آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے وائرلیس پر رکاوٹ بننے والوں کو ختم کرنے کا حکم دیا، طیب ضیاء
سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس، گواہان طیب ضیاء اور حکیم اسلم کا
انسداد دہشتگردی کی عدالت میں بیان
آئی جی آفس کا کانسٹیبل احسن بٹ ہدایات پہنچاتا رہا، آئی جی کو آپریشن کیلئے پنجاب
لایا گیا، بیان
ڈی ایس پی عمران کرامت نے اپنی دستی ایس ایم جی سے فائرنگ کر کے کارکن رضوان کو شہید
کیا، طیب ضیا
لاہور (29 مارچ 2016) سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کے دو گواہان طیب ضیاء اور حکیم محمد اسلم نے گزشتہ روز انسداد دہشتگردی کی عدالت میں عوامی تحریک کے وکلاء کی موجودگی میں اپنی شہادت قلمبند کروائی۔ موقع کے گواہ طیب ضیاء نے اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ آئی جی پنجاب مشاق سکھیرا نے وائر لیس پر ڈی آئی جی رانا عدالجبار اور ایس پی طارق عزیز کو رکاوٹ بننے والوں کو ختم کرنے کا حکم دیا، وائر لیس پر دیا جانے والا یہ حکم میں نے خود سنا۔ ماڈل ٹاؤن کے گراؤنڈ اور سربراہ عوامی تحریک کی رہائش گاہ کے دائیں بائیں موجود فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کو رانا عبدالجبار، ایس پی طارق عزیز اور آئی جی آفس کا ایک کانسٹیبل احسن بٹ ہدایات دے رہا تھا۔ طیب ضیاء نے اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ 16 جون کی رات میں، خرم نواز گنڈاپور اور جواد حامد ڈی آئی جی رانا عبدالجبار کے پاس گئے اور انہیں بتایا کہ عدالت عالیہ کے حکم پر منہاج القرآن اور سربراہ عوامی تحریک کی رہائش گاہ کے اطراف میں حفاظتی بیریئر لگائے گئے ہیں۔ لہٰذا آپ رات کے اندھیرے میں اس طرح خوف و ہراس نہ پھلائیں جس کے جواب میں ڈی آئی جی رانا عبدالجبار نے کہا کہ رکاوٹیں ہٹانے کے حوالے سے میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، چودھری نثار اور رانا ثناء اللہ کا حکم ہے اور ہم ان احکامات پر عمل کرنے آئے ہیں، طیب ضیاء نے بتایا کہ رانا عبدالجبار شدید غصہ میں آگیا اور کہا کہ رکاوٹیں ہٹانے کیلئے کتنی ہی جانیں کیوں نہ لینی پڑیں، اپنا کام مکمل کریں گے۔ قادری خاندان اور ان کے حواریوں کا نام و نشان مٹا دینگے۔ اسی دوران اس نے ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ بھی کروائی اس سے علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ طیب ضیاء نے اپنی شہادت قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ 17 جون کو میں خالد پلازا کے قریب موجود تھا کہ یہاں پر موجودڈی ایس پی عمران کرامت نے اپنی دستی ایس ایم جی سے فائرنگ کی اور اس کا ایک فائر کارکن رضوان کے کندھے پر لگا جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا اور بعدازاں 19 جون 2014کو ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گیا۔ گواہ طیب ضیاء نے اپنے بیان میں مزید لکھوایا کہ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا شریف برادران کے انتہائی قریبی ہیں انہیں ماڈل ٹاؤن آپریشن کیلئے ہی بلوچستان سے پنجاب لایا گیا۔
دوسرے گواہ حکیم محمد اسلم نے اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ 17 جون کو میں سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر موجود تھا یہاں پر پولیس افسران اور اہلکار فائرنگ کرتے رہے ان کی فائرنگ سے کئی خواتین اور مرد شدید زخمی ہوئے۔ متعدد اموات بھی ہوئیں۔ کل مزید گواہ اپنا بیان قلمبند کروائیں گے۔ اس موقع پر پاکستان عوامی تحریک کے وکلاء رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ، نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، سردار غضنفر حسین ایڈووکیٹ، چودھری امتیازایڈووکیٹ، فرزند مشہدی ایڈووکیٹ، شکیل ممکا ایڈووکیٹ، چیف آرگنائزر میجر(ر) محمد سعید اور مستغیث جواد حامد بھی موجود تھے۔
تبصرہ