’’سانحہ ماڈل ٹاؤن: پتھراؤ کرنیوالے پولیس اہلکاروں کو ایس پی سلیمان نے کہا انہیں گولیوں سے سبق سکھاؤ‘‘

مورخہ: 05 مئی 2016ء

عبدالرؤف اے ایس آئی کی فائرنگ سے شہباز اور شیخ عاصم ایس ایچ او کی فائرنگ سے عمر رضا شہید ہوا
انسداد دہشتگردی کی عدالت میں عوامی تحریک کے 2 گواہوں محمد شبیر اور شیر باز نے بیان قلمبند کروایا

لاہور (5 مئی 2016) انسداد دہشتگردی کی عدالت میں سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کے حوالے سے 2 چشم دید اور زخمی گواہان محمد شبیر مغل اور شیر باز خان نے اپنا بیان قلمبند کروایا۔ محمد شبیر مغل نے کہا کہ 17 جون 2014 ء کے دن میں تنظیمی مصروفیات کے سلسلے میں منہاج القرآن سیکرٹریٹ آیا جسے پولیس نے گھیر رکھا تھا اور پولیس اہلکار کارکنوں اور سیکرٹریٹ کی عمارت پر پتھراؤ کررہے تھے۔ اس پر قریب ہی کھڑے ہوئے ایس پی سکیورٹی سلیمان نے پولیس نفری کو حکم دیا کہ پتھراؤ سے نہیں انہیں گولیوں سے سبق سکھاؤ، یہ حکم ملتے ہی عبدالرؤف اے ایس آئی نے اپنی سرکاری ایس ایم جی رائفل سے کارکنوں پر فائرنگ شروع کر دی جس سے محمد شہباز گولیوں لگنے سے شدید زخمی ہو کر گر پڑا اور دم توڑ گیا۔ اسی طرح حافظ اطہر محمود، مہر نوید ہیڈ کانسٹیبل اور خرم رفیق ہیڈ کانسٹیبل کی فائرنگ سے سیف اللہ قادری اور میں شدید زخمی ہوئے۔

عوامی تحریک کے دوسرے گواہ شیرباز خان نے اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ 17 جون 2014ء کے دن منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے قریب مارکیٹ کرن پلازا میں شیخ عاصم ایس ایچ او نے پرامن کارکنوں پر فائرنگ کی جس سے عمر رضا کارکن موقع پر شہید ہو گیا۔ شیخ عاصم کے ہمراہ آصف رضا، افضل کانسٹیبل بھی فائرنگ کرتے رہے جس سے میں اور شکیب اعوان ٹانگوں پر گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہو گئے اس نے بتایا کانسٹیبل ندیم اقبال کی فائرنگ سے بھی متعدد کارکن زخمی ہوئے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس میں مجموعی طور پر 22 چشم دید اور سانحہ کے زخمی گواہان اپنا بیان قلمبند کروا چکے ہیں۔ مزید سماعت 9 مئی تک ملتوی ہو گئی۔

گواہان کے بیانات کے بعد عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپورنے عوامی تحریک کے وکلاء کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں ایسے چشم دید گواہان پیش کررہے ہیں جو نا صرف چشم دید ہیں بلکہ وہ سانحہ میں خود بھی زخمی ہوئے اور وہ قریب سے فائرنگ کرنے والے پولیس افسران، کانسٹیبلان کو اچھی طرح پہچانتے ہیں اور وہ جو موقع واردات پر گفتگو کررہے تھے وہ بھی سن رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ قاتل اعلیٰ پنجاب کو علم ہے کہ اگر غیر جانبدار انکوائری ہو گئی تو انہیں اور ان کے آلہ کار پنجاب پولیس کے افسران کو سزا سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔

سینئر وکیل رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ، نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، سردار غضنفر ایڈووکیٹ اور مستغیث جواد حامد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 17 جون 2014 ء کا سانحہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے سنگین اور طویل ترین وقوعہ ہے۔ پنجاب حکومت اور پولیس کی متفقہ واردات 16 گھنٹے پر محیط ہے اور ایک ہی جگہ درجن سے زائد واقعات ہیں جو ہمارے زخمی کارکنان اور گواہان کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ عدالت کو حقائق سے باخبر کررہے ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ ان حقائق کی بنیاد پر عدالت ذمہ دار عناصر کو کڑی سے کڑی سزا دے گی۔

تبصرہ

ویڈیو

پیش آمدہ مواقع

Ijazat Chains of Authority
Top