فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادری، ایک عہد ساز شخصیت
16 شوال، یوم وصال کی مناسبت سے خصوصی تحریر
قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے والد گرامی فرید ملت حضرت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت ایک ایسا کثیرالجہت نگینہ ہے جس کی ہر جہت اپنی آب و تاب اور چمک دمک کے اعتبار سے جداگانہ شان کی حامل نظر آتی ہے۔ آپ اپنے ہر وصف اور شخصیت کے ہر پہلو کے اعتبار سے نابغہ روزگار تھے۔ آپ جہاں علم و عرفاں کے میدان کے عدیم النظیر شہسوار تھے وہیں بحرِ معرفت کے مشتاق شناور بھی تھے۔۔۔ جہاں ایک طرف توکل علی اللہ اور فقر و استغناء کی تصویر تھے وہاں زہد و ورع اور تقویٰ و طہارت کے پیکر مجسم بھی تھے۔۔۔ جہاں ایک طرف ہمہ وقت عشق رسالتمآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سرشاری و استغراق آپ کا طرہ امتیاز تھا وہیں نسبت غوثیت مآب میں گرفتاری آپ کی پہچان بھی تھی۔۔۔ شعرو سخن کی دنیا ہو یا طب و ڈاکٹری کا میدان۔۔۔ نبض شناسی کا فن ہو یا تعلیم و تدریس کا ہنر۔۔۔ ہر ہر میدان میں آپ اپنی مثال آپ تھے۔
آیئے فرید ِ ملت رحمۃ اللہ علیہ کی حیات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں:
حیاتِ فرید رحمۃ اللہ علیہ
فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ 1918ء میں جھنگ میں پیدا ہوئے۔ اسلامیہ ہائی سکول جھنگ میں ابتدائی تعلیم مڈل تک حاصل کی اور ہر کلاس میں امتیازی حیثیت سے پاس ہوئے۔ درسِ نظامی کے فاضل استاد حضرت مولانا غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ سے تعلیم حاصل کی اور درس نظامی کی ابتدائی کتب صرف، نحو اور منطق کا درس لیا۔ آپ بچپن ہی سے بڑے ذہین فطین اور طباع تھے۔ متحدہ ہندوستان میں ہندو، سکھ اور مسلمان سب ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے اور اکثر مقابلہ رہتا تھا۔ ان تعلیمی مقابلوں میں حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ ہر جماعت میں اول پوزیشن حاصل کرتے رہے اور ہمیشہ وظیفہ حاصل کیا۔
سلف صالحین کے حالات کے مطالعہ سے یہ پہلو عیاں ہوتا ہے کہ اُن میں سے اکثر حضرات لڑکپن ہی سے تلاش حق میں سرگرداں رہے۔ تجسس و طلبِ محبوب میں جہان خلوت میں گھنٹوں بیٹھے رہتے یا پھر نشاناتِ قدرت کے حسن وجمال میں گم رہتے۔ ڈاکٹر فریدالدین القادری رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی طرح بچپن میں گھر سے نکل جاتے اور تین چار میل کے فاصلے پر دریائے چناب کے کنارے گھنٹوں مصروفِ اوراد و وظائف رہتے۔ پانی کی جولانی میں طالبِ صادق نے نہ جانے کیا پایا۔ کشتیوں کی آمدو رفت بذات خود ’’آیات من آیات اللہ‘‘ ہے۔ دریا کے کنارے ان نشانیوں میں تدبر و تفکر بحکمِ خداوندی صاحبانِ اولی الالباب میں شمولیت کا اعزاز بھی ہے۔
تلاشِ علم میں ہجرت
فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ نے مڈل تک کی تعلیم جھنگ میں حاصل کرنے کے بعد سیالکوٹ کی مردم خیز سرزمین کی طرف مزید تعلیم کی غرض سے ہجرت کی۔ وہاں انہیں مفتی اعظم حضرت علامہ محمد یوسف سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ کا دامنِ شفقت میسر آتا ہے۔ دو سال کے مختصر عرصہ میں ان سے درس نظامی کی کتب پڑھیں اور ساتھ ہی ایک اسکول میں باقاعدہ داخل ہوکر میٹرک کرلیا۔
سیالکوٹ میں میٹرک اور درس نظامی کی اعلیٰ کتب کی تعلیم کے بعد لکھنو کے لئے عازم سفر ہوئے۔ لکھنو میں فرنگی محل ایشیا کا معروف ترین مرکز علم و فن تھا۔ وہاں برصغیر کے اکابر علماء و فضلاء اور جلیل القدر فقہاء میں ایک نام سرفہرست نظر آتا ہے جسے تاریخ مولانا عبدالحی فرنگی محلی کے نام سے جانتی ہے۔ فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ کو ذہانت و فطانت کی وجہ سے وہاں داخلہ مل گیا۔ درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جوائنٹ طبیہ کالج میں بھی داخلہ لے لیا۔ اس کالج کے پرنسپل جناب شفاء الملک حکیم عبدالحلیم لکھنوی تھے۔ موصوف حکیم اجمل خان اور حکیم نابینا انصاری جیسے عظیم المرتبت حکماء و اطباء میں شمار ہوتے تھے۔
لکھنو میں جوائنٹ طبیہ کالج کا محل وقوع کچھ ایسا تھا کہ اس کے بالکل سامنے کنگ جارج میڈیکل کالج کی پُرشکوہ عمارت دعوت نظارہ دیتی تھی۔ دونوں اداروں میں باقاعدہ طے شدہ نظم کے تحت کبھی طبیہ کالج کے طلبہ کنگ جارج میڈکل کالج چلے جاتے اور کبھی وہاں کے طلبہ ادھر آجاتے اورکبھی دونوں کسی ایک کالج میں ہم سبق ہوجاتے۔ اس حسین امتزاج کی وجہ سے طلبہ قدیم و جدید طب سے یکساں بہرہ ور ہوتے۔ ایک طرف وہ حکیم حاذق کہلاتے تو دوسری طرف ڈاکٹر اور ’’ایل ایس ایم ایف‘‘ اور ’’ایم بی بی ایس‘‘ وغیرہ کی ڈگریوں کے اعزازات بھی حاصل کرلیتے۔ فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ کو بھی یہ حسین مواقع میسر آئے۔
گوہر علم کا یہ متلاشی طلب علم میں یوں مخلص تھا جیسے طالبِ مال کا دل اور آنکھیں کبھی سیر نہیں ہوتیں اسی طرح ان کی آنکھیں اور جی طلبِ علم میں انہیں کبھی سیر نہیں ہونے دیتا تھا۔ اگرچہ راہِ وفا کے مسافر کے لئے اس راہ میں دھوپ ہی دھوپ ہے اور سایہ کہیں کہیں میسر آتا ہے لیکن تقدیر کے قاضی کا ازل سے یہ فتویٰ ہے کہ دشتِ طلب کے راہی ہی بامراد رہتے ہیں اور انہیں کبھی مایوسی نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ ہر دو کالجوں میں فہرست اول کے طلبہ میں شمار ہوتے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ذہانت و فطانت، فہم و ذکاوت، نکتہ سنجی اور استخراج و استنباط کی صلاحیتوں سے خوب نوازا تھا۔
چار پانچ سال کے مختصر عرصہ میں دائیں بائیں بلکہ ہر طرف سے علم کے موتیوں سے اپنی جھولی بھرتے ہوئے جوائنٹ طبیہ کالج سے طب کی سند حاصل کی۔ کنگ جارج میڈیکل کالج سے سرٹیفیکیٹ حاصل کیا۔ دورہ حدیث کی تکمیل کی۔ درس نظامی مکمل ہوا۔ یعنی پانچ سال کے قلیل عرصہ میں بیک وقت دینی، دنیوی، طبی یونانی اور ایلوپیتھی کے کورس مکمل کئے اور فریدالدین سے ڈاکٹر فریدالدین ہوئے۔ اس طرح آپ علم و عمل کے مقام علیا پر فائز ہوکر افق عالم پر چمکے۔
لکھنو علم و ادب کا گہوارہ، شعراء کا شہر، ادیبوں کا دیس، نزاکت و بانکپن کا شہر، جو شکیل مینائی کا شہر تھا، امیر مینائی کا شہر تھا۔ شعر و ادب کی چاشنی سے اس کے در و دیوار بھی آشنا تھے۔ ایسے ماحول میں ڈاکٹر فریدالدین رحمۃ اللہ علیہ شعر و ادب کی لطافتوں سے کس طرح ناآشنا رہ سکتے تھے۔ چنانچہ آپ نے شکیل مینائی کی شہرہ آفاق شخصیت سے محبت کا خراج وصول کیا، شاعری میں اُن سے تلمذ کیا، اصلاح لی، لکھنو کے مشاعرے لوٹے اور پھر لکھنو کا کوئی مشاعرہ ایسا نہ ہوتا جس میں چوٹی کے شعراء شریک ہوں اور ان میں ڈاکٹر فریدالدین شامل نہ ہوں۔ شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی اور خوب کی اور بڑے بڑے نامور شعراء میں ناموری پائی۔
عملی زندگی کا آغاز
دینی و طبی تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ وطن واپس تشریف لے آئے اور تھوڑے ہی عرصہ بعد اپنے گھر کی بیٹھک میں ایک چھوٹا سا کلینک کھول کر اپنی عملی زندگی کا آغاز کردیا۔ خود رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے اور دیگر بہن بھائیوں کی شادیوں کا اہتمام کیا۔ تحصیل علم اور روح کی بالیدگی کا ذوق بتدریج پروان چڑھتا گیا۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں باقاعدہ ملازمت اختیار کرلی۔ اس دوران ضلع جھنگ کے مختلف علاقوں میں تعینات رہے۔ ہر مقام پر لوگوں کے علاج معالجہ کے ساتھ ساتھ تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ جہاں بھی آپ کی ٹرانسفر ہوتی وہیں مسندِ رشید و علم بچھا لیتے۔ سرکاری اوقات کار سے فراغت کے بعد عصر سے مغرب تک کا وقت دینی علوم کی تعلیم و تدریس کے لئے وقف کردیا۔ تحصیل علم اور تفویضِ علم کا سلسلہ زندگی بھر جاری رکھا۔
بیعت کے لئے تلاش و تجسس
زمانہ طالب علمی میں لکھنو قیام کے دوران غالبا 1934ء میں ڈاکٹر فریدالدین رحمۃ اللہ علیہ قدوۃ الاولیاء حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں گولڑہ شریف حاضری دی۔ یہ حضرت گولڑہ رحمۃ اللہ علیہ کی عمر مبارک کا آخری زمانہ تھا۔ سردی کا موسم تھا، حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ دربار کی چھت پر تشریف فرما تھے۔ آپ کے خاص مقربین و محبین میں سے دس پندرہ افراد آپ کی خدمت میں حاضر تھے کہ ڈاکٹر فریدالدین رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت کو بیعت کے لئے عرض کیا۔ آپ نے فرمایا تیڈی بیعت تھئی ہوئی اے۔ (تمہاری بیعت ہوچکی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر فریدالدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں سمجھا شاید میری درخواست پر مطلع نہیں ہوسکے۔ لہذا دوبارہ عرض کی لیکن آپ نے پھر وہی جواب دیا۔ تیسری مرتبہ عرض کرنے پر آپ نے قدرے بلند آواز میں وہی فقرا دہرایا جس پر میں سمجھ گیا کہ میرے فیض کا حصہ کہیں اور مقدر ہوچکا ہوا ہے اور حضرت گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے کشف اور باطنی مشاہدے کی بناء پر مجھے اس سے آگاہ فرمارہے ہیں۔
گویا ڈاکٹر فریدالدین رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ طالب علمی اور دور شباب میں ہی ان کی روحانی نسبت اور حصہ فیض جس بارگاہ سے مقدر ہوچکا تھا، حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے باطنی مشاہدے کی بناء پر اس سے مطلع اور آگاہ تھے۔
خانوادہ غوث الثقلین رضی اللہ عنہ میں بیعت
ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ اپنے مطلوب و مقصود کی تلاش میں مسلسل کوشاں و سرگرداں رہے۔ روح کی بے چینی اور خود کو کسی اللہ والے کے ہاتھ میں دینے کا اضطراب بڑھا تو 1948ء میں باقاعدہ استخارہ بیعت کیا۔ خواب میں آپ کو بغداد شریف میں غوث الثقلین حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی بارگاہ کی طرف متوجہ کیا گیا اور خانوادہ غوث الاعظم کے ایک عظیم چشم و چراغ اور فیضان غوثیت مآب کے امین و قسیم قطب دوراں حضرت سیدنا الشیخ ابراہیم سیف الدین رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کرائی گئی۔
(آپ حضرت سیدنا الشیخ سلیمان النقیب کے فرزند ارجمند حضرت سیدنا مصطفی گیلانی رضی اللہ عنہ کے نور چشم تھے۔ حضرت سیدنا الشیخ سلیمان النقیب قائد تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے شیخ طریقت قدوۃ الاولیاء شیخ المشائخ حضرت سیدنا طاہر علائوالدین الگیلانی البغدادی رضی اللہ عنہ کے دادا جان حضرت سیدنا شیخ عبدالرحمن ظہیرالدین المحض رضی اللہ عنہ کے بھائی اور حضرت سیدنا الشیخ علی النقیب رضی اللہ عنہ کے فرزند ارجمند تھے۔)
ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
’’میں حضرت سیدنا الشیخ ابراہیم سیف الدین رضی اللہ عنہ کی شخصیت اور آپ کے اسم گرامی تک سے واقف نہ تھا لیکن میرا حصہ فیض عنداللہ انہی کے ساتھ خاص ہوچکا تھا۔ میں نے استخارے کے نتیجے میں زندگی میں بغداد شریف کا یہ پہلا سفر کیا اور لامحالہ طور پر یہ سمجھ رہا تھا کہ یہی عظیم المرتبت جن کی مجھے زیارت کرائی گئی ہے یقینا سجادہ نشین یا نقیب الاشراف ہوں گے لیکن جب دربار غوثیت مآب پر حاضر ہوکر نقیب الاشراف کے بارے میں استفسار کیا تو پتہ چلا کہ قدوۃ الاولیاء حضرت السید الشیخ احمد عاصم (جو شیخ المشائخ حضرت سیدنا طاہر علائوالدین القادری البغدادی رضی اللہ عنہ کے حقیقی چچا تھے) نقیب الاشراف ہیں۔ میں سن کر پریشان ہوا کہ مجھے جس ہستی کی زیارت کرائی گئی ہے وہ تو سیدنا الشیخ ابراہیم سیف الدین رضی اللہ عنہ ہیں۔ میں نے حضرت سیدنا الشیخ ابراہیم سیف الدین رضی اللہ عنہ کے بارے میں استفسار کیا تو پتا چلا کہ وہ رشتے میں نقیب الاشراف حضرت سیدنا الشیخ احمد عاصم کے بھتیجے ہیں اور بڑے صاحبِ روحانیت، صاحبِ تصرف اور صاحبِ جلالت بزرگ ہیں (انہیں شیخ المشائخ حضرت سیدنا طاہر علائوالدین القادری الگیلانی رضی اللہ عنہ کے والد گرامی حضرت الشیخ محمود حسام الدین رضی اللہ عنہ کے زیر پرورش رہنے اور اکتساب فیض کا خصوصی شرف حاصل رہا ہے)۔ میں نے آپ کی رہائش کے بارے میں پوچھا تو پتہ چلا کہ فلاں اوقات میں دربار غوثیت مآب میں اپنے حجرے میں آکر بیٹھتے ہیں۔ آپ مغرب کے وقت اپنے حجرے میں تشریف لائے۔ میں نے دست بوسی و قدم بوسی کے بعد مدّعا عرض کیا۔ حضرت نے کمال شفقت فرماتے ہوئے شرفِ بیعت عطا کیا‘‘۔
اس موقع پر کئی دن ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ اپنے شیخ طریقت کی خدمت میں زیر تربیت رہے اور صحبتِ خاص میں رہ کر اکتساب فیض کیا۔
فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ معمول تھا کہ جب بھی کوئی ظاہری الجھن، باطنی مسئلہ یا کوئی اشکال درپیش ہوتا تو اسے اس کی نوعیت کے پیش نظر آقائے دو جہاں سرور کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں یا حضرت سیدنا غوث الاعظم عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے حضور پیش کرتے۔ اگر معاملہ آقائے دو جہاں صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرنا ہوتا تو نماز تہجد کے بعد مدینہ طیبہ کی جانب متوجہ ہوکر قصیدہ بردہ شریف کے اشعار رو رو کر پڑھتے اور اگر معاملہ حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کرنا ہوتا تو بغداد کی جانب متوجہ ہوکر گیارہ مرتبہ قصیدہ غوثیہ کا ورد کرتے اور بعد ازاں اپنا مسئلہ یا الجھن پیش کرتے۔ ڈاکٹر صاحب پر سرکارِ دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے لطف و کرم اور نوازشات کریمانہ کا یہ عالم تھا کہ انہیں بلا تاخیر پہلی ہی رات ان عظیم بارگاہوں سے راہنمائی عطا ہوجاتی۔
قائد انقلاب کی ولادت کیلئے دعا
1948ء میں جب آپ کو پہلی دفعہ حرم کعبہ میں حاضری کا شرف حاصل ہوا تو وہاں رات کے پچھلے پہر طواف کعبہ کے بعد مقام ملتزم پر غلاف کعبہ کو تھامتے ہوئے آنسوئوں کی برسات میں دل کی تمنا زبان سے دعا بن کر نکلنے لگی۔ ’’باری تعالیٰ ایسا بچہ عطا کر جو تیری اور تیرے دین کی معرفت کا حامل ہو، جو دنیا اور آخرت میں تیری بے پناہ عطا و رضا کا حقدار ٹھہرے اور فیضان رسالتمآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہرہ ور ہوکر دنیائے اسلام میں ایسے علمی و فکری اور اخلاقی و روحانی انقلاب کا داعی ہو جس سے ایک عالم متمتع ہوسکے‘‘۔
فرید ملت نے 1948ء میں طواف کعبہ کے مقام ملتزم پر کھڑے ہوکر غلاف کعبہ کو تھامے ہوئے جو دعا کی تھی، بارگاہ الہٰی میں مستجاب ہوئی اور آپ کے ہاں 19 فروری 1951ء بروز سوموار بیٹا پیدا ہوا جو آج نابغہ عصر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر پسی ہوئی ملت اسلامیہ کے درد کی آواز بن کر باطل استحصالی قوتوں کی سرکوبی کے لئے اپنی شبانہ روز جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔
حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ جس خزینہ معرفت سے اللہ تعالیٰ کے خصوصی لطف و کرم کے ذریعے فیضیاب ہوکر روحانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوچکے تھے، آپ رحمۃ اللہ علیہ کی دلی خواہش تھی کہ یہ دولتِ عظمیٰ ان کے فرزند دلبند کو بھی نصیب ہو۔ اس لئے انہوں نے قائد انقلاب کو بچپن ہی سے باقاعدہ اور مسلسل تربیتی مراحل سے اپنی نگرانی میں گزارا۔ اپنی صحبت و تربیت کے زیر اثر اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت دین اسلام کی چاہت و رغبت روحانی اعمال و احوال کے ساتھ قلبی لگائو یہ تمام چیزیں بچپن ہی سے ان کے اندر راسخ کردی تھیں۔
فرید ملت حضرت ڈاکٹر فریدالدین رحمۃ اللہ علیہکی مجاہدوں، ریاضتوں، زیارتوں اور روحانی و دینی علوم کے حصول کے لئے بھرپور اور ہمہ وقت متحرک چھپن سالہ حیات کا بنظرِ عمیق جائزہ لیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے سامنے مسلمانان عالم کی اللہ کے دین سے بے توجہی کا راز منکشف ہوچکا تھا۔ وہ نبض شناس ملت کی حیثیت سے ملت اسلامیہ کے اصل روگ اور مرض کی تشخیص کرچکے تھے اور اس کے مکمل علاج کے لئے ہی بارگاہ ایزدی سے ایسے مسیحا کے حصول کی دعا کی تھی جو باہمی تعصبات و اختلافات کے روگ میں گرفتار ملت کو اس کی عظمت رفتہ کی طرف لوٹانے کی جدوجہد کی شاہراہ پر گامزن کردے۔ یہی سبب ہے کہ اپنے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی التجائوں اور خشوع و خضوع سے مانگی گئی دعائوں کے ثمر ’’محمد طاہر‘‘ کی آبیاری کرنے اور پروان چڑھانے کااہتمام بطریق احسن کرنے میں لگے رہے۔ کیونکہ یہی وہ گوہر مقصود تھا جس کو پانے کے لئے انہوں نے مقام ملتزم پر کھڑے ہوکر غلاف کعبہ کو تھام کر اپنے مولا کے حضور رو رو کر دست سوال دراز کیا تھا۔ یوں لگتا ہے کہ وہ اس بچے کی ہمہ جہت تربیت کرنے کی خواہش سے لبریز ہوچکے تھے۔ آپ کی روحانی بصیرت پوری طرح بھانپ چکی تھی کہ ملت کی طوفانوں میں گھری ہوئی کشتی کو ساحل مراد ان کے اسی فرزند ارجمند کے ہاتھوں نصیب ہوگا۔ اپنی امیدوں کے اس مرکز کو روحانی، علمی، اخلاقی اور دینی سرمایہ منتقل کرنے کے لئے پہلے خود کو مختلف روحانی و دینی بارگاہوں سے بدرجہ اتم مستفیض کیا۔ ان فیض کے چشموں اور اولوالعزم برگزیدہ ہستیوں کی بارگاہوں میں پلٹ پلٹ کر حاضریاں دیں اور اپنے اللہ کے حضور بے پایاں فیوض و برکات کے لئے رو رو کر دعائیں مانگیں۔ آپ بڑے بھرپور طریقہ اور خصوصی توجہ کے ساتھ اپنے اس بیٹے ’’محمد طاہر‘‘ کو روحانی و دینی سرمایہ منتقل کرنے میں ہمہ تن مصروف عمل رہے۔
شعورِ مقصدیت ایک عظیم نعمت ہے اور بامقصد زندگی گزارنے والا نہ صرف اپنی زندگی میں ایک تحریک ہوتا ہے بلکہ موت سے ہم آغوش ہوکر بھی لاکھوں زندگیوں کو مقصدیت کی نعمت عطاء کرجاتا ہے۔ حضرت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کا شمار یقینا انہی ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے زندگی کو زندوں کی طرح گزارا اور جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اس امت کو ایک ایسا گوہر نایاب دے گئے جو ایک جہان کو زندہ کررہا ہے۔ حضرت فرید ملت رضی اللہ عنہ نے اپنی پوری زندگی کا ماحصل ایک شخصیت کی صورت میں ہمیں دیا اور اس فرزند ارجمند کی تربیت کچھ اس انداز سے فرمائی کہ اب وہ ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک تحریک ہے جو منتشر ملت کو یکجا کررہی ہے۔۔۔ ایک جذبہ ہے جو ہر دل میں ولولہ پیدا کررہا ہے۔۔۔ ایک نور ہے جو ہر سو اجالا بکھیر رہا ہے۔۔۔ اور ایک انقلاب ہے جس سے باطل اور طاغوتی قوتوں کے ایوان تھر تھرا رہے ہیں۔
فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کو خراج تحسین پیش کرنے کا اس سے بہتر اور موثر دوسرا کوئی طریقہ نہیں کہ خون دل دے کر اس پودے کو سینچیں جس کی آبیاری خود انہوں نے خونِ جگر سے کی ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، جولائی 2016
تبصرہ