معجزہ معراج النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں امتِ محمدیہ کی اخلاقی اصلاح کے پہلو
ڈاکٹر ممتاز احمد سدیدی
رحمت دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج کی رات براق پر سوار قاب قوسین کی طرف بلندیوں کا سفر طے کرتے رہے، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے بلند مقامات عطاہوئے کہ اِن مراتب کے بعد بھی لاتعداد عظمتوں اور بلندیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب بھی اللہ رب العزت کی بارگاہ سے نعمتیں عطاہوئیں توآپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تحدیتِ نعمت اورشکریہ کے طورپر لوگوں کو اُن نعمتوں کے حوالے سے آگاہ بھی فرمایا۔ انہی نعمتوں اور بلندیوں میں سے ایک معراج بھی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ قرآنِ کریم میں اسراء اورمعراج کا ذکر یوں فرماتاہے:
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ.
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘
(سورة بنی اسرائيل: 1)
اِسی بے مثال واقعہ کا تذکرہ سورۃ النجم کی پہلی اٹھارہ آیات مبارکہ میں بھی آیا ہے۔ جہاں اللہ رب العزت نے وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَی کے الفاظ سے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واقعہ معراج کے بیان کا آغاز فرمایا۔
اسراء اور معراج کے حوالے سے کثیر احادیث ہیں اُن میں سے بعض احادیث دیگر بعض احادیث کو مکمل کرتی ہیں۔اِنہیں چھبیس سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے روایت کیا۔ ہم یہاں اِس موضوع کی تفصیلات کا ذکر نہیں کریں گے کیونکہ یہ واقعہ مسلمانوں میں معروف ہے۔ ہم اِس واقعہ کا فقط اخلاقی پہلو ذکرکریں گے۔
واقعہ معراج کو کچھ لوگ سنتے ہیں تووہ اِس واقعہ کے ظاہری پہلوؤں تک محدود رہتے ہیں اور پھر ایک بحث میں الجھ جاتے ہیں کہ کیا یہ خواب کا معاملہ تھایا بیداری کا۔۔۔؟ کیا یہ سفر روح وجسم کا تھا یا فقط روح کا۔۔۔؟کیا یہ معجزہ دن کو رونما ہوا یا رات کو۔۔۔؟یہ سارے سوالات اُس وقت اٹھتے ہیں جب قلوب میں ایمانی حرارت معدوم ہوجائے۔
دوسری طرف اِس خبر کو ایک قوم نے یوں سنا کہ یہ خبراُن کے دلوں کی گہرائی میں اترگئی تب وہ لوگ طبعی صورت میں اِس واقعہ کی روح کی طرف متوجہ ہوئے۔ اُنہوں نے یہ خیا ل کیاکہ یہ خبر ایسی ہدایات پرمشتمل ہے جنہیں سرسری نظر سے دیکھنا مناسب نہیں۔ اس میں امتِ محمدیہ کے لئے چند ہدایات ہیں:
مقامِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگہی
اللہ تبارک وتعالیٰ جن انوار وتجلیات کولوگوں کی ہدایت کے لئے اپنے انبیاء اورمرسلین کے ذریعے دنیا میں بھیجتا رہا، رحمتِ دو عالم ا اُس سلسلے کی آخری کڑی ہیں تاکہ یہ انوار وتجلیات انسانیت کو ہدایت کی طرف رہنمائی کریں، انہیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ تک لے جائیں، اہلِ ایمان کو پاکیزگی کے اعلیٰ ترین مقامات اور حقداروں کو اُن کے مطلوبہ کمال تک پہنچائیں۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمکی ہر جہت سے اکملیت کے پیش نظر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیت المقدس میں تمام انبیاء اورمرسلین کی امامت کا اعزاز عطافرمایاگیا اور اِسی لئے ہی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقربین میں بھی امتیازی قرب کا شرف بخشاگیا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم زمینوں اور آسمانوں سے گذرتے ہوئے بلکہ ساری کائنات سے گذر کر وہاں پہنچے جہاں کبھی کوئی بشرنہیں پہنچا، بلکہ بشر توبشر ملائکہ کے سردار جبریلِ امین بھی نہیںپہنچے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’قاب قوسین‘‘ یا اُس سے بھی زیادہ قرب کے مقام پر فائز ہوئے جیسے کہ معراج کی روایات بتاتی ہیں کہ انبیاء اوررسول آسمانوں پر موجود تھے اور رسولِ اکرم ا اِن آسمانوں اور انبیاء ومرسلین کو ایک ایک کرکے پیچھے چھوڑتے ہوئے آگے ہی بڑھتے چلے گئے تھے۔
روایاتِ معراج کے مطابق معراج ایک مکانی معاملہ تھامگر یہ بطریق ِاولیٰ ایک روحانی معاملہ بھی تھا، یعنی رسولِ اکرم ا اپنے لمحہ بہ لمحہ بڑھتے ہوئے روحانی درجات کی اُس بلندی تک پہنچ گئے کہ اپنی روحانیت کے سبب حضرت آدم علیہ السلام سے آگے بڑھ گئے جو کہ پہلے آسمان پرتھے۔۔۔ پھر حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام سے بھی آگے بڑھ گئے جو کہ دوسرے آسمان پر تھے۔۔۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانیت حضرت یوسف ںسے بھی آگے بڑھ گئی جو کہ تیسرے آسمان پرتھے۔۔۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم روحانیت میں حضرت ابراہیم ں سے بھی آگے بڑھ گئے جو کہ ساتویں آسمان پر تھے۔۔۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سارے مرحلے طے کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے حتیٰ کہ کائنات کو بھی پیچھے چھو ڑتے ہوئے سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچ گئے، جہاں نہ کبھی کسی مقرب فرشتے کو رسائی حاصل ہوئی اور نہ ہی کوئی مبعوث کیا ہوا رسول پہنچ پایا۔ یہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا مقام تھا کہ جہاں:
لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰ يٰتِ رَبِّهِ الْکُبْرٰی.
’’بے شک انہوں نے (معراج کی شب) اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں۔‘‘
(سورة النجم : 18)
لیکن بعض ناسمجھ ہمیں اِن بلندوبالاآفاق، آسمانوں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے اتارلیتے ہیں۔ وہ کم فہم ہمیں پستیوں کی طرف لے جانے کی یوں کوشش کرتے ہیں کہ وہ اسراء اورمعراج پر جھگڑا کرتے ہیں کہ کیامعراج بیداری میں ہوا یا خواب میں؟ استغفراللہ! میں اُس سے مغفرت کاطالب ہوں اور اُس کی طرف رجوع کرتاہوں۔ ایسی بات پر جھگڑا ایمان کی کمزوری اورجھگڑنے والے کے دل میں ایمانی حرارت کی کمی پر دلالت کرتا ہے۔
اخلاقی رہنمائی
معراج کی صورت میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمکو جو کچھ عطا کیا گیا وہ سب ہمیں جنابِ رسولِ اکرم ا کے مرتبہ ومقام سے آگاہ کرتے ہیں۔ ہمارے دل میں اِ ن امور پر اطلاع کے ذریعے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے احترام ، محبت اور اتباع کے جذبے میں اضافہ ہوتاہے۔ اِ س لئے کہ واقعہ معراج کے ضمن میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عطاء کی ہوئی ہدایت اور رہنمائی اخلاقی رموز پر مشتمل ہے جو دین اورفضیلت والے اخلاص کے درمیان مضبوط رابطہ استوار کرتی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اسلام کے سائے میں اعلیٰ اخلاق دین کا ایسا اٹوٹ انگ ہیں کہ وہ کبھی دین سے جدا نہیں ہوتے۔ یہ اخلاق دین کے سرچشمے سے ہی پھوٹتے ہیں اور دین ہی کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں۔ ان اسلامی اخلاق کا سرچشمہ بھی ربانی ہے۔
عصرِ حاضر کے بعض لوگ اخلاق کا کوئی اورماخذ اور سرچشمہ تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ اُس میں سے بعض لوگ ضمیر کو اخلاق کی بنیاد بناتے ہیں جبکہ یہ رائے ایک واضح غلطی ہے، کیونکہ ضمیر کی اپنے ماحول، زمانے اور ثقافتی بنیادوں پر تربیت کی جاتی ہے اور اُسے تشکیل دیا جاتاہے اور اگر ضمیر کو دین ومذہب سے جدا کردیاجائے تو اُسے بالکل اُسی طرح تشکیل دیاجاتاہے جس طرح اصلیت سے خالی مصنوعی اوربناوٹی چیزیں بنائی جاتی ہیں۔
بعض لوگ عمومی مصلحت کو اخلاق کی بنیاد بناتے ہیں لیکن یہ کلمہ غیرواضح اور غیرمحدود ہے۔ ہر شخص اپنی سوچ کے مطابق بولتاہے اور اِس اصطلاح کا استعمال کرتاہے اگرچہ اُس کی سوچ غلط بنیادوں پر ہی استوار ہو۔ اِس تناظر میں مصلحت کو اخلاق کی بنیاد بناناکامیابی کی ضمانت سے خالی ہے۔
بعض لوگ اخلاق کو ذاتی پسند، مصلحت یامنفعت کی بنیاد پر استوار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تینوں نظریے بنیادی طور پر مغرب سے درآمد کئے گئے اور وہاں ایسی سوچ اُس وقت پیداہوئی جب مغرب انحراف اورالحاد کا شکار ہوا۔
اسلامی مشرق یا زیادہ بہتر تعبیرکے مطابق ربانی اسلام کے نکتہء نظر سے اخلاق کا پیمانہ دینی بنیادیں ہیں۔ وہ دینی بنیادیں جو قرآن میں بیان کی گئی ہیں اور وہ فضیلت والے اخلاق جو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے عطافرمائے۔ قرآنِ کریم نے اِن اخلاقِ عالیہ کی واضح عربی اسلوب میں تحدید فرمائی۔ خاص طور پر واقعہ معراج میں قرآن نے اخلاق کے حوالے سے رمزی اورموثر اسلوب میں گفتگو فرمائی ہے ، جسے حدیث رسول ا نے مزید وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا۔
جناب رسول اللہ معراج کی رات رب کی نشانیاں دیکھنے چلے توآپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جو کھیتی بوتے اور اُسی دن اُسے کاٹ بھی لیتے تھے۔ جو نہی وہ کھیتی کاٹتے وہ پھر ویسی کی ویسی ہوجاتی۔
رحمتِ عالم نے جبریل سے فرمایا:
’’یہ کیاہے؟‘‘ جبریل یوں عرض گذار ہوئے: ’’یہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہا دکرنے والے ہیں، اِن کی نیکی کوسات سوگنا بڑھادیا جاتاہے۔ یہ مجاہدین جو کچھ خرچ کرتے ہیں وہی اُن کو پھر مل جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ رزق دینے والا بہترین رب ہے۔ ‘‘
پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جن کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے۔ اُن لوگوں کے سرجونہی کچلے جاتے وہ پھر سے صحیح سالم حالت میں آجاتے۔ یہ عمل مسلسل جاری تھا۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جبریل !یہ کیا ہے؟‘‘
جبریل نے یوں جواب دیا: ’’یہ وہ لوگ ہیں جن کے بوجھل سر انہیں فرض نمازوں سے روک دیتے ہیں۔‘‘
پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے برہنہ لوگوں کے پاس سے گزرے جن کے جسموں پر آگے پیچھے چیتھڑے لٹکے ہوئے تھے اور وہ جانورں کی طرح چررہے تھے۔ زقوم (تھوہر) اور دوزخ کے پتھر کھارہے تھے۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ کون ہیں؟‘‘
جبریل یوں عرض گذار ہوئے: ’’یہ وہ لوگ ہیں جو زکوٰۃ ادانہیں کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اِن لوگوں پر کوئی ظلم نہیں فرمایا، اوراللہ تعالیٰ تواپنے بندوں پر ظلم کرنے والا ہے ہی نہیں۔‘‘
پھر آپ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جن کے سامنے ایک پاکیزہ ہنڈیا میں پکا ہوا طیب گوشت تھا جبکہ دوسری خبیث ہنڈیا میں بدبودارسڑا ہواکچا گوشت پڑاتھا۔ وہ لوگ بھنے ہوئے پاکیزہ گوشت کو چھوڑ کر سڑا ہوا کچا گوشت کھارہے تھے۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جبریل !یہ کون ہیں؟‘‘
جبریل یوں عرض گذارہوئے: ’’یہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے اُس مرد کی مثال ہے جس کے پاس حلال اور طیب بیوی ہو مگروہ اسے چھوڑ کر خبیث عورت کے ساتھ شب باشی کرے اور یہ اُس عورت کی مثال بھی ہے جس کے پا س حلال اور طیب خاوند ہومگر وہ اُسے چھوڑ کرکسی خبیث آدمی کے ساتھ شب باشی کرے۔‘‘
پھر آپ ایک ایسے آدمی کے پاس سے گزرے جس نے لکڑیوں کا اتنا بڑا گٹھاجمع کررکھا تھا جو اُس سے اٹھایا نہیں جا رہا تھا مگر وہ پھر بھی مزید لکڑیاں جمع کرتاجارہا تھا۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جبریل !یہ کیا معاملہ ہے؟‘‘
جبریل یوں عرض گذار ہوئے: ’’یہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے اُس شخص کی مثال ہے جس کے ذمے لوگوں کی اتنی امانتیں ہیں کہ وہ اُن کی ادائیگی پر قادر نہیں لیکن وہ اِس بات کے باوجود مزید امانتوں کا بوجھ اٹھارہاہے ۔‘‘
پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے لوگ ملاحظہ فرمائے جن کی زبانوں اور ہونٹوں کو لوہے کی قینچیوں سے کاٹا جارہا تھا۔ جونہی اُن کی زبانیں اورہونٹ کاٹے جاتے، اُن کی زبانیں اور ہونٹ پھر ویسے کے ویسے ہی ہوجاتے۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جبریل یہ کون ہیں؟‘‘
جبریلِ امین یوں گویا ہوئے: ’’یہ فتنہ پرورخطیب ہیں۔‘‘
پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایسے چھوٹے سوراخ کے قریب تشریف لائے جس میں سے ایک عظیم الجثہ بیل نکلتا ہے اور پھر سے اُس سوراخ میں داخل ہونا چاہتاہے مگراُس میں داخل نہیں ہوپاتا۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جبریل یہ کیا ماجراہے؟‘‘
جبریل یوں لب کشاہوئے: ’’یہ اُس شخص کی مثال ہے جو بولتاہے تومنہ سے بہت بڑی بات نکالتا ہے۔ پھر اپنی بات پر نادم ہوتا ہے تووہ اپنی کہی ہوئی بات کو واپس نہیں لوٹاسکتا۔‘‘
پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک وادی میں تشریف لائے جہاں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشک کی خوشبو جیسی ٹھنڈی اور خوشبو دار ہواپائی اور ایک آواز سنی۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جبریل !یہ کیسی خوشبو اورکیسی آواز ہے؟‘‘
جبریلِ امین آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یوں مخاطب ہوئے:
’’یہ جنت کی آواز ہے جو کہہ رہی ہے : اے اللہ! میرے کمرے، میرا استبرق (قنادیز) میرا ریشم، میرا سندس (کریب) میری مہک، میرے موتی، میرے مرجان، میری چاندی ، میر اسونا، میرے پیالے، میرے جام ، میری صراحیاں، میری سواریاں، میرا شہد، میراپانی ، میرادودھ اورمیری شراب کابہت بڑا ذخیرہ جمع ہوچکاہے اب مجھے وہ لوگ عطا فرمادے جن کا تونے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے۔‘‘
اللہ نے جنت سے فرمایا: ’’تیرے لئے ہر وہ مسلم اورمسلمہ، مومن اور مومنہ ہے جو مجھ پر اور میرے رسولوں پر ایمان لایا اور اُس نے نیک کام کئے اور کسی کو میرے ساتھ شریک نہ ٹھہرایا۔ میرے علاوہ کسی کو معبود نہ بنایا ۔ جو میری ناراضگی سے ڈرگیا وہ امن وعافیت میں ہوگیا۔جس نے مجھ سے سوال کیامیں اُسے ضرور عطا کروں گا۔ اورجس نے مجھے قرض دیا میں اُسے ضرور جزا دوں گا ۔جس نے مجھ پر بھروسہ کیا میں اسے کفایت کروں گا۔ میں اللہ ہوں میرے علاوہ کوئی سچا معبو د نہیں، میں وعدہ کا خلاف نہیں کرتا۔ ایمان والے فلاح پاگئے۔ بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنانے والا۔‘‘
جنت نے یہ سب کچھ سن کرکہا: ’’میں راضی ہوں۔‘‘
پھرآپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دوسری وادی میں تشریف لائے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ناپسندیدہ آواز سنی اور ایک بدبو کو محسوس کیا۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جبریل !یہ کیسی آواز اورکیسی بدبو ہے؟‘‘
جبریلِ امین یوں عرض گذار ہوئے : ’’یہ جہنم کی آواز ہے جوکہہ رہی ہے: ’’اے اللہ!مجھے وہ لوگ عطافرما جن کا تونے مجھ سے وعدہ فرمایاہے، میری زنجیریں، ہتھکڑیاں، آگ کے شعلے، حرارت، پیپ اور بدبو میں اضافہ ہوگیا ہے، میری گہرائی اور حدَّت بڑھ گئی ہے لہٰذا مجھے وہ لوگ عطا فرما دے جن کا تونے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’تیرے لئے ہر مشرک اورمشرکہ، ہرکافر اورکافرہ اور ہر وہ سرکش ہے جو روزِ حساب پر ایمان نہیں رکھتا۔‘‘ یہ سن کر دوزخ نے کہا: ’’میں راضی ہوں۔‘‘
معجزہ معراج کے ثمرات
واقعہ معراج کے درج ذیل کچھ ثمرات ہیں جو اِس واقعہ کے اعلان کے مقاصد میں سے بھی ہیں:
راہِ صدیقیت پر گامزن ہوں
کمزور ایمان والوں، شک کے شکار ہونے والوں اور تردد میں الجھنے والوں کی امتِ مسلمہ سے علیحدگی اس واقعہ کے اظہار کے مقاصد میں سے ایک مقصد تھا۔ واقعہء معراج کو سنتے ہی بہت سے لوگ اسلام لائے جبکہ بعض کفر کی طرف لوٹ کرمرتدہو گئے۔ ایسے کمزور ایمان والوں کا امت کے ساتھ رہنا قوت کا ذریعہ کبھی نہ ہوتا بلکہ کمزوری کا سبب ہی ہوتا۔
وہ مکی صحابہ جو ایمان لائے اور اُنہوں نے سخت قسم کے حالات کا صبر و استقامت سے سامنا کیا، اُنہوں نے جسمانی تکلیفوں اور ذہنی پریشانیوں پر صبر کیا، اُنہوں نے تمام آزمائشوں میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا، اُن صبرکرنے والوں اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنے والوں نے اپنے آپ کو تمام مادی رغبتوں اور تمام خواہشات سے نجات دلوائی اور پھر اُن کے نفوس پورے اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اطاعت شعار ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں اُن لوگوں کے کندھوں پر نئی اسلامی مملکت کا قیام لکھاجا چکا تھا۔اور ان صحابہ کے لئے لازم تھاکہ وہ ممکنہ ذمہ داریوں کے لئے تیار ہو جائیں۔ نیز اُن کے لئے لازم تھاکہ وہ ہدایت کے راستے پر آنے والی ہررکاوٹ کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ڈٹ جائیں۔
اِن مکی صحابہ کا تصفیہ انتہائی ضروری تھا اور واقعہ معراج کا اعلان اِسی سلسلے کی ایک کڑی تھاتاکہ دلیل اور بصیرت کی بناپر جو جانا چاہے چلا جائے اور جو اسلام کے دامن سے وابستہ رہنا چاہے وابستہ رہے۔ ایمان والا کبھی ملت سے جدا نہ ہوگا خواہ کیسے بھی حالات ہوں، وہ رسولِ کریم اکی سچائی اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی ہر خبر پر ایمان رکھے گا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خبر دیتے ہی اُس خبر کی تصدیق کرے گا۔
واقعہ معراج کے حوالے سے بہترین مثال حضرت ابوبکر صدیق صہیں، آپ نے بغیر کسی تردد اور شک وشبہ کے یہ اعلان فرمایا تھا:
’’ اللہ کی قسم! اگر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سب کچھ فرمایا ہے توسچ فرمایاہے۔ اے مکہ والو!اِس میں کون سی بات تعجب انگیز ہے؟ اللہ کی قسم آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سے بیان فرماتے ہیں کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس زمین پر دن یا رات کے ایک مختصرسے حصے میں آسمان سے خبرآتی ہے تو میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس بات کی بھی تصدیق کرتاہوں، یہ واقعہ جس پر تم تعجب کرتے ہومیرے لئے کچھ تعجب انگیز نہیں۔‘‘
رسولِ کریم ا پر اِس مطلق ایمان کے سبب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر ص کو صدیق کا لقب عطافرمایا۔ صدیقیت ایمان کے اعلیٰ مراتب میں سے ایک ہے جسے وہی پاسکتاہے جس نے اپنے نفس کے ساتھ اتنا جہاد کیا ہوکہ وہ عام لوگوں کے ایمان سے کہیں آگے بڑھ گیا ہو۔ اس کا ایمان اُس درجے پر فائز ہوگیا ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اُس کی بارگاہ کی طرف پوری طرح متوجہ ہوتے ہوئے نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کے معاملے میں اُس کی رضا کے راستے پر گامز ن ہو۔
جمیع امت مسلمہ سے رحمتِ دو عالم ا کی دی ہوئی خبروں کے حوالے سے یہی مطلوب ہے کہ وہ حضرت ابوبکر صدیق ص کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پوری طرح سرِ تسلیم خم کردے اور آپ کی ہر خبر کی دل وجان سے ایسی تصدیق کرے جو اُسے عمل پر برانگیختہ کرے اور آپ ا کے لائے ہوئے ہر حکم پر عمل کے لئے ابھارے۔ نیز ہر اُس چیز سے رکنے پر ابھارے جس سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا ۔امت سے ایک ایسی ہی مثبت تصدیق مطلوب ہے جو امت کے لئے مطلوبہ عزت کے حصول کا ذریعہ ہواور امت سے اُن انحراف کرنے والوں کو نکال باہر کرے جنہوں نے دشمنانِ اسلام کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اہل ِایمان میں جنابِ رسول اللہ ا کی حدیث کے حوالے سے شکوک وشبہات پیداکرنے شروع کردیئے۔ یہ نادان اپنے آپ کو تجدید کرنے والے گمان کرتے ہیں حالانکہ یہ لوگ مستشرقین اور اغیار کے آلہ کا رہیں۔
حدیث اور سنت کے حوالے سے شکوک وشبہات پیداکرنے والے لوگ نہ تو اپنی کوئی سوچ رکھتے ہیں اورنہ ہی تجدید کے راستے پرگامزن ہیں بلکہ یہ نادان شک، تردد اور مستشرقین کی تقلید کے راستے پر گامزن ہیں وہ راستہ جوایمان اور صدیقین کے منافی ہے۔
اَلصّلوٰۃُ مِعْرَاجُ الْمُوْمنیْن
معراج کے دوران اللہ تعالیٰ کے کتنے ہی انعامات ہیں، اُن سب میں سب میں سے عظیم ترین انعام معراج کی رات (تمام مسلمانوں کے لئے) سب سے بڑی تجلی نماز ہے۔ ہم اپنی کوتاہی و سستی اور عجز کے سبب اللہ تعالیٰ کی اُس نعمت کا شکریہ ادانہیں کرسکتے جو معراج کی رات ہمیں عطاہوئی۔ نماز اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کانام ہے، نماز اُس کے ساتھ تعلق کی کیفیت ، اُس کا طریقہ اوروسیلہ ہے، یہ وہ عظیم لمحات ہیں جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندے کا تعلق استوار ہوتاہے۔یہ لمحات خواہشات ، فتنہ اور مادیت کی دنیا سے مکمل انقطاع اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے ساتھ مناجات کے ذریعے وابستگی کے لمحات ہیں، تاکہ انسانی نفس انعام عطافرمانے والے رب کی بارگاہ میں اخلاص کے ساتھ حاضرہوکر اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ تعلق اور قرب کی سعادت حاصل کرسکے۔
جس نے نماز کو قائم کیا اُس نے دین کو قائم کیا اور جس نے نماز کو چھوڑا اُس نے دین سے تعلق توڑا ۔ نماز قائم کرنا دین کو قائم کرنا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کا تعلق استوار کرنے کے مترادف ہے۔ یہی وہ بلندشان ، اور عظیم ہدف اور سعادتِ کاملہ ہے جس کے لئے اہلِ ایمان بھرپورکو ششیں کرتے ہیں تاکہ وہ نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی معراج کو حاصل کرسکیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول اکے حکم کے مطابق نماز کی ادائیگی اللہ تعالیٰ سے قرب کا سب سے بہتر ذریعہ ہے۔ یہ ایسا براق ہے جس کے ذریعے بندہ مومن اللہ تعالیٰ سے دوری کو انتہائی تیز رفتاری سے طے کرتے ہوئے اُس بندہ نواز کی بارگاہ تک پہنچتا ہے اور اُس کی بارگاہ سے انعام پاتاہے ۔
یہ اور ایسے ہی رنگ وبوکے دیگر چند دریچے واقعہ معراج سے حاصل ہونے والے سبق اور ربانی اشارات ہیں جو ہمیشہ ہمارے پیشِ نظر رہنے چاہیں اور ہمیں ان امور میں غوروفکر کے ساتھ انہیں اپنانا چاہیے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نجم میں بلند آفاق اور عظیم ربانی فضاؤں کا ذکر فرمایا ، اُن بلندیوں کاذکر فرمایا جن کے حصول کی تمنائیں تھک ہارکے واپس ہوتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سدرۃ المنتہیٰ، جنۃ المأوی اور اپنی عظیم نشانیوں کا تذکرہ فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے مراتب کاذکر فرمایا جس کے بارے میں شاعر کہتاہے:
رُتَبٌ تَسْقُطُ الْامَانِیْ حَسْرَیْ
دُوْنَهَا وَمَاوَرَاءَ هُنَّ وَرَاءُ
’’آپ کو ایسے بلند مقامات عطا ہوئے جن کے حصول میں ناکام ہونے والی آرزوئیں سراپا حسرت بن کر اُن کے سامنے جاگرتی ہیں۔ جبکہ آپ کو عطا کئے گئے اِن مراتب کے بعد بھی آپ کی عظمتوں اور بلندیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ سورئہ نجم میں رحمتِ دوعالم ا کی بلندیوں کاتذکرہ فرمانے کے بعد کسی پیشگی اطلاع کے بغیر ہمیں بہت تیزی کے ساتھ نیچے لاتاہے تاکہ ہماری آنکھیں کھول کر ہمیں شرک کی وہ پستیاں دکھادے جن میں حیوانات جیسے لوگ یااُن سے بھی زیادہ بے شعور لوگ بھٹکتے ہیں، ارشاد ربانی ہے:
اَفَرَئَيْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰی. وَمَنٰوهَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰی.
’’کیا تم نے لات اور عزیٰ (دیویوں) پر غور کیا ہے؟ اور اُس تیسری ایک اور (دیوی) منات کو بھی (غور سے دیکھا ہے؟ تم نے انہیں اﷲ کی بیٹیاں بنا رکھا ہے؟)۔‘‘
(سورة النجم :19، 20)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں اِن کلمات کے ذریعے مسکین بشریت کی دینی گمراہی اور اُس کا ذہنی انحراف دکھادیا۔ جوشخص بھی اسراء اور معراج کے اِن بلند آفاق کو نظرانداز کرکے کہتاہے کہ رسولِ کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو فقط روح کیساتھ سیر کروائی گئی ، یاپھر یہ کہتا ہے کہ بیت المقدس تک کی سیر بیداری اور بعد کی سیر خواب میں کروائی گئی تووہ اپنی ایسی لغوباتوں کے ذریعے اپنے آپ کوربانی تجلی سے محروم کرکے لات وعزی کی فضا میں گراتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو سدرۃ المنتہیٰ کی فضا سے نکال کر مادیت کی فضا میں پھینکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اپنے آپ کوآسمانی نور کے چمکتے دمکتے ماحول سے نکال کر دین میں ٹیڑھ اور جھگڑے کی تاریکی میں جھونکتا ہے۔
ہمیں اِس بدنصیب کے اِس عمل سے روگردانی کرتے ہوئے اِسے چھوڑ دینا چاہیے اور شکوک وشبہات پھیلانے والے لوگوں سے دورہٹ کر رب کی بارگاہ میں دامن پھیلا کر یوں دعا کرنا چاہیے:
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَةً ج اِنَّکََ اَنْتَ الْوَهَّابُ.
’’(اور عرض کرتے ہیں) اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں کجی پیدا نہ کر اس کے بعد کہ تو نے ہمیں ہدایت سے سرفراز فرمایا ہے اور ہمیں خاص اپنی طرف سے رحمت عطا فرما، بے شک تو ہی بہت عطا فرمانے والا ہے۔‘‘
(آل عمران: 8)
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، مئی 2016ء
تبصرہ