زندگی کے طوفانوں کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟

مورخہ: 06 جون 2016ء

(حصہ دوم)

شفاقت علی شیخ

زندگی کی کامیابی و کامرانی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ زندگی کے ضابطوں کو سمجھا جائے، اُنہیں ذہن نشین کیا جائے اور موقع بہ موقع انہیں استعمال میں لایا جائے۔ زندگی کے قوانین بے شمار ہیں جن کا مکمل احاطہ ناممکن ہے۔ تاہم زندگی کے مسائل کا سامنا کرنے کے حوالے سے زیر نظر مضمون میں دس اہم باتوں کو زیرِبحث لایا جارہا ہے۔ اگر ان کو لوحِ ذہن پر نقش کر لیا جائے اورروز مرہ زندگی میں ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو زندگی میں آنے والے مصائب اور مشکلات کے طوفانوں کا مقابلہ بڑی آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔جس کے نتیجے میں زندگی کا سفر آسان ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت خوشگوار بھی ہو سکتا ہے۔ اس مضمون کا پہلا حصہ ماہ اپریل میں شائع ہوچکا ہے جس میں ’’1۔مسائل زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ 2۔ہر مسئلے کے زندگی محدود ہوتی ہے۔ 3۔مسائل میں مواقع۔ 4۔ہر مسئلہ قابل حل ہے۔ 4۔ مسائل کے حل کی صلاحیت‘‘ کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ا س مضمون کا دوسرا حصہ نذرِ قارئین ہے:

اپنے آپ کو مضبوط بنائیں

زندگی کی مشکلات اور طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے چھٹا اصول یہ ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو مضبوط بنانا ہوگا۔ اس دنیا کا اصول یہ ہے کہ جہاں بھی دو افراد کے درمیان ٹکراؤ (Clash) یا مقابلہ (Competition) ہوتو ہمیشہ وہ غالب آتا ہے جو زیادہ طاقت ور، توانا اور مضبوط ہو۔

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

کسی مردِ دانا سے پوچھا گیا کہ ’’بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کب تک کھاتی رہے گی؟‘‘ اس نے جواب دیا کہ ’’جب تک چھوٹی مچھلی اپنے آپ کو اتنا بڑا نہیں کرلیتی کہ وہ بڑی مچھلی کے منہ میں نہ آسکے‘‘۔

انگریزی زبان کا ایک نہایت ہی بامعنی جملہ ہے:

A man cannot ride your back unless it is bent.

’’کوئی آدمی آپ کی کمر پر اس وقت تک سوار نہیں ہوسکتا جب تک یہ جھکی ہوئی نہ ہو‘‘۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ جب بھی کوئی شخص کسی حوالے سے ہمارے اوپر غالب آرہا ہوتا ہے تو یہ صورت حال ہماری کسی نہ کسی کمزوری کا ہی نتیجہ ہوتی ہے۔ اگر وہ کمزوری ہمارے اندر نہ ہوتی تو اسے یہ موقع کبھی نہ مل سکتا۔ اس کی مثال یوں ہے کہ آندھیاں اور طوفان جب آتے ہیں تو گھاس پھونس اور تنکے ادھر ادھر اڑتے پھرتے ہیں لیکن پہاڑ اپنی جگہ پر جمے رہتے ہیں۔ شدید بارشیں کچے مکانات کو گر ادیتی ہیں لیکن مضبوط قلعے اور پختہ عمارتیں اپنی جگہ پر قائم رہتی ہیں۔

یہی اصول یہاں بھی رائج ہے جتنے زیادہ ہم طاقت ور ہوں گے اتنے ہی زیادہ احسن طریقے سے زندگی کے طوفانوں کا مقابلہ کرسکیں گے اور ان پر غالب آسکیں گے۔ اس کے برعکس جتنے ہم کمزور ہوں گے اتنے ہی طوفانوں کے مقابلے میں شکست کھائیں گے۔ بقول حضرت واصف علی واصف:

’’غم کمزور انسانوں کا راکب (سوار) ہوتا ہے اور طاقتور انسانوں کا مرکب (سواری)‘‘۔

سوال یہ ہے کہ اپنے آپ کو مضبوط بنانے سے مراد کیا ہے؟ اس سلسلہ میں پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم خود کیا ہیں؟ ہم تین چیزوں کا مجموعہ ہیں:

  1. جسم
  2. ذہن
  3. روح

یہ تین اکائیاں ملتی ہیں تو وہ وحدت وجود میں آتی ہے جسے انسان کہا جاتا ہے۔ انسانی شخصیت خالی جسم، ذہن یا روح میں سے کسی ایک کا نام نہیں ہے بلکہ ان تینوں کے مجموعے کا نام ہے۔ سب سے نیچے جسم ہے، اس سے اوپر ذہن اور اس سے اوپر روح کا درجہ ہے۔ یہ تینوں چیزیں ایک ہی شخصیت کا حصہ ہونے کی بناء پر ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑی ہوئی ہیں کہ ایک دوسری کو متاثر کرتی بھی ہیں اور ہوتی بھی ہیں۔ ایک کی کمزوری دوسری دونوں کو بھی کمزور کرتی ہے اور ایک کی طاقت دوسری دونوں کی بھی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ اپنے آپ کو مضبوط بنانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ تینوں حصے مناسب حد تک طاقتور اور صحت مند ہوں اور قوت و طاقت کا ذخیرہ اپنے اندر لئے ہوں۔ ہر ایک کے پاس اتنی توانائی (Energy) ہو جو زندگی کی گاڑی کو آسانی کے ساتھ رواں دواں رکھ سکے اور مسائل کے مقابلے میں جم کر ٹھہر سکے۔ آیئے ان تینوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

  1. سب سے پہلے جسم کا صحت مند ہونا ہے۔ صحت مندی سے مراد یہ نہیں کہ انسان بہت زیادہ موٹا تازہ اور پہلوان ہو بلکہ اس سے مراد جسم کے تمام اعضاء کا مناسب تندرستی کی حالت میں ہونا اور اپنے اپنے فرائض کو بطریق احسن سرانجام دینے کے قابل ہونا ہے۔ اگر جسم ہی بیمار ہے تو پھر ذہن بھی بیمار ہے کیونکہ

A Healthy mind is in a healthy body.

’’ایک صحت مند جسم میں ہی صحت مند دماغ ہوتا ہے۔ــ‘‘

ایسے ہی پژمردہ جسم کے اندر روح بھی مرجھائی رہتی ہے۔ اسی لئے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

المومن القوی خيرو احب الی الله من المومن الضعيف.

’’اللہ کے نزدیک طاقت ور مومن، کمزور مومن کی نسبت زیادہ زیادہ محبوب ہے‘‘۔

(صحيح مسلم، 4: 2052، الرقم: 2664)

جسم کی صحت کے لئے متوازن غذا، مناسب ورزش، معتدل نیند، کام اور آرام میں توازن اور حفظان صحت کے دیگر اصولوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ یہ کوئی ایک دن کا کام نہیں ہے۔ جسم ایک دن میں نہ بن سکتا ہے اور نہ بگڑ سکتا ہے۔ یہ آہستہ آہستہ ہی بنتا اور آہستہ آہستہ ہی بگڑتا ہے۔ جتنا آپ گڑ ڈالتے چلے جائیں گے اتنا میٹھا ہوتا جائے گا۔

  1. جسم کے بعد ذہن ہے جس کے ساتھ عقل کا تعلق ہے۔ مسائل کی گتھیاں براہ راست ذہن نے ہی سلجھانی ہوتی ہیں۔ لہذا ذہن جتنا صحت مند، توانا اور تروتازہ ہوگا، اتنا ہی مسائل آسانی سے حل کرسکے گا اور جتنا کمزور اور لاغر ہوگا اتنا ہی مسائل کے حل میں بے بس اور لاچار ہوگا۔ ذہن اور عقل کو مضبوط بنانے کے لئے متواتر مطالعہ، علم میں پختگی، غورو فکر، ذہین اور عقل مندوں کی صحبت میں بیٹھنا اور بے وقوفوں کی صحبت سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ نیز ذہن کو مضبوط کرنے والی دیگر متفرق تدابیر کو اپنانا اور ذہن کو کمزور کرنے والی چیزوں سے اجتناب ناگزیر ہے۔
  2. ذہن کے بعد روح ہے جو دکھائی تو نہیں دیتی ہے مگر سارے کمالات اسی کے دم قدم سے ہیں۔ جہاں روح ساتھ چھوڑ جاتی ہے وہیں جسم اور ذہن کی ساری صلاحیتیں منجمد ہوجاتی ہیں۔ جسم اگر صحت مند بھی ہو، ذہن بھی اچھی حالت میں ہو لیکن روح کمزور اور لاغر ہو تو انسان کے لئے نازک حالات میں اپنے آپ کو سنبھالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے بڑے بڑے سورماؤں کا جب آخری وقت آیا تو انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور بڑی بے بسی کی حالت میں دنیا سے گئے لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اولیاء کرام اور نیک لوگ جنہوں نے اپنی روح کو طاقتور بنالیا ہوتا ہے وہ موت کو بھی بڑے بہادرانہ انداز سے خوش آمدید کہتے ہیں۔

روح کو طاقتور بنانے والی چیز تعلق باللہ ہے اور اس کی غذا عبادات نماز، روزہ، تلاوت قرآن، ذکرو فکر، صدقہ و خیرات اور نیکی و بھلائی کے دوسرے کام ہیں۔

یوں تو ہر ایک کی مضبوطی اور کمزوری میں کئی چیزوں کا کردار ہے۔ تاہم دو چیزیں ایسی ہیں جو ان تینوں کی کمزوری اور طاقت میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں:

  1. کھانا
  2. جنسی اختلاط

جتنا ہم ضرورت سے زیادہ کھائیں گے اور مضر صحت اشیاء کھائیں گے اتنا ہی یہ تینوں حصے کمزور ہوں گے اور جتنا اعتدال اور توازن سے کھائیں گے اور مفید غذائیں کھائیں گے اتنا ہی یہ مضبوط ہوں گے۔ اسی طرح مردانہ قوت کی صورت میں جو مادہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر رکھ دیا ہے وہ جوہر حیات ہے۔ جتنا زیادہ اسے بے اعتدالی سے خرچ کیا جائے گا اتنا ہی انسان تینوں حوالوں سے کمزور ہوگا اور جتنا اس کی حفاظت کی جائے گی اتنا ہی انسان مضبوط ہوگا۔

مندرجہ بالا دو چیزوں کے ساتھ اگر ایک چیز اور شامل کرلی جائے تو سونے پر سہاگہ ہے اور وہ ہے ’’گفتگو پر کنٹرول‘‘۔ سائنس کی رو سے گفتگو توانائی کی ایک شکل ہے۔ جتنا زیادہ فضول اور بے مقصد گفتگو کریں گے اتنا ہی توانائی خرچ ہوگی اور عمل کی صلاحیت کمزور ہوتی چلی جائے گی۔ جبکہ گفتگو میں احتیاط انسان کی صلاحیتوں کو منضبط رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے جس سے مسائل کو احسن طریقے سے حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔

پرسکون رہیں

زندگی کے طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ساتواں اصول یہ ہے کہ کیسی ہی مصیبت و مشکل کا سامنا ہو اور مایوس کن صورت حال ہو لیکن اپنے ذہنی اور قلبی سکون کو برقرار رکھیں اور بالکل نہ گھبرائیں۔ گھبرانے کا فائدہ تو بالکل کوئی نہیں ہے نقصان البتہ بہت زیادہ ہے۔ بقول حضرت واصف علی واصف:

’’مسائل کو حل کرنے کے لئے جب انسان پریشان ہوتا ہے تو مسائل کوحل کرنے کی طاقت سلب کرلی جاتی ہے‘‘۔

اگر ہم غور کریں کہ آج تک کیا ہم نے پریشانی اور گھبراہٹ کی حالت میں کوئی کام سنوار لیا ہے؟ جب بھی کوئی معاملہ سلجھا ہے تو ایسا صرف پرسکون ذہنی کیفیت ہی سے ممکن ہوا۔ یہی بات یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ پریشان ہونا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ جب ہم مسائل کے پیش آنے پر گھبرا جاتے ہیں تو ان کا سائز بڑا ہونے لگتا ہے، وہ پہاڑ بن جاتے ہیں اور ہم رائی۔ نتیجہ ان کی فتح اور ہماری شکست کی صورت میں نکلتا ہے۔ لیکن جب ہم مسائل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہیں تو پھر وہ چھوٹے ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور ہم بڑے۔ جس کے نتیجے میں ہم ان پر غالب آجاتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے:

وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّوْمِنِيْنَ.

’’اور تم ہمت نہ ہارو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب آؤ گے اگر تم (کامل) ایمان رکھتے ہو‘‘۔

(آل عمران: 139)

جب ہم کسی بھی ناگہانی صورت حال کا شکار ہوتے ہیں تو اچانک پریشانی کی ایک لہر خودبخود اندر سے اٹھتی ہے جو سارے جسم میں سرایت کرجاتی ہے اور ہماری طاقتوں اور صلاحیتوں کو منجمد کردیتی ہے۔ اس لہر کو کنٹرول کرنا ہے تاکہ ہم قائم رہ سکیں۔ تاریخ کے اندر جتنی بھی نامور شخصیات دکھائی دیتی ہیں ان سب میں یہ بات مشترک ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں اپنے اندرونی حوصلے کو برقرار رکھنا جانتے تھے۔

سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو اس کے نتیجے میں آنے والی پریشانی غیر اختیاری ہوتی ہے، اسے کیسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ اگر اس حوالے سے مذکورہ اور آئندہ آنے والی باتوں کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے تو یہ کام نہایت ہی آسان ہے۔ علاوہ ازیں حضرت واصف علی واصفؒ کے مندرجہ ذیل جملے کو چند مرتبہ غورو فکر کرکے ذہن کا جز بنالیا جائے تو بوقت ضرورت اسے صرف یاد کرلینا پریشانی کی غیر اختیاری لہر کو کنٹرول کرنے کا آزمودہ نسخہ ہے:

’’پریشانی حالات سے نہیں، خیالات سے پیدا ہوتی ہے‘‘۔

بدترین کو قبول کرلیں

زندگی کے طوفانوں کا مقابلہ ممکن ہے اگر ہم کسی بھی ناپسندیدہ صورت حال کو قبول کرنے کے لئے ذہنی طور پر آمادہ اور ہر قسم کے نقصان کا سامنا کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرلیں۔ نقصانات دو قسم کے ہوتے ہیں:

  1. ماضی کے حوالے سے
  2. مستقبل کے حوالے سے

کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ماضی میں ہماری کسی کوتاہی یا غلطی کی وجہ سے کوئی بہت بڑا نقصان ہماری زندگی میں داخل ہوچکا ہوتا ہے جسے بھگتنا ناگزیر ہوتا ہے۔ ایسے موقعوں پر انسان ہاتھ ملتا ہے اور رہ رہ کر یہ خیال آتا ہے کہ کاش میں نے ایسے کرلیا ہوتا یا ایسے نہ کیا ہوتا۔ گویا اس کا ذہن اس نئی حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتا اور یہ چیز اس کے لئے پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ اس حوالے سے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اِنْ اَصَابَکَ شَيْئٌ فَلَا تَقُلْ لَوْاَنِّیْ فَعَلْتُ لَکَانَ کَذَا وَکَذَا وَلٰکِنْ قُلْ قَدَّرَاللّٰهُ وَمَا شَآءَاللّٰهَ فَعَلَ فَاِنّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشيطان.

’’اگر تجھے کوئی مصیبت پہنچے (کسی غلطی یا کوتاہی کی وجہ سے) تو یہ نہ کہو کہ اگر میں ایسے کرلیتا تو یوں ہوجاتا۔ اس کی بجائے یہ کہو کہ یہ اللہ کی تقدیر ہے اور جو اس نے چاہا کیا۔ بے شک ’’اگر‘‘ کا لفظ شیطانی عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے‘‘۔

(صحيح مسلم، 4: 2052، الرقم: 2664)

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ایک قول کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ’’مجھے اپنے منہ میں انگارہ رکھ لینا آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ میں ماضی کے کسی واقعہ کی نسبت یوں کہوں کہ کاش میں نے یوں کرلیا ہوتا یا یوں نہ کیا ہوتا۔‘‘

جو کچھ ہوگیا ہے اسے تقدیر کا حصہ سمجھ کر قبول کرلینا چاہئے اور ــ’’گذشتہ کو بھول کر آئندہ احتیاط‘‘ کے اصول کے تحت ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے انہیں بھلاکر حال اور مستقبل کی تعمیر میں لگ جانا چاہئے۔

دوسری طرف بعض اوقات ایسے ہوتا ہے کہ نقصان ہماری کسی غلطی یا کوتاہی کی وجہ سے نہیں بلکہ تقدیر کے فیصلے کی وجہ سے ہوتا ہے اور ہماری زندگی میں ایک خلا پیدا کردیتا ہے جسے پورا کرنا ہمارے لئے ممکن ہی نہیں ہوتا مثلاً کسی حادثہ کا ہوجانا، کسی عزیز کا فوت ہوجانا یا کسی چیز کا چھن جانا وغیرہ۔ ایسی صورت میں ہمارے لئے بہترین راستہ یہی ہوتا ہے کہ ہم اسے ذہنی طور پر قبول کرلیں۔ اس حوالے سے قرآن کا کہنا ہے:

لِّکَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰـکُمْ.

’’تاکہ تم اس چیز پر غم نہ کرو جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہی اور اس چیز پر نہ اِتراؤ جو اس نے تمہیں عطا کی‘‘۔

(الحديد: 23)

اس حوالے سے کسی دانشور کا ایک حکیمانہ قول کچھ یوں ہے: ’’عقلمند وہ ہے جو ان چیزوں کے ساتھ پرامن طور پر رہ سکے جن کو وہ بدل نہیں سکتا‘‘۔

مطلب یہ ہے کہ زندگی کے وہ تلخ حقائق جن سے کوئی مفر اور مقر ہی نہیں ہے انہیں تسلیم کرلینا ہی زندگی کا راستہ ہے۔ ورنہ دوسرا راستہ تباہی و بربادی کا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلام ایسے غیر اختیاری حادثات و سانحات کے سلسلے میں تسلیم و رضا کی روش کو اپنانے کے لئے ایک زبردست محرک بھی دیتا ہے اور وہ ہے اللہ کی رضا اور خیرو برکت کا حصول۔ چنانچہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

اذا ارادالله بعبد خيرا ارضاه بما قسم له وبارک له فيه واذا لم يرد به خيرا لم يرضه بما قسم له ولم يبارک له فيه.

’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو جو اس کے لئے مقدر کیا گیا ہے، اسے اس پر راضی کردیتا ہے اور اس کے لئے اس میں برکت ڈال دیتا ہے اور جب وہ کسی کے لئے بھلائی کا ارادہ نہیں کرتا تو اسے اس کی تقدیر پر راضی نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اس کے لئے اس میں برکت ڈالی جاتی ہے‘‘۔

(الزهد لابن مبارک، 2: 32، الرقم: 127)

استقامت کیونکر ممکن ہے؟

زندگی کی ناخوشگواریوں کے مقابلے میں مضبوط اور ثابت قدم رہنے کے حوالے سے درج ذیل چار نکات کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے:

  1. Admit (تسلیم کرنا): کسی حقیقت یا صورت حال کا اعتراف کرلینا اور مان لینا کہ یہ ایسے ہی ہے۔
  2. Accept (قبول کرنا): ذہن کو اسے قبول کرنے پر آمادہ کرلینا۔
  3. Adopt (اپنانا، اختیار کرنا): اپنے آپ کو اس حقیقت یا صورت حال سے ہم آہنگ کرلینا۔
  4. Act (عمل کرنا): مندرجہ بالا تین چیزوں کو اپنا کر ان سے بے نیاز ہوتے ہوئے اپنے آپ کو دیگر مثبت اور تعمیری سرگرمیوں میں مصروف کرلینا۔

وقت کا مرھم بڑے بڑے زخموں کو بھر دیا کرتا ہے۔ عقلمند وہ ہے جو اس حقیقت کو صدمے کے پہلے دن سے ہی جان لیا کرتا ہے جب کہ نادان کی سمجھ میں یہ بات بہت دیر بعد جاکر آتی ہے۔ کہنے والوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ

’’آدمی کو کسی حادثے میں اس قدر ضرر نہیں پہنچتا جس قدر اس رائے سے جو وہ اس حادثے کے متعلق قائم کرتا ہے اور حادثے کے متعلق اپنی رائے ہم خود ہی قائم کرتے ہیں‘‘۔

ڈاکٹر میرولی الدین نے اپنی خوبصورت کتاب ’’قرآن اور تعمیر سیرت‘‘ میں لکھا ہے:

’’نقصان پر واویلا بند کردیا جائے تو نقصان ختم ہوجاتا ہے‘‘۔

مطلب یہ ہے کہ فطرت کاسارا نظام اصلاح و فلاح کی طرف گامزن ہے۔ جب بھی ہماری زندگی میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے تو فطرت کا نظام اس کے ازالے کے لئے خودبخود مصروف عمل ہوجاتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہم خاموشی اور تسلیم و رضا کے ساتھ اسے برداشت کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔

سطور بالا میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ ماضی کے حوالے سے ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ مستقبل کے حوالے سے ہے۔ کئی مرتبہ ہمارے سامنے کوئی ایسا مسئلہ یا صورت حال آتی ہے جس کا کوئی نقصان مستقبل قریب یا بعید میں سامنے آسکتا ہے۔ ہمارے ذہن میں فوراً انجانے خدشات آنا شروع ہوجاتے ہیں اور ہم خوف زدہ ہوجاتے ہیں کہ پتہ نہیں اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اس کا حل یہ ہے کہ ہم معاملے کی تہہ میں جاکر دیکھیں کہ اس کا آخری نتیجہ یا بدترین رزلٹ کیا ہوسکتا ہے۔ پھر اسے قبول کرنے کے لئے ذہنی طور پر آمادہ ہوجائیں اور پھر اسے بہترین میں تبدیل کرنے کے لیے مصروفِ عمل ہوجائیں۔ یہ وہ نسخہ جسے ہم سب نے زندگی میں کئی مرتبہ استعمال کیا ہے راقم الحروف کو اچھی طرح یاد ہے کہ اسے پڑھنے سے پہلے لاشعوری طور پر مختلف اوقات میںاستعمال کرتا رہا ہوں۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بہت سی اہم حقیقتیں اور ابدی صداقتیں پڑھے بغیر ہی ہمارے ذہن میں موجود ہوتی ہیں لیکن جب ہم انہیں باقاعدہ طور پر جان لیتے ہیں اور شعوری طور پر استعمال کرتے ہیں تو پھر کئی گنا زیادہ نتائج حاصل کرتے ہیں۔ لن یوتانگ کا کہنا ہے:

’’صحیح دماغی سکون بدترین کو قبول کرنے سے ملتا ہے‘‘۔

دوسری طرف قرآن مجید نے بدترین کو قبول کرنے کے حوالے سے اتنی خوبصورت بات کہی ہے کہ اگر اسے ذہن نشین کرلیا جائے تو ہر قسم کی ناخوشگواری اور تلخی کو بڑی آسانی کے ساتھ ذہن کے لئے قابل قبول بنایا جاسکتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:

وَعَسٰی اَنْ تَکْرَهُوْا شَيْئًا وَّهُوَ خَيْرٌ لَّکُمْ ج وَعَسٰی اَنْ تُحِبُّوْا شَيْئًا وَّهُوَ شَرٌّلَّکُمْ ط وَاﷲُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ.

’’اور ممکن ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لیے بہتر ہو، اور (یہ بھی) ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو، اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لیے بری ہو، اور اﷲ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘۔

(البقرة: 216)

ہوتا یہ ہے کہ جب ہم یہ دیکھ لیتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ برا یہ ہوسکتا ہے اور اپنے آپ کو ذہنی طور پر اسے قبول کرنے پر آمادہ کرلیتے ہیں تو ہمارے ذہن سے ڈر اور خوف ختم ہوجاتے ہیں اور ذہن پر پڑنے والا دباؤ ختم ہوجاتا ہے۔ ذہن بڑی حد تک پرسکون ہوجاتا ہے اور اس قابل ہوجاتا ہے کہ مسئلے کا کوئی بہتر حل نکال سکے۔ جبکہ اس سے پہلے ایک انجانا سا ڈر اور خوف ہمارے اوپر مسلط تھا جو ہماری غورو فکر کی ساری صلاحیتوں کو جھکڑے ہوئے تھا۔

ڈیل کارنیگی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب How to stop worrying and start living میں اس فارمولے کو پریشانیوں سے بچاؤ کے طلسمی کلیے کا نام دیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب بھی مستقبل کے حوالے سے کوئی پریشانی یا مسئلہ درپیش آرہا ہو تو درج ذیل حکمت عملی اپنائیں:

  • اپنے آپ سے پوچھیں کہ اس کا بدترین نتیجہ کیا وقوع پذیر ہوسکتا ہے؟
  • اگر کوئی ہے تو اسے قبول کرنے پر تیار ہوجائیں۔
  • پھر سکون اور اطمینان کے ساتھ بدترین کو بہترین میں تبدیل کرنے کے لئے آمادہ عمل ہوجائیں۔

(جاری ہے)

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، جون 2016

(حصہ اول کے مطالعہ کے لیے یہاں کلک کریں)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top