’’وفاق اور صوبے کے حکمرانوں نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے پاکستان آنے کے اعلان پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں‘‘
سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کے مدعی ڈائریکٹر منہاج القرآن جواد حامد نے انسداد دہشتگردی کی عدالت میں بیان قلمبند کروا دیا
لاہور (16 مارچ 2016) ادارہ منہاج القرآن انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن جواد حامد نے انسداد دہشتگردی کی عدالت میں دائر استغاثہ کے حوالے سے جسٹس خواجہ ظفر اقبال کی عدالت میں اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو 2014 ء میں تحریک سے خوفزدہ حکومت نے پاکستان آنے سے روکنے کیلئے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں خونی آپریشن کیا اور کارکنوں کو شہید اور 85 سے زائد کو زخمی کر دیا، انہوں نے کہا کہ جہاں تک تجاوزات ہٹانے کے آپریشن کی فرضی کہانی کا تعلق ہے تو یہ حفاظتی بیریئر عدالت کے حکم اور پولیس کی نگرانی میں لگائے گئے تھے کیونکہ 2010 ء میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے خودکش دھماکوں اور دہشتگردی کے خلاف ایک فتویٰ دیا تھا جس کے بعد انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں جس کی تصدیق مختلف ایجنسیوں نے بھی کی اور ان دھمکیوں کے موصول ہونے کے بعد پولیس کی نگرانی میں اور عدالت کے حکم پر یہ حفاظتی بیریئر لگائے گئے تھے ان کے خلاف آپریشن غیر قانونی تھا اور اس کے مقاصد سیاسی تھے۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ مئی 2014 ء کے آخری ہفتے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کینیڈا سے لندن آئے جہاں 29 اور 30 مئی 2014 ء کو چودھری شجاعت حسین، چودھری پرویز الٰہی کی قیادت میں ق لیگ کے ایک مرکزی عہدیداروں کے وفد کی لندن میں ملاقات ہوئی، ق لیگ اور PAT کے درمیان ایک عوام دوست 10 نکاتی ایجنڈے پر اتفاق ہوا اور مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اس اعلامیہ کے جاری ہونے کے بعد ٹی وی چینلز اور اخبارات میں یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کی لندن میں کوئی خفیہ ملاقات ہوئی ہے اور یہ کہ حکومت کے خلاف کسی بڑے اتحاد کی تیاریاں شروع ہوئیں ہیں اور اس اتحاد میں ڈاکٹر طاہرالقادری، چودھری شجاعت حسین اور عمران خان شامل ہیں اور یہ کہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا پلان بنایا جارہا ہے، یہ خبریں بھی ٹی وی چینلز پر گردش کرتی رہیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری جون 2014 ء میں پاکستان آ کر حکومت کے خلاف تحریک چلائیں گے اور اس حوالے سے ٹی وی چینلز پر گرما گرم بحث و مباحثہ شروع ہو گیا۔ مورخہ 11 جون 2014 ء کو ڈاکٹر طاہرالقادری نے کینیڈا سے پریس کانفرنس کے دوران 23 جون 2014 ء کو پاکستان آنے کا اعلان کیا اور انہوں نے پریس کانفرنس میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ حکومت ان کے خلاف دہشتگردی کرواسکتی ہے کیونکہ موجودہ حکمرانوں کے دہشت گردوں سے روابط اور تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور اس دوران انہوں نے حکمرانوں کے خلاف ایک عوامی ایف آئی آر کا اعلان بھی کیا تھا کہ اگر ہمارا کوئی جانی نقصان ہوا تو اس کے ذمہ دار وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ شہباز شریف، حمزہ شہباز، چودھری نثار، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، پرویز رشید، عابد شیر علی، رانا ثناء اللہ ہونگے کیونکہ یہی وزراء اپنے بیانات میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ جواد حامد نے اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ رانا ثناء اللہ اور خواجہ سعد رفیق نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ’’جن ‘‘نکال دینگے، ان کیلئے دھونی تیار کر لی ہے۔ جواد حامد نے اپنے بیان میں کہا کہ 15 جون 2014 ء کو میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی ایک ہنگامی ملاقات جاتی عمرہ رائیونڈ میں ہوئی جس کا موضوع ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان آمد تھا جس کی کوریج بطور ثبوت موجود ہے۔ جواد حامد نے اپنے بیان میں کہا کہ 15 جون کو بعد نماز مغرب چیف منسٹرہاؤس سے ایک گاڑی بھجوائی گئی جس میں خرم نواز گنڈاپور، فیاض وڑائچ، سید الطاف حسین گیلانی سوار ہو کر ایک کوٹھی بمقام ایچ بلاک ماڈل ٹاؤن پہنچے جہاں میاں نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، ڈاکٹر توقیر، چودھری نثار، رانا ثناء اللہ، خواجہ سعد، خواجہ آصف، پرویز رشید، عابد شیر علی موجود تھے، مختصر رسمی گفتگو کے بعد میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف نے ڈاکٹر طاہرالقادری کی آمد کے بارے میں دریافت کیا اور تصدیقی جواب کے بعد PAT کے لوگوں سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کے آنے سے ملکی سیاسی فضا پیچیدہ ہو جائے گی لہٰذا ہمارا یہ حکم ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو کہہ کر ان کی پاکستان آمد رکوائیں جس پر خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان آمد کا حتمی فیصلہ ہو چکا ہے جس پر نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز طیش میں آ گئے اور کہا کہ ہم ان کی ہر تحریک کو کچل کر رکھ دیں گے اور پھر اس کے بعد 16 جون کی رات کو ماڈل ٹاؤن میں پولیس بھجوائی گئی جس نے 17 جون کی صبح ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ پر حملہ کر کے درجنوں کارکنوں کو شہید اور سینکڑوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ 16 جون کو ایوان سول سیکرٹریٹ میں رانا ثناء اللہ کی صدارت میں ایک اجلاس بھی ہوا تھا جس میں سید توقیر شاہ، ہوم سیکرٹری اعظم سلمان، کمشنر لاہور راشد محمود، ڈی سی او لاہور محمد عثمان، اے سی ماڈل ٹاؤن طارق منظور چانڈیو، ڈی آئی جی رانا عبدالجبار شامل تھے ان تمام ملزمان نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ ادارہ منہاج القرآن کے اردگرد رکاوٹیں ہٹانے کے بہانے دھاوا بولا جائے، انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اپنے قابل اعتماد پولیس افسر مشتاق سکھیرا کو آئی جی مقرر کروایا، جواد حامد نے اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ ڈی آئی جی رانا عبدالجبار اور ایس پی طارق عزیز نے پولیس کی نفری اور کرینوں، بلڈوزروں کے ڈرائیوروں کو حکم دیا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے گھر پر حملہ کر دیں۔ پولیس اہلکار جب ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کی طرف بڑھے تو وہاں پر موجود خواتین کارکنان نے ہاتھوں کی زنجیر بنا کر انہیں روکنے کی کوشش کی جس پر پولیس اہلکاروں نے فائرنگ شروع کر دی اور دو کارکن خواتین شازیہ اور تنزیلہ امجد موقع پر شہید ہو گئیں، انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں نواز شریف، شہباز شریف، وفاقی وزراء اور پنجاب پولیس کے افسران ملوث ہیں انہیں طلب کر کے ان کے خلاف تفتیش کی جائے اور انہیں بے گناہ شہریوں کے قتل میں سزا دی جائے۔
اس موقع پر عوامی تحریک کے وکلاء کی لیگل ٹیم کے سربراہ رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ، لہراسب خان گوندل، مرزا نوید بیگ، رفاقت علی کاہلوں، اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ، نعیم الدین چوہدری، سردار غضنفر حسین، امتیاز چوہدری، آصف سلہریا، ملک مجاہد محمود لنگڑیال اور فرزند علی مشہدی ایڈووکیٹ موجود تھے۔ پاکستان عوامی تحریک کے چیف آرگنائزر میجر(ر) محمد سعید اور مرکزی سیکرٹری اطلاعات نوراللہ صدیقی، راجہ ندیم ودیگر عہدیدار و کارکن بڑی تعداد میں موجود تھے۔
تبصرہ