قدرتی آفات کا نزول: ہماری بداعمالیوں کے سبب اظہارِ ناراضگی الہٰی
ڈاکٹر نعیم انور نعمانی
ہم وقتاً فوقتاً قدرتی آفات زلزلہ، سیلاب، طوفان اور وبائی امراض وغیرہ کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ ان تمام پر سائنس اپنا ایک خاص نقطہ نظر رکھتی ہے۔ یقینا وہ سائنسی علم اپنے معیار اور کسوٹی کے مطابق اپنے نقطہ نظر کو درست سمجھتا ہے۔ ان قدرتی آفات کے وقوع کا ایک اسلامی نقطہ نظر بھی ہے کہ یہ کیوں وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ان کے وقوع پذیر ہونے کے بعد ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ایک مسلمان کی حیثیت سے کیا اس کے صرف سائنسی پہلو پر نظر رکھنی چاہئے یا اس کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال کی اصلاح اور رب کی طرف رغبت کا مزید اظہار بھی کرنا چاہئے۔ زیر نظر مضمون میں ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ قدرتی آفات زلزلہ، سیلاب وغیرہ کا وقوع پذیر ہونا اللہ رب العزت کی طرف سے بندوں کے اعمال پر اظہار ناراضگی ہے۔ قرآن مجید اللہ رب العزت کے اظہار ناراضگی و خفگی اور قہر و جلال کو ’’سَخَطٌ‘‘، ’’غَضَبٌ‘‘، ’’غَيْظٌ‘‘، ’’لَعْنَةٌ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے اور کبھی اللہ تعاليٰ کا اظہارِ جلال اور اس کی شانِ قہاریت عذابِ اصغر، عذابِ دنیوی، عذابِ ہلاکت اور عذابِ اخروی کی صورت میں بیان کی گئی ہے۔ گویا قرآن مجید میں باری تعاليٰ کی ناراضگی و خفگی اور جلال کی مختلف صورتوں کا ذکر ہے اور بلاشبہ جہنم اس کے اظہارِ غضب، اظہارِ جلال، اظہارِ غیظ اور اظہارِ قہاریت کا مقام و نام ہے لیکن اس رب کی ناراضگی کا نتیجہ فقط آخرت اور جہنم تک محدود نہیں بلکہ دنیوی زندگی بھی اس کے غضب سے آزاد نہیں ہے۔ وہ دنیا اور آخرت دونوں کا رب ہے۔ دنیا دارالعمل ہے اور آخرت دارالجزاء ہے۔ انسان کی اُخروی نجات اس کے دنیوی عمل پر منحصر ہے۔ قیامت میں تو اس کا غضب، عذاب کی صورت میں ظاہر ہوگا مگر وہ دنیوی زندگی میں بھی لوگوں کو اپنے غیظ و غضب کے ذریعے نیک اعمال کی طرف متوجہ اور برائیوں کے انجام سے متنبہ کرتا رہتا ہے تاکہ لوگ رجوع الی اللہ کی اپنی اصل منزل کو بھول نہ جائیں۔ وہ دنیا میں آکر دنیا کے نہ ہوجائیں بلکہ اپنے کریم رب کو ہمیشہ یاد رکھیں۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں!
وہ رب انسان کو اپنی معرفت و قربت اور اپنی عبادت و بندگی کی طرف متوجہ کرنے کے لئے ندا دیتا رہتا ہے۔ جس طرح انسان کا کوئی محسن اسے تباہی سے بچانے کے لئے ہمہ وقت کو شاں رہتا ہے۔ اسی طرح بلاتشبیہ و بلامثال وہ رب جب اپنے بندوں کو نافرمانیوں و سرکشیوں کی صورت میں ہلاکت کے گڑھوں کی طرف بڑھتے اور عبادت و معرفت سے دور ہوتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ انہیں کبھی پیار سے اور کبھی زجرو توبیخ کے ذریعے اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ کبھی وہ بندے پر رحمت نچھاور کرتا ہے اور کبھی غیظ و غضب نازل کرتا ہے۔ وہ پیار و محبت کے انداز میں بندے کو یوں احساس دلاتا ہے:
يٰـاَيُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِيْمِ.
’’اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے ربِ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا۔‘‘
(الانفطار: 6)
اللہ رب العزت جب انسانوں کی نافرمانیوں اور سرکشیوں پر نظر کرتا ہے۔۔۔ جب وہ لوگوں میں دنیا طلبی کو زیادہ اور خدا طلبی کو کم دیکھتا ہے۔۔۔ جب انسان زندگی کے ہر شعبے میں ظلم و بغاوت کو اختیار کرلیتا ہے۔۔۔ جب انسانیت ہی ظالم انسانوں کا اللہ کی بارگاہ میں شکوہ کرتی نظر آتی ہے۔۔۔ جب انسان اللہ کے حرام کو خود ہی حلال کرنے لگتا ہے۔۔۔ جب اپنے ظلم کو عدل اور اپنے گناہ کو نیکی سمجھنے لگتا ہے۔۔۔ جب اپنی نافرمانی اور سرکشی کو اپنی دینداری و خوبی جاننے لگتا ہے۔۔۔ جب اپنی بدکرداری کو اپنی برتری تصور کرنے لگتا ہے۔۔۔ جب معاشرے کے کمزوروں کا خون چوسنا اور کمزور و ضعیف لوگوں کے مال کو ہڑپ کرنا اپنا صوابدیدی اختیار اور فرض منصبی جاننے لگتا ہے۔۔۔ جب ایمان کی قدریں کمزور اور شر کی اقدار فروغ پانے لگتی ہیں۔۔۔ جب نیکی کے بجائے گناہ اور اطاعت کے بجائے معصیت اپنے سائے دراز کرنے لگتی ہے۔۔۔ اور جب عبادت و بندگی کو عار سمجھا جانے لگتا ہے تو اللہ کا غضب قدرتی آفات زلزلہ، سیلاب، وبائی امراض وغیرہ کی صورت میں زمین پر نازل ہوتا ہے۔
آج کل ہم آئے روز زلزلوں کا سامنا کررہے ہیں۔ یہ بھی ہمارے نامہ اعمال اور گناہوں کے باعث غضب الہٰی ہے کہ زمین ہمارے گناہوں کی وجہ سے تھرتھراتی و کانپتی ہے اور اس میں بے پناہ ارتعاش ظاہر ہوتا ہے۔ یہ غضب جہنم کے غضب سے کم درجے کا ہوتا ہے۔ اس غضب کا مقصد بندے کے عمل کی اصلاح اور اسے اللہ کی بندگی کی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے۔
امت مسلمہ عذاب اکبر سے محفوظ ہے
یہ بات ذہن نشین رہے کہ دنیوی زندگی میں ہم پر نازل ہونے والے یہ عذاب ’’غضب‘‘ کے معنی میں ہیں۔ اس لئے کہ باری تعاليٰ نے امت مسلمہ کو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت و بعثت کے وسیلہ و صدقہ سے عذابِ ہلاکت سے محفوظ کرلیا ہے۔ وہ عذاب جو پہلی اقوام و امم پر نافرمانی کے باعث آتے تھے کہ ان کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جاتا تھا۔ ان کے لئے اللہ کا عذاب دائمی موت کا پیغام لے کر آتا تھا۔ باری تعاليٰ نے چونکہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ کا تاج پہنایا اور سارے جہانوں کے لئے رحمت بناتے ہوئے آپ کو رحمۃ للعالین کے عظیم منصب پر فائز کیا۔ لہذا اب اس رحمت للعالمینی کی شان کے ساتھ بعثت کا تقاضا تھا کہ اب اللہ کا عذاب اس طرح انسانوں پر نہ آئے جس طرح سابقہ اقوام و ملل پر آتے رہے۔ اس لئے کہ رحمت اور عذاب دو متضاد چیزیں ہیں۔ وہ عذاب اکبر جو دوسری قوموں اور امتوں کو دنیوی زندگی میں اللہ کی نافرمانی پر تباہ کردیتا تھا اور ان کا وجود مٹادیتا تھا، باری تعاليٰ نے اس عذاب کو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ رحمت کے باعث اٹھالیا ہے۔ اب عذاب اصغر ’’غیظ و غضب‘‘ اور ’’سخط‘‘ کی صورت میں ظاہر ہوتا رہے گا تاکہ بندے رب کی بندگی کی طرف متوجہ ہوجائیں اور اس کے احکام کو اپنی زندگی کا عمل بنائیں۔
قرآن مجید میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی کی وجہ سے عذابِ الہٰی نہ اترنے کو اس طرح بیان فرمایا گیا:
وَمَا کَانَ اﷲُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ وَمَا کَانَ اﷲُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ.
’’اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں، اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوں‘‘۔
(الانفال: 33)
اس آیت کریمہ نے اس تصور کو واضح کردیا ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت تک ’’وانت فیہم‘‘ کی شان کے تحت ہمارے اندر موجود ہیں اور وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین کے تحت باری تعاليٰ نے امت مسلمہ سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دنیوی عذابِ اکبر کو اٹھادیا ہے۔
اس آیت کریمہ کے اگلے حصے نے اس بات کو بھی واضح کردیا ہے کہ جب تک یہ اللہ کے بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتے رہیں گے، باری تعاليٰ ان کو عذاب میں گرفتار نہ کرے گا۔ اگر ان کے ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں انفرادی و اجتماعی توبہ اور استغفار کے لئے بلند ہوتے رہیں گے تو باری تعاليٰ ان کو دنیا کے سارے عذابوں اور اپنے غضبوں سے بھی محفوظ کردے گا۔ لہذا ہمیں حکم دیا گیا کہ
وَتُوْبُوْا اِلَی اﷲِ جَمِيْعًا اَيُّهَ الْمُوْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.
’’اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ‘‘۔
(النور: 31)
اس آیت کریمہ نے واضح کردیا ہے کہ اللہ کے غضب، گرفت اور عذاب سے بچنے کا طریقہ توبہ و استغفار ہے۔ یہ توبہ و استغفار انفرادی زندگی میں بھی نظر آئے اور اجتماعی زندگی میں بھی نظر آئے۔ یعنی ہمارے انفرادی کردار پر بھی توبہ و استغفار غالب نظر آئے اور اجتماعی کردار بھی توبہ و استغفار کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہو۔
ہمارا اجتماعی کردار، ایک سوالیہ نشان
افسوس! آج ہمارا اجتماعی کردار قرآن و سنت سے عاری ہے۔ آج ہمارا اجتماعی کردار عالم انسانیت کے لئے باعث عار اور زمانے بھر میں اسلام کے لئے رسوائی و استہزاء کا باعث ہے۔ آج ہم اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واضح احکام کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں اور قرآن و سنت کی واضح تعلیمات کا مذاق اڑانا ہمارا وطیرہ بن چکا ہے ۔
مقامِ غور ہے کہ کیا آج ہمارا قومی کردار اللہ کی نعمتوں کی تکذیب نہیں کررہا۔۔۔؟ کیا آج ہمارا قومی کردار ان بنیادوں سے پاک ہے جن کو اسلام نے جاہلیت کی نشانیاں قرار دیتے ہوئے ختم کیا تھا۔۔۔؟ کیا ہمارے قومی کردار میں لسانی، علاقائی، سیاسی اور مذہبی فرقی واریت اور فتنہ و فساد نہیں ہے۔۔۔؟
المختصر یہ کہ ہم انفرادی طور پر تو روبہ زوال ہیں ہی مگر اجتماعی کردار بھی ذلت کی اتھاہ گہرائیوں کو چھو رہا ہے۔ ہمارے اسی کردار ہی کی وجہ سے یقینا باری تعاليٰ آج اپنے غضب، غیظ اور سخط کے ذریعے ہمارے ملی، قومی اور انفرادی و اجتماعی کردار کو اصلاح کی طرف مائل کررہا ہے، اپنی ناراضی کے ذریعے ہمیں اصلاحِ احوال کی طرف راغب کررہا ہے اور ہمیں حکم دے رہا ہے کہ جو گناہ کرچکے ہو ان سے تائب ہوجاؤ۔ ان نافرمانیوں اور سرکشیوں کا اپنی زیست سے خاتمہ کردو اور اس آیت کریمہ کا مصداق بن جاؤ:
وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ.
’’اور پھر جو گناہ وہ کر بیٹھے تھے ان پر جان بوجھ کر اصرار بھی نہیں کرتے‘‘۔
(آل عمران: 135)
یعنی اپنے گناہ ظلم اور حرام کی زندگی کو جاری نہ رکھو بلکہ اس کو چھوڑ کر رب کی بندگی، نیکی، عدل اور حلال کو اختیار کرو۔ تم سب کچھ جانتے ہو، تمہارے گناہ تم سے پوشیدہ نہیں۔ لہذا اب ان برائیوں کو چھوڑو اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرو۔ اپنے انفرادی اور اجتماعی گناہوں پر معافی طلب کرو اور آئندہ زندگی کے لئے گناہ نہ کرنے کا عزم کرو۔
پس زلزلوں کا وقوع، آفات کا ظہور، غضب الہٰی کا نزول، اللہ کے غیظ کا صدور، اللہ کی سخط کا اظہار ہمیں اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ ہم اپنے انفرادی کردار کے ساتھ ساتھ اپنے قومی و ملی کردار کی بھی اصلاح کریں۔ اصلاح، ہدایت کے بغیر ممکن نہیں۔ علم بالوحی سے خالی شخصی ہدایت آج تک کارگر نہیں ہوئی اور نہ قیامت تک ہوسکتی ہے۔ اس لئے ہمیں آج اس رب کی طرف رجوع کرنا ہے جس نے ہمیں قرآن اور صاحبِ قرآن کی صورت میں ہدایت عطا فرمائی۔ کیونکہ اللہ تعاليٰ نے اپنے فرمان اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَهْدِيْ لِلَّتِيْ هِيَ اَقْوَمُ اور لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ میں ہمیں ایسی آفات میں توبہ و استغفار کرنے اور اپنی اور اپنے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ کی طرف رجوعِ خاص کرنے کے احکامات ارشاد فرمائے ہیں۔
اعمالِ قبیحہ
بندوں کے وہ کون سے اعمال ہیں جو اللہ کی بارگاہ میں ناراضگی اور خفگی کے باعث بنتے ہیں اور قدرتی آفات زلزلوں، سیلابوں، طوفانوں، وبائی امراض وغیرہ کی صورت میں ہم اُس کے عذاب سے دوچار ہوتے ہیں؟ آیئے اِن اعمالِ قبیحہ پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
- گناہوں پر گرفت
انسانوں کے گناہ وہ بنیادی وجہ ہے جو اللہ کے عذاب کے نزول اور اس کی گرفت کا باعث ہیں۔ ارشاد فرمایا:
وَالَّذِيْنَ يَمْکُرُوْنَ السَّيٰتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ.
’’اور جو لوگ بُری چالوں میں لگے رہتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے۔‘‘
(فاطر: 10)
انسان کو اللہ کی بارگاہ میں جو چیز بلند کرتی اور عزت دیتی ہے وہ اس کا حسنِ قول اور حسنِ عمل ہے۔ جس کے بارے فرمایا:
اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ.
’’پاکیزہ کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور وہی نیک عمل(کے مدارج) کو بلند فرماتا ہے۔‘‘
(فاطر:10)
جس طرح قولِ صالح اور عملِ صالح انسان کے لئے نجات کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح قرآن اس حقیقت کو بھی واضح کرتا ہے کہ جب انسان فحش و منکرات میں پڑ جاتا ہے۔۔۔ اللہ کی اطاعت کو معصیت میں بدل دیتا ہے۔۔۔ منکرات سے محبت کرتا ہے اور حسنات سے نفرت کرتا ہے۔۔۔ بدی کی طرف رغبت کرنے لگتا ہے۔۔۔ فحش چیزوں میں چاہت رکھنے لگتا ہے تو تب اللہ کی گرفت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ ارشاد فرمایا:
مَنْ يَاْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُّضٰعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ.
’’تم میں سے کوئی ظاہری معصیت کا مرتکب ہو تو اس کے لیے عذاب دوگنا کر دیا جائے گا‘‘۔
(الاحزاب:30)
گویا جب فحش مبینہ، ظاہری معصیت، ظاہری گناہ، ظاہری نافرمانی بڑھ جائے تو پھر اللہ کی بارگاہ سے اس کا غضب اور عذاب نازل ہوتا ہے۔
اسی طرح سورہ النور میں ارشاد فرمایا:
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ لا فِی الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ.
’’بے شک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔‘‘
(النور: 19)
- راہ ضلالت کے انتخاب پر گرفت
اللہ تعاليٰ کے غیظ و غضب کے نزول کا دوسرا سبب ہمارا راہِ نجات کے بجائے راہِ ضلالت و گمراہی کا انتخاب کرنا ہے۔ ارشاد فرمایا:
اِنَّ الَّذِيْنَ يَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اﷲِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ.
’’بے شک جو لوگ اﷲ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں اُن کے لیے سخت عذاب ہے۔‘‘
(ص: 26)
اللہ کی راہ سے بھٹکنا، رب سے دور ہونا، اس کی نافرمانی و معصیت کا ارتکاب کرنا، اپنے رب کو ناراض کرتے ہوئے برے اعمال کو اختیار کرنا اور بری ہم نشینی اختیار کرنا دراصل خودکو غضب الہٰی کا شکار کرنا اور اللہ کی ناراضگی کو دعوت دینا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ اللہ کے راستے سے بھٹکو نہیں بلکہ اللہ کی طرف آؤ۔ اللہ کے راستے کو چھوڑو نہیں بلکہ اسے اپناؤ۔ سبیل اللہ کے اختیار کرنے میں تمہارا نفع ہے اور اس کے چھوڑنے میں تمہارا نقصان ہے۔ وہ اللہ کا راستہ کیا ہے؟ وہ سبیل الی اللہ، رجوع الی القرآن اور رجوع الی سیرۃ الرسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
- عبادت سے دوری پر گرفت
اللہ کی گرفت اور غضب ان پر بھی آتا ہے جو اس کی عبادت کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں اور تکبرو غرور کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ کی بندگی میں ان کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ ان کا نفس تکبر و غرور اور سرکشی و بغاوت کی علامت بن جاتا ہے۔ اس لئے وہ عبادت سے گریز کرتے ہیں۔ نفس کی یہی فراری اور گریزی طبیعت انسان کو اللہ کے غضب کا شکار کرتی ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَاَمَّا الَّذِيْنَ اسْتَنْکَفُوْا وَاسْتَکْبَرُوْا فَيُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا اَلِيْمًا.
’’اور وہ لوگ جنہوں نے (اﷲ کی عبادت سے) عار محسوس کی اور تکبرّ کیا تو وہ انہیں دردناک عذاب دے گا۔‘‘
(النساء: 173)
انسان کسی بھی سطح پر رب کی عبادت سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ کوئی منصب اور ذمہ داری اسے رب کی عبادت سے دور نہیں کرسکتی۔ جو رب کے حضور جھک گیا، زمانہ اس کے سامنے جھک جائے گا۔۔۔ جو رب کا فرمانبردار بن گیا زمانہ اس کا مطیع ہوجائے گا۔۔۔ جو رب سے بے پرواہ ہوا، رب سب سے بڑھ کر بے پرواہ ہے۔۔۔ اللہ کی شان الصمد ہے۔ بندے کی بندگی اصل میں اس کی بارگاہ میں اپنی محتاجی کا اظہار ہے کہ مولا میں ہر لمحہ تیرا محتاج ہوں۔
بندے کا اپنی بندگی کے ذریعے رب کی بارگاہ میں اظہار محتاجی اسے اللہ کے انعامات اور اعزازات کا مستحق بناتی ہے جبکہ بندے کا تکبرو غرور اور عبادت میں عار محسوس کرنا اسے رب کے غضب کا شکار کرتا ہے۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سورہ الجن میں یوں ارشاد فرمایا:
وَمَنْ يُّعْرِضْ عَنْ ذِکْرِ رَبِّهِ يَسْلُکْهُ عَذَابًا صَعَدًا.
’’اور جو شخص اپنے رب کے ذِکر سے منہ پھیر لے گا تو وہ اسے نہایت سخت عذاب میں داخل کر دے گا‘‘۔
(الجن: 17)
اللہ کی یاد سے غفلت ہی انسان کو رب کی رحمت سے محروم کرتی ہے۔ وہ باری تعاليٰ اپنے بندوں کو اپنی رحمت کی طرف بلاتا ہے اور اعلان کرتا ہے:
وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ کُلَّ شَيْئٍ فَسَاَکْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِيٰـتِنَا يُؤْمِنُوْنَ.
’’اور میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے۔ سو میں عنقریب اس(رحمت) کو ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے رہتے ہیں اور وہی لوگ ہی ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘
(الاعراف: 156)
گویا اس کی رحمت کا حقدار بننے کے لئے ضروری ہے کہ تم اللہ کے ذکر اور عبادت سے غافل و لاتعلق نہ رہو۔ دل میں اللہ کا تقويٰ پیدا کرو اور اس کے جملہ احکام بجالاؤ۔ اس کے حضور جھکنے والے بنو اور اس کے اوامر کو اپنے اعمال بناؤ۔ یہی طریق عبادت و ذکر تمہیں اس کی رحمت کا مستحق بنادے گا اور تمہیں اس کے غضب سے بچائے گا۔ اس لئے کہ اُس کا اپنا فرمان ہے کہ
يُّدْخِلُ مَنْ يَشَآءُ فِيْ رَحْمَتِهِ.
’’وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت (کے دائرے) میں داخل فرما لیتا ہے۔‘‘
(الدار: 31)
- ظلم و ستم پر گرفت
رب کی گرفت اور غضب ان پر بھی ہوتا ہے جو ظلم کا راستہ اپناتے ہیں۔ ظلم کی ایک صورت یہ ہے کہ بندے رب کے اوامر و نواہی پر عمل نہ کرکے اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ اپنے نفس کو مولا کی پیروی میں نہیں دیتے بلکہ خود نفس کے پجاری بن جاتے ہیں۔ مولا کی رضا کے طالب نہیں رہتے بلکہ نفس کی خواہش کے طالب بن جاتے ہیں۔
نفس جب رب کے احکام کی پیروی سے آزاد اور محروم ہوجائے تو پھر ظلم کی دوسری صورت سامنے آتی ہے اور وہ یہ کہ بندہ دوسرے انسانوں کے حق میں بھی بہت بڑا ظالم بن جاتا ہے۔ وہ لوگوں کے حقوق چھینتا ہے، لوگوں کے مال ہڑپ کرتا ہے، ان کی عزتوں کو پامال کرتا ہے اور اپنے ظلم کے ذریعے لوگوں کو رسوا کرتا ہے۔ ایسا شخص جہاں رب کے ہاں نافرمان ہے وہاں بڑا ظالم بھی ہے۔ گویا اس طرح وہ بیک وقت حقوق اللہ سے بھی انحراف کرتا ہے اور حقوق العباد سے بھی اعراض کرتا ہے۔ یہ نفس ایک ہی وقت میں اللہ کے ہاں بھی ظالم ہے اور بندوں کے حق میں بھی ظالم ہے۔ ایسے ظالموں کے لئے دنیا میں اللہ کا غضب اور آخرت میں اس کا عذاب ہے۔ اس لئے ارشاد فرمایا:
وَالظّٰلِمِيْنَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا اَلِيْمًا.
’’اور ظالموں کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
(الانسان: 31)
اللہ تعاليٰ اپنی نعمتوں کا انکار کرنے والوں اور کافروں کو ڈھیل دیتا ہے لیکن وہ بالآخر اس کے غضب اور عذاب کی گرفت میں آتے ہیں۔ اس لئے باری تعاليٰ نے ارشاد فرمایا:
فَمَهِلِ الْکٰفِرِيْنَ اَمْهِلْهُمْ رُوَيْدًا.
’’پس آپ کافروں کو (ذرا) مہلت دے دیجیے، (زیادہ نہیں بس) انہیں تھوڑی سی ڈھیل (اور) دے دیجیے۔‘‘
(الطارق:17)
اب ایک ظالم کے لئے رب کی بارگاہ سے چھوٹ نہیں بلکہ ڈھیل ہے۔ اسے اپنے ظلم سے باز آنے اور توبہ و استغفار کا موقع دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ باز نہ آئے تو
اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِيْدٌ.
’’بے شک آپ کے رب کی پکڑ بہت سخت ہے۔‘‘
(البروج: 12)
ظالم اس پکڑ اور غضب کا اس لئے شکار ہوتے ہیں کہ وہ اپنے عمل کے ذریعے اللہ، اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین اسلام کی تعلیمات کی کھلم کھلا تکذیب کرتے ہیں۔ اللہ کے احسانات کو جھٹلاتے ہیں اور اس کی نعمتوں کا عملاً انکار کرتے ہوئے اس کی آیات سے انحراف کرتے ہیں۔ گویا تکذیبِ دین کا رویہ ان کے قول میں بھی پایا جاتا ہے اور ان کے فعل میں بھی پایا جاتا ہے۔ جب تکذیب بالدین کا یہ عمل ان کے وجودوں میں سرایت کرجاتا ہے تو یہی عمل ان کو اللہ کی بارگاہ میں ظالم بنادیتا ہے اور اس ظلم کی بنا پر وہ اللہ کی بارگاہ میں غضب کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ اس لئے سورہ النحل میں ارشاد فرمایا:
فَکَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظٰلِمُوْنَ.
’’تو انہوں نے اسے جھٹلایا پس انہیں عذاب نے آپکڑا اور وہ ظالم ہی تھے۔‘‘
(النحل: 113)
- ترکِ اعمالِ صالحہ پر گرفت
ظالم وہ لوگ ہیں جو اللہ کی رضا کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے اس کی ناراضگی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ نیک اعمال کا ترک کرنا ناراضگیٔ الہٰی کا باعث ہے اور رب کی ناراضگی ہی اس کے غضب، عتاب اور عذاب کا باعث بنتی ہے۔ گناہوں میں لت پت ہونے والے ان ظالموں کے اس رویے کی نشاندہی کرتے ہوئے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:
ذٰلِکَ بِاَنَّهُمُ اتَّبَعُوْا مَآ اَسْخَطَ اﷲَ وَکَرِهُوْا رِضْوَانَهُ.
’’یہ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے اُس (رَوِش) کی پیروی کی جو اﷲ کو ناراض کرتی ہے اور انہوں نے اس کی رضا کو ناپسند کیا۔‘‘
(محمد: 28)
ایک مومن کی کل زندگی مولا کی رضا کا نام ہے۔ وہ اپنے ہر ہر عمل، قول، رویے اور زندگی کے ہر لمحے میں اللہ کی رضا کا طالب ہوتا ہے۔ ایک مومن اور مسلمان تو علی الاعلان یہی کہتا ہوا نظر آتا ہے:
وَرِضْوَانٌ مِّنَ اﷲِ اَکْبَرُط ذٰلِکَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ.
’’اور (پھر) اللہ کی رضا اور خوشنودی (ان سب نعمتوں سے) بڑھ کر ہے (جو بڑے اجر کے طور پر نصیب ہو گی)، یہی زبردست کامیابی ہے‘‘
(التوبة: 72)
اس لئے وہ مومن اہل زمانہ کو اپنے عمل کے ذریعے یہی درس دیتے ہیں کہ آؤ اللہ کی رضا کے طالب ہوجائیں۔ نفس کی رضا سے آزاد ہوجائیں۔ اس لئے کہ نفس کی پیروی انسان میں ظلم پید اکرتی ہے اور رب کی پیروی انسان میں فوز و فلاح، بخشش و مغفرت اور نجات لاتی ہے۔
- اسوہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دوری پر گرفت
اللہ کی بارگاہ میں پکڑ اور گرفت تب بھی آتی ہے جب ہم اسوہ رسول سے دوری اختیار کرتے ہیں اور اپنے اعمال سے تکذیبِ رسالت کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:
اِنَّا قَدْ اُوْحِيَ اِلَيْنَآ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰی مَنْ کَذَّبَ وتَوَلّٰی.
’’بے شک ہماری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ عذاب (ہر) اس شخص پر ہوگا جو (رسول کو) جھٹلائے گا اور (اس سے) منہ پھیر لے گا۔‘‘
(طه: 48)
ہم پر اللہ کے عتاب اور غضب کے نازل ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا اجتماعی عمل آج عملِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب بھی کررہا ہے اور اس سے انحراف بھی کررہا ہے۔ ہمارے اجتماعی کردار میں کردارِ مصطفوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی مدھم ہوگئی ہے یا ختم ہورہی ہے اور بعض میں ختم ہوچکی ہے جبکہ نجات اللہ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی پیروی میں ہے۔ارشاد فرمایا:
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اﷲَ.
’’جس نے رسول ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔‘‘
(النساء: 80)
افسوس! ہم نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے کو چھوڑ دیا ہے، ہم نے امرِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی اور اسوہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہمارا قول و فعل، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی سے خالی ہوگیا ہے۔ ہم پیروی و اطاعت کے بجائے انحراف و معصیت کی راہ پر چل رہے ہیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہمارے کردار کے لئے نمونہ تھا۔ ہم نے اس نمونہ عمل سے مستفید ہونا چھوڑ دیا ہے۔ جس کی وجہ سے پستی و زوال نے ہم پر سائے دراز کرلئے ہیں اور آج ہم زوال و پستی کے گڑھوں میں گررہے ہیں۔
ہمارا قومی و ملی کردار دہشت گردی کا شکار ہے۔ ہماری قومی اقدار مٹ رہی ہیں۔ ہم اسلام کی روشن تعلیمات کے بجائے زمانہ جاہلیت کی طرف بڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں آج پھر پلٹنا ہے اس ذات کی طرف جس کی پیروی کا رب نے ہمیں حکم دیا ہے اور جس کی پیروی میں کامیابی، نجات، ہدایت اور بندگی کا کمال ہے۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و پیروی کا ہمیں یوں حکم دیا گیا:
وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّکُمْ تَهْتَدُوْنَ.
’’اور تم انہی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پاسکو۔‘‘
(الاعراف: 158)
اس پیروی و اطاعت رسول کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی امر کی مخالفت ہمارے وجود سے سرزد نہ ہونے پائے۔ اگر امرِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخالفت ہمارے وجود میں جڑ پکڑ گئی تو اس کا نتیجہ اللہ کے غضب کی صورت میں نازل ہوگا۔ ارشاد فرمایا:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهِ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ.
’’پس وہ لوگ ڈریں جو رسول ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امرِ (ادب) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت آ پہنچے گی یا (آخرت میں) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گا۔‘‘
(النور: 63)
اس آیت کریمہ نے اس حقیقت کو واضح کردیا ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت، فتنے اور عذاب کا باعث ہے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت سے مراد آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام، تعلیمات، سیرت، اسوہ حسنہ، اعمال، اخلاق حسنہ، اقوال جلیلہ اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے دین اسلام کے کل احکام کی مخالفت ہے۔ اس لئے کہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امر کی مخالفت اللہ کے امر کی مخالفت ہے اور رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امر کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔
یہ آیت کریمہ اس حقیقت کو بھی واضح کررہی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امر کی مخالفت انسان کو اللہ کی رحمت سے محروم کرتی اور اللہ کے غضب کا شکار کرتی ہے۔ جب انسان اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کی راہ پر چل پڑتے ہیں تو باری تعاليٰ ان کو مختلف صورتوں کے ذریعے اپنے غضب اور عذاب سے ڈراتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَيُحَذِّرُکُمُ اﷲُ نَفْسَهُ وَاﷲُ رَؤُْفٌم بِالْعِبَادِ.
’’اور اﷲ تمہیں اپنی ذات (کے غضب) سے ڈراتا ہے اور اﷲ بندوں پر بہت مہربان ہے۔‘‘
(آل عمران:30)
حرفِ آخر!
قرآن مجید کی روشنی میں بیان کردہ ان جملہ حقائق سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جب بھی کسی قوم پر اللہ کا عتاب، غضب، لعنت اور عذاب آیا تو اس میں ان کے اپنے عمل کا دخل تھا۔ کسی کا عمل کفر کا تھا تو کسی کا عمل روگردانی اور نافرمانی کا تھا۔۔۔ کسی کا عمل بما کانوا یکذبون جھٹلانے اور انکار کرنے کا تھا۔۔۔ کسی کا عمل کانوا یفسقون گناہ میں لت پت ہونے کا تھا۔۔۔ کسی کو کہا گیا بما کانوا تکسبون جو گناہ تم نے کمائے ہیں ان پر یہ اللہ کا غضب اور عذاب آیا ہے۔۔۔ کسی کا عمل بما کانوا یفسدون زمین میں فساد و فتنہ بپا کرنے کا تھا۔۔۔ کسی کا عمل وہم ظلمون ظلم کرنے کا تھا۔۔۔ کسی کا عمل ان تشیع الفحشۃ برائی اور بے حیائی پھیلانے کا تھا۔
ان قوموں پر عتاب، غضب اور عذاب اتارنے کا مقصد اور ان تمام صورتوں کے قرآن میں ذکر کا مقصد یہ ہے کہلعلہم یرجعون کہ وہ رب کی طرف پلٹ آئیں۔ وہ جان لیں اور دیکھ لیں کہ ان القوۃ للہ جمیعا سب سے بڑی قوت کا مالک اللہ ہی ہے۔ اس لئے ہمیں انا للہ وانا الیہ راجعون (ہم اس کی طرف سے ہیں اور اس کی کی طرف پلٹ کر جانا ہے) کو ہمہ وقت اپنا وظیفہ حیات بنانا ہوگا اور ہمیں اس کے ہر عتاب اور غضب پر فاستغفروا لذنوبہم ومن یغفرالذنوب الا اللہ کی روش اپناتے ہوئے اس کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرنا ہے۔ اسی صورت اس کی رحمت اور فضل کی بارش کے ہم مستحق ٹھہر سکتے ہیں۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، مارچ 2016
تبصرہ