زندگی کے طوفانوں کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ (آخری حصہ)

شفاقت علی شیخ

9۔ اللہ کو ساتھ لے لیں!

زندگی کے طوفانوں کا مقابلہ کرنے کا نواں اصول یہ ہے کہ ان سے اکیلے لڑنے کے بجائے خدا کو ساتھ لے لیا جائے۔ آپ اکیلے کب تک حوادثاتِ زمانہ کا مقابلہ کرتے رہیں گے؟ تھک جائیں گے، ہار جائیں گے۔ آسان ترین حل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت ہمارے شاملِ حال ہوجائے۔ اُس ایک دروازے سے منہ موڑ کر ہمیں کتنے دروازوں کی خاک چھاننی پڑ رہی ہے۔ بقول علامہ اقبال

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

اور بقول ابو انیس صوفی محمد برکت علی

’’مجھ سے کہا ہوتا، میں کیا نہیں کرسکتا تھا، رحمت کے دریا نہ بہادیتا تو کہتا‘‘۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دنیا دارالاسباب ہے۔ یہاں ہر کام اسباب کے پردے میں ہورہا ہے لیکن اس سے بھی تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان اسباب کا کوئی خالق بھی ہے جس کے ہاتھ میں اسباب کے سرے ہیں اور وہی اسباب کی ڈوریوں کو ہلا رہا ہے۔ جب تک وہ نہ چاہے کوئی بھی نتیجہ کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے؟ قرآن مجید میں جابجا اسی حقیقت کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَاِنْ يَّمْسَسْکَ اﷲُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَـهُ اِلاَّ هُوَ ج وَاِنْ يُّرِدْکَ بِخَيْرٍ فَـلَا رَآدَّ لِفَضْلِهِ ط يُصِيْبُ بِهِ مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهِ ط وَهُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ.

’’اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے تو کوئی اس کے فضل کو رد کرنے والا نہیں۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنا فضل پہنچاتا ہے، اور وہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے‘‘۔

(يونس، 10: 107)

علاوہ ازیں قرآن مجید کے درج ذیل مقامات پر بھی اسی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے:

(فاطر، 35: 2)، (الزمر، 39: 38)، (هود، 11: 56)

اللہ رب العزت کے بارے اس حقیقت کا اظہار حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی درج ذیل ارشاداتِ عالیہ کے ذریعے فرمایا:

  • اللهم لا مانع لما اعطيت ولا معطی لما منعت ولا ينفع ذاالجد منک الجد.

’’اے اللہ! جو کچھ تو کسی کو دینا چاہے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جو کچھ تو کسی کو نہ دینا چاہے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور تیرے مقابلے میں کسی کی کوشش کوئی نفع نہیں پہنچاسکتی‘‘۔

(المعجم الاوسط، 4: 102، الرقم: 3709)

  • اللهم لا ياتی بالحسنات الا انت ولا يذهب بالسيات الا انت ولاحول ولا قوة الا انت

’’اے اللہ! تیرے سوا کوئی بھلائی دینے والا نہیں ہے اور تیرے سوا کوئی برائی کو دور کرنے والا نہیں ہے اور تیرے سوا کسی کے پاس کوئی طاقت اور قوت نہیں ہے‘‘۔

(تفسير القرطبی، سورة الاعراف، 7: 266)

  • لا ملجاء ولا منجاء منک الا اليک

’’اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی جائے پناہ ہے اور نہ کوئی جائے نجات مگر اللہ ہی کے پاس‘‘۔

(مسند احمد بن حنبل، 4: 296، الرقم: 18640)

  • ان قلوب بنی آدم بين اصبعين من اصابع الرحمن کقلب واحد يصرفه کيف يشآء

’’بے شک اولاد آدم کے قلوب، قلبِ واحد کی مانند رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ جدھر چاہتا ہے اسے پھیر دیتا ہے۔‘‘

(تفسير ابن کثير، سورة الانفال، 4: 299)

کیا مندرجہ بالا حقائق کو جان لینے کے بعد اس بات کا رتی بھر امکان بھی رہ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کو شامل کیے بغیر بھی کوئی مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے؟

اللہ کی مدد کا حصول کیونکر ممکن ہے؟

اب سوال یہ ہے کہ اللہ کی مدد حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ قرآن مجید نے اس کا مندرجہ ذیل ضابطہ بیان فرمایا ہے:

يٰاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ ط اِنَّ اﷲَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ.

’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقینا اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے‘‘۔

(البقرة، 2: 153)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کی دو شرائط بیان کی گئیں ہیں:

  1. صبر
  2. صلوٰۃ

صبر:

جہاں تک صبر کا تعلق ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی خصوصی معیت کا وعدہ فرمایا ہے۔ اب جس کو اللہ کا ساتھ میسر آجائے وہ کسی بھی مقابلے میں کیسے ہار سکتا ہے؟ لومڑی دنیا کا بزدل ترین جانور ہے لیکن اس کی پشت پر شیر کھڑا ہوجائے تو چیتے کی آنکھیں نکال سکتی ہے۔ اسی طرح جس بندہ مومن کی پشت پر ساری کائنات کا خالق اور مالک کھڑا ہوجائے وہ بپھرے ہوئے طوفانوں کا رخ موڑ سکتا ہے، پہاڑوںکا جگر کاٹ سکتا ہے، سمندروں کا سینہ چیر سکتا ہے، ستاروں پر کمندیں ڈال سکتا ہے اور ساری کائنات کو اپنے سامنے سرنگوں کرسکتا ہے۔

صبر کا مطلب ہے کہ تکلیف اور مشکل کے وقت دل میں جو تنگی اور گھٹن کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اس پر ضبط پانا۔ اچھے دنوں کے انتظا رمیں مشکل گھڑیوں کو حوصلے سے گزار لینا۔ ہر حال میں امید کے دامن کو تھامتے ہوئے اپنے اندرونی سکون کو برقرار رکھنا۔

اس پر کیسے عمل کیا جاسکتا ہے؟ اگر آپ مصیبت کی طرف دیکھنے لگ گئے تو دل و دماغ میں بے چینی اور اضطراب پیدا ہونا شروع ہوجائے گا اور ہمت جواب دے دے گی لیکن مصیبت کی طرف دیکھنے کے بجائے مصیبت کے خالق کی طرف دیکھنا شروع کردیا جائے تو سکون ملنا شروع ہوجاتا ہے اور مصیبت پر صبر کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

آرتھر آشی نے اپنی موت سے چند لمحے قبل دنیا والوں کو اپنا پیغام ان الفاظ میں دیا تھا:

’’دنیا والو! تم اپنے اللہ کو کبھی نہ بتانا کہ تمہاری مصیبت کتنی بڑی ہے۔ اس کے بجائے تم اپنی مصیبت کو بتانا کہ تمہارا اللہ کتنا بڑا ہے، تم دکھ اور تکلیف سے نجات پاجاؤ گے‘‘۔

صبر کا ایک لازمی تقاضا یہ ہے کہ زبان کو شکوہ سے محفوط رکھا جائے۔ بقول حضرت واصف علی واصف

’’صبر کا مطلب ہے تکلیف ہو مگر زبان پر نہ آئے۔ تجربہ شاہد ہے کہ جن لوگوں نے اپنی تکلیفوں کا بیان لوگوں کے سامنے کیا انہوں نے اپنی تکلیفوں میں اضافہ کیا‘‘۔

مصیبت سے بڑی مصبیت، مصیبت کا گلہ کرنا ہے اور اسے جگہ جگہ پر بیان کرتے پھرنا ہے۔ ہاں جہاں سے مداوا کی امید ہو وہاں بیان کیا جاسکتا ہے جیسے مریض کا ڈاکٹر کے سامنے اپنی تکلیف بیان کرنا یا مدعی کا جج کے سامنے کسی ظالم کے ظلم کا حال بیان کرنا وغیرہ۔

صلوٰۃ:

نصرت خداوندی کو حاصل کرنے کی دوسری شرط صلوٰۃ ہے۔ جس کا معروف معنی نماز ہے اور دوسرا معنی دعا بھی ہے۔ جہاں تک نماز کا تعلق ہے تو یہ بندے اور خدا کے درمیان ملاقات کا بہترین اور آسان ترین ذریعہ ہے۔ ادھر آپ نماز کی نیت سے مصلے پر آتے ہیں تو ہاتھ باندھتے ہی خدا کی بارگاہ میں پہنچ جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں اس معاملے میں عموماً الٹی گنا بہتی ہے۔ کسی مصیبت زدہ سے پوچھا جائے کہ نماز پڑھتے ہو؟ تو وہ بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس مسئلے کی وجہ سے ذہن ہی اتنا پریشان ہے کہ طبیعت نماز کی طرف راغب ہونے پر آمادہ ہی نہیں ہوتی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ مصیبت کو ختم کرنے کے لئے جس دروازے کو کھٹکھٹانا چاہئے تھا انسان اسی سے دور بھاگ کر اس مصیبت کی شدت اور طوالت دونوں میں اضافہ کررہا ہوتا ہے۔

جہاں تک دعا کا تعلق ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار ہے اور اس کی طاقت و قدرت کا اقرار ہے۔ نماز کی حالت میں صحیح معنوں میں بندہ مقام عبدیت پر ہوتا ہے اس لئے بندہ اس حالت میں اللہ کو بہت پیارا لگتا ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ليس شیء اکرم علی الله من الدعاء

’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے زیادہ کوئی چیز بزرگی والی نہیں۔‘‘

(سنن الترمذی، 9: 309)

دوسرے مقام پر اسے عبادت کا مغز قرار دیا:

الدعاء مخ العبادة

’’دعا عبادت کا مغز ہے‘‘

(سنن الترمذی، 5: 456، الرقم: 3371)

لطف کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دعا کا حکم دیتے ہوئے ساتھ ہی اس کی قبولیت کا وعدہ بھی فرمالیا:

ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ.

’’تم لوگ مجھ سے دعا کیا کرو میں ضرور قبول کروں گا‘‘۔

(غافر: 60)

دوسرے مقام پر فرمایا:

اُجِيْبُ دَعْوَمَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ .

’’میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے‘‘۔

(البقرم، 2: 186)

پھر حدیث مبارکہ کی رو سے قبولیت کی مندرجہ ذیل تین میں سے کوئی شکل ہوسکتی ہے:

  • جو کچھ مانگا گیا ہے عین وہی کچھ مل جائے۔
  • اس کے بجائے کوئی اور بہتر چیز مل جائے۔
  • قیامت والے دن کے لئے اس دعا کو ذخیرہ کرلیا جائے اور وہاں اس کا اجر ملے۔

دعا فوری قبول ہو یا نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ جو دعا قبول نہ ہو، وہ اس سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے جو قبول ہوجائے۔ یہاں پر ’’ہاتھی زندہ لاکھ کا اور مردہ سوا لاکھ کا‘‘ والا فلسفہ چلتا ہے۔ اس لئے کہ دنیا میں قبول نہ ہونے والی دعاؤں پر جب قیامت والے دن اجرو ثواب ملے گا تو انسان خود کہے گا کہ کاش دنیا میں میری کوئی بھی دعا قبول نہ ہوئی ہوتی۔

لہذا آپ یہ نہ دیکھیں کہ دعا قبول ہورہی ہے یا نہیں بلکہ صرف یہ دیکھیں کہ دعا کی توفیق ملی ہوئی ہے یا نہیں۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مصائب اور مشکلات کے مقابلے میں دعا کو ایک بہترین نسخہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:

الدعاء سلاح المومن.

’’دعا مومن کا ہتھیار ہے‘‘۔

(الترغيب والترهيب، 2: 315، الرقم: 2525)

ہمارے ہاں عموماً کہا جاتا ہے کہ دکھ کو کسی سے بیان کردیا جائے تو انسان ہلکا ہوجاتا ہے چاہے اگلا اسے دور کرنے پر قادر ہو یا نہ ہو۔ بصورت دیگر بعض اوقات انسان کسی بہت بڑے نفسیاتی صدمے کا شکار ہوسکتا ہے۔ ذرا اس فلسفے کی روشنی میں دعا کی اہمیت پر غور کریں کہ جب دکھ کو کسی ایسی ہستی کے سامنے بیان کردیا جائے اور اس سے حل کی استدعا کی جائے جو مکمل طور پر اسے حل کرنے کی قدرت رکھتی ہو تو انسان کو کتنی نفسیاتی تسکین مل جاتی ہوگی۔ لہذا دعا کا دہرا فائدہ ہے۔ ایک طرف تو کائنات کا خالق و مالک ہماری مدد کے لئے آجاتا ہے اور دوسری طرف ہمارے اندر سکون کا احساس پیدا ہوجاتا ہے۔ بشرطیکہ دعا زندہ شعور کے ساتھ مانگی جائے۔

10۔ آگے بڑھیں اور مسائل حل کریں

زندگی کے طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے دسواں اصول یہ ہے کہ مسائل کے حل کے لئے آگے بڑھنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کو ساتھ لے لینے کے بعد آپ نے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ نہیں جانا ہے بلکہ اپنے حصے کا کام سرانجام دینا ہے۔ جس طرح صرف اپنی قوت بازو پر بھروسہ کرنا غلط ہے اسی طرح اللہ پر بھروسہ کرکے اپنے حصے کا کام نہ کرنا بھی غلط ہے بلکہ یہ معاملہ ففٹی ففٹی کا ہے۔ اسباب کی کڑیوں کو آپ نے ملانا ہے اور کسی مسئلے کے حل کے جو ضروری لوازمات ہیں انہیں آپ نے فراہم کرنا ہے پھر اُن کوششوں میں اثر ڈالنا اور ان کے مطلوبہ نتائج فراہم کرنا یہ اللہ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے مثلاً بھوک لگی ہے تو اُسے زائل کرنے کے لئے کھانا آپ نے ہی کھانا ہے، اُس کے نتیجے میں سیرابی فراہم کرنا اللہ کا کام ہے۔ بیمار ہونے پر دوائی بھی آپ نے ہی لینی ہے لیکن اس میں شفا کے اثرات اللہ نے پیدا کرنے ہیں۔ یہی اصول زندگی کے جملہ معاملات میں ہے۔ ہر جگہ اپنے امکانی دائرے میں رہتے ہوئے کوشش بندے کی طرف سے ہے اور نتائج اللہ کی طرف سے۔

مسائل کیسے حل کریں؟

مسائل کے حل کے سلسلہ میں پہلا کام یہ کریں کہ ان اسباب کا جائزہ لیں جن کی وجہ سے وہ مسائل پیدا ہوئے۔ جب تک آپ کسی بھی واقعہ کے اسباب اور محرکات کا حقیقت پسندانہ جائزہ نہیں لیں گے تب تک اس کے صحیح حل تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ یہی اصول میڈیکل سائنس میں رائج ہے۔ مریض کہتا ہے میرے سر میں درد ہے تو ایک اچھا ڈاکٹر یا طبیب دیکھتا ہے کہ یہ سر درد قبض کی وجہ سے ہے، آنکھوں میں کمزوری کی وجہ سے ہے یا کسی اور وجہ سے ہے۔ جب وہ صحیح وجہ کو دریافت کرلیتا ہے تو پھر صحیح علاج بھی ممکن ہوتا ہے۔ ورنہ ساری زندگی سر درد کا علاج کرتے رہیں وہ ختم نہیں ہوگا۔

اب یہ بات ذرا دھیان سے سمجھ لیں کہ اسباب کی دو قسمیں ہیں:

  1. ظاہری اسباب
  2. باطنی اسباب
  • سب سے پہلے تو ظاہری اسباب کا باریک بینی سے جائزہ لیں کہ کوئی مسئلہ پیدا کہاں سے ہورہا ہے۔ اس کی جڑوں تک پہنچیں اور پھر ان جڑوں کو کاٹ دیں تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔

مثلاً اگر آپ کا بچہ غلط سمت میں جارہا ہے تو بلا سوچے سمجھے اسے ڈانٹنے سے پہلے جائزہ لیں کہ ایسا کیوں ہوا؟ آپ دیکھیں گے کہ اس کی تہہ میں غلط صحبت ہوگی، غلط لٹریچر کا مطالعہ ہوگا، غلط فلمیں اور ڈرامے ہوں گے، کوئی نفسیاتی الجھن ہوگی یا پھر آپ کا جابرانہ رویہ ہوگا وغیرہ۔

  • یہ تو ظاہری اسباب کی بات ہوئی لیکن اس کے ساتھ باطنی اسباب کو دیکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ ظاہری اسباب تو تھوڑے بہت غوروفکر سے سمجھ میں آجاتے ہیں لیکن باطنی اسباب کو دیکھنے کے لئے بہت زیادہ غوروفکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ بالفاظ دیگر بصارت کے ساتھ بصیرت بھی درکار ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ کسی مسئلے کے ظاہری پیچ و خم میں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور اس کی تہہ تک جاکر اصل حقائق کا تجزیہ نہیں کرپاتے۔

ان باطنی اسباب کی طرف یوں اشارہ کیا گیا:

وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَيْدِيْکُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ کَثِيْرٍ.

’’اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اُس (بد اعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے حالاں کہ بہت سی(کوتاہیوں) سے تو وہ درگزر بھی فرما دیتا ہے‘‘۔

(الشوری، 42: 30)

ہماری زندگی میں جو مصیبت بھی آتی ہے اس کا کوئی نہ کوئی ظاہری سبب تو ہوتا ہی ہے مگر قرآن کہہ رہا ہے کہ اس کا اصل سبب ہمارے گناہ ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

انما هی اعمالکم ترد عليکم.

’’یہ (مصائب و شدائد) تمہارے اپنے اعمال (کا نتیجہ) ہوتے ہیں جو تمہاری طرف لوٹادیئے جاتے ہیں‘‘۔

(احياء علوم الدين، غزالی، 4: 161)

جب تک انسان کے پاس صرف بصارت (ظاہری نظر) ہوتی ہے تب تک وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے ہر واقعہ اور حادثہ کے اسباب صرف خارج کی دنیا میں تلاش کرتا رہتا ہے جس میں اکثر ناکامی ہوتی ہے لیکن جب بصارت کے ساتھ بصیرت شامل ہوجاتی ہے تو پھر کسی بھی قسم کی ناخوشگوار صورت حال کے پیش آنے پر انسان سب سے پہلے اپنا جائزہ لیتا ہے کہ میرے اندر کہاں خامی ہے جس کی وجہ سے یہ معاملہ سامنے آیا۔ اس نکتہ کی وضاحت کے لئے مندرجہ ذیل دو مثالوں پر غور کریں۔

  1. سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں ایک دفعہ قحط سالی آگئی تو آپ نے مجلس مشاورت بلاکر جائزہ لینا شروع کیا کہ کوتاہی کہاں ہے جس کا یہ نتیجہ ہے؟ غوروفکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ رجوع الی اللہ میں کچھ کمی (اُن کے مقام و مرتبہ کے مطابق) آگئی تھی۔ چنانچہ استغفار میں اضافہ کیا اور بہت جلد صورت حال بہتر ہوگئی۔
  2. دوسری مثال بھی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ہی ہے۔ ایک مرتبہ ان کے زمانہ خلافت میں شہر مدینہ میں زلزلہ آگیا۔ آپ جلال میں آکر کھڑے ہوگئے اور زمین پر پاؤں مارتے ہوئے فرمایا:

’’تھم جاؤ۔ کیا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تمہاری پشت پر رہتے ہوئے کسی پر ظلم کیا ہے‘‘۔

یہ کہنے کی دیر تھی کہ زلزلہ تھم گیا۔ گویا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ زلزلے حکمرانوں کے ظلم و ستم کا نتیجہ ہوا کرتے ہیں اور جب میں کسی پر ظلم نہیں کررہا تو زمین زلزلہ بپا کرنے کی صورت میں یہ ظلم کیوں کررہی ہے۔ ان کے یہ الفاظ کہنے کی صورت میں زمین نے فوراً ساکن ہوکر اُن کے اس خیال کی تصدیق کردی۔

جب یہ بات طے ہے کہ ہمارا مہربان خدا ہماری ماؤں سے بھی بڑھ کر ہم سے محبت کرتا ہے تو پھر وہ بلاوجہ ہمیں کسی تکلیف میں مبتلا کیوں کرے گا؟ جس طرح ماں باپ کی ڈانٹ ڈپٹ بھی پیار ہی کا ایک حصہ ہوتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی تکلیفیں اور اذیتیں بھی ہماری بہتری کے لئے ہی آتی ہیں۔

اچھی طرح سمجھ لیں کہ یہ کائنات ہماری موافق ہے نہ کہ مخالف۔ یہاں پیش آنے والے جملہ حوادثات و واقعات ہمارے تربیت کنندہ ہیں اور ہماری سیرت و کردار کونکھارنے کے لئے آتے ہیں۔ بشرطیکہ ہم ان کے دامن میں پوشیدہ سبق کو پڑھ سکیں۔

کیا کیا جائے؟

مسائل اور مصائب کا مقابلہ کرنے کے مندرجہ ذیل تین طریقے ہیں جن میں سے پہلے دو غلط اور تیسرا صحیح ہے۔

  1. مایوسی: کچھ لوگ مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہوکر ہمت ہار جاتے ہیں اور ہاتھ کھڑے کردیتے ہیں جس کی انتہائی شکل خودکشی ہے۔ اسی راستے میں بعض اوقات ہارٹ اٹیک اور برین ہیمرج وغیرہ آتے ہیں۔
  2. مزاحمت: کچھ لوگ مسائل کے پیش آنے پر مزاحمت، مخالفت اور بغاوت والا راستہ اپناتے ہوئے احتجاج پر اتر آتے ہیں اور منفی سرگرمیوں کی طرف چلے جاتے ہیں۔ جس کی انتہائی شکل چوری، ڈاکہ اور قتل و غارت گری وغیرہ ہے اور جو اس حد تک نہ جائیں وہ شکوؤں اور شکائتوں کی نفسیات میں جینا شروع کردیتے ہیں۔ ماحول، معاشرے اور اردگرد کے لوگوں کو کوستے رہتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو اپنے مصائب کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان مصائب میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔
  3. موافقت: مسائل کا مقابلہ کرنے اور زندگی کے سفر میں انہیں ترقی کے زینے کے طور پر استعمال کرنے کا درست طریقہ صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ موافقت کرتے ہوئے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ کسی مسئلے کے ذریعے قدرت ہمیں کون سا سبق سکھانا چاہتی ہے۔ جونہی ہم مطلوبہ سبق سیکھ جاتے ہیں تو ساتھ ہی ناپسندیدہ اور ناخوشگوار حالات و واقعات خودبخود ختم ہونا شروع ہوجاتے ہیں یا پھر کم از کم ان کے مضر اثرات ہمیں بالکل متاثر نہیں کرتے مگر اس طریقہ کو جاننے والے لوگ ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔ اللہ کرے اس تحریر کے جملہ قارئین اس ایک فی صد میں شامل ہوجائیں۔

حرف آخر: یہ ہے وہ دس نکاتی فارمولہ جسے سمجھ لینے اور عمل کا حصہ بنالینے کے بعد آپ حالات کے تھپیڑوں میں بے بس تنکوں کی مانند بہا نہیں کریں گے بلکہ ان کے سامنے چٹانوں کی طرح جم کر کھڑے ہوں گے اور بڑے بڑے طوفانوں کا رخ موڑ دینے کے قابل ہوں گے۔

یوں سمجھ لیں کہ مسائل کے حل پر مشتمل دس اوزار کی یہ ایک کٹ ہے جس میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ آپ کی زندگی میں رائی کے دانے سے لے کر ہمالیہ کے پہاڑ کے سائز تک کا کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کا کوئی نہ کوئی حل اس کٹ میں موجود نہ ہو۔ کسی بھی الجھن میں پھنس جائیں یا کسی بھی مسئلے کا شکار ہوجائیں فوراً اس کٹ کی طرف رجوع کریں۔ یہ آپ کو مایوس نہیں کرے گی۔ (ان شاء اللہ العزیز)

لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ جس طرح دنیا کی قیمتی سے قیمتی غذا یا دوا اسی وقت فائدہ دے سکتی ہے جب اسے استعمال کرلیا جائے۔ اس طرح اچھی سے اچھی بات بھی صرف اس وقت فائدہ دے سکتی ہے جب اسے ذہن نشین کرلینے کے بعد عملی جامہ پہنایا جائے۔ یہ دس نکاتی فارمولہ ان چیزوں میں سے نہیں ہے جنہیں الماری میں سنبھال کر رکھ لیا جاتا ہے اور کبھی کبھار ان کے استعمال کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ تو زندگی کے ہر دن کے ہر لمحے میں استعمال ہونے والی چیز ہے۔ لہذا اسے ذہن کے کسی اوپر والے خانے میں محفوظ کرلیں تاکہ بوقت ضرورت ڈھونڈنے اور استعمال کرنے میں آسانی ہو۔ اللہ رب العزت حامی و ناصر ہو۔ (آمین)

ماخوز از ماہنامہ منہاج القرآن، جولائی 2016

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top