ایمان: ایک جامع حقیقت

مورخہ: 22 مارچ 2016ء

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

يٰـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اٰمِنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِهِ.

’’اے ایمان والو! تم اللہ پر اور اس کے رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائو‘‘۔

(النساء: 136)

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعاليٰ نے ایمان والوں کو ایمان لانے کا حکم دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایمان والے تو پہلے ہی مومن ہیں اسی لئے تو اللہ تعاليٰ نے انہیں یاایھا الذین امنوا سے خطاب فرمایا۔ اگر وہ مومن نہ ہوتے تو اللہ تعاليٰ اُن کو اس طرح خطاب ہی نہ فرماتا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعاليٰ نے ایمان والوں کو ہی ایمان لانے کا حکم کیوں دیا؟ اس ایمان لانے سے کیا مراد ہے؟

اس ایمان لانے سے مراد دراصل ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ آیئے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں اس ایمان لانے کے مفہوم اور تقاضوں کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الإِيْمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُوْنَ شُعْبَةً، فَأَفْضَلُهَا: قَوْلُ لَا إِلَهَ اِلَّا اﷲُ، وَاَدْنَاهَا: إِمَاطَهُ الْاَذَی عَنِ الطَّرِيْقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيْمَانِ.

’’ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں جن میں سب سے افضل لا الہ الا اﷲ (یعنی وحدانیتِ الٰہی) کا اقرار کرنا ہے اور ان میں سب سے نچلا درجہ کسی تکلیف دہ چیز کا راستے سے دور کر دینا ہے، اور حیاء بھی ایمان کی ایک (اہم) شاخ ہے۔‘‘

(صحيح مسلم، کتاب: الإيمان، باب: بيان عدد شعب الإيمان وأفضلها وأدناها، 1/63، الرقم: 35)

اس حدیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایمان کی تعریف بیان فرمائی اور ایمان کے سب سے اعليٰ و افضل اور سب سے نچلے درجہ/شعبہ کو بیان فرمایا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایمان کے ان شعبوں میں سب سے اعليٰ و افضل شعبہ عقیدہ توحید و رسالت کے اقرار و تصدیق اور آخری درجہ یا نچلا شعبہ ’’راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا‘‘ قرار دیا۔ پہلے اور آخری درجہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ انسانی زندگی کے یہاں تک کے شعبہ جات بھی داخلِ ایمان ہیں۔

گویا ایمان کے نچلے درجہ کو بیان کرکے واضح کردیا کہ ایمان کے دو Ends (انتہائیں) ہیں۔ ایک Highest end اور ایک Lowest end ہے یایوں سمجھ لیں کہ ایک ایمان کی ابتداء اور ایک اس کا کمال و عروج ہے۔ عقیدہ توحید و رسالت ایمان کا Climax (کمال) اور ’’کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دینا‘‘ ایمان کا پہلا قدم اور نچلا درجہ ہے جہاں سے ایمان کا مضمون شروع ہوتا ہے۔

ایمان کی ایک تعریف تو فنی، کلامی اور اعتقادی نوعیت کی ہے جس پر علم الکلام اور علم عقیدہ قائم ہے۔ اس تعریف کے مطابق ایمان دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار سے قائم ہوتا ہے۔ اللہ پر، اس کے رسولوں پر، فرشتوں پر، آخرت پر، اس کی کتابوں پر، اچھی بری تقدیر پر اور بعث بعد الموت پر ایمان لانا۔ الغرض امور غیبیہ اور حقائق غیبیہ جن کا ہم اپنے حواس کے ذریعے ادراک نہیں کرسکتے اور ان کی خبر اللہ نے اور اس کے رسول نے دی، انہیں بن دیکھے مان لینا ایمان کہلاتا ہے۔ یعنیالذین یومنون بالغیب جو محض نبی کے خبر دینے پر بن دیکھے حقائق کو مان لیتے ہیں وہی مومن کہلاتے ہیں۔

ایمان محض عقیدہ نہیں

اس فنی اور کلامی تعریف کے علاوہ مذکورہ حدیث سے بھی ایمان کی ایک تعریف واضح ہورہی ہے۔ یہ ایمان کی جامع و عملی تعریف ہے۔ جس میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درج ذیل تین چیزوں کو داخل ایمان قرار دیا:

  1. عقیدہ توحید و رسالت
  2. نقصان دہ چیز کا راستے سے ہٹانا
  3. حیاء و شرم

ان تین چیزوں کو داخلِ ایمان قرار دے کر حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح فرمادیا کہ ایمان کو صرف عقیدہ نہ سمجھ لینا بلکہ ایمان ایک جامع حقیقت ہے۔ انسانی زندگی کا کوئی بھی شعبہ، پہلو اور شجر حیات انسانی کی کوئی شاخ ایسی نہیں جو ایمان سے خارج ہو۔ ایمان ایک Comprehensive تصور ہے جو انسان کی زندگی کے فکری، اعتقادی، عملی، اخلاقی، تصوراتی، نظریاتی الغرض جملہ پہلوئوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایمان کی ستر70 سے زیادہ شاخوں کا ذکر کرکے دراصل ایمان کی جامعیت، کلیت (Totality) اور ہمہ گیریت کو بیان فرمایا کہ ایمان انسانی زندگی کی ساری جہات اور اور گوشوں پر حاوی ہے۔ اسلام ایک کلی تصور ہے محض ایک جزو نہیں ہے۔ فقط یہ کہنا ہی کافی نہیں کہ ایمان اقرار اور تصدیق کا نام ہے بلکہ یہ اقرار، ایمان کی ایک جزوی حقیقت ہے۔

مذکورہ حدیث میں ایمان کو عملاً ایک کلی حقیقت کے طور پر بیان کیا جارہا ہے کہ زندگی کے تمام عملی پہلو داخلِ ایمان ہیں۔ ایمان ایک ایسی جامع حقیقت ہے جو انسان کی ساری زندگی کو سنوارتا، حسین کرتا، کامل کرتا اور اس کے ہر نقص کو دور کرتا ہے۔ گویا ایمان انسان کی پوری زندگی کو کاملیت Perfection دیتا ہے۔

ایمان: کاملیت کے حصول کا ضامن

ایمان سے انسان کی پوری زندگی کو کاملیت (Perfection) کس طرح ملتی ہے؟ اس کا جواب ہمیں اس حدیث مبارکہ سے میسر آتا ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایمان کی اس تعریف میں جن تین امور کو بیان کیا ہے، ان کا اظہار علامتی (Symbolic) طور پر کیا ہے۔ آیئے ان تینوں امور کی اہمیت اور انسانی زندگی پر ان کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں:

’’ایک‘‘ کا ڈر بقیہ سے نڈر

حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لا الہ الا اللّٰہ کے ذریعے ایمان کا سب سے افضل درجہ عقیدہ توحید و رسالت کو بیان فرمایا ہے۔ عقیدہ رسالت بھی اس میں اس لئے شامل ہے کہ توحید کا وہی اقرار قابلِ قبول ہے جو بواسطہ رسالت ہو۔ عقیدہ توحید و رسالت سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ایمان کا Climax (عروج و کمال) یہ ہے کہ بندہ اللہ اور اللہ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درست عقیدہ رکھے۔ ا س کو افضل و اول درجہ اس لئے قرار دیا کہ یہ ایمان کی معراج ہے اور یہ عقیدہ انسان کی زندگی کو معراج عطا کرتا ہے۔

یہ امر ذہن نشین رہے کہ نہ اللہ تعاليٰ ہمارے عقیدہ توحید کا محتاج ہے اور نہ ہی حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے عقیدہ رسالت کے محتاج ہیں۔ اگر ہم اللہ کو ایک نہیں مانیں گے اور عقیدہ توحید پر ایمان نہیں لائیں گے تو اس سے اللہ کی توحید و الوہیت میں ایک رتی برابر بھی کمی نہیںہوگی۔ اس کے خدا ہونے میں کوئی نقص نہیں ہوگا اور اس کے الہ ہونے، معبود برحق ہونے اور وحدہ لاشریک ہونے میں کوئی کمی نہیں ہوجائے گی۔ اس کی الوہیت ہمارے عقیدے اور ایمان کی محتاج نہیں بلکہ ہم اس کے محتاج ہیں۔

عقیدہ توحید کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کو ایک مانیں تاکہ ہماری وفاداریاں تقسیم ہونے سے محفوظ ہوجائیں۔ ہماری شخصیت میں ایک Unity (وحدت) اور یکسانیت آجائے اور ہم جگہ جگہ دو/چار/دس/ پندرہ/ بیس/ سو ہزار چھوٹے معبودوں کے سامنے اپنی جبین نیاز جھکانے کے بجائے صرف ایک کے سامنے جھک جائیں اور بقیہ تمام سے اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق سلوک کرتے ہوئے ڈٹ جائیں۔

عقیدہ توحید کا مطلب ہے کہ ہم ہر آمر کا انکار کردیں۔ آمر کا مطلب ہے ’’صاحب امر‘‘ یعنی ہر اس شخص کا جو جھوٹے امر کا دعویدار ہے اور آمر بنتا ہے، اس کا انکار کردیں۔ ہم اگر ایک ہستی کے امر کو مان لیں، تو ہزار جھوٹی بندگیوں کی غلامی سے نجات پاجائیں گے۔۔۔ ایک ہستی وحدہ لاشریک کا بندہ بن جائیں گے تو ہر ایک کے سامنے دامنِ سوال دراز کرنے سے محفوظ ہوجائیں گے۔۔۔ ہماری غیرت، حمیت، آزادی اور عزتِ نفس چکنا چور و ریزہ ریزہ ہونے سے بچ جائے گی۔۔۔ ایک در کے سوالی ہوجانے سے ہم ہر ایک کے ڈر سے بچ جائیں گے۔ اگر ’’ایک‘‘ کا ڈر آجائے تو بندہ ہر ایک سے نڈر ہوجاتا ہے۔ بندہ جب ایک بارگاہ کی بندگی اختیار کرلے تو ہر ایک کی غلامی سے آزاد ہوجاتا ہے۔

گویا عقیدہ توحید ہمیں ہی سنوارتا اور بناتا ہے۔ الوہیت کو ہمارے عقیدہ توحید سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اس لئے کہ الوہیت نام ہی بے نیازی و صمدیت کا ہے۔ وہ بے نیاز ہے، اس لئے کہ وہ رب ہے۔ وہ محتاج ہوتا تو رب ہی نہ ہوتا۔ ہم محتاج ہیں، اس لئے کہ ہم بندے ہیں۔ ہم اس کے بغیر نہ پیدا ہوسکتے تھے، نہ رہ سکتے ہیں، نہ چل سکتے ہیں جبکہ وہ ہمارے بغیر ہوسکتا ہے، وہ ہمارے بغیر ہے اور ہمارے بغیر ہوگا۔ حکومت، اقتدار مطلق اور امر حقیقی کا اختیار اسی کا ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں۔ عبادت کا حق بھی اسی کا ہے جو کسی کا محتاج نہ ہو بلکہ بندے جس کے محتاج ہوں۔

پس لا الہ الا اللّٰہ کہنے سے مومن بے خوف و خطر میدانِ حیات میں کود پڑتا ہے اور اس کی شخصیت میں قوت، طاقت، استحکام، نظم اور یکجہتی آجاتی ہے اور وہ انتشار، اضطراب اور وفاداریوں میں تقسیم ہونے سے بچ جاتا ہے۔

درِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم: ’’نہیں کوئی اور مَفَر مَقَر‘‘

’’محمد رسول اللّٰہ‘‘ کے اقرار کے ذریعے انسان وفاداری کا تعین کرتا ہے۔ جب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کا رسول مان لیا تو پھر دوسروں کی اطاعت و پیروی سے بچ گئے۔ بس ایک Standard اور Criteria بن گیا۔ ایک ہی معیار اور نمونہ بن گیا اور وہ محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے۔ اس در پر جھکنے کے بعد اب مومن طرح طرح کے ماڈل دیکھنے کا محتاج نہیں رہتا۔ انسان کسی بھی کام کے لئے ماڈل دیکھتا ہے کہ کامل (Perfect) ماڈل کون سا ہے، کس کی پیروی کروں؟ دنیاوی زندگی میں بھی ہم معیاری اشیاء کے حصول کے لئے مختلف ماڈلز، ڈیزائنز اور نمونے دیکھتے ہیں۔ مثلاً گھر بنانا ہو، گاڑی فرنیچر، زیورات، کمپیوٹر وغیرہ کو خریدنا ہو، ہم ایک بہترین و کامل نمونہ کو تلاش کرتے ہیں۔

اس ایک بہترین و کامل نمونہ کی تلاش میں ہمیں محنت کرنی پڑتی ہے۔ اِدھر اُدھر بھاگ دوڑ کرنا پڑتی ہے۔ اکثر بڑے تجربات کے بعد بھی ناکامی سامنے آتی ہے۔ کبھی کسی ماڈل میں نقص نکلا اور کبھی دوسرے طریقے سے بنائی گئی شے میں کوئی کمی رہ گئی۔ الغرض بڑی محنتوں کے بعد ٹھوکریں کھاتے کھاتے کسی اچھے ماڈل کی طرف جاتے ہیں لیکن چند سالوں کے بعد پھر وہ ماڈل/نمونہ بھی بدل جاتا ہے اور ا س سے بھی اچھا کسی اور کمپنی کا ماڈل مارکیٹ میں آجاتا ہے۔ ہر سال ہم کار یا کمپیوٹر کے ماڈل بدلتے ہیں۔ ہم پچھلا ماڈل چھوڑتے چلے جاتے ہیں اور اگلے ماڈل کو اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔ گویا یہ ماڈل بدلنے کا عمل ہمیں کہیں ٹکنے نہیں دیتا اور نفس کی زندگی سے نکلنے نہیں دیتا۔

اب محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہے؟ محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ہے کہ لوگو تمہیں ایک کامل نمونہ حیات چاہئے تھا، بجائے اس کے کہ تم دربدر ٹھوکریں کھاتے پھرتے، ناکام تجربے کرتے، خالق کائنات نے اس کائنات میں سب سے کامل ماڈل ’’محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے نام سے تمہیں عطا کردیا اور فرمایا میرے سوا رب کوئی نہیں ہے اور محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا کائنات میں کوئی ماڈل و نمونہ نہیں ہے۔ خالقِ حیات میں ہوں اور نمونہ حیات میرے محبوب محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اس سے بہتر کوئی ماڈل آئے گا اور نہ تمہیں بدلنا ہوگا اور نہ ہی ان میں کوئی کمی ہوگی۔ گویا یہاں آجائو گے تو ہر شے کی ہدایت اسی ایک جگہ سے مل جائے گی۔

دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ہمیں مختلف جگہوں سے مطلوبہ اشیاء میسر آتی ہیں۔ کسی ایک جگہ سے ہر شے میسر نہیں آسکتی۔ گوشت کے لئے قصاب کی دکان پر جانا پڑتا ہے، دالوں، گھی، مرچ، مصالحہ، آٹا، الگ دکانوں سے جاکر لیتے ہیں۔ کپڑوں کے لئے کلاتھ مارکیٹ میں جاتے ہیں۔ جوتوں کے لئے کسی اور دکان پر جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ قصاب کی دکان پر جائیں اور اس سے پوچھیں کہ کیا جوتے بھی آپ کے پاس ہیں؟ وہ تو جوتے ہی مارے گا، کہے گا کہ دیکھتے نہیں ہوکہ بکرے لٹکے ہوئے ہیں، جوتے یہاں نہیں ملتے۔ دودھ دہی والے کی دکان سے چاول نہیں ملیں گے۔ الغرض ہر ایک شے کی دکان الگ الگ ہے۔

اب خیر دنیا نے ترقی کرلی ہے اور آدمی مطلوبہ چیزوں کے حصول کے لئے وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا اور تمام اشیاء ایک ہی جگہ سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لہذا اس سلسلہ میں سب سے پہلے ڈیپارٹمنٹل سٹور قائم ہوئے۔ جہاں زیادہ سے زیادہ چیزیں ایک ہی چھت تلے میسر آسکتی ہیں۔ بعد ازاں سپر مارکیٹ وجود میں آگئی، جو ڈیپارٹمنٹل سٹور سے بھی زیادہ وسعت کی حامل ہے۔ جو کچھ ممکن تھا ایک ہی چھت کے نیچے جمع کردیا تاکہ تمام چیزیں ایک ہی جگہ سے مل جائیں۔ دنیا نے مزید ترقی کی، اب مغربی دنیا میں مالز وجود میں آگئی ہیں۔ ایک ہی چھت تلے دنیا جہاں کی ہر چیز جوتے کے تسمہ سے لے کر جہاز کی خریداری تک کا سودا بھی یہاں ہوتا ہے۔

بتانا مقصود یہ ہے کہ انسان کا ذہن اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے ہمہ وقت اعليٰ سے اعلی سمت اور جامعیت و ہمہ گیریت کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ جزئیت کو چھوڑ کرکلیت کی طرف گامزن رہتا ہے۔ انسان آج مختلف جگہوں میں تفرق کی بجائے وحدت کی طرف جانا پسند کرتا ہے۔ بہت سی جگہوں پر جانے کی بجائے ایک ہی جگہ سے مطلوبہ اشیاء کے حصول کو پسند کرتا ہے۔ گویا انسان کی اجتماعی زندگی بھی اسی سمت بڑھتی رہی ہے۔

نبوت و رسالت کا ارتقاء

اللہ رب العزت کا نظام نبوت و رسالت بھی اس کی ہدایت کے مطابق اسی اصول کی طرف بڑھتا رہا۔ اس نے مختلف انبیاء بھیجے اور طرح طرح کی ہدایت، معجزات، تعلیمات اور کمالات ان میں تقسیم کئے۔ لہذا کچھ بائبل میں دیا، کچھ توراۃ میں دیا، کچھ انجیل میں دیا، کچھ زبور میں دیا، کچھ ہر پیغمبر کے صحیفے میں دیا۔ اللہ رب العزت نے اپنی ہدایت ربانی میں سے اس دور کے لوگوں کی ضرورت کے مطابق جو جو ضروری تھا، دے دیا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام تک اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسيٰ علیہ السلام تک کی اقوام کو ربانی ہدایت، سامان ہدایت، اخلاقی و اصلاحی رہنمائی الغرض اس زمانے کے مطابق جس جس شے کی ضرورت تھی، انہیں وہ دے دی۔

جوں جوں انسانیت ترقی کرتی جارہی تھی، اس کی سوچ وسیع ہوتی جارہی تھی، اس کی ضرورتیں پھیلتی جارہی تھیں اس کے تقاضے اور حاجات بڑھتی جارہی تھیں۔ توں توں نبوت و رسالت کا دامن بھی اللہ تعاليٰ پھیلاتا چلا گیا۔ سامان ہدایت کی فراہمی بڑھاتا چلا گیا۔ جس جس طرح انسانیت کا ارتقاء ہوتا گیا، اسی طرح نبوت و رسالت کا بھی ارتقاء ہوتا گیا۔ ادھر انسانیت کی ضرورت بڑھتی گئی، ادھر سے ہدایت ربانی کی فراہمی بڑھتی گئی۔۔۔ ادھر انسانیت کی سوچ کا دائرہ بڑھتا گیا ادھر انسانیت کو ہدایت دینے کے لئے نبوت و رسالت کی ہدایت کا درجہ و دائرہ بڑھتا گیا۔

بالآخر جب انسانیت آج کے اس دور میں یعنی اپنے بلوغ (Maturity) کے آخری دور میں داخل ہوگئی، اس کی ضرورتیں وسیع ہوگئیں، سوچ بلند ہوگئی اور اس میں وسعتیں آگئیں، ریاستوں کی تشکیل ہونے لگی، نظام بننے لگے، سوچیں ترقی پانے لگیں، اخلاق بننے لگے، انسانیت عالمگیر سطح پر وسیع ہوگئی، تب اللہ تعاليٰ نے فرمایا کہ اب ہم بھی چھوٹے چھوٹے مراکز کا سلسلہ ختم کرتے ہیں اور اب وہ نبی بھیجتے ہیں کہ جب تک کائنات رہے گی، ہر ضرورت اسی نبی کے در پر پوری ہوگی۔ اب ایسا نہیں ہوگا کہ عبادت اور عبادات کی رہنمائی لینے کے لئے انسان کو کسی اور جگہ جانا پڑے۔۔۔ معاملات کی رہنمائی لینے کے لئے دوسری جگہ جانا پڑے۔۔۔ اخلاق (Morality) کی رہنمائی کے لئے کسی اور مرکز پر جانا پڑے۔۔۔ روحانیت کی رہنمائی کے لئے کسی اور مرکز پر جانا پڑے۔

پہلے دنیا میں یہی کچھ تھا۔ ہر نبی کے پاس بھی اللہ تعاليٰ نے ضرورتوں کے مطابق سامان رکھا تھا۔ دنیا میں جو مصلحین (Social Reformers) سماجی اصلاح کرنے والے غیر پیغمبر بھی اگر تھے تو وہ بھی اپنے اپنے شعبوں کا سامان لے کر آئے۔ ان کے شعبے تقسیم تھے۔ ایک شعبہ والا دوسرے شعبہ کے متعلق رہنمائی دینے سے قاصر تھا، اگر کوئی اس طرح رہنمائی کے لئے ان کے پاس آتا تو کہتے کہ میرے پاس ان چیزوں کا سامان نہیں ہے کسی اور کے پاس جائو۔ انسان کو زندگی کے پچاس شعبوں میں رہنمائی لینے کے لئے پچاس جگہوں پر جانا پڑتا تھا۔ ادب سیکھنے کے لئے کوئی اور ماڈل ہے۔۔۔ اخلاق کے لئے ماڈل اور ہے۔۔۔ آئین، قانون اور دستور سیکھنے کے لئے ماڈل و ذریعہ اور ہے۔۔۔ زندگی کے رسم و رواج سیکھنے کے لئے ماڈل اور ہے۔۔۔ انسانی زندگی کی قدریں سیکھنے کے لئے ماڈل اور ہے۔۔۔ سیکولر ایجنڈا سیکھنے کے لئے ماڈل اور ہے۔۔۔ سیاسی ایجنڈا کے لئے ماڈل اور ہے۔۔۔ اکنامک کے لئے ماڈل اور ہے۔۔۔ کلچر کے لئے ماڈل اور ہے۔۔۔ نالج اور سائنس کے لئے ماڈل اور ہے۔۔۔ فلسفے کے لئے ماڈل اور ہے۔۔۔ انسان کو متعدد جگہ دربدر جاکر اپنی ضروریات پوری کرنی پڑتی تھیں۔

اللہ رب العزت نے فرمایا آج سارے مراکز بند کردیئے۔ محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے وہ رسول ہیں کہ قیامت تک انسانیت کی جو بھی ضرورت ہوگی، جسم سے متعلق یا روح کے متعلق۔۔۔ ذہن سے متعلق یا اخلاق کے متعلق۔۔۔ ظاہر سے متعلق یا باطن سے متعلق۔۔۔ سیاست کے متعلق یا معیشت کے متعلق۔۔۔ معاشرے کے متعلق یا فلسفے کے متعلق۔۔۔ علم کے متعلق یا معرفت کے متعلق۔۔۔ انسانی کائنات کی جو جو ضرورت ہوگی اسے در در نہیں جانا ہوگا، اب محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک در کھول دیا ہے۔ ہر ایک کو اُس کے حسبِ حال میسر آجائے گا۔ یہ ’’محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کا عملی معنی و مفہوم ہے۔

واضح فرمادیا کہ لوگو! اول سے رب ایک ہی تھا کوئی اس کو کسی بھی نام سے پکارتا پھرے مگر نبوت چونکہ انسانیت کے اندر تھی، اس میں ارتقاء ہوا۔ الوہیت اول دن سے وحدت تھی، آخر تک وحدت ہے جبکہ نبوت کثرت سے چلی اور وحدت پہ آکر ختم ہوگئی۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کا سفر تھا، یہ سفر وحدت پر آکر ختم ہوگیا۔ جب نبئ آخر آگئے، وہی خاتم النبیین ہوگئے تو اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اس لئے کہ اس در پر کوئی کمی ہوگی تو اور دکان کھلے گی، یہاں تو کمی کوئی نہیں۔ مقصد یہ ہے کہ اس ایک ماڈل کو اختیار کرنے اور اس ایک در کے سوالی بننے سے انسانیت تقسیم اور افتراق سے بچ گئی۔

وہ جینا بھی خاک جینا ہے جو اپنے لئے ہو

ایمان کے اعليٰ و افضل درجہ کو واضح کرنے کے بعد حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا:

وَاِذْناَهَا اِمَاطَهُ الْاَذٰی عَنِ الطَّرِيْق.

ایمان کا سب سے نچلا درجہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔

کوئی مذہب ایسا نہیں جو ایسے کاموں کو بھی داخل ایمان کرے۔ دیگر مذاہب میں ان کے ایک سنگل ایجنڈے کو مان لینا ایمان ہے۔ بقیہ زندگی سیکولر ہے تو اس سے ان کے عقیدہ و ایمان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر آقا علیہ السلام نے ایمان کا یہ تصور دیا کہ راستے میں اگر پتھر پڑا ہے، کانٹے پڑے ہیں یا اور کوئی چیز پڑی ہے جو راہ چلتے مسافر کی تکلیف کا باعث بن سکتی ہے تو اس پتھر، کانٹے، تکلیف دہ چیز کو اٹھا کر راستے سے دور پھینک دینے کا عمل بھی ایمان ہے۔ اس عمل کو دور جدید کی اصطلاح میں انسانی حقوق (Human Rights) کہتے ہیں۔ اس لئے کہ انسانی حقوق کا سار لبِ لباب یہی ہے کہ کسی انسان کو تکلیف نہ پہنچے، ہمارے عمل سے وہ تکلیف دور ہوجائے اور متاثرہ شخص کو راحت پہنچے۔

لوگوں کے نزدیک یہ ایک سیکولر، نیچرل اور اخلاقی عمل ہے لیکن اسلام نے کہا کہ یہ عمل نہ سیکولر ہے اور نہ محض اخلاقی ہے بلکہ یہ ایمان کا حصہ ہے۔ وہ اسلام جو لوگوں کی تکلیفوں کو دور کرنا ایمان کا حصہ قرار دیتا ہے، وہ اسلام کس طرح کسی مسلمان کے لئے لوگوں کو تکلیف دینا جائز قرار دے سکتا ہے۔۔۔؟ افسوس! ہماری ساری زندگی عبارت ہی اسی سے ہے۔ ہم جیتے ہی اس لئے ہیں کہ دوسروں کا جینا حرام کردیں۔ ہمارے جینے کا مقصد یہ ہے کہ دوسرا کوئی نہ جئے۔ پنجابی کی ایک رباعی ہماری زندگی گزارنے کی خواہش کی عکاس ہے کہ

پنج ست مرن گوانڈنیاں، رہندیاں نوں تاپ چڑھے
ہٹی سڑے کڑاڑ دی جتھے دیوا نت بلے
کتی مرے فقیر دی جہڑی ٹاں ٹاں نت کرے
گلیاں ہوجاون سنجیاں وچ مرزا یار پھرے

یعنی سب کا صفایا ہوجائے، کوئی نہ بچے، بس تنہا میں ہی میں رہوں۔ یہ ہماری زندگی اور ہمارے سوچنے کا طریقہ (Approach) ہے۔ ہم دوسرے کے مرنے کی قیمت (Cost) پر جینا چاہتے ہیں اور اپنے جینے کا سامان کرتے ہیں جبکہ ایمان یہ ہے کہ ہمارے مرنے کی قیمت (Cost) پر دوسرا جی پڑے۔

معروف حدیث ہے کہ کسی غزوہ میں کچھ لوگ شہید ہونے کے قریب تھے۔ سخت زخمی حالت میں تڑپ رہے تھے اور ہر کوئی پیاسا تھا۔ ہر ایک نے پانی مانگا مگر پانی کا پیالہ ایک تھا۔ جب ایک کو پانی پلانے کے لئے پیالہ اس کے قریب کیا تو دوسرے کی آواز آئی ’’العطش‘‘ میں پیاسا ہوں۔ اس پہلے والے نے لبوں کے پاس سے پیالہ ہٹادیا اور کہا پہلے میرے زخمی بھائی کو پلادو۔ پانی پلانے والا اس کے پاس گیا، ابھی وہ پانی پینے ہی لگا تھا کہ ایک اور آواز آئی ’’العطش‘‘، اس نے بھی پیالہ ہٹادیا اور کہا کہ اس کو پلائو۔ اس طرح چلتے چلتے سات لوگوں تک پانی کا پیالہ گیا مگر کسی نے ایک گھونٹ بھی نہیں بھرا۔ ایک کے پانی پینے سے پہلے دوسرے زخمی کی آواز آجاتی اور ہر زخمی دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتا رہا۔ حتی کہ جب ساتویں آدمی تک پانی پہنچا تو وہ شہید ہوچکا تھا اور پانی پی ہی نہ سکا۔ پانی پلانے والا اس کے ساتھ والے کی طرف لپکا کہ چلو اس کو پلاتے ہیں لیکن وہ بھی شہید ہوگیا۔ پلانے والا ہر ایک کے پاس آیا، حتی کہ پہلے شخص تک پہنچ گیا مگر وہ تمام شہید ہوگئے۔

ان تمام نے صرف ایک اصول پر جان دے دی کہ دوسرے کی جان بچ جائے۔ یہ ایمان کا حقیقی تصور ہے کہ اپنی جان دے کر دوسرے کو بچالیا جائے۔

شہید اور عام آدمی کی موت میں فرق

شہید کی موت اور ایک عام آدمی کی موت کے درمیان یہی فرق ہے، جس وجہ سے شہید کو زندہ کہتے ہیں۔ ایک آدمی بخار سے یا کسی بیماری سے گھر پر مرگیا اور ایک شہید ہوگیا۔ جسمانی موت (Physical Death) تو دونوں کی ہوگئی۔ دونوں کے جنازے پڑھے گئے، دونوں کو قبروں میں دفن کیا گیا مگر دونوں میں فرق ہے۔ ایک کو مردہ کہتے ہیں جبکہ دوسرے کو مردہ کہنا حرام ہے، اس کو زندہ کہتے ہیں۔ موت دونوں پر آئی مگر شہید کے بارے میں فرمایا کہ

وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ اَمْوَاتٌ ط بَلْ اَحْيَآءٌ وَّلٰـکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ.

’’اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مُردہ ہیں، (وہ مُردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں‘‘۔

(البقرة: 154)

جسمانی (Physicaly) پوزیشن دونوں کی ایک ہے مگر ان دونوں میں بہت سارے فرق ہیں۔ اس وقت وہ تمام فرق میرا موضوع نہیں، اس موضوع کی مناسبت سے ایک فرق یہ ہے کہ ایک شخص خود مرگیا اس لئے مردہ ہے جبکہ دوسرا کسی کی خاطر مرگیا، لہذا وہ زندہ ہے۔ اللہ فرماتا ہے خبردار! جو کسی کی خاطر مرتا ہے اسے مردہ نہ کہنا، وہی تو اصل زندگی ہے۔ جبکہ دوسروں کو مارکر خود زندہ رہنا موت ہے بلکہ موت سے بھی بدتر ہے۔

اس کو ایک مثال سے اس طرح سمجھیں کہ ایک ماچس کی تیلی جل کر خود تو راکھ ہوگئی مگر کئی چراغ جلاگئی، اندھیرے ختم کرگئی اور اندھیروں کو روشنی میں بدل گئی۔ لہذا یہ ماچس کی تیلی مردہ نہیں بلکہ زندہ ہے۔ اسی طرح شہید خود تو مرگیا مگر کئی کو جینا سکھا گیا اور مرنے والوں کو مرنے سے بچا گیا۔

کربلا میں جسمانی وفات (Physically Death) سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ہوئی اور ظاہر میں فوجی جنگی تناظر کے مقابلے میں فتح یزید کی ہوئی مگر آج کے دن تک کوئی یزید کو فتح یاب نہیں کہتا کیونکہ وہ مرگیا۔ اس کی قبر بھی کسی کو معلوم نہیں جبکہ مسلم تو مسلم شاید روئے زمین پر سوجھ بوجھ رکھنے والا کوئی کافر بھی ایسا نہ ہو جو امام حسین رضی اللہ عنہ سے بے خبر ہو۔ اس لئے کہ انسانیت کو جینے کا ہنر سکھانے کے باعث وہ زندہ ہیں۔

انسان کو بیدار تو ہولینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

سمجھانا مقصود یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی تصور ایک پتھر یا کانٹا راستے سے ہٹانے سے لے کر شہید ہونے تک فلسفہ ایک ہی ہے کہ خود کو تکلیف میں ڈال کر بھی دوسروں کو تکلیف سے بچانا پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔ آج دنیا اس تصور کو انسانی حقوق (Human Rights) کہتی ہے جبکہ اسلام نے تو اس تصور کو اس سے بھی بہت بلند درجہ یعنی ایمان قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ انسانی حقوق کا بانی اسلام ہے۔ افسوس کہ اب اسلام پر دہشت گردی کا طعنہ ہے۔ دہشت گردی کا طعنہ اسلام کو دینے والے دے رہے ہیں اور دلانے والے خوشی سے دلارہے ہیں۔ افسوس کہ وہ یہ نہیں سوچتے کہ اسلام سے بہتر امن و امان اور سلامتی کا تصور انسانیت کو کائنات میں کسی نے نہ دیا ہے اور نہ کوئی دے سکتا ہے۔ ایک طرف عقیدہ ایمان ہے اور ایک طرف انسانیت کی خدمت و لوگوں کی بھلائی کا سوچنا بھی ایمان ہے۔

عبادات کی روح

آج ہمارے ہاں ایمان اور عبادت کا الگ ہی تصور ہے۔ صرف نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، حج کرنا، عمرے کرنا، تسبیح کرنا اور باقی رسم و رواج کو ایمان اور اسی کو عبادت قرار دے رکھا ہے۔ یاد رکھیں کہ مذکورہ اعمال عبادتیں ہیں جبکہ انسانیت کی بھلائی کے اقدامات کرنا عبادات کی روح ہے۔ اگر ہم سے انسانیت کو ضرر، دکھ اور اذیت پہنچے تو نہ نماز قبول ہے اور نہ حج، نہ کعبے کے طواف قبول ہیں اور نہ روزے قبول ہیں۔ اللہ رب العزت ہمارے سجدوں اور طواف کا محتاج نہیں بلکہ اس نے تو یہ سارا نظام بنایا ہی اس لئے ہے کہ ہم سنور جائیں۔ وہ فرماتا ہے کہ اگر تم سنورے نہیں اور اپنے اندر حیوانی خصلتوں کو پروان چڑھاتے رہے تو میں نے تمہارے سجدوں کو کیا کرنا ہے، تمہارے بھوکے رہنے کو کیا کرنا ہے۔ اگر روزہ رکھ کر بھی تم متقی نہیں بنے، خدا خوفی نہیں ہے اور انسانیت کے بہی خواہ نہیں بنے تو کیا حاصل ہوگا۔

آج سے اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں۔ ہم سے انسانیت، پڑوسی، رشتہ داروں، دوستوں، ہم نشینوں اور پاس بیٹھنے والوں کو راحت، سکون، نفع اور بھلائی پہنچے، یہ ایمان ہے۔ اگر ہماری زندگی میں یہ عمل نہیں تو سمجھ لیں کہ حدیث کی رو سے ہم ایمان کی برکت اور فیض سے محروم ہیں۔

راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانے کا ذکر کرنا اور اُسے ایمان قرار دینا اس بات کو واضح کرتا ہے کہ جب اتنی تکلیف نہ ہونے دینا بھی ایمان ہے تو بڑی تکلیف کا روا رکھنا اسلام کے نزدیک کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ پس انسانیت کی ہر قسم کی تکلیف کو مٹانا اور انہیں ہر قسم کی راحت فراہم کرنا ایمان ہے۔

اخلاقی اقدار

اسی حدیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایمان کی ایک اور علامت بھی بیان کی۔ فرمایا:

اَلْحَيَآئُ شُعْبَةٌ مِّنَ الْاِيْمَان.

شرم و حیاء بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے۔

جس طرح راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علامتی طور پر بیان فرمایا، اسی طرح حیاء و شرم کو بھی ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا اور یہ بھی ایک علامتی اظہار ہے۔ راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا اخلاقی اور انسانی حقوق کا عمل تھا جبکہ حیاء کا تعلق آنکھ، دماغ، سوچ اور قلب کی اقدار کے ساتھ ہے۔ انسانی زندگی کا حسن اقدار (Values) کے ساتھ ہے۔ حیاء (Modesty)، عصمت و پاکیزگی (Chastity)، عاجزی و انکساری (Humbleness)، خشوع و خضوع، اخلاق (Morality)، تقويٰ، لالچی نہ ہونا(Greediness) یہ سب کچھ اقدار (Values) ہیں۔ حیاء ہوگا تو بڑے کا ادب و احترام اور چھوٹے پر شفقت کریں گے۔

معاشرے میں تین درجات (Levels) ہیں:

  1. پہلے اقدار (Values) ہیں کہ ہم ان انسانی اخلاقی اقدار کو مانتے بھی ہیں یا نہیں؟
  2. اگر اخلاقی و انسانی اقدار کو مانیں تو اقدار پر زندگی کے طور طریقے قائم ہوتے ہیں۔ ان طور طریقوں کو (Nomes) کہتے ہیں۔
  3. وہ طور طریقے جب عام رواج پاجاتے ہیں اور ہماری زندگی کا چال چلن بن جاتے ہیں تو ان کو آداب (Etiquettes) کہتے ہیں۔

اسلامی اور مغربی معاشرہ میں فرق

ہر ایک سوسائٹی اور ہر ایک زندگی کے اپنے آداب ہیں۔ ہمارے آداب کی بنیاد اقدار (Values) پر ہے۔ یاد رکھ لیں کہ اسلام کی سوسائٹی اور مغربی (Western) سوسائٹی میں فرق ہے۔ یہ فرق نہ سمجھ آنے کی وجہ سے بہت بڑا فساد ہے اور کئی لوگ اس فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے قوموں اور سوسائٹی کو غلط راہ پر لے جاتے ہیں۔ اسلامی سوسائٹی Values Based سوسائٹی ہے۔ یعنی ہمارے معاشرے کی بنیاد اقدار پر ہے۔ ہمارے ہاں اقدار (Values) پہلے ہیں اور سوسائٹی ان کے اوپر قائم ہوتی ہے۔ جو سوسائٹی ان اقدار پر عمل کرے گی اچھی سوسائٹی ہوگی اور جو ان اقدار پر عمل نہیں کرتی وہ بری سوسائٹی ہوگی، ہمارا نظام معاشرت یہ ہے۔ مغرب کی سوسائٹی کا فلسفہ یہ ہے کہ ان کی سوسائٹی Values Based ہے ہی نہیں۔ ان کے ہاں Values Society Based ہیں یعنی معاشرہ نے جن کو اقدار کا نام دیا وہ اقدار ہیں۔

مثلاً عورتوں کا عورتوں سے اور مردوں کا مردوں سے شادی کرنا، یہ جوڑے میاں بیوی کی طرح اکٹھے رہتے ہیں۔ گویا Homosextual اور Gays سوسائٹی ہے۔ وہ پہلے اس عمل کو ناپسند کرتے تھے۔ یہ ان کی اقدار (Values) نہیں تھیں مگر اب اس کو پسند کرلیا، کئی مغربی حکومتوں نے پارلیمنٹ میں قانون پاس کردیا۔ لہذا اب یہ اس سوسائٹی کی اقدار (Values) بن گئیں اور انہوں نے اس کو Freedom (آزادی) کا نام دے دیا۔

وہ جو نام چاہیں دے دیں، ان کی اپنی زبان ہے۔ اپنے الفاظ اور تصورات ہیں، جو چاہیں نام دے دیں۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ نیز یہ کہ اس دنیا میں غلاموں کی کمی نہیں ہے جو ان کی اندھی تقلید کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی جب زبان چلتی ہے تو یہ غلام اسی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں تم بھی اسی راہ پر چلو جس راہ پر ہم چل رہے ہیں۔ لہذا نام نہاد مسلمان بھی انہی کی قائم کردہ اقدار کے مطابق اپنے عمل اور تصور کو آگے بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ پھر اپنا قبلہ کعبہ کوئی نہ رہا بلکہ مغرب ہی قبلہ و کعبہ ہوگیا۔ اپنا تصورِ دین و ایمان نہ رہا بلکہ دین و ایمان بھی مغرب ہی قرار پایا۔

یاد رکھ لیں! یہ ترقی کی راہ نہیں ہے بلکہ ہمارے لئے ہلاکت کی راہ ہے۔ ان کی سوسائٹی کی بنیاد اور ہے۔ لوگوں کی پسند و ناپسند پر ان کی اقدار بدلتی رہتی ہیں۔ ان کے ہاں کوئی حلال و حرام نہیں ہے۔ ان کے ہاں کوئی حیا اور بے حیائی نہیں ہے۔ وہ کل کو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسان کو یہ بھی حق ہے کہ لباس نہ پہنے بلکہ ننگا چلے۔ آپ کہیں گے کیوں؟ وہ کہیں گے کہ ہماری مرضی یہ ہمارا نجی معاملہ (Private Matter) ہے۔ Freedom of Choice ہے، انتخاب کی آزادی ہے، کوئی اگر لباس نہیں پہننا چاہتا تو اس کی مرضی ہے۔ گویا یہ ان کا فلسفہ ہے کہ جیسے لوگوں کی مرضی ہو، اُسے وہ اختیار کرنے میں آزاد ہیں۔

ہمارا کوئی ہے!

ان کے ہاں اقدار کا کوئی ڈھانچہ نہیں کیونکہ انہیں کسی نے حلال اور حرام نہیں دیا، انہیں حیاء اور بے حیائی بتانے والا کوئی نہیں۔ جو حلال و حرام کرنے والا تھا اس کو مانتے نہیں اور مادر پدر آزاد ہوگئے۔ ہمارے ہاں کوئی ہے جس نے حلال کو حلال اور حرام کو حرام کررکھا ہے۔۔۔ جس نے حیاء اور بے حیائی کا فرق مرتب کررکھا ہے۔۔۔ گناہ اور تقويٰ کا تعین کر دیا ہے۔۔۔ نیکی اور بدی کے تصورات دے رکھے ہیں۔۔۔ Good اور Evil نیکی و بدی کے معیار قائم کررکھے ہیں۔ الغرض ہمارے ہاں تقويٰ، خیر اور شر کے پیمانے ہیں۔ ہمارا کوئی ہے جس کو ہم مانتے ہیں۔ان کا کوئی نہیں۔ ہمارا ہے جس نے ہمیں جنت و دوزخ کا راستہ بتا رکھا ہے جبکہ ان کے ہاں بس یہی کچھ ان کی جنت ہے۔

ہم میں سے وہ جنہوں نے مرنے کے بعد دوزخ کا سودا قبول کرلیا ہے، وہ خوشی سے غلامی کو قبول کرلیں اور جنہوں نے مرنے کے بعد دوزخ کا سودا قبول نہیں کیا، ان کے لئے محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں ہی نجات ہے۔ ہمارے ہاں حقوق ہوں یا احکام، تمام اقدار (Values) پر قائم ہیں۔ انہی اقدار پر انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تصورات کا کلچر بنتا ہے۔ اُن سوسائٹیز میں یہ بنیادیں نہیں۔ ان میں اقدار (Values) کی حیثیت اسی طرح ہے جیسے ٹریفک قوانین ہیں۔ آج ان کے ہاں Left Hand (بائیں ہاتھ) ڈرائیونگ ہے۔ کل قانون پاس کردیں کہ دائیں ہاتھ (Right Hand) ڈرائیونگ ہوگی، تو یہ ان کا قانون ہوگا۔ یہی حال ان کی اقدا رکا ہے۔ وہ حلال کو حرام کردیں، حرام کو حلال کردیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان میں حلت و حرمت، حیاء اور بے حیائی کا کوئی تصور نہیں۔ مگر ہم مسلمانوں کو تو حلال و حرام اور حیاء و بے حیائی کا ایک تصور دیا گیا ہے۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ اندھیرنگری نہ بنائیں بلکہ اپنی راہ پر قائم رہیں۔

حدیث مبارکہ میں علامتی طور پر حیاء کو بیان کرتے ہوئے جملہ اخلاقی اقدار کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ گویا انسانی زندگی کی اقدار شرم و حیائ، تقويٰ، طہارت، آنکھ کا شرم، زبان کا شرم، حلت و حرمت، چغلی اور غیبت نہ کرنا، نیکی کرنا، بڑے کا ادب کرنا، چھوٹے سے شفقت کرنا بھی داخل ایمان ہے۔

مغرب میں ’’آزادی‘‘ کا تصور

مغرب میں تو والدین کا بھی بچوں کو ڈانٹنا اس کی آزادی پر پابندی کے مترادف اور جرم ہے۔ اس طرح کی Freedom اس معاشرہ میں ہے۔ لعنت ہے ایسی فریڈم پر جہاں ماں باپ بچے کی اصلاح کے لئے بھی اس کو نہیں ڈانٹ سکتے۔ وہاں اگر بچہ سات سال کا ہوجائے تو ماں باپ اس کی الماری نہیں کھول سکتے، چیک نہیں کرسکتے کہ اس کی الماری میں کیا ہے؟ نشہ آور اشیائ، شراب افیون، ہیروئن وغیرہ تو نہیں رکھی۔ اگر وہ اس کی الماری کو کھول دیں تو بچے کا حق ہے کہ وہ پولیس کو بلالے کہ میری Privacy (نجی زندگی) میں مداخلت کی ہے۔ وہاں ماں باپ رو رہے ہیں کہ بچے ان کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ اس کا نام ’’آزادی‘‘ ہے۔

ٹیچر سکولوں میں روز بچوں کو بتاتے ہیں کہ یہ تمہارے حقوق ہیں، اگر ماں باپ تمہیں ڈانٹیں تو پولیس کے نمبر پر فوری کال کرو۔ وہ ہر بچے کو پولیس کا نمبر یاد کرواتے ہیں۔ کئی مثالیں وہاں موجود ہیں کہ گھروں میں ماں باپ نے ڈانٹا تو چار پانچ سال کے چھوٹے سے بچے نے چپکے سے کال کرکے پولیس کو بلالیا اور انہیں گرفتار کروادیا۔ وہ سوسائٹی کو اس سمت لے جانا چاہتے ہیں، اس لئے کہ ان کا ہے کوئی نہیں۔ وہ پوری سوسائٹی کو بے وارث بنانا چاہتے ہیں۔ اقدار، ادب و احترام، اطاعت جیسی کسی چیز پر وہ یقین نہیں رکھتے۔ ہر شے میں انہیں آزادی حاصل ہے اور پوری تباہی اور ہلاکت کا نام انہوں نے آزادی رکھ دیا ہے۔ اُن کے ہاں یہ Freedom of Culture ہے جبکہ ہمارے ہاں آزادیوں کی ایک حد ہے۔

اہل مغرب نے زندگی کے ہر شعبے میں پابندیوں کے قوانین بنا رکھے ہیں۔ ٹریفک، ٹیکس، کاروبار، سکول کے یونیفارم اور اوقات کار میں پابندیاں ہیں۔ مگر جب اقدار اور شرم و حیاء کا معاملہ آتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہمیں پابندی نہیں بلکہ آزادی چاہئے۔ دنیا کے ہر معاملہ اور شے میں پابندی ہے، اگر پابندی نہیں ہے تو انسان کی روحانی اور اخلاقی اقدار میں پابندی نہیں۔ ہمارے ہاں اقدار کی پابندی ہے اور ان اقدار، تصورات اور نظریہ کی پابندی دین اور ایمان کا درجہ رکھتی ہے۔

اس بات کو اس مثال سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ کیا ہم آزادی کو بنیاد بناکر A کو B اور C کو F اور L کو M اور W کو Z کہہ سکتے ہیں؟ اگر کہیں کہ ہم آزادی کے قائل ہیں لہذا ہماری مرضی، ہم M کو Z پڑھیں گے تو کیا وہ ہمیں یہ کرنے دیں گے؟ وہ ہمیں ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ ان کے پاس اس کی کوئی عقلی دلیل بھی نہیں ہے مگر اس کے باوجود وہ ہمیں یہاں ہماری مرضی کے مطابق تبدیلی نہیں کرنے دیں گے۔

ریاضی، فزکس، کیمسٹری اور دیگر کئی علوم کے بنیادی اصول و قوانین اور فارمولے ہیں، جن کو اگر ہم آزادی کو بنیاد بناتے ہوئے تبدیل کرنا چاہیں تو ان فارمولوں کو بنانے والے ایسا ہرگز نہیں کرنے دیں گے۔ حالانکہ ان کو تبدیل نہ کرنے کی کوئی عقلی دلیل بھی ان کے پاس نہیں ہے۔ وہ صرف یہ کہیں گے کہ جنہوں نے یہ زبان یا فارمولے بنائے ہیں، انہوں نے اسی طرح کہا ہے کہ اس کو  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کہنا ہے، اس کو B کہنا ہے اس کو Z کہنا ہے۔ پس زبان بنانے والوںکا کہنا یوں ہے لہذا ہم بدل نہیں سکتے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ جس نے زبان بنائی ہے اس کی بات کو بدل نہیں سکتے مگر افسوس کہ جس نے انسان بنایا ہے اس کی بات اور نظام کو بدل دیتے ہیں۔ زبان بنانے والے کے قوانین کا اتنا احترام اور انسان بنانے والے کا کوئی احترام نہیں۔ جب اقدار کی بات آئے تو کہا جائے کہ ہمیں آزادی چاہئے اور پھر اس مادر پدر آزادی کے نام پر حیائ، شرم، طہارت، تقويٰ کا جنازہ نکال دیا جائے۔

پس جس طرح بغیر سوچے سمجھے زبان اور فارمولے بنانے والے کی بات نہیں بدل سکتے۔ اسی طرح انسان بنانے والے کی بات کو بھی نہیں بدلا جاسکتا۔ اس نے جس کو حلال قرار دیا ہے وہی حلال ہے اور جس کو حرام قرار دیا ہے وہی حرام ہے۔ اس نے جس کام کے کرنے کا حکم دیا ہے اسے ہی کرنا ہے اور جس کام سے منع کیا ہے، اس سے رکنا ہے۔

الحیاء شعبۃ من الایمان کے ذریعے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن اقدار کی طرف اشارہ فرمایا ہے ہمیں ان میں کمزور نہیں پڑنا چاہئے۔ اس لئے کہ یہ اقدار بھی ایمان کے درجے میں ہیں۔ کچھ لوگ اس میں کمزور ہوجاتے ہیں نتیجتاً بے غیرتی اور بے حمیتی شروع کردیتے ہیں، جس سے ایمان میں کمزوری آجاتی ہے۔ اس لئے کہ غیرت، شرم و حیاء اور جملہ قدریں داخلِ ایمان ہیں۔ پس تین قسموں کی چیزوں کو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کل ایمان و عقیدہ قرار دے دیا۔ انہی سے کل زندگی عبارت ہے۔

  1. عقیدہ بھی ایمان ہے۔ اس سے اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق قائم ہوگیا۔
  2. تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا۔ اس سے انسانوں کے ساتھ تعلق ہوگیا۔ گویا یہ حقوق العباد ہیں اور داخل ایمان ہیں۔
  3. حیاء، انسانی قدریں، سوچ، جن پر انسانی زندگی استوار ہوتی ہے یہ بھی ایمان ہے۔

اگر ایمان کے اس تصور کو کاملاً اپنالیا جائے تو پورا انسان خوبصورت بن جاتا ہے، انسانی سوسائٹی حسین ہوجاتی ہے اور مومن، مومنِ کامل بن جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعاليٰ ہمیں ایمان کے اس معنی کی معرفت عطا فرمائے اور ہمیں اپنی زندگیوں کو ایمان کے نور سے منور کرنے اور سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، مارچ 2016

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top