حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ اور خدمتِ خلق
ڈاکٹر ممتاز احمد سدیدی الازہری
ہم جب کبھی ’’ماں‘‘ کا لفظ سنتے ہیں تو محبت، شفقت اور ایثار کے سارے معانی نظر کے سامنے آجاتے ہیں۔ماں کی آغوش اولادکو موسم اور زمانے کی گرمی سردی سے بچاتی ہے۔۔۔ ماں کی آغوش ہی بچوں کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔۔۔ ایمان کے نور سے مالا مال مائیں ہی بچے کی توتلی زبان کو اللہ کا نام لینا سکھاتی اور انسانی رشتوں کی پہچان کرواتی ہیں۔ بے لوث محبت، شفقت اور تربیت کا دوسرا سرچشمہ باپ ہے جو اپنے بچوں کے لئے خون پسینہ ایک کر کے روزی کماتا ہے اور ان کے لئے خوراک، پوشاک اور رہائش کی دستیابی کا وسیلہ بنتا ہے۔
والدین کی محبت اور شفقت کا کوئی متبادل نہیں ہے مگربسا اوقات ظاہری علوم سے آراستہ کرنے والے اساتذہ اور روحانیت کا نور بانٹنے والے صوفیائے کرام کی بارگاہ سے تصور سے بھی بڑھ کر محبت اور شفقت ملتی ہے۔ صوفیائے کرام ہر دور میں اللہ تبارک وتعالی کی رحمت کا مظہر رہے ہیں۔ اللہ کی مخلوق میں محبتیں بانٹنے والے یہ حضرات خالق سے مخلوق کا تعلق جوڑنے اور اسے مضبوط کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اِن قدسی نفس حضرات نے عبادت وریاضت کی کثرت کے ساتھ ساتھ خدمتِ خلق کی اہمیت سے نہ صرف آگاہی حاصل کی بلکہ د ل و جاں سے خلقِ خدا کی خدمت کی عملی مثالیں قائم کیں۔ اُنہوں نے اپنی تکالیف اورمصائب و آلام کو پس پشت ڈال کر ہمیشہ مخلوقِ خدا کی دلجوئی، پریشان حالوں کی غمگساری اور تنگ دستوں کی چارہ سازی کو ملحوظ خاطر رکھا۔ یہی نہیں بلکہ اِن حضرات نے اپنے وابستگان کو بھی خدمتِ خلق اور انسانیت کو نفع رسانی کے حوالے سے اپنا شعور وادراک منتقل فرمایا۔ اِس طرح وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر خلق ِ خدا کی خدمت میں مصروف ہوئے۔
مخلوق کو نفع رسانی اور بلا امتیازِ دین و مذہب خدمتِ خلق کی اہمیت قرآن کریم کی اِس آیت کریمہ سے بخوبی واضح ہوتی ہے:
وَ يُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهِ مِسْکِيْنًا وَّيَتِيْمًا وَّاَسِيْرًا. اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اﷲِ لَا نُرِيْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّلَا شُکُوْرًا.
’’اور اُس(اللہ) کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ اور کہہ دیتے ہیں:’’ہم تمہیں محض اللہ کے لئے کھلاتے ہیں، تم سے بدلہ اور شکریہ نہیں چاہتے‘‘۔
(سورة الانسان، 76: 8-9)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکی روایت کردہ حدیث سے بھی خدمتِ خلق کا تصور نکھر کر سامنے آتا ہے کہ رحمت دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
’’ ان اللّٰه تعالی يحب من عباده من هو انفع للناس، فکلما زاد النفع زاد حب اللّٰه له‘‘
’’اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے اُس کے ساتھ زیادہ محبت فرماتا ہے جو لوگوں کے لئے زیادہ نفع رساں ہوتا ہے، جس قدر خلقِ خدا کی نفع رسانی میں اضافہ ہوگا، اُس کے لئے اللہ تعالی کی محبت میں اضافہ ہوگا۔‘‘
شیخ سعدی شیرازی رحمہ اللہ تعالی نے اپنے وسیع مطالعہ اور زندگی کے عمیق مشاھدہ کے بعد بجا فرمایا:
بہ تسبیح وسجادہ ودلق نیست
تصوف بجز خدمتِ خلق نیست
خدمت خلق کے حوالے سے قطب ربانی، غوث صمدانی حضرت سید عبد القاد جیلانی رحمہ اللہ تعالی کی تعلیمات اور عملی طور پر یتیموں ،آشفتہ حالوں سے اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے محبت نے خدمتِ خلق کی متعدد جہتیں متعارف کروائی ہیں۔ آپ نے یتیموں، مسکینوں اور غم کے ماروں کویوں اپنی شفقتوں اور لطف و کرم سے نوازا کہ اُن پسے ہوئے لوگوںکی بے نور زندگیوں میںامید اور امنگ کے خوبصورت رنگ جھلکنے لگے۔ آیئے! اس سلسلہ میں حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے فرمودات سے اپنے ظاہرو باطن کو منور کرنے کا ساماں کرتے ہیں:
سخاوت
سخاوت کس طرح انسان کے گناہ کو ختم کرنے کا سبب بنتی ہے، اس سلسلہ میںحضرت غوث اعظم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
’’ایک مرتبہ حضرت عیسی علیہ السلام کے سامنے ابلیس ظاہر ہوا تو آپ نے اُسے فرمایا:تجھے مخلوق میں سب سے زیادہ پسند کون ہے؟ تو اُس نے کہا: بخیل مومن۔ آپ نے فرمایا: سب سے زیادہ ناپسند کون ہے؟ تو اُس نے کہا: فاسق سخی۔ آپ نے فرمایا: ایسا کیوں ہے؟ تو اُس نے کہا: میں بخیل مومن سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ اُس کا بخل اُسے معصیت میں مبتلاء کردے گا۔ جبکہ فاسق سخی کے بارے میں مجھے خوف ہوتا ہے کہ کہیں اُ س کی سخاوت اُس کے گناھوں کو مٹا ہی نہ دے۔
(الفتح الربانی، ص: 29)
نعمت مال پر شکر کیونکر ممکن ہے؟
مال کی نعمت ملنے پر شکر ادا کرنے کا طریقہ بتاتے ہوئے حضرت غوث اعظم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
’’مال کی نعمت کا شکر یہ ہے کہ نعمت پانے والا، منعمِ حقیقی کی نعمتوں کا اعتراف واقرار کرتے ہوئے ہر حال میںاللہ تعالی کے احسان کو یاد رکھے۔ اِس نعمت پر اپنا حق نہ سمجھے، نہ اپنی حد سے آگے بڑھے۔ مال ودولت کے حوالے سے اپنے ربّ کے احکام کی پابندی کرے، پھر اُس کے حقوق مثلا: زکوٰۃ، کفارہ، ہدیہ، صدقہ اور مظلوموں کی(حتی المقدور) مدد لازم جانے۔‘‘
(فتوح الغيب ،مقالة نمبر: 45)
اہل و عیال کے ساتھ حسنِ اخلاق
سچے درویش اللہ کی رضا کے لئے اپنی اولاد اور کنبے سے محبت اور حسن سلوک کرتے ہیں۔ حضرت غوث اعظم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
’’فقیر (الی اللہ)اپنے اہل وعیال کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئے۔شریعت کے مطابق جس قدر ممکن ہو اُن پر خرچ کرے۔ اگر فقیر (الی اللہ)اِتنے ہی مال کا مالک ہو جو اُس دن کے لئے کافی ہے تو وہ آئندہ کل کے لئے کچھ بھی بچا کر نہ رکھے۔جب فقیر کے پاس آج کی ضرورت پوری ہونے کے بعد کچھ بچ جائے تو وہ باقی ماندہ کو اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے بچوں کے لئے سنبھال کر رکھ لے۔ خود اپنے کنبے کے تابع ہو کر یوں کھانا کھائے کہ جیسے وہ ان کا وکیل یا خادم یا غلام ہے۔ اپنے کنبے کی خدمت اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے محنت مشقت کو اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل سمجھے۔ اپنے اہل وعیال کو اپنے آپ پر ترجیح دے ۔‘‘
(غنية الطالبين: 298)
حسنِ معاشرت
دینی اور نسبی بھائیوں کے ساتھ اچھے رہن سہن کی تلقین بھی خدمتِ خلق کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ حضرت غوث اعظم رحمہ اللہ تعالی درویشوں کواِس حوالے سے حسن معاشرت کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اللہ کے فقیر کو چاہیے کہ وہ اپنے ( دینی اور نسبی) بھائیوں سے حسن سلوک کرے، ان کے سامنے چہرے پر تیوریاں نہ چڑھائے بلکہ انہیں کشادہ روئی سے ملے۔ ان کی ایسی خواہشات کی مخالفت نہ کرے جو خلافِ شریعت، حد سے تجاوز کرنے اور گناہ کے ارتکاب تک پہچانے والی نہ ہوںبلکہ وہ خواہشات ایسی ہوں جنہیں پورا کرنے کی شریعت نے اجازت دی ہے۔فقیر کو چاہیے کہ وہ اپنے (دینی اور نسبی) بھائیوں کے ساتھ مذکورہ بالاشرائط کے مطابق تعاون کرنے والا ہو۔ ان کی طرف سے پہنچے والی تکالیف پر بہت ْصبر کرنے والا ہو۔ اُن کے لئے دل میں کینہ پالنے والا نہ ہو۔ دل میں ان میں سے کسی ایک کے لئے کسی قسم کا کھوٹ اور مکر و فریب نہ رکھے۔ نہ آمنے سامنے ان سے بد کلامی کرے اور نہ اُن کی عدم موجودگی میں ان کی غیبت کرے بلکہ اُن کی عدم موجودگی میں اُن کا دفاع کرے۔ جس حد تک ممکن ہو ان کے عیب چھپائے۔ اگر ان میں سے کوئی بیمار پڑ جائے تو فقیر (الی اللہ)اس کی عیادت کرے اور اگرفقیر (الی اللہ) اُن میں سے کسی کی بیماری پر اپنی مصروفیات کے سبب بر وقت عیادت نہ کر سکے تو صحت یاب ہونے پر اسے مبارک باد دے۔ اگرکوئی درویش خود بیمار پڑ جائے اور اس کے بھائی اُس کی عیادت نہ کر سکیں تو فقیر (الی اللہ) ان دوستوں کے لئے عذر تلاش کرے ( یعنی یہ خیال کرے کہ وہ کسی مجبوری کے سبب عیادت نہ کر سکے ہوں گے۔)اور اگر عیادت نہ کرنے والا بیمار ہو جائے تو فقیر (الی اللہ)اُسے اس کی کوتاہی یا د نہ دلائے بلکہ خوش دلی سے اس کی عیادت کرے۔ قطع رحمی کرنے والے سے صلہ رحمی کرے۔ جو شخص فقیر( الی اللہ) کو کچھ نہ دے، یہ درویش اس کو بھی (حسب استطا عت کوئی تحفہ) دے۔ ظلم کرنے والے کو معاف کرے۔ ناشائستگی کا ارتکاب کرنے والے کے لئے خود کوئی عذر تلاش کرے( یعنی یہ خیال کرے کی اس نے کسی پریشانی کے زیر اثر بے ارادہ یہ عمل کیا ہوگا۔)اور اپنے نفس کو ہی ملامت کرے۔
(غنية الطالبين: 294-295)
- فقیر کے لیے مناسب نہیں کہ وہ دوسرے درویشوں پر اپنی مرضی اور اختیار کو مقد م رکھے۔ اگر کوئی فقیر اس سے کچھ مانگے تو یہ درویش اس کا سوال رد نہ کرے اگر چہ وہ چیز تھوڑی ہی ہو۔ زیادہ انتظار کروا کر اس ضرورت مند کو تکلیف نہ پہنچائے ۔اگر کوئی اِس سے مشورہ مانگے تو جواب دینے میں جلدی کرتے ہوئے اس کی بات نہ کاٹے بلکہ اُسے موقع دے کہ وہ اپنا مافی الضمیر کھل کر بیان کرے۔ جب وہ اپنی بات مکمل کر چکے اورفقیر (الی اللہ) کو وہ بات اچھی نہ لگے تو وہ فوری رد عمل ظاہر نہ کرے بلکہ پہلے تو اس کے لیے موافقت ظاہر کرے پھر نرمی سے اسے وہ بات کہے جو فقیر کی رائے میں حق سے بہت زیادہ قریب ہو۔
(ايضاً: 298)
ضرورت مند کی حتی المقدور اعانت
حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے محتاجوں اور ضرورت مندوں کی حتی المقدور مدد و اعانت کے حوالے سے فرمایا:
جہاں تک ممکن ہو کسی سے ادھار نہ لے،اگر کوئی ضرورت مند انسان فقیر (الی اللہ)سے ادھار لے تو یہ درویش حتی الامکان اس سے قرض کی واپسی کا مطالبہ نہ کرے،کیونکہ اس نے کسی مجبوری کے تحت ہی ادھار لیا تھا۔ جس طرح شر عی طور پر ہدیۃ اورہبہ کی گئی چیز کو واپس نہیں لیا جا تا اسی طرح جواں مردوں کو زیب نہیں دیتا کی وہ ادھار دی ہوئے چیز( مقروض کی مجبوری کے با وجود)واپس لیں۔ اگر اللہ کافقیر تحفہ دینے پر قادر نہ ہو تو ضرورت مند کو ادھار دینے میں تردد نہ کرے بلکہ جلدی کرے اگرچہ ہر روز دینا پڑے، کیونکہ اللہ کے فقیر کو زیب نہیں دیتا کی وہ لوگوں سے اپنا مال روک کر فقط خود استعمال کرے،اس لئے کہ وہ مال فقیر کی ملکیت نہیں بلکہ وہ فقیرتو فقط مال کا امین ہے ، فقیر (الی اللہ) کو چاہئے کہ وہ تمام اشیاء کا حقیقی مالک فقط اللہ تعالی کو سمجھے۔
( غنية الطالبين: 295)
- ایک مرتبہ حضرت غوث اعظم اپنی مسند پر جلوہ افروز تھے کہ آپ کی خدمت میں ایک درویش حاضر ہوااور سلام عرض کرکے بیٹھ گیا ، آپ نے اُس کی قلبی پریشانی کو کشف کے ذریعے بھانپ لیا اور شفقت سے پوچھا: ’’ تم پریشان کیوں ہو؟‘‘ وہ عرض گزار ہوا:’’ میں نے دریا کے پار جانے کے لئے ایک ملاح کی کشتی پر سوار ہونا چاہا تو اُس نے مجھے ایک دینار اجرت کے بغیر کشتی پر سوار کرنے سے انکار کر دیا جبکہ میرے پاس اُسے دینے کے لئے کچھ بھی نہیںہے۔‘‘ آپ نے اُسے تسلی دے کر اپنے پاس بٹھایا، ابھی اُس سے بات چیت جاری ہی تھی کہ آپ کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہوا اور اُس نے آپ کی خدمت میں تیس درہم پیش کئے۔ آپ نے وہ تیس درہم اٹھا کر اُس شخص کی طرف بڑھا دئے اور اُسے فرمایا: ’’ ملاح کو ہماری طرف سے کہنا: کسی فقیر کا سوال رد نہ کیا کرے۔‘‘
فقراء کو دعوتِ طعام
خدمتِ خلق کے حوالے سے حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے فرامین اور اعمال میں سے فقراء کو دعوتِ طعام دینا بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سلسلہ میں آپ فرماتے ہیں کہ
جب تک اللہ تعالیٰ کا کوئی فقیر کھانا کھا رہا ہو اور اُس کی نظر اس کھانے پر ہو تو اس کے سامنے سے کھانا اٹھانا منا سب نہیں۔ فقیر (الی اللہ) کوچاہیے کہ وہ دوستوں کو خوب کھلائے اگرچہ ان کے دل میں کھانے کی طلب نہ بھی ہو۔
- کھانا کھلاتے وقت فقراء کو انتظار نہ کروائے۔ اسی طرح فقراء کی دوسری ضرورتوں کو پورا کرتے وقت بھی ان کو انتظار کی زحمت نہ دے،کیونکہ انتظار کا یہ عمل اُن کے دلوں میں ٹھیس پہنچائے گا۔
- درویش کو چاہیے کہ وہ اپنی ملکیت میں موجود مال کو اپنے آپ تک محدو د نہ رکھے۔ اگر کھانا زیادہ نہ ہو تو وہ خودفقراء (یعنی درویشوں) سے پہلے نہ کھائے بلکہ (انتظار کرے اور وہ کھاناکھا چکیںتو اللہ کا یہ فقیر )ان کا بچا ہو ا کھائے۔ فقراء کو کھانا کھلانے میں پیش پیش رہے اور کوشش کرے کہ انہیں ا ن کے مزاج کے مناسب نفیس ترین کھانا پیش کرے۔ اگر اللہ کے فقیر کو کسی سے کوئی ہدیہ اور نذرانہ ملے تو اسے چاہیے کہ وہ اس ہدیہ اور نذرانہ کو سب درویشوں کے سامنے رکھ دے۔
(غنية الطالبين: 297)
- آپ فرمایا کرتے تھے:’’ میں نے نیک اعمال میں سے (بھوکے کو) کھانا کھلانے سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں پایا، کاش ساری دنیا میرے ہاتھوں میں ہوتی تو میں اُسے بھوکوں کو کھلانے پر صرف کردیتا۔میری ہتھیلی میں سوراخ ہے (اِس وجہ سے) میری ہتھیلی مال ودولت کو اپنے پاس روک نہیںپاتی۔ اگر میرے پاس ایک ہزار دینار بھی آجائیں تو میں اُنہیں اپنے پاس ایک رات کے لئے بھی نہیں روک سکتا۔
(سيرة اعلام النبلاء، 20: 449)
انفاق فی سبیل اللہ
حضرت غوث اعظم رحمہ اللہ تعالی نے اکیس شعبان 545ھ کو جمعہ کے دن مدرسہ قادریہ میں سامعین کوانفاق فی سبیل اللہ کی تلقین کرتے ہوئے ارشادفرمایا:
’’حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ تعالی سے منقول ہے کہ ایک دن اُن کے دروازے پر ایک سائل نے صدا دی اور کھانے کا سوال کیا۔ اُس وقت آپ کے کاشانہء مبارکہ میں دس انڈوں کے سوا کھانے کے لئے کچھ نہ تھا۔ آپ نے اپنی خادمہ کو حکم فرمایا کہ وہ سب انڈے سائل کو دے دے۔ خادمہ نے سائل کو نو(9) انڈے دئیے جبکہ ایک انڈاچھپا لیا۔پس مغرب کے وقت کسی نے آپ کے دروازے پر دستک دے کر کہا: مجھ سے یہ ٹوکری لے لیں۔ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ تعالی دستک کی آواز سن کر بذاتِ خود دروازے پر تشریف لے گئے۔(آنے والا ٹوکری دیکر چلا گیا ۔) آپ نے دیکھا تو ٹوکری میں انڈے تھے۔ شمار کئے گئے تو معلوم ہوا کہ نوے (90) انڈے ہیں،آپ نے خادمہ سے پوچھاــ: دسواں انڈا کہاں ہے؟اور تو نے سائل کو کتنے انڈے دیئے تھے؟ خادمہ بولی:میں نے سائل کو نو(9) انڈے دیئے تھے جبکہ ایک آپ کے افطار کے لئے رکھ لیاتھا۔آپ نے اسے(تربیتی نکتہء نظر سے) فرمایا: تم نے ہمیں دس انڈوں کا نقصان پہنچادیا ہے۔‘‘
(الفتح الربانی، ص: 155)
حضرت غوث اعظم نے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے پر کم از کم دس گنا اجر کا فلسفہ سمجھاتے ہوئے مزید فرمایاـ:
’’اولیاء اللہ کا اپنے کریم ربّ سے ایسا ہی معاملہ ہوا کرتا ہے، وہ کتاب وسنت میں مذکور ہر بات پر ایمان رکھتے ہیں اور اُس کی دل و جان سے تصدیق کرتے ہیں۔وہ اولیاء قرآنی احکام کو سینے سے لگانے والے تھے، وہ اپنی حرکات وسکنات اور لین دین میں کتاب وسنت کی مخالفت نہیں کرتے تھے۔اُنہوں نے اپنے ربّ کے ساتھ (اُس کی راہ میں خرچ کر کے) معاملہ کیااور اس معاملے میں نفع حاصل کرکے اُسے لازم پکڑا۔ اُنہوںنے اپنے رب کی عطا کا دروازہ کھلا دیکھا تووہ اُس میں داخل ہوگئے اور اُس کے غیر کا دروازہ بند دیکھا تو اُسے چھوڑ دیا۔‘‘
(ايضا، ص:155-156)
مقامِ اولیاء
خالق اور مخلوق سے اولیاء کا تعلق بیان کرتے ہوئے حضرت غوث اعظم رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا:
’’اولیاء اللہ دن میں اپنے اہل وعیال اور مخلوق کے امور میں مشغول رہتے ہیں جبکہ رات خلوت میں اپنے ربّ کے ساتھ گزارتے ہیں، جیسے کہ بادشاہ دن بھر غلاموں، خدمت گاروں اور لوگوں کی حاجت روائی میں گزارتے ہیں ۔ لوگو! اللہ تم پر رحم فرمائے، جو کچھ میں کہتا ہوںاُسے دل کے کانوں سے سنو اور اُسے یاد رکھو اور اُس پر عمل کرو۔‘‘
(الفتح الربانی، ص: 156)
ایثار و قربانی کا عظیم اظہار
حضرت غوث اعظم رحمہ اللہ تعالی کے قلب اطہر میں خدمت خلق کا جذبہ کتنا رچا بسا تھا؟ اِس بات کا اندازہ ذیل کے واقعہ سے لگایا جا سکتاہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’ایک مرتبہ میں نے بغداد میں بیس دن اِس حال میں گزارے کہ مجھے کھانے کے لئے کوئی حلال چیز دستیاب نہ ہوئی۔ پس میں کھانے کے لئے کسی حلال چیز کی تلاش میں ایوان کسری کی طرف (موجود) ویرانے کی جانب گیا۔ میں نے وہاں ستر (70) فقراء کو(جوکہ وقت کے کبار اولیاء تھے)اِسی جستجو میں دیکھا تو میں نے دل ہی دل میں کہا: یہ بات مروت کے خلاف ہے کہ میں اِن فقراء کی ضرورت مندی کو دیکھ کر بھی وہاں اپنے لئے کچھ تلاش کروں۔ یہ سوچ کر میں بغداد شہر کی طرف واپس آگیا جہاں مجھے اپنے شہر (جیلان ) کا ایک ایسا شخص ملا جسے میں جانتا نہیں تھا۔ اُس نے مجھے کچھ رقم تھماتے ہوئے کہا کہ یہ رقم آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کے لئے میرے ہاتھ بھیجی ہے۔ (آپ فرماتے ہیں:) میں نے اُس رقم میں سے ایک مختصر حصہ اپنے لئے الگ کیا اور باقی رقم لیکر ویرانے کی طرف تیزی سے روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر وہ رقم اُن ستر (70) فقراء پر تقسیم کردی، اُنہوں نے پوچھا :یہ رقم کہاں سے آئی؟ میں نے اُنہیں بتایا : یہ رقم میری والدہ ماجدہ نے بھجوائی ہے اور مجھے گوارا نہ ہوا کہ میں (برکت والی) یہ رقم آپ حضرات کے علاوہ کسی پر خرچ کروں۔پھر میں بغداد کی طرف واپس آیا میں نے بچائی ہوئی رقم سے کھانا خریدا اور دیگر فقراء کو بلا کر اُن کے ہمراہ کھانا کھایا۔‘‘
(قلائد الجواهر،ص: 2)
اِس واقعہ کی روشنی میں حضرت غوث اعظم رحمہ اللہ تعالی کا ایثار اور آپ کے قلب اطہر میںموجزن خدمت خلق کا جذبہ دو مرتبہ ظاہر ہوا:
- ایک مرتبہ ایثار کے پیش نظر ویرانے سے آپ کی واپسی کا عمل۔
- دوسری مرتبہ رقم ملنے پر فاقہ کے باوجود اپنی بھوک کو نظر انداز کرکے ویرانے میں خوراک کی جستجو میں مصروف اولیاء کی خدمت میںرقم پیش کرنے کا عمل۔
- حضرت غوث اعظم رحمہ اللہ تعالی بغداد شہر میں قیام اور جنگلوں میں عبادت وریاضت کے دوران فاقہ مستی کی جسمانی اور روحانی کیفیات سے مکمل طور پر آگاہ تھے، اِس حوالے سے شیخ محمد بن یحی تادفی تحریر کرتے ہیں: ’’سخاوت، کرم اور ایثار جیسے عناصر آپ کی فطرت میں شامل تھے، آپ اپنے پاس موجود سارا مال اللہ کی راہ میں لٹا دیتے تھے اگرچہ آپ کو خود بھی اُس کی ضرورت ہوتی۔ آپ کھانا کھلانا پسند فرماتے تھے۔ جب آپ پر فتوحات کا دروازہ کھلا تو آپ ہر رات دستر خوان بچھانے کا حکم فرماتے۔ مہمانوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول فرماتے۔ (دنیاوی اعتبار سے) کمزور لوگوں کے ساتھ (خوشدلی سے) تشریف فرما ہوا کرتے تھے۔ طلباء کی کوتاہیوں پر صبر فرمایا کرتے تھے۔ اُن میں سے کوئی حلف اٹھا لیتا تو اُس کی بات پر یقین فرماتے۔‘‘ (قلائد الجواہر، ص:8)
- حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے محبت اور شفقت سے مالا مال دل میں ضرورت مندوں کی مدد کا جذبہ کس درجہ کا تھااِس امر کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے : ’’اگر کوئی ضرورت مند کسی فقیر کی گودڑی، مصلی یا کسی اور چیز کی طرف رغبت کے ساتھ دیکھے تو فقیر کو چاہیے کہ اس ضرورت مند کو اپنے آپ پر تر جیح دیتے ہوئے اس کی مطلوبہ چیز فورااُسے دے دے ۔‘‘
(غنية الطالبين، ص: 297)
سلاطین سے دوری
حضرت غوث اعظم رحمہ اللہ تعالی سرمایہ داروں سے کس قدر دور اور فقراء سے کس قدر قریب تھے؟ امام شعرانی اِس بات کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:
’’آپ اپنی تمام تر عظمت وجلالت کے باوجود چھوٹے بچوں کی التماس پر اُن کے لئے رک جایا کرتے تھے۔ فقراء کے ساتھ تشریف فرما ہوتے اور اُن کے ساتھ اُن کے کپڑے دھلواتے۔ ( ایک طرف یہ صورت حال تھی جبکہ دوسری طرف) آپ حکومتی عہدیداروں کے(استقبال کے ) لئے کھڑے نہ ہوتے تھے، نہ کبھی کسی وزیر یا بادشاہ کے دروازے پر تشریف لے گئے۔‘‘
(الطبقات الکبری، للشعرانی، 1: 127)
آج ہم حضرت غوث اعظم رحمہ اللہ تعالی کی تعلیمات اور آپ کے عمل کو نشان راہ بناتے ہوئے گیارھویں شریف کا لنگر جتنے زیادہ یتیموں، ناداروں، غریبوں اور افلاس کے ماروں کو کھلائیں گے، اُسی قدر حضرت غوث اعظم رحمہ اللہ تعالی کی روحانی توجہات پانے کے حقدار ہوں گے۔ حضرت غوث اعظم ایک طرف بادشاہوں اور امراء کو اپنے قریب پھٹکنے بھی نہیں دیتے تھے، دوسری طرف اپنی درسگاہ کے یتیم بچوں کی دلجوئی کے لئے عملی طور پراُن کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا کرتے تھے۔ حضرت غوث اعظم رحمہ اللہ تعالی فقر وفاقہ کے عالم میں بھی فقراء اور بھوکوں کو اپنے آپ پر ترجیح دیا کرتے تھے۔ہمیں اپنے اندر جھانک کر دیکھنا ہوگا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم زبانی طور پر توحضرت غوث اعظم رحمہ اللہ تعالی سے محبت کے دعویدار ہیں مگر ہمارے عمل آپ کی تعلیمات اور آپ کے عمل سے کوسوں دور ہیں۔
تبصرہ