منصفانہ سماجی و معاشی نظام کی تشکیل: دین اسلام کا بنیادی تقاضا
ایس ایچ صدیقی
جب سے انسان نے شعور حاصل کیا ہے انسانی سوسائٹی میں اچھائی اور برائی کی قوتوں میں، علم اور جہالت میں، ترقی اور انحطاط میں، انصاف اور جبر میں، اجتماعی بھلائی اور اجارہ داری کے درمیان ایک کشمکش جاری ہے اور آج بھی دنیا بھر میں یہ کشمکش دکھائی دیتی ہے۔
تاریخ انسانی میں سب سے پہلے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں اسلام کے نام سے ایک ایسے عالمی انقلاب کا آغاز کیا جو انسانی سرگرمی کے ہر میدان میں ترقی کا علمبردار تھا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انقلاب کے ابدی اصول وضع کئے۔ بعد میں بپا ہونے والی انقلابی تحریکوں نے، جنہوں نے بنی نوع انسان کو آگے بڑھنے میں مدد دی ہے، ہمیشہ انہی اصولوں کی پیروی کی ہے۔ دور جدید کی سماجی، معاشی، سیاسی، ثقافتی اور روحانی ترقیات میں جس قدر بھلائی ہمیں نظر آتی ہے وہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا عکس ہے۔ اس لئے بنی نوع انسان کے بنیادی اہمیت کے مفادات کے خلاف کام کرنے والی طاقتوں کو روکنا اور حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرتب کردہ اصولوں کے مطابق اپنے زمانہ کی انقلابی قوتوں کے ساتھ بھرپور تعاون کے ساتھ ایک ترقی یافتہ اور فلاحی معاشرہ قائم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اجارہ داریت اور جارحیت کی طاقتوں کا یہ معمول ہے کہ وہ ترقی کی جانب بڑھنے والی قوتوں کے انقلابی کردارکے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں انتشار اور مغالطہ پیدا کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ منجملہ دوسری باتوں کے یہ طاقتیں مسلسل اس کوشش میں لگی رہتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انقلابی قیادت کے اصل مزاج پر پردہ ڈالے رکھیں۔ اسلام دشمن طاقتوں کی جانب سے پیہم کوششیں کی جارہی ہیں کہ اسلام کو دنیوی زندگی اور اس کے طرح طرح کے مسائل سے لاتعلق کرکے صرف مذہبی اعقادات و نظریات تک محدود کرتے ہوئے اسے اس کے انقلابی مزاج سے محروم کردیا جائے۔
چنانچہ انسانی ذہن کو بنی نوع انسان کے مستقبل بعید کے متعلق جھوٹی تسلیوں کی تلاش میں مقید کردیا جاتا ہے اور اس دنیا کو اہمیت دینے سے انسانوں کو باز رکھا جاتا ہے جس میں وہ پیدا ہوئے، پلے اور پروان چڑھے ہیں۔ اس کے برعکس اس ادبی، سائنسی اور تکنیکی تحقیق میں بھرپور حصہ لینے سے الگ رکھا جاتا ہے جو کہ انسانی زندگی کے ارتقا کے لئے بے حد ضروری ہے۔ اس طرح لوگوں کو اپنی توانائیاں بھوک، بیماری، جہالت، برائی، ناانصافی اور جبر کے خلاف استعمال کرکے ایک ایسی آزاد سوسائٹی کی تعمیر میں صرف کرنے سے روکا جاتا ہے جس میں ہر شخص ایک دوسرے کی بہتری چاہ سکے اور ان کے فائدہ کے لئے کام کرسکے۔
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عالمی حیثیت
سب سے بڑا المیہ جو امت مسلمہ پر وارد ہوا ہے وہ یہ ہے کہ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرتبہ و مقام کو خود مسلمانوں ہی کے ذریعے گرایا گیا ہے۔ مسلمانوں میں سے بہت ہی کم افراد اس ضرورت کو محسوس کرتے ہیں کہ انفرادی، قومی اور اجتماعی سطح پر تباہی و بربادی کی طاقتوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے فیضیاب ہوا جائے۔
حقائق کو ان کے صحیح تناظر میں رکھنے کے لئے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو مسلمانوں اور بقیہ نوع انسانی کے سامنے اس کے اصل مرتبہ و مقام اور شان و شوکت کے ساتھ ایک عظیم ترین معلم اور انقلابی کی حیثیت سے بحال کیا جائے اور اس دور کے معاشرہ کی تشکیل نو کے لئے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہنمائی کے حقیقی اثرات کو محسوس کرایا جائے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کو امن، ترقی اور خوشحالی کی راہ دکھائی اور انسانی زندگی میں خیرخواہی، محبت و خلوص، ادب و احترام، نظم و ضبط، باقاعدگی اور بار آوری کے لئے قواعد ترتیب دیئے اور انسان کے لئے زندگی کے تمام شعبوںمیں آگے بڑھنے کے لئے پختہ رہنما اصول وضع فرمائے۔
نظریاتی اور عملی تربیت
اس مقصد کے لئے تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو قسم کے ضابطے عطا فرمائے:
- نظریاتی تربیت
- اجتماعی ذمہ داریاں
پہلا ضابطہ فرد کی نظریاتی تربیت سے متعلق ہے۔ اس میں اللہ کی عبادت کا تصور بھی شامل ہے۔ یہ تربیت لوگوں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ فکرو عمل میں اللہ تعالیٰ سے پختہ اور گہرا تعلق قائم کریں۔ یہ تربیت فرد کو عقلی طور پر اس حقیقت سے آگاہ کردیتی ہے کہ اللہ کا وجود بھی ایک حقیقت ہے۔ اگرچہ اللہ کی ذات کا قطعی اور مکمل ادراک نہیں کیا جاسکتا اور قوانین قدرت کے خلاف نہیں چلا جاسکتا لیکن اللہ کی ہستی کے بارے میں یقین حاصل کیا جاسکتا ہے۔ انسانی زندگی کو بہتر بنانے کی غرض سے اس کے وضع کئے گئے عالمی قوانین کو دریافت کیا اور سمجھا جاسکتا ہے اور ان کے مطابق عمل پیرا ہوکر انسانی زندگی میں بہتری پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس سچائی کو تسلیم کرنے سے ایک فرد میں زندگی کے جملہ اعمال کے بارے میں مکمل جوابدہی کا احساس جاگزیں ہوجاتا ہے اور آدمی میں قول و عمل کا تضاد دور ہونے لگتا ہے۔ یہ نظریاتی تربیت فرد کو زندگی کا ایک مقصد، صحیح منزل اور سمت عطا کرتی ہے۔ علم و دانش اور کردار کی مضبوطی میں اضافہ کرنے میں مدد دیتی ہے اور اسے اس قابل بناتی ہے کہ وہ جس معاشرے میں رہ رہا ہے اس کی تشکیل نو میں موثر کردار ادا کرے۔
دوسرا ضابطہ ایک فرد کی اجتماعی (سماجی، معاشی اور سیاسی) ذمہ داریوں سے متعلق ہے۔ اس ضابطہ کی پابندی بھی اس پر پہلے ضابطے کی طرح ضروری ہے۔ اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا اصل میں انسانی معاشرے کے سامنے جوابدہ ہونے کے ہم معنی ہے۔ چنانچہ اسلام ایسی متوازن شخصیتیں تعمیر کرنا چاہتا ہے جو دیانتدار، جرأت مند، بردبار، خوش مزاج، لوگوں کے کام آنے والی، محبت کرنے والی، فیاض، راست باز، چوکس، ذہین اور منکسرالمزاج ہو۔ وہ شخصیت جو کسی بھی فاسد سماجی ڈھانچے کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہو جو اسے ورثہ میں ملا ہو اور اس عمل میں اپنی جان کی انتہائی قربانی بھی دے سکتی ہو۔
اس لئے یہ لازماً ذہن نشین رہے کہ اللہ کی عبادت کے بارے میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو ہدایات فرد کو دی ہیں وہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بپا کئے ہوئے سماجی و معاشی اور سیاسی و ثقافتی نظام کا ایک جزو لاینفک ہے۔ ان میں سے ایک جزو دوسرے کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال میں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ اجتماعی فرائض کی ادائیگی کے بغیر عبادت کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کو قبول نہیں ہے اور نہ ہی انسانی معاشرہ اس تناقص کو قبول کرسکتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں ایک شخص کے تمام عباداتی اعمال ایک ڈھونگ، منافقت اور خودفریبی کے مترادف ہیں اگر وہ ایک منصفانہ معاشرے کے قیام کے لئے اجارہ دار اور باطل طاقتوں کے خلاف موت و حیات کی کشمکش میں مستعدی اور خلوص کے ساتھ اپنے آپ کو نہیں ڈالتا۔ اگر وہ ایک ایسا نظام قائم کرنے میں جہاں انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال ختم ہوجائے اور انسان کے اندر قدرت کی طرف سے ودیعت شدہ تمام بہترین صلاحیتوں کی دریافت اور نشوونما کا منتہائے مقصود حاصل ہو، اپنا حصہ نہیں ڈالتا تو اس کی عبادات پر ایک سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ اس لئے تمام انفرادی اعمال کی سمت اجتماعی مقاصد اور عوامی مفاد کی آبیاری کے لئے متعین ہونی چاہئے ورنہ تمام اعمال خواہ وہ ظاہر میں کتنے ہی پاکیزہ نظر آئیں بے فائدہ، بے نتیجہ بلکہ معاشرے کے لئے نقصان دہ ہوں گے اور معاشرے میں منافقت کے بیج بونے کا باعث ہوں گے۔
سماجی و معاشی ناانصافیوں کامقابلہ
ایک اور متعلقہ پہلو جس پر آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے سلسلے میں غور کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ اخلاقی ضوابط اور اخلاقی رویہ ایک معاشرے کی روحانی افزائش کے لئے طاقتور محرک ہیں اور انسانی سوسائٹی کو اعلیٰ تر سطح تک اٹھاسکتے ہیں لیکن وہ اس وقت تک نہ تو تکمیل پذیر ہوسکتے ہیں اور نہ کوئی موثر رول ادا کرسکتے ہیں جب تک اس معاشرے میں بنیادی طور پر ایک منصفانہ سماجی و معاشی ڈھانچہ موجود نہ ہو۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی تعلیم ہے۔ اس بات کو پوری طرح سمجھ لینا چاہئے کہ ایسے بنیادی ڈھانچے کے قیام میں حقیقی رکاوٹ وہ سماجی اور معاشی ناانصافیاں ہیں جو جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ نظام کی خصوصیت ہے اور جنہوںنے ہماری سماجی زندگی میں دولت کے ارتکاز اور فرد کی پیداواری قوت کی لوٹ کھسوٹ کی شکل میں سر اٹھارکھا ہے اور جو وسیع پیمانہ پر بددلی اور مایوسی پیدا کررہی ہیں۔
ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسلام کے بنیادی اصولوں کا اپنے دور کے حالات پر ماہرانہ اطلاق کیا جائے انسانی زندگی کے بارے میں جدید دور کے تجربوں کے ساتھ ان کے مفید امتزاج سے ایک منصفانہ معاشی نظام ترتیب دیا جائے۔ ایک ایسا نظام جو ہر فرد کو معاشرے میں شخصی احترام اور مساوی حیثیت دلاکر اس کی آسودہ حالی اور راحت و مسرت کا باعث بنے۔ اس میں وہ خود شناسی اور احساس فرض بڑھائے جو ایک طرف باشعور افراد پر مشتمل صحت مند معاشرہ قائم کرے اور دوسری طرف زمین پر دیرپا امن کے قیام کا موجب بنے۔
نماز کی حقیقت
اوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کی روشنی میں اب ہم اس سوچ کا تجزیہ کریں گے جوہمارے بعض نظریات اور معمولات میں کارفرما ہے اور جس کی اصلاح کی یقینا ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہم عبادت کے مفہوم کے بارے میں غور کرتے ہیں۔ عبادت دو طرح کی ہوتی ہے:
- ایک وہ جو ہم اپنے روزمرہ معمولات میں چلتے پھرتے اور خلوت میں، کائنات کے خالق اور مخلوق کے رازق اللہ تعالیٰ کو یاد کرکے، اس کی تعریف کرتے ہوئے اور اس کا شکر بجا لاتے ہوئے، اپنی زندگی میں اس کی اطاعت کی عہد کرکے اور اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق اس کی راہ پر چلتے ہوئے، اس سے نہایت عاجزی اور انکسار کے ساتھ راہنمائی اور مدد مانگ کر کرتے ہیں۔
- عبادت کی دوسری مخصوص شکل نماز ہے۔ جو انفرادی اور اجتماعی طور پر پانچ مرتبہ روزانہ ادا کی جاتی ہے۔ نماز سے قبل دی جانے والی اذان میں بھی اور پھر نماز میں بھی اہم ترین اعلان اور اقرار خالق کے مقابلے میں مخلوق کی عبودیت اور انسانوں کے مابین کامل آزادی اور مساوات کا ہے۔
نماز کا حقیقی مقصد انسان کو زندگی بھر اللہ کا فرمانبردار بنانا اور کسی قسم کے تعصب اور رنگ و نسل کے امتیاز کے بغیر اسے بنی نوع انسان کی خدمت پر لگانا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے نماز اسی صورت میں معاونت کرسکتی ہے جب اسلام کے اصول سیاست و ریاست معاشرے میں حکمران قوت کے طور پر عملاً کارفرما ہوں اور انسانی ماحول میں مخاصمت و استحصال کے بجائے باہمی تعاون و خیر خواہی کا جذبہ یا تو موجود ہو یا اسے بروئے کار لانے کی عملاً کوشش کی جارہی ہو۔
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کو اگر صحیح طور پر سمجھا جائے تو ان سے یہی صداقت واضح ہوتی ہے۔ اس سچائی کا انکار ایک فرقہ وارانہ سوچ اور استحصالی ذہن رکھنے والا شخص ہی کرسکتا ہے جو اللہ اور اس کی مخلوق کی جانب سے اس پر عائد ذمہ داری کی صحیح نوعیت کو جانے بغیر نماز کی ادائیگی کرتا ہے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا اصل مقصد مذہبی رسومات کی ادائیگی کی شائق اور ان میں منہک ایسی مخلوق پیدا کرنا نہیں جو اپنی سماجی ذمہ داریوں کی طرف سے غافل ہو بلکہ ایسے انسانوں کو تیار کرنا ہے جو اپنی ان ذمہ داریوں کا شعور رکھتے ہوں۔ پیغمبروں کی جانب سے افراد کو جو اخلاقی و روحانی تربیت دی جاتی ہے وہ تو اس لئے ہوتی ہے کہ وہ سوسائٹی کے لئے مفید بنیں۔ اگر کوئی شخص اس اجتماعی ذمہ داری کو ادا نہیں کرتا تو اسلام پر ایمان کے اس کے تمام دعوے اور مذہبی رسوم میں اس کا انہماک، بے حقیقت اور مضحکہ خیز بات ہے۔
تقاضائے مسلمانی
اگر کسی نے اپنے آپ کو مسلمان کہنا ہے تو اس کو آئینی و قانونی حدود میں رہتے ہوئے اس غیر منصفانہ، اجارہ دارانہ، بوسیدہ سماجی ڈھانچے اور فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام کو تبدیل کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، جس نظام میں گزر بسر کرنے کے لئے ہمارے نام نہاد حکمران اور سیاستدان ہمیں مجبورکررہے ہیں اور حقیقی اسلامی جمہوری روایات کو زندہ کرنا ہوگا۔ اگر کوئی شخص ان تمام مظالم اور بے انصافیوں کو دیکھنے کے باوجود ان واضح ذمہ داریوں کو ادا نہیں کررہا تو اسے اپنے مسلمان اور پاکستانی ہونے کے بارے میں سوچنا ہوگا۔
قرآن مجید آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صرف مسلم برادری کے رہبر و رہنما کی حیثیت سے ہی پیش نہیں کرتا بلکہ وما ارسلنک الا کافۃ للناس کے مصداق آپ تمام انسانوں کی طرف مبعوث کئے گئے ہیں۔ تمام نسل انسانی اور آنے والے تمام وقتوں کے لئے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک رہبر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ تمام انسان حقوق کے اعتبار سے برابر حیثیت کے مالک ہیں، کوئی کسی کا غلام نہیں ہے۔ سب کے سب صرف ایک اللہ کے اطاعت گزار ہیں۔ اس دعوت کو جو بھی شعوری، قلبی اور عملی طور پر قبول کرتا ہے حقیقت کے اعتبار سے ایک سچا مسلمان ہے۔ کیونکہ وہی تو ہے جو زندگی کا کوئی مقصد رکھتا ہے اور اس کی کوئی منزل ہے جسے وہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایسی منزل جو ایک ایسے آزاد معاشرے کے قیام کی طرف جاتی ہو جہاں نہ کوئی زور زبردستی ہو اور نہ خون خرابہ۔ جو تمام انسانیت کے لئے امن، خوشحالی اور مسرت لانے کے لئے وقف ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ مقصد اس کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا کہ اس رائج الوقت فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام کو قطعی طور پر مسترد کردیا جائے جو خود غرضی، عدم مساوات اور جبرو تشدد کی پیداوار ہے اور جو چند لوگوں کے فائدے اور بہت سے لوگوں کی محرومی کا باعث بنتا ہے۔
دولت مند طبقہ اور سماجی ترقی
آج ملکی معیشت پر قابض دولت مند طبقہ نے 20کروڑ لوگوں کے انحطاط پذیر سماجی ڈھانچے میں اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑھ رکھے ہیں حالانکہ اسلام کسی مخصوص مالدار طبقہ کو سوسائٹی کے نچلے طبقوں کی قیمت پر پلتے رہنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مختلف افراد کی آمدنی اور نجی ملکیت میں معقول حد تک تفاوت کی اسلام نے اجازت دی ہے بشرطیکہ اس میں ان کی ذہنی صلاحیتوں اور عملی قابلیتوں کا دخل ہو۔
سماجی طرز عمل کے بارے میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات میں سے ایک اہم تعلیم ہم تک یہ پہنچتی ہے کہ اپنے وسائل اور اپنی کمائی میں سے روزمرہ کی لازمی ضروریات اور خاندانی حاجات پورا کرنے کے بعد جو کچھ بچ جائے اسے مفاد عامہ کے لئے خرچ کردیا جائے۔ اس تعلیم کے ذریعے جو واضح سبق ہمیں دیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی کو سادہ زندگی بسر کرنی چاہئے، اپنی ضروریات پر کم سے کم خرچ کرنا چاہئے اور معاشرے کو اس کا حقدار متصور کرتے ہوئے زائد از ضرورت وسائل کو اجتماعی مفاد پر خرچ کردینا چاہئے۔ ایک معاشرے میں جب تک ایک بہت بڑی تعداد تنگدستی، بھوک، ناخواندگی، جہالت، محرومی اور بیماری میں مبتلا ہے اس وقت تک چند لوگوں کا اپنے ذاتی آرام و آسائش اور عیش و عشرت پر خرچ کرنا ناپسندیدہ ہی نہیں بلکہ قابل مذمت اور قابل تعزیر فعل بھی ہے۔
ایک غیر منصفانہ معاشرے میں جو کوئی عالیشان طرز زندگی اپناتا ہے وہ نہ تو احترام کے قابل ہے اور نہ ہی اس پر رشک کیا جانا چاہئے خواہ وہ بظاہر کتنی ہی ممتاز اور معزز شخصیت ہو۔ قوم کے ہر فرد کو بلالحاظ مذہب و قومیت ملکی وسائل سے فائدہ اٹھانے کے مساوی مواقع دینے سے معاشرے کے تمام افراد کے لئے محض سرمایہ کے بل پر نہیں بلکہ محنت کی بنیاد پر سوسائٹی میں بہتر سے بہتر مقام حاصل کرنے کے راستے کھلے رہتے ہیں۔ کسی معاشرے کے افراد کا مرتبہ و حیثیت میں برابر تسلیم کیا جانا ایک مہذب سوسائٹی کا طرہ امتیاز ہوتا ہے۔
اسلامی اصول اور اخلاقی قوت کی تشکیل
قرآن و سنت میں موجود اسلام کے اصول وہ حقیقی بنیادیں ہیں جن پر انسانی معاشرے کی صحیح تعمیر کی جاسکتی ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی حقیقی ترقی ہوئی ہے وہ اسلامی اصولوں کی اساس پر ہی ہوئی ہے۔ ہم اپنی زندگی کے معمولات میں قوانین فطرت سے انحراف نہیں کرسکتے۔ کامیابی حاصل کرنے کے لئے ہمیں ان قوانین کو دریافت کرنا اور صحیح طور پر ان کی پیروی کرنا ہوگی۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ قرآن و سنت میں متعین کئے گئے اصولوں کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ ہم زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی یافتہ ممالک کی پیش رفت کا بھی جائزہ لیں اور پھر ان میں موازنہ وتطبیق کرکے اپنی سماجی بقاء کے لئے مستقبل کا راستہ طے کریں۔
انسان ہونے کے ناطے اور خصوصاً مسلمان ہونے کی حیثیت سے، ہماری یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ ہم انسانی معاشرے کو اس انداز میں تعمیر کریں کہ انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کا خاتمہ ہو اور تمام بنی نوع انسان کو قدرت کی طرف سے ودیعت شدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر قوانین فطرت کے متعین کردہ خطوط پر پروان چڑھانے اور امن و فراوانی میں زندگی بسر کرنے کا موقع ملے۔ اللہ اور اس کے رسولوں نے جتنی بھی ہدایات دی ہیں وہ انسان کو اس بنیادی اور اہم ترین فریضہ کی ادائیگی کے قابل بنانے کے لئے ہیں۔
زندگی حقیقت کو منکشف کرنے، قوانین فطرت کو جاننے اور ایسے باشعور افراد پر مشتمل معاون معاشرہ تعمیر کرنے کا عمل ہے جو ان قوانین کے صحیح ادراک کی بنیاد پر اصول اخلاق پر مبنی اعلیٰ اخلاقی شعور کو نشوونما دے۔ ایسی باشعور زندگی کے سامنے فوری کام ناانصافی، برائی اور مصائب کو تمام شعبہ ہائے زندگی سے دور کرنا ہے۔
اس اعلیٰ اخلاقی شعور کی نشوونما اورمضبوطی کا سب سے اہم ذریعہ علم ہے۔ اخلاقی شعور کا آغاز علم سے ہوتا ہے۔ علم اس حقیقت کو دریافت کرتا ہے جو اخلاقیات کی اساس ہے۔۔۔ یہ قوت فیصلہ پیدا کرتا اور عزائم کو مضبوط بناتا ہے۔۔۔ یہ ترقی کے حقیقی مواقع کو واضح کرتا ہے اور فرضی امکانات کو رد کرتا ہے۔۔۔ یہ خیال پرستی پر مبنی جھوٹی آرزوئوں کی نفی کرتا اور زیادہ حقیقت پسندانہ مناظر سامنے لاتا ہے۔
صحیح منزل متعین نہ ہو تو ایک فرد اعلیٰ ترین اصول اور بہترین ارادے رکھنے کے باوجود مشکل حالات میں نیک کرداری کے ساتھ اور مہذب انداز میں عمل کرنے کے قابل نہ ہوگا۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ صحیح نصب العین کا انتخاب کیا جائے اور اسے حاصل کرنے کے لئے حقیقی ذرائع تلاش کئے جائیں۔ علم ہی نصب العین کی حقیقت کو واضح کرتا اور انہیں حاصل کرنے کے صحیح ذرائع تلاش کرنے میں مدد دیتا ہے۔
ایک آدمی کی نیک سیرتی اسی وقت حقیقت کی شکل اختیار کرسکتی ہے جبکہ بہتری کے لئے کچھ کیا جائے۔ نیتیں اور ارادے آدمی کی سماجی سرگرمیوں کی تکمیل کے نتیجہ میں ہی مادی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ شعور و ادراک کو نظر انداز کرکے محض احساسات پر انحصار کرنا فرد اور سوسائٹی دونوں کے لئے ہلاکت انگیز ہے۔
علم ایسے لوگوں کے عمل سے پھوٹتا ہے جو سچائی کو جاننے کی سنجیدہ کوششوں میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔ پس وہ ایمان جس کی بنیاد علم پر ہو ایک فرد کو صحیح سمت دیتا ہے۔ وہ اس کے اندر ایک سچا ضمیر پیدا کرتا ہے جو کہ سچائی کو جاننے اور اس کا بے باکانہ احترام کرنے کے لئے مسلسل جدوجہد کرتا ہے۔
انسان علم اور فطرت کی ودیعت کردہ تخلیقی صلاحیتوں کی وجہ سے یقینا اپنے حالات کو بدلنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ قوانین فطرت کا ادراک اور ایسے سماجی ڈھانچہ کے خلاف شعوری جدوجہد جس میں اس کی زندگی دوسروں کے قبضے میں ہو، فرد میں سیرت کی پختگی پیدا کرتی ہے۔ یہ شعوری جدوجہد انسان میں انسانی شخصیت کا احترام، قدرو منزلت اور سماج کے روبرو ذمہ داری و جوابدہی کے احساس کو جاگزیں کرتی ہے۔
سیاسی و معاشی دہشت گردی کی بیخ کنی
سیاست ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے معاشرے کے ماحول کو ایک پسندیدہ صورت دی جاتی ہے۔ سیاست عوام میں شعور پیدا کرنے اور معاشرے کے افراد کو تعمیری شخصیتوں میں ڈھالنے کا موثر ذریعہ ہے۔ ایک حقیقی جمہوری حکومت کی حکمت عملی ایسے حالات پیدا کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے جن میں ہر فرد کو ایک سیاسی تشخص حاصل ہو۔ ایسا تشخص جو اردگرد کے لوگوں کی بہتری اور آزادانہ نشوونما کے لئے فکر مند ہو کیونکہ اس کی اپنی بہبود بھی دوسروں کی بہبود پر منحصر ہے۔ ایسی حکومت لوگوں کو اس کی پالیسیوں کی صحت مند اور منصفانہ بنیاد کے بارے میں قائل کرکے سوسائٹی اور فرد کے مابین مفادات کی ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔ ایسی حکومت لوگوں کے وسیع تر حصے کو شعور طور پر ایک ایسی تحریک کا حصہ بناتی ہے جو معاشرے کو ترقی دینے اور ریاست کے انتظام میں آبادی کے وسیع تر حصوں کو شامل کرنے کا عمل جاری کرتی ہے۔ ایک کامیاب حکومت عوام ہی کے ذریعے ممکن ہے۔
دوسرے الفاظ میں کامیاب حکومت وہ ہے جو ریاست کے مقاصد کے بارے میں عوامی تصورات اور حقیقی سماجی مقاصد میں یکسانیت پیدا کرے۔ ایک ریاست صرف اس صورت میں مضبوط و مستحکم ہوتی ہے جبکہ عوام سیاسی طور پر باشعور ہوں۔ یعنی وہ سب کچھ جانتے ہوں، ہر معاملے کے بارے میں اپنی رائے رکھتے ہوں اور تمام معاملات بااصول طریقے سے سرانجام دے سکتے ہوں۔ یہ ایک بین حقیقت ہے کہ عوام ہی وہ متحرک قوت ہیں جو تاریخ کو بناتے ہیں۔
عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے نام نہاد سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ دولت مند اشرافیہ کے مخصوص مفادات پر بھی ایک کاری ضرب لگانا ضروری ہے۔ ہمارے ہاں موجود بالائی طبقوں کا نچلے طبقوں کو دبائے رکھنا اور انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنا معمول ہے۔ اسلام کا زندگی کے بارے میں نظریہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ عوام بالائی طبقوں کو قابل اعتراض طرز عمل سے روکیں اور ایک منصفانہ سماجی نظام کے قیام کے لئے کام کریں۔ یہ بات آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک ارشاد میں واضح طور پر منعکس ہوتی ہے۔ فرمایا:
اللہ تعالیٰ عام لوگوں کو بالائی طبقوں کے کئے کی سزا اس وقت تک نہیں دیتا جب تک وہ اپنے درمیان قابل اعتراض عمل کو ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن استطاعت ہونے کے باوجود اس سے منع نہیں کرتے۔ جب ان کا طرز عمل یہ ہوجاتا ہے تو اللہ عام لوگوں اور بالائی طبقوں دونوں کو سزا دیتا ہے۔
قابل اعتماد عوامی قیادت
عوام کو ایک ایسی موثر اور تعمیری قوت بنانا کہ وہ غیر منصفانہ معاشی و سماجی ڈھانچوں کو اپنے علم، سوجھ بوجھ اور کردار کی مضبوطی سے بدل ڈالیں، ایک بڑا بھاری کام ہے۔ یہ شاندار کارنامہ ایک ایسی باصلاحیت اور قابل اعتماد قیادت ہی کے ذریعے انجام دیا جاسکتا ہے جس کے قول اور عمل میں تضاد نہ ہو۔ ایسی قیادت حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعین کردہ خطوط پر فلاحِ انسانیت و امت کے لئے اپنا کردار ادا کرتی ہے۔
آخری تجزیئے کے طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ زندگی کے مصائب (جہالت، بیماری، بھوک و افلاس، ناانصافی اور ظلم) کو ختم کرنا، انسان کی فلاح و بہبود کو نشوونما دینا، سماجی ذمہ داریوں کی ضروری حد تک ادائیگی کے ذریعے انسان کو اخلاقی و روحانی بلندیوں تک ترقی دینا، اس کے سیاسی شعور کو جلا دینا اور سماج کی درست و محکم تنظیم کرنا ہی انسانی زندگی کا مقصود ہے۔ انہی کاموں کی انجام دہی پر صحت مند زندگی کا دارومدار ہے۔ ان میدانوں میں قطعی پیش رفت صرف اسی صورت میں حاصل کی جاسکتی ہے جبکہ سماجی ڈھانچے کی ہر سطح پر صحت مند اور پختہ قیادت موجود ہو۔ ایسی قیادت جو قرآن اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے رہنمائی لیتی ہو۔ ایسی قیادت بلاشبہ ہمارے اندر موجود ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ذاتی، گروہی اور طبقاتی مفادات سے بالاتر ہوکر اور ایمان و یقین، احساس ذمہ داری اور قربانی کے جذبے سے سرشار ہوکر اس رہنمائی کی طرف رجوع کیا جائے۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، مارچ 2016
تبصرہ