تصوف و معرفت کی روح: اتباعِ سنتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
خصوصی خطاب:شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری
مرتب: محمد یوسف منہاجین معاون: محمد خلیق عامر
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ يُحْبِبْکُمُ اﷲُ.
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا‘‘۔
(آل عمران: 31)
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرنا اللہ تعالیٰ کی محبت کی علامت ہے۔ حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
من علامات المحبة ﷲ، متابعة حبيب اﷲ فی أخلاقه و أفعاله و أمره وسننه.
’’اللہ کی محبت کی علامات میں سے اول علامت یہ ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق، افعال، حکم، نہی اور آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جمیع سنت و سیرت میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل متابعت کی جائے ‘‘۔
(تاريخ مدينة و دمشق، ذکر من اسمه ذوالنون، 17: 427)
یعنی آقا علیہ السلام کی سیرت طیبہ اور احکام کی متابعت کو اپنا لباس بنا لیا جائے تو بندہ محبتِ الہٰی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ مگر افسوس! ہم نے محبت اور شے کو بنا دیا اور آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمکی متابعت کو الگ مضمون بنا دیا۔ ظاہری متابعت کوئی اور لے گئے اور دعویٰ محبت ہمارے پاس رہ گیا۔ نتیجتاً دین ٹکڑے ہو گیا۔ وہ بھی آدھی خیر سے محروم ہو گئے اور ہم بھی آدھی خیر سے محروم ہو گئے۔ لہذا کامل خیر حاصل کرنے سے ہی نجات ممکن ہوگی یعنی اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بھی ہو اور آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل متابعت بھی ہو، اسی صورت ساری خیرات میسر آسکیں گی۔
محبت، اعمالِ صالحہ کا تقاضا کرتی ہے
محبت حقیقت میں اعمالِ صالحہ اور متابعتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تقاضا کرتی ہے۔ اگر ہم اپنے طرزِ عمل پر غور کریں تو ہم کس محبت کا دعویٰ کرتے ہیں؟ ہماری محبت محض ایک دھوکہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے اس مسلک اہل سنت والجماعت میں ایسے لوگوں، پیروں، مشائخ و رہبر کہلانے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے جن کا مطمع نظر فقط اپنی ذات کی پوجا کروانا اور اپنی جیبوں کو بھرنا ہے۔ وہ سچی کھری بات اپنے طالبوں، شاگردوں، مریدوں کو نہیں کہتے بلکہ جو آئے اور ہاتھ میں ہاتھ دے دے، بیعت کر لے، نذرانہ دے دے، زیارت کے لیے آئے سب کا بیڑا پار کرنے کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں۔ میں برملا کہتا ہوں کہ اللہ کی عزت کی قسم، آقا علیہ السلام کی ذات پاک سے لے کر صحابہ کرام تک، صحابہ کرام سے لے کر تابعین تک، جمیع تابعین سے لے کر اتباع التابعین تک، ائمہ اہل بیت سے لے کر ائمہ فقہ و مجتہدین اور جمیع اولیاء و صالحین تک جو ولایت و روحانیت کے چشمے تھے، جن سے نور پھوٹتا تھا۔۔۔ جن سے لوگوں کو ہدایت ملتی تھی۔۔۔ جن لوگوں نے دلوں کے احوال بدل ڈالے تھے۔۔۔ اور جنہوں نے لوگوں کو گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی تک پہنچا دیا تھا، چودہ سو سال میں ان میں سے کسی اللہ والے نے یہ نہیں کہا کہ فقط میرا دامن تھام لینے اور میری بیعت کرلینے سے بیڑا پار ہے۔ یہ بات چیلنج سے کر رہا ہوں۔ یہ وہ فتنہ ہے جو ہمارے عقیدہ اور مسلک اہل سنت میں داخل ہوا ہے۔ اس رویہ نے ہمیں بڑی بڑی برکتوں کے چشموں سے محروم کردیا اور بے عملی کو رواج دیا ہے۔
کوئی شخص اصل اور حقیقی تعلیماتِ اسلام کی تاکید نہیں کرتا۔ پردے پر زور نہیں دیتا، سر پہ دوپٹہ نہ ہو پھر بھی بیڑا پار ہے۔۔۔ پیروں کے پاؤں دبائیں بیڑا پار ہے۔۔۔ نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں بیڑا پار ہے۔۔۔ شریعتِ محمدی کا حیا نہ کریں تب بھی بیڑا پار ہے۔۔۔ کیوں؟ کیا اس لئے کہ آپ نے میرا دامن تھام لیا۔ ہمیں نذرانہ دے دیا، مزار پہ آتے ہیں، گیارہویں شریف کرتے ہیں، میلاد پاک مناتے ہیں، ہمارا نام لیتے ہیں، ہمارے سلسلے میں آ گئے، آپ کو ہماری نسبت ہو گئی۔ یاد رکھیں! کسی ولی اللہ نے نسبت کا یہ معنیٰ بیان نہیں کیا۔
تصوف، سلوک، طریقت، معرفت، اخلاق، ہدایت اور نور اگر لینا ہو تو یہ اقدار آج زندوں میں نہیں رہیں بلکہ ان میں تلاش کرو جو ہم سے رخصت ہوچکے۔ یعنی ان کبار اولیاء کے اعمال سے سیکھو، ان کے احوال سے سیکھو، ان کے شب و روز کو پڑھو کہ ان کی تہجد گزاری کیسی تھی۔۔۔؟ ان کی راتیں کیسے بیتتی تھیں۔۔۔؟ ان کے دن کیسے بیتتے تھے۔۔۔؟ ان کے اندر خوف خدا کیسا تھا۔۔۔؟ تقویٰ کیسا تھا۔۔۔؟ حب الٰہی کیسی تھی؟ ان کی نیتیں کتنی خالص تھیں۔۔۔؟ وہ کتنے متوجہ الی اللہ تھے۔۔۔؟ ما سویٰ اللہ سے ان کے دل کتنے خالص تھے۔۔۔؟ دنیا کے حرص اور لالچ سے ان کے دل کتنے پاک تھے۔۔۔؟ ان کا ظاہر و باطن کتنا روشن تھا۔۔۔؟ ان کا اخلاق حسنہ کیا تھا۔۔۔؟ اعمال صالحہ کیا تھے۔۔؟ احوال عالیہ کیا تھے۔۔۔؟ الغرض تصوف سیکھنا ہے تو گزرے ہوؤں کے احوال سے سیکھیں کہ حقیقت میں تصوف، سلوک، طریقت اور معرفت کیا ہے؟
اسلاف کا تصوف
قرون اولیٰ سے لے کر ہمارے پچھلے دور تک جتنے صالحین ہوئے سب کے نزدیک اصل تصوف اور اس کی تعلیمات کا نچوڑ درج ذیل پانچ نکات پر مشتمل ہے:
اخلاص فی النیۃ
نیتوں کا اللہ کے لیے خالص ہو جانا، تصوف ہے۔ یعنی نیتیں اور قلب ما سویٰ اللہ سے خالص ہو جائے اور اِن میں اللہ کے سوا کسی غیر کی گرد تک نہ رہے۔
علمِ نافع
علمِ نافع سے مراد اتباعِ کتاب و سنت ہے یعنی جو شیخ اپنے مریدوں کو کتاب و سنت کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ مختلف حیلوں بہانوں سے کتاب و سنت کی تعلیم سے گریز کرتا ہے۔ وہ نہ مرشد ہے اور نہ شیخ بلکہ وہ شیطان ہے۔ لہذا ایسے شیاطین سے محفوظ رہیں۔
عملِ صالح
تقویٰ، پرہیزگاری، اوامر و نواہی کی پابندی، فرائض و واجباتِ دین کی پابندی، عبادات اور صالح اعمال کو ہر صورت اپنانا تصوف ہے۔
اخلاقِ حسنہ
ہر ایک سے تواضع سے پیش آنا تصوف ہے۔ آج کل خود کو صوفی اور پیر کہلوانے والوں کی گردنیں اکڑی رہتی ہیں۔ وہ تین انگلیوں سے زیادہ کے ساتھ دوسروں سے مصافحہ نہیں کرتے۔ آنکھوں میں جعلی قسم کی سرخی لا کر جلال دکھاتے ہیں۔ منہ پر مسکراہٹ نہیں آتی۔ تواضع و انکساری ان میں نام کی نہیں ہے۔ کیا یہ تصوف ہے؟ یہ معرفت و طریقت نہیں بلکہ سب اولیاء و صالحین کی خلاف ورزی ہے۔ اخلاق، تواضع، مسکراہٹ، سخاوت، ایثار، قربانی، پیار، رحم دلی، شفقت، اعتدال، خیر خواہی یہ سب حسن خلق ہے اور تصوف کے راستے پر گامزن احباب پر اِن اقدار کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔
سلامتِ صدر
تصوف دل اور سینے کا ہر قسم کے حسد اور بغض سے پاک ہونا ہے۔ جو شخص مریدوں اور طالبوں کو دوسرے مشائخ، صلحاء، علماء کی مجالس میں جانے سے روکے وہ زندیق ہے، وہ شیخ نہیں ہے۔
آقا علیہ السلام نے حضرت عمر رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت علی رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت اویس قرنی سے ملنے کے لئے جانے کے احکامات دیئے۔ تابعین، اتباع التابعین اپنی زندگیاں سفر میں گزارتے، جہاں کسی اللہ والے کی خبر ملتی ان کی مجلس میں جاتے۔ حضور داتا گنج بخش علی ہجویری نے تین سو سے زائد اولیاء اللہ کی زیارتوں اور ان کی مجلسوں و صحبتوں سے فیض یاب ہونے کے لیے زندگی بھر سفر کیا۔ حضرت جنید بغدادی نے سفر کئے۔۔۔ امام اعظم نے کئی مشائخ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کئے۔۔۔ امام شافعی، امام احمد بن حنبل نے اسفار کیے۔۔۔ الغرض کل اولیاء اللہ کا یہ معمول رہا کہ حصولِ فیض کے لئے سفر کرتے رہے۔
اولیاء اللہ ایسا کیوں کرتے؟ اس لیے کہ ان کے سینے کھلے تھے۔ کسی کے لیے حسد، بغض، گرد و غبار دل میں نہ تھا۔ جہاں خیر، علم و حکمت، دین، روحانیت، نصیحت اور رشدوہدایت کی کچھ روشنی ملتی، وہیں جاتے۔ اہل اللہ کا یہ طریق تھا۔ افسوس! ہمارے ہاں آج نہ یہ ماحول ہے اور نہ ہی مشائخ و علماء کسی مرید یا شاگرد کو اجازت دیتے ہیں۔ ہماری طبیعتوں میں اس حد تک بخل، کنجوسی، حسد موجود ہے۔ یہ نہ دین ہے، نہ ایمان ہے، نہ طریقت ہے اور نہ معرفت ہے۔ یاد رکھیں! دل کا سخی ہونا تصوف ہے۔ ہم تصوف کا نام لیتے ہیں مگر ہماری مجلسوں میں چوبیس گھنٹے غیبت ہوتی ہے۔ دوسرے مشائخ و علماء کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ دوسروں پر عیب جوئی ہوتی ہے۔ یہ کہاں کی مجالسِ خیر ہیں؟
ہم نے خالی عشق و محبت کے نام کو نشہ بنا لیا ہے اور دین کے اوپر عمل ترک کر دیا ہے۔ دین میں اس حد تک نرمی اور لچک کر دی کہ شریعت کی اہمیت کم کر دی اور آج علم کا نام لینے اور عمل کی طرف آنے کو کوئی تیار نہیں۔ اہل سنت کی مسجدوں میں نمازی نام کے نہیں ملتے۔ نماز کی پابندی کی توفیق نہیں۔ شریعت کی پابندی کی توفیق نہیں۔ احکام دین کی حفاظت کا اہتمام نہیں۔ تعلیم دینے والے بھی دین و شریعت کی اہمیت کو کماحقہ اجاگر نہیں کرتے۔
لہذا اہل سنت غفلت کی نیند سے بیدار ہوں۔ جہاں عشق رسول، محبتِ رسول اور ادبِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے وہاں اطاعت و اتباعِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی زندگی میں لائیں۔ تحریک منہاج القرآن کے کارکنان، قائدین، متوسلین، متمسکین! میں متابعت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ آپ کے ظاہر و باطن پر چڑھا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ آپ کو دیکھ کر آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور قبر میں ہمیں اُن کی پہچان نصیب ہوسکے۔ یہ اُسی صورت ممکن ہے اگر آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع پر زندگی گزری ہوگی۔ بصورت دیگر اگر آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی غلامی زندگی میں نہیں ہو گی، خالی دعوے اور نعرے ہوں گے تو قبر میں ہمیں پہچان نصیب نہ ہوگی۔
گناہ سے رکنا عظیم عبادت ہے!
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل متابعت کا مطلب ہے کہ مومن اللہ رب العزت کی کامل بندگی کو اختیار کرے اور حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کو اپنے لئے اسوہ سمجھے۔ نیک اعمال اور عبادت کی جانب راغب ہو اور گناہوں سے اجتناب کرے۔ عبادت کے بارے میں ہمارا محدود تصور ہے۔ نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، زکوۃ دینا، حج کرنا، صدقات و خیرات کرنا اور مثبت اوامر کی بجا آوری، ہم صرف عبادت کو اِن تصورات تک محدود رکھتے ہیں جبکہ عبادت کا تصور اس سے کئی بڑھ کر وسیع ہے۔ حضرت انس ابن مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا:
يا رسول اﷲ! ترک الغيبة أحب إليک أم صلاة ألف رکعة؟ قال رسول اﷲ! ترک الغيبة أفضل من صلاة ألف رکعة.
’’یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! غیبت کو ترک کر دینا آپ کو یہ عمل زیادہ محبوب ہے یا ایک ہزار رکعت نفل پڑھنا؟ فرمایا: میرے نزدیک فقط غیبت کو ترک کر دینے کی ایک ہزار رکعت نفل ادا کرنے سے زیادہ فضیلت ہے‘‘۔
اس حدیث کے الفاظ اور ہمارے طرزِ عمل کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے دین کو سمجھا ہی نہیں۔ اپنے تصورات، توہمات اور رسوم کے ساتھ اپنے دین کو من گھڑت دین بنا رکھا ہے۔ دین کی روح کو سمجھیں کہ دین انسان کے باطن کو کتنا پاکیزہ، اجلا، صاف، ستھرا مصفیٰ اور منزہ کرنا چاہتا ہے۔ ہر گرد، غیبت، چغلی، حسد، بغض، عناد، عداوت، حرص اور لالچ سے دل اتنا پاک ہوجائے کہ دل کا آئینہ چمک اٹھے اور اس میں جلوئہ حق دکھائی دے۔ دین تو ہمارے ظاہر و باطن اور قلب و روح کو اتنا اجلا کرنا چاہتا ہے اور ایک ہم ہیں کہ ہمیں فکر ہی نہیں کہ کیا کیے جا رہے ہیں۔
گناہوں سے چھٹکارا کیونکر ممکن ہے؟
ہم میں سے بہت لوگوں کا مسئلہ ہے کہ وہ گناہ چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن چھوڑ نہیں سکتے۔ حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کی کہ میری زندگی سے گناہ نہیں چھوٹتا۔ چاہتا ہوں کہ گناہ چھوڑ دوں۔ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں، ایسی تعلیم دیں جو مجھے نفع دے اور گناہ چھوٹ جائیں۔
ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا حل تجویز فرمایا۔ آپ نے فرمایا کہ میں پانچ طریقے بتاتا ہوں، ان میں سے کسی ایک پر عمل کر لو تو گناہ چھوٹ جائے گا۔فرمایا:
- اگر تو گناہ کا ارادہ کرنا چاہے تو پھر گناہ کر مگر اتنا حیا کر کہ اُس کا رزق کھانا چھوڑ دے کیونکہ تو اللہ کی نافرمانی کر رہا ہے۔ یہ کتنی بڑی بے حیائی ہو گی کہ کھائے بھی اُس کا اور غرائے بھی اسی کو۔ کھائے بھی اسی کا اور سرکشی بھی اسی کے حکم کی کرے۔ لہذا جب گناہ کا خیال دل میں آئے تو سوچ جو تجھے صبح و شام رزق دیتا ہے تو اسی سے بغاوت کرتا ہے۔ پس اس کے رزق کا ہی حیاء کر لے۔
- جب تیرا گناہ کرنے کا ارادہ بنے تو پھر تو گناہ کر مگر اللہ کی زمین میں یا اس کے شہر میں نہ رہے۔ رہے بھی اسی کے شہر میں اور بغاوت بھی اسی کے ساتھ کرے، کوئی بادشاہ یہ گوارہ نہیں کرتا۔ اس کی حدود سے باہر جا کر وہ گناہ کر۔ اُس نے کہا: مشرق سے مغرب تک ساری کائنات اسی کی ملکیت ہے، میں کہاں جا کر رہوں۔ فرمایا: پھر اس کا حیاء کر کہ اس کی سلطنت میں بھی رہتا ہے اور اس سے بغاوت بھی کرتا ہے۔
- اگر تیرا ارادہ گناہ کرنے کا بنے تو کر مگر اس جگہ کر جہاں وہ تجھے دیکھ نہ سکے۔ اُس نے جواب دیا: آسمانوں اور زمینوں کی ساری کائنات میں تحت السریٰ اور زمین و آسماں کے درمیان جو کچھ ہے ہر جگہ اس کے علم اور نظر میں ہے، وہ ہر شے کو دیکھتا ہے، اس سے تو مخفی کوئی جگہ نہیں۔ وہ کون سی جگہ ہے جہاں میں گناہ کروں اور وہ نہ دیکھے۔ فرمایا: پس اتنا حیاء تو کر تو یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے تو گناہ کا ارتکاب کررہا ہے۔
- گناہ کر لیکن جب ملک الموت تیری روح قبض کرنے کے لیے آئے تو پھر اُس کو اتنا کہہ دینا کہ کچھ وقت کی مجھے مہلت دے دے تاکہ میں توبہ کر لوں، گناہ کی بخشش طلب کر کے خدا کے حضور جائوں، کچھ نیک اعمال کر لوں تاکہ اللہ کے حضور جانے کے قابل بنوں۔ اس شخص نے کہا کہ ملک الموت تو میری درخواست قبول نہیں کرے گا۔ جب روح قبض کرنے کا لمحہ آ جاتا ہے تو اس میں لمحہ بھر تاخیر نہیں ہوتی، لہذا مجھے نہ توبہ کرنے کی مہلت ملے گی اور نہ کوئی اعمال صالحہ بجا لاسکوں گا۔ فرمایا: جب تجھے اس بات پر قدرت نہیں کہ توبہ کرنے اور نیک عمل کرنے کی ایک لمحے کی مہلت بھی مل سکے تو پھر اسی مہلت کو غنیمت جان اور گناہ سے باز آجا۔
- قیامت کے دن جب تیرا نامہ اعمال گناہوں سے بھرا ہوا کھلے اور دوزخ کے فرشتوں کو حکم ہو کہ وہ تیری پیشانی کے بالوں سے تجھے پکڑ کر گھسیٹ کر دوزخ میں لے جائیں، اس وقت ان سے کہہ دینا کہ مجھے نہ لے جاؤ شاید میں اللہ سے درخواست کروں اور مجھے نجات مل جائے۔ اس نے کہا: قیامت کے دن تو کوئی مہلت نہیں ملے گی۔ فرمایا: جب یہ ممکن نہیں تو آج جب مہلت ہے تو اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گناہوں کو چھوڑ کیوں نہیں دیتا۔
جب یہ پانچوں نسخے سن لیے تو اس شخص کی چیخ نکلی۔ رو پڑا اور اللہ کے حضور حقیقی معافی کا طلبگار ہوگیا۔
جوانو! ان پاکیزہ جوانیوں کو معصیت کی غلاظت کے ساتھ کیوں آلودہ کرتے ہو۔۔۔؟ ان پیاری پیاری جبینوں کا تو حق تھا کہ انہیں اللہ کے حضور سجدوں سے منور کرو۔۔۔ ہاتھوں کا حق تھا کہ ان سے نیکیاں کماؤ۔۔۔ قدموں کا حق تھا کہ خیر کی طرف ان قدموں کے ذریعے آگے بڑھو۔۔۔ جسم و روح کا حق تھا کہ خدا کی تابعداری اور اخلاص و اعمال صالحہ میں ہی ہمیشہ مصروف رہو۔ افسوس! ہم نے زندگی گناہوں میں برباد کر دی اور ہم پر غفلت کے پردے پڑے رہے۔ قیامت کے دن جب اعمال صالحہ کا پلڑا ہلکا ہوگا اور گناہوں کا پلڑا بھاری ہوگا تو اس وقت کوئی کام نہیں آئے گا۔ لہذا اس دنیا کی مہلت ہی کو غنیمت سمجھیں۔
حصولِ علمِ دین سے بے اعتنائی
عبادت کی ایک صورت علمِ دین کا حصول ہے۔ متابعتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دوری کی ایک صورت علم دین کے حصول میں بے اعتنائی برتنا بھی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رحمۃ اللہ علیہ اور عبداللہ بن عباس رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
أفضل العبادة الفقه.
سب سے افضل عبادت دین کا فہم حاصل کرنا ہے۔
(طبرانی، الأوسط، 9: 107، رقم: 9264)
افسوس! ہمارے اہل سنت میں اس چیز کا بھی صفایا ہو گیا ہے۔ ماں باپ کو بھی اس کی فکر نہیں رہی۔ عمر بھر ہم اپنی اولاد کو کھلائیں پلائیں گے، سب کچھ لٹائیں گے، ان کی دنیاوی کامیابی کے لئے، مال کمانے کے لیے زندگی لگا دیں گے مگر کتنے ماں باپ ایسے ہیں جن میں یہ فکر بھی ہو کہ اولاد کو دنیا کا علم سکھانے کے ساتھ ان کے سینے میں علمِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن و سنت کا علم بھی داخل ہو۔ ماں باپ بچوں کو دین کا علم دینے کے لئے محنت نہیں کرتے۔ فقط قاری صاحب کو بلا کر یا مسجد میں بھیج کر قرآن مجید ناظرہ پڑھا لیتے ہیں اور اس کو قرآن پر اور اللہ پر (نعوذ باللہ) احسان تصور کرتے ہیں۔
یہ ظلم کی انتہا ہے۔ ذرا موازنہ تو کریں کہ دنیا کا علم اور دنیا داری سکھانے پر ہم کتنی محنت اور کتنا خرچ کرتے ہیں اور دین سکھانے اور اولاد کی زندگی میں دین کو داخل کرنے کے لیے کتنی محنت اور کتنا خرچ کرتے ہیں؟ دین مفت بھی ملے تو سیکھنے کو کوئی تیار نہیں۔ جبکہ یونیورسٹی میں ہائر ایجوکیشن پر دس دس ہزار پاؤنڈ دے کر بھی پڑھتے ہیں۔ ادھار اٹھا کر بھی پڑھتے ہیں اور دین پر ایک سو خرچ کرنے کو تیار نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب اچھے کھاتے پیتے لوگ اپنی اولادوں کو دین کے علم کے لیے نہیں بھیجیں گے تو غریب اور پسماندہ لوگ جن کے پاس بچوں کے لئے کپڑے، کھانا، روزگار اور پیسے نہیں وہ غربت زدہ لوگ غربت سے بچنے کے لئے اپنے بچوں کو دین کے علم کے لئے بھیجیں گے۔ نتیجتاً وہ بچے جب علم حاصل کرتے ہیں تو روزگار کے طور پر دین کا علم استعمال کرتے ہیں۔ گویا دین سارا غریبی میں سیکھا اور غریبی میں تنخواہوں کے ساتھ آگے سنایا۔ اب اس تبلیغ میں کس برکت کی توقع کی جاسکتی ہے؟ ایسی تبلیغ کے ساتھ کس کے اندر کتنا انقلاب آ جانے کی امید رکھی جاسکتی ہے؟
الغرض آخرت کے نام پر جب دنیا کمائی جائے گی تو تاثیر نہ رہے گی۔ یہ ہلاکت ہمارے عقیدے میں زیادہ ہے کہ جس کو دیکھو کوئی بھی دین کا علمبردار پیسے لئے بغیر تقریر کرنے کو تیار نہیں، دین کا علم دینے کو تیار نہیں (الا ما شاء اللہ)۔ ان سے دین کی بات سننی سمجھنی ہو تو پہلے ایکٹروں اور ناچ گانے والوں کی طرح ریٹ طے ہوتے ہیں۔ میرے ذاتی مشاہدہ میں اس طرح کے کئی واقعات ہیں۔ دین کے ان علمبرداروں نے باقاعدہ سیکرٹری رکھے ہوئے ہیں جو ایڈوانس روپے لینے کے بعد ’’حضرت صاحب‘‘ کا وقت دیتے ہیں۔ سروں پر عمامے باندھے ہوئے ہیں، گلے میں پٹکے ہیں، عربی جبے پہنتے ہیں، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور دین کا نام لیتے ہیں، علماء کہلاتے ہیں، مگر ٹکے ٹکے کے ساتھ خطبہ جمعہ اور دین کی تقریریں بیچتے ان لوگوں کو شرم نہیں آتی۔ اگر دین کا نام لینے والوں کا عمل یہ ہو گا تو پھر لوگ انہیں بلائیں گے یا گلوکاروں کو بلائیں گے۔ گانے والوں اور ان کے درمیان کیا فرق رہ گیا۔ اس نے گانا سنانے سے پہلے پیسے طے کئے اور تم نے قرآن و سنت سنانا تھا، مگر پہلے ریٹ طے کر رہے ہو۔
افسوس! یہ وبا ہمارے مسلک اہل سنت میں زیادہ پھیلی ہے۔ دوسرے لوگ بھی لیتے ہوں گے لیکن شاید اتنا نیچے نہیں گرے ہوں گے۔ پردہ داری میں لیتے ہوں گے۔ افسوس ہم لوگ تو منگتے بن گئے ہیں۔ ریٹ طے کرتے ہیں۔ جتنا بڑا نعت خواں ہے پہلے ریٹ طے کرتا ہے، پھر نعتیں سنا کر عشق مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کرتا ہے۔ ان لوگوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔ یہ کون سا عشق مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ جس رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت سنانے کے لیے تم ایک رات کے ہزاروں، لاکھوں روپے لیتے ہو۔
مرنے کے بعد ان سطحی اعمال کی حیثیت معلوم ہوگی جب آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ سامنے ہو گا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں گے کہ بدبخت میری نعت سنانے اور میرے دین کو پھیلانے کے لئے لوگوں سے پیسے مانگتا تھا۔ افسوس! ہمارے مسلک میں اس عشق مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلقین ہو رہی ہے۔ حتی کہ قرآن کی قرات کے ریٹ بھی لگتے ہیں۔ کیا آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو یہی تلقین کی تھی۔۔۔؟ کیا صحابہ کرام کا طرزِ عمل یہ تھا۔۔۔؟ تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین کا یہ طریق تھا۔۔۔؟ خدا کے لیے دین کو بیچنا چھوڑ دیں۔ اس وجہ سے ہمارے اندر سے برکتیں اٹھ گئی ہیں۔ ہم نے لباس کے ڈھونگ رچا رکھے ہیں۔ پٹکے دوہرے کر کے گلے میں ڈال لیے ہیں۔ داڑھیاں لمبی رکھ لیتے ہیں۔ ان بڑی سائز کی داڑھیوں سے کیا ملے گا کہ داڑھی کا دکھلاوا بھی پیسے کا ریٹ بنانے کے لیے ہے۔ اس گلے سے کیا لو گے جو فری حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت نہیں پڑھتا۔ اس تقریر سے کیا لو گے جو پیسے لیے بغیر نہیں ہوتی۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
حتی کہ تقریریں کرنے والوں، نعت پڑھنے والوں نے سیکرٹری اور مینیجر رکھے ہوئے ہیں۔ جن کے پردے میں یہ اپنے مالی معاملات طے کرتے ہیں۔ سیکرٹری کے کنفرم کرنے کے بعد ’’صاحب بہادر‘‘ اللہ اور اس کے رسول کے نام کی اشاعت کے لئے چلتے ہیں۔ کیا یہ اولیاء و صوفیاء کی پیروکاری ہے۔۔۔؟ کیا یہ اللہ والوں کا طرز عمل ہے۔۔۔؟ اس چیز نے مسلک کو برباد کر دیا ہے اور نوجوان نسلوں کو بیزار کر دیا ہے۔ وہ عقیدے چھوڑ کر جا رہے ہیں اور ہم کبھی غور نہیں کرتے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ جس کا نام لو وہی دین کا سوداگر ہے۔ ان حالات میں قوم اور نوجوان نسل کو دین کی حقیقی تعلیم کی طرف متوجہ کرنا ہوگا۔
حصولِ علمِ دین کی فضیلت
ہم تسبیحاں پڑھتے ہیں، نوافل پڑھتے ہیں، سب کچھ کرتے ہیں، حلق سے اوپر کرتے چلے جاتے ہیں مگر دین کے علم کے سیکھنے کی اہمیت سے آگاہ نہیں۔ ان حالات میں مبارکباد کے مستحق ہیں وہ علماء اور وہ غریب خطباء، مدرس، ائمہ جو موسم کی شدت سے بے نیاز مساجد میں لوگوں کو عبادات کی طرف مائل کرتے ہیں اور انہیں اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات سناتے ہیں۔ ان کے ان نیک اعمال کی وجہ سے نسلوں تک جیسے بھی ہے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین پہنچ رہا ہے۔ اللہ انہیں دنیا پرستی و مال پرستی سے محفوظ رکھے۔
حصولِ علم دین کی فضیلت درج ذیل احادیث و اقوال سے واضح ہوتی ہے:
- امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
طلب العلم أفضل من صلاة النافلة
’’علم کا حاصل کرنا نفلی نمازوں سے افضل ہے‘‘۔
(شافعی، مسند، 1: 249)
- حضرت قتادۃ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
باب من العلم يحفظه الرجل لصلاح نفسه وصلاح من بعده أفضل من عباده حول.
’’کوئی شخص علم کا ایک باب سیکھے تا کہ وہ شخص اپنے حال کی اصلاح کرے اور اپنے علاوہ بعد کے دوسرے لوگوں کی اصلاح کا سامان کر سکے، اس نیت سے علم کا ایک باب سیکھنا ایک سال کی عبادتِ بے ریا سے افضل ہے‘‘۔
(ابن جعد، مسند، 1: 163)
- حضرت انس ابن مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
خير دينکم السنن و خير العبادة الفقه.
’’دین میں سب سے اعلیٰ چیز آقا علیہ السلام کی سنت ہے اور عبادت میں سب سے اعلیٰ چیز دین کی سمجھ حاصل کرنا ہے‘‘۔
(ديلمی، الفردوس بماثور الخطاب، 2: 175، رقم: 2876)
- حضرت عبداللہ بن عمرو رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
قليل الفقه خير من کثير العبادة.
’’تھوڑا سا علم دین کا حاصل کرنا بہت زیادہ نفلی عبادت کرنے سے افضل ہے‘‘۔
(طبرانی، الأوسط، 8: 302، رقم: 8698)
- سیدنا امام حسن مجتبیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: آقا علیہ السلام نے فرمایا:
من جاءه الموت وهو يطلب العلم ليحيی به الإسلام فبينه و بين النبيين درجة واحدة فی الجنة.
’’کسی شخص نے علم حاصل کیا اور علم کا طالب رہا اسی حال میں اس کو موت آ گئی اوراس کی نیت یہ تھی کہ علم دین سیکھ کر دین کو زندہ کروں گا۔ دین کی اقدار کو زندہ کروں گا۔ اس دین کے طالب علم اور انبیاء کے درمیان جنت میں صرف ایک منزل کا فرق ہو گا‘‘۔
(دارمی، السنن، 1: 112، رقم: 354)
یعنی اللہ تعالیٰ اسے جنتوں میں اتنا اعلیٰ مقام عطا کرے گا کہ ایک منزل چھوڑ کر اوپر انبیاء رہ رہے ہوں گے۔
- آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین کے علم کو پہنچانے والوں کو اپنے خلفاء قرار دیا۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
اللّٰهم ارحم خلفائی قلنا: يا رسول اﷲ! ومن خلفائک قال: الذين يأتونه من بعدی يروون أحاديثی و سنتی و يعلمونها الناس.
’’اے اللہ میرے خلفاء پر رحم کر۔ ہم نے عرض کیا: آپ کے خلفاء کو ن ہیں؟ فرمایا میرے خلفاء وہ ہیں جو میرے زمانے کے بعد آئیں گے اور وہ دین کو سیکھیں گے، میری احادیث اور سنت لوگوں کو بیان کریں گے اور پھر ان کے معنیٰ کی تعلیم دیں گے‘‘۔
(طبرانی، الأوسط، 6: 77، رقم: 5846)
- حضرت امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
لا أعلم من العبادة شيئاً أفضل من أن يعلم الناس العلم
’’میں آج تک کسی ایسی نفلی عبادت کو نہیں جانتا جو علم سیکھنے اور لوگوں کو سکھانے کے عمل سے زیادہ فضیلت اور ثواب رکھتی ہو‘‘۔
(بيهقی، المدخل، 1: 309، رقم: 471)
علمِ دین سے دوری کے اثرات
اس وقت پاکستان کی پوری سوسائٹی دین سے دور، دین کی طلب سے دور، دین کے علم کی تحصیل کی چاہت سے دور، دین کی قدروں سے دور حتیٰ کہ انسانی قدروں سے دور جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ دین کے علم سے دور ہونے کے سبب ہے۔ ہماری زندگی میں درندگی آ گئی ہے۔ آس پاس دہشت گردی کے نتیجے میں درجنوں لوگ قتل ہوجائیں، کسی ایک شخص کی آنکھ اس وقت تک نہیں بھیگتی، جب تک اس کا اپنا کوئی نقصان نہ ہو جائے۔ ہر آئے روز ہمارے سامنے ظلم و ستم کی نئی نئی داستانیں رقم ہورہی ہیں مگر قوم بے حس بنے ان ظلم و ستم کو دیکھ رہی ہے اور برداشت کررہی ہے۔
ہمارے ہاں شرم و حیاء کا فقدان ہے۔ رشوت عام ہے۔ غریب کا پرسان حال کوئی نہیں۔ ہر شخص گالی گلوچ بولتا ہے، غصے میں ہے، دنگہ و فساد ہے، قتل و غارت گری ہے۔ گویا سوسائٹی درندوں کی سوسائٹی بن رہی ہے۔ یہی وہ اعمال ہیں جس کے نتیجے میں اللہ کے عذاب اترا کرتے ہیں۔ سیدنا صدیق اکبر رحمۃ اللہ علیہ نے مسندِخلافت پر بیٹھنے کے بعد خطبہ دیا اور فرمایا کہ میں نے آقا علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ
’’جو قوم اپنی آنکھوں کے سامنے شب و روز ظلم ہوتا دیکھے، اللہ کی نافرمانیوں کو دیکھے، لوگوں کی حق تلفی کو دیکھے اور وہ اس ظلم کو روکنے کے لیے نہ اٹھے تو اللہ تعالیٰ کا عذابِ عام آئے گا اور ہر خشک و تر کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا‘‘۔
(مسند امام احمد بن حنبل)
آج ہماری قوم پر بھی ہر طرف سے عذاب نازل ہورہا ہے۔ سیلاب کی صورت میں آسمان و زمین سے عذاب۔۔۔ قتل و غارت گری اور دہشتگردی کی صورت میں عذاب۔۔۔مال اور عزت و آبرو کا محفوظ نہ ہونا عذاب۔۔۔ بجلی نہیں ملتی، پلٹ کے چراغ کے زمانے میں چلے گئے ہیں یہ بھی عذاب ہی کی ایک صورت ہے۔۔۔ صاف پانی نہیں ملتا، سوئی گیس نہیں ملتی، عدل نہیں ملتا، تعلیم اور صحت کی سہولیات میسر نہیں ہیں، جینے کی سکت نہیں رہی۔۔۔ یہ تمام عذاب ہی کے مظاہر ہیں جن سے ہم دو چار ہیں۔
لمحہ فکریہ
کیا اللہ کے اس عذاب کو ہماری قوم نے دل و جان سے قبول کر لیا ہے؟ اس پر رضا مند ہو گئے ہیں؟ یا کوئی ایسا وقت بھی آئے گا کہ ان مناہی، مظالم، کرپشن، ظلم اور معصیت و ہلاکت پھیلانے والوں کے خلاف یہ عوام اٹھ کر کھڑی ہو جائے گی۔ ہمارا شعور ختم ہو گیا، غیرت ماری گئی۔ جس کے پاس کھانے کو پیسہ ہے وہ اس سے بے پرواہ ہے کہ قوم پر کیا بیت رہی ہے۔ نچلا غریب طبقہ بے حسی کی موت مر گیا ہے، جانوروں کی طرح زندگی گزار رہا ہے، اس کی امید کے چراغ بجھ گئے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ’’کچھ بھی نہیں ہونا‘‘۔ درمیان میں ساٹھ ستر فیصد مڈل، لوئر مڈل اور اپر مڈل کے تین طبقات ہیں۔ افسوس! یہ طبقے بھی اس سرزمین سے ظلم کے خاتمے کے لیے نہیں اُٹھ رہے۔
ہمارے ہاں ظلم کو مختلف نام دے رکھے ہیں۔ ایک بڑے فراڈ کا نام اس پاکستان میں جمہوریت رکھ دیا گیا ہے۔ جمہوریت جن ملکوں میں ہے سو ہے مگر ہماری جمہوریت دھن، دھونس اور دھاندلی ہے۔ ہماری جمہوریت دہشتگردی و غنڈہ گردی ہے۔ ہمارے ہاں بیس بیس کروڑ روپے حرام کے لگا کر ایک حلقے کا الیکشن لڑا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی نیک، عالم، وکیل، صحافی، ڈاکٹر، سائنسدان، سفید پوش، شریف آدمی، معیشت دان، علم الاخلاق کا ماہر، قابلیت کا مالک، ملک اور نوجوان نسلوں کا مقدر بدل دینے کی اہلیت کا حامل اس ملک میں الیکشن لڑنے کی سکت ہی نہیں رکھتا۔
بے حسی کا یہ عالم ہے کہ قوم ہر پانچ سال کے بعد اگلے الیکشن کا انتظار کرتی ہے حالانکہ اس قوم کو علم ہے کہ الیکشن میں پلٹ کر انہی لوگوں نے آنا ہے جنہوں نے ان سے بجلی، پانی، گیس، عزت اور جینے کا حق چھین لیا ہے۔ پچاس سال سے پلٹ پلٹ کر یہی خانوادے آ رہے ہیں۔ اگر قوم اس فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام کو بدلنے کے لئے بیدار نہ ہوئی تو آئندہ بھی پانچ، دس فیصد کے فرق سے یہی لوگ ہم پر مسلط ہوتے رہیں گے۔ اس نظام میں موجود خرابی کی وجہ سے یہ قوم انہی کو ووٹ دے کر لاتی رہے گی جن کو پانچ سال گالیاں دیتی ہے۔
اگر پاکستانیوں کا یہ طرزِ عمل رہا تو اللہ کا عذاب ہم پر قائم رہے گا۔ ان پیشہ ور سیاستدانوں نے قوم کو بھیڑ بکریاں بنا دیا ہے۔ قوم غلاموں کی سی زندگی بسر کررہی ہے۔ جن کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جن کو کھانے کے لیے لقمہ نہ ملے، جن کی آزادی فکر بیچ دی جائے، جنہیں معاش کے فکر میں قومی سوچ سے محروم کر دیا جائے، جنہیں صبح و شام اپنے چولہے کی فکر ہو، ان کی کیا آزادی رائے ہوسکتی ہے؟ پورا ملک ایک جیل بن گیا ہے اور ہم اس میں قیدی بن کر رہ رہے ہیں۔
میں نے قوم کو کئی بار کہا کہ اس ظلم کو پہچانو۔ تمہارا دشمن کوئی پارٹی نہیں ہے۔ نہ پیپلز پارٹی تمہاری دشمن ہے، نہ مسلم لیگ نون تمہاری دشمن ہے۔ نہ قاف لیگ، نہ اے این پی، نہ ایم کیو ایم تمہاری دشمن ہے، جماعتیں تمہاری دشمن نہیں ہیں، بلکہ یہ جماعتیں تو خود اس ظالم نظام کی قیدی ہیں۔
اے قومِ پاکستان! تمہارا دشمن یہ نظامِ انتخاب ہے۔ یہ بدمعاشی، ظلم، کرپشن، دھوکہ دہی، بربادی اور عیاشی کا نظام تمہارا دشمن ہے۔ یہ ایک فیصد عیاشوں، ارب پتیوں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، بدمعاشوں اور دہشتگردوں کی جمہوریت ہے۔
اگر قوم اپنا مقدر بدلنا چاہتی ہے تو اُسے ظلم کے خلاف اٹھنا ہوگا۔ قوم کو دین کی طرف آنا ہوگا۔ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کو سمجھنا ہوگا۔ اگر ظلم کے خلاف نہیں اٹھو گے تو رب کا عذاب پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور پھر
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
لہذا اللہ کے ساتھ وفاداری کا اعلان کرنا ہوگا۔ سچے بن کر زندگی کو حقیقی اسلامی تعلیمات کے مطابق استوار کرنا ہوگا۔ دھوکہ بازی، فریب اور حقوق کی پامالی کو زندگی سے ختم کرنا ہوگا اور غفلت کی نیند سے بیدار ہوکر اس فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام کے خلاف خم ٹھونک کر باہر نکلنا ہوگا۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، جولائی 2016
تبصرہ