی اسامیوں پر اس وقت بھرتیاں ہونگی جب آئندہ عام انتخابات سر پر ہونگے اور سرکاری ملازمتیں سیاسی رشوت کے طور پر بانٹی جائینگی۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی ضرور آئی مگر دہشتگردی ختم نہیں ہوئی۔ رواں سال ملک بھر میں دہشتگردی کے 824 واقعات میں 650 انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ تازہ ترین واقعہ پارا چنار دہشتگردی کا ہے جس میں 25 سے زائد اموات ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ منی لانڈرنگ اور ڈالروں کی سمگلنگ میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں پیش ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 9 سالوں میں 35 ارب ڈالر کی سمگلنگ ہوئی جو قومی اداروں کیلئے آج بھی سوالیہ نشان ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں داعش کیلئے بھرتیاں ہورہی ہیں، کالعدم تنظیموں کے سینکڑوں افراد کے لوکل گورنمنٹ الیکشن میں منتخب ہونے کی رپورٹس منظر عام پر آرہی ہیں اور حکمران چین کی بانسری بجانے اور قوم کو دھوکہ دینے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کرپشن، نااہلی، دہشتگردی کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے حکمران دہشتگردی کی پروموشن کیلئے کام کررہے ہیں۔ صرف ایک ماہ قبل ہونے والے گیلپ سروے میں امن کی بحالی کیلئے 69 فیصد پاکستانیوں نے سول حکومت کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ سانحہ اے پی ایس میں ملوث کتنے سہولت کاروں، ہدایتکاروں اور معاونین کو گرفتار کیا گیا اور کتنوں کو پھانسیاں ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت میں دہشتگردوں کے سپورٹر اور سہولت کار موجود نہ ہوتے تو پاکستان کے دل اسلام آباد میں دستور پاکستان کو کھلے عام چیلنج کرنے والے نہ دندناتے پھرتے۔
تبصرہ