نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت کا صوفیانہ منہاج
آمنہ افضل
انسان کو اللہ تعالیٰ نے کائنات ارضی پر اپنا نائب بناکر بھیجا ہے اور اس کے سر پر اشرف المخلوقات کا تاج بھی سجایا ہے۔ انسانی وجود کو دو اجزاء کا مرکب بنایا ہے، جسم اور روح۔ جسم کے ظاہری اوصاف کو رب کائنات نے کمال حسن و خوبی سے نوازا ہے اور ہر شخص کو بہترین صورت میں پیدا فرمایا ہے۔ وجود انسان کے اندر روح کو اپنا امر بناکر بھیجا ہے اور پھر حضرت انسان کو نیکی، تقویٰ اور بندگی کے ذریعے اس روح کی ترقی اور طہارت کا شعور بھی عطا کیا ہے۔ روح کی اس طہارت کے اوصاف کو باطنی اخلاق بھی کہا جاتا ہے۔ اگر انسان کے اخلاق سنور جائیں تو اس کے ظاہرو باطن کے اعمال بھی مقبول و پسندیدہ ہوتے ہیں اور اگر اخلاق باطنی بگاڑ کا شکار ہوجائیں تو ریاضت و مجاہدہ بھی رائیگاں جاتا ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کا ایک اہم پہلو اخلاقی اصلاح ہے۔ بالخصوص صوفیائے کرام کی تعلیمات تو ایک سالک کی اخلاقی رہنمائی سے ہی شروع ہوتی ہیں پھر اعمال شریعت اور اس کے تقاضے زیر بحث آتے ہیں۔ نفس انسان جوانی کے عالم میں انسان کو گمراہی کے لئے اکساتا ہے اور شیطان اور دنیا اس کے معاون ہوتے ہیں۔ تعلیمات صوفیاء میں نفس انسانی بالخصوص نوجوانوں کی تربیت کا واضح لائحہ عمل موجود ہے۔
بدقسمتی سے دور حاضر میں مادیت کی یلغار نے امت مسلمہ بالخصوص نوجوان نسل کو اخلاقی روحانی اور بے راہ روی کا شکار کردیا ہے اور نوجوان طبقہ اصلاح نفس اور تزکیہ باطن کے تصورات سے کلیتاً ناآشنا ہے بلکہ مادی تصورات نے نوجوانوں کو بہت سے اخلاقی و روحانی مسائل سے دوچار کررکھا ہے۔ جن میں سے چند کی وضاحت درج ذیل ہے:
شکم کی شہوت
نوجوان نسل کا سب سے بڑا مہلک مرض شہوت شکم ہے جس کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام دارالقرار سے اس ناپائیدار ملک میں آئے کیونکہ انہیں درخت خاص سے منع کیا گیا تھا مگر انہیں شہوت شکم کا غلبہ ہوا اور اسے کھا بیٹھے جس کی وجہ سے ان پر شرم کی چیزیں کھل گئیں۔ درحقیقت شکم چشمہ شہوات اور معدن آفات ہے۔ چونکہ آفت شکم ایک بری بلا ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کی آفات مہلکات بیان کردی جائیں کہ اس سے لوگ بچ جائیں اور مجاہدہ کا طریقہ اور اس کی فضیلت بھی واضح کردی جائے تاکہ لوگ اس کی طرف رغبت کریں۔ اس سلسلہ میں صوفیاء نوجوانوں کو بھوک اور روزہ کی ہدایت کرتے ہیں:
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مرتبہ کے لحاظ سے اللہ کے نزدیک قیامت میں وہ افضل ہے جو دنیا میں زیادہ بھوکا ہے اور اللہ کے بارے میں تفکر کرے اور قیامت میں اللہ کے نزدیک مبغوض ترین انسان وہ ہوگا جو زیادہ زیادہ کھاتا پیتا ہوگا‘‘۔
اسلاف کے اقوال و افعال
نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت میں فاقہ کشی کی اہمیت کا اندازہ صوفیاء کے ان اقوال سے لگایا جاسکتا ہے۔
- حضرت لقمان فرماتے ہیں:
آپ نے اپنے بیٹے سے فرمایا جب معدہ بھرا ہوتا ہے تو فکر سوجاتا ہے اور اعضاء عبادت سے تھک کر بیٹھے رہتے ہیں اور حکمت بیکار ہوجاتی ہے۔
- حضرت ابو سلیمان فرماتے ہیں:
رات کے کھانے سے ایک لقمہ کم کھانا مجھے بہ نسبت تمام شب داری کی بیداری سے اچھا معلوم ہوتا ہے۔
- حضرت سہل تستری فرماتے ہیں:
کسی نے آپ کا حال پوچھا اور غذا کی کیفیت دریافت کی تو بتایا کہ میری غذا سال بھر میں تین درہم ہوتی ہے ایک درہم سے شیر انگور لیتا ہوں۔ دوسرے درہم سے چاول کا آٹا لیتا ہوں اور تیسرے درہم سے گھی ان سب کو ملاکر تین سو ساٹھ گولیاں بنالیتا ہوں پھر ایک گولی سے افطار کرتا ہوں لوگوں نے کہا اب کیا حال ہے؟ انہوں نے فرمایا اب کوئی مقدار اور وقت مقرر نہیں ہے۔
- اصحاب صفہ کا حال:
ان کی غذا یہ تھی کہ دو آدمیوں کے لئے تین پاؤخر ماہر روز اور اس میں گٹھلی بھی شامل ہے جس کے نکالنے کے بعد بہت ہی کم مقدار رہ جاتی ہے۔
- حضرت جعفر بن نصر فرماتے ہیں:
مجھے جنید نے فرمایا کہ انجیر میرے لئے خرید لانا جب میں لے آیا تو افطار کے وقت منہ میں ڈال کر تھوک دیا اور کہا اٹھا کر لے جائیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ گوش دل میں غیب سے ندا آئی کہ تو نے میری خاطر چھوڑا تھا کیا پھر کھائے گا۔
موجودہ دور میں مرض شہوت، شکم ہے جس کی وجہ سے تمام برائیاں پھیل رہی ہیں۔ اس برائی کی جڑ کو ختم کرنے کے لئے صوفیانہ حل پیش کئے گئے ہیں جن کی بدولت نوجوان نسل اس برائی کی جڑ سے کلیتاً نجات حاصل کرسکتی ہے اور اپنی دنیا و آخرت سنوار سکتی ہے۔
جھگڑا کرنا
اللہ تعالیٰ کو جھگڑالو اور فتنہ گر انسان ناپسند ہے۔ اس لئے قرآن مجید میں کئی مقامات پر تحمل و برداشت اور صلہ رحمی کا درس ملتا ہے۔ مگر آج بہت سے مسائل کی بنیادی وجہ یہی لڑائی جھگڑے کی روش ہے، بالخصوص آج نوجوان طبقہ اس اخلاق رزیلہ کا شکار ہے۔
حدیث شریف میں بات کاٹنے کو منع فرمایا گیا ہے:
’’اپنے بھائی کی بات نہ کاٹ اور نہ اس سے مذاق کر اور نہ ایسا وعدہ کر جس کی وعدہ خلافی کرے‘‘۔
جس کو صوفیاء نے ایک برائی سمجھا اور اس کے حل کے طریقے بتائے ہیں:
- حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں:
ذرا سے جھگڑے میں انسان کو ایسا غصہ آسکتا ہے کہ کبھی ایسی مصیبت میں پھنس جاتا ہے جس سے زندگی تلخ ہوجاتی ہے۔
- حضرت ابوداؤد فرماتے ہیں:
مسلمان نوجوان کو یہی گناہ کافی ہے کہ ہمیشہ بحث کرتا ہے۔
ان اقوال سلف سے یہ پتہ چلتا ہے کہ غصہ پر قابو پاکر آج کی نوجوان نسل میں یہ بیماری آسانی سے ختم کی جاسکتی ہے۔
فحش گوئی
مثلاً شرم گاہ کا نام لینا وغیرہ جیسا کہ اکثر مسخرے دن رات بکا کرتے ہیں اور نیک بخت لوگ ایسی چیزوں کا نام کنایتاً لینے سے ہی شرماتے ہیں: حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
الجنة حرام علی کل فاحش ان يدخلها
ہر بیہودہ گو پر جنت میں داخل ہونا حرام ہے۔
(جاری ہے)
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، مارچ 2016
تبصرہ