دہشت گردوں کے سہولت کار۔۔۔ یہ حکمران
کوئٹہ ہسپتال میں گذشتہ ماہ ہونے والا خود کش حملہ اور دہشت گردی کے جملہ سانحات ان حکمرانوں اور موجودہ فرسودہ سیاسی نظام کی ناکامی کا ثبوت ہیں۔ دہشتگردی کا نشانہ بننے والے ہر شہری کے قاتل یہ حکمران ہیں، جنہوں نے عوام کے جان و مال کے تحفظ اور دہشتگردی کے خاتمہ کی جنگ کو سرے سے ہی سنجیدہ نہیں لیا۔ پاکستان کی سلامتی و خوشحالی کیلئے قومی ایکشن پلان پر 17 ماہ گزر جانے کے بعد بھی سول اداروں نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کر کے ناقابل معافی جرم کیا ہے۔ سیاسی قیادت اصل میں دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ میں مصلحتوں کا شکار ہے اور یہی طرز عمل ہر آئے روز نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ 17 ماہ قبل مرتب کئے جانے والے قومی ایکشن پلان کے جملہ نکات پر پیشرفت کا جائزہ لینے کیلئے وزیراعظم، پارلیمنٹ اور کابینہ نے کیا اقدامات کئے؟ پاک فوج نے ضرب عضب اور دیگر ذمہ داریوں کے حوالے سے اپنے حصے کے98 فیصد کام کو مکمل کیا مگر سول حکومت کی کارکردگی اس حوالے سے صفر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی برملا اس بات کا اظہار کیا کہ ’’نیشنل ایکشن پلان پر پیش رفت نہ ہونے سے ضرب عضب متاثر ہو رہا ہے۔ بعض حلقوں کے بیانات اور تجزیے قومی کاز کونقصان پہنچا رہے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان ہمارے مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اس کی سست روی سے آپریشن ضرب عضب کے استحکام کا مرحلہ متاثر ہو رہا ہے۔ کچھ عناصر کے منفی بیانات اور تھیوریاں قومی کوششوں کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہیں۔ تمام اطراف (یعنی حکومت کی طرف سے بھی) بامعنی پیش رفت نہ ہوئی تو دہشت گردی کا لاوا پکتا رہے گا‘‘۔
قومی ایکشن پلان کی منظوری کے بعد اول دن سے یہی بات قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بارہا مرتبہ کہی کہ یہ حکمران قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ یہ اپنے منفی طرز عمل سے اس پلان کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں اور اس کی حقیقی روح کے مطابق اس پر عمل کرنے سے گریزاں ہیں۔ کیونکہ دہشت گردوں کو پناہ اور سہولت دینے والے یہ خود ہیں۔ وگرنہ صوبہ پنجاب میں موجود دہشت گردوں کی نرسری کے خلاف آپریشن کی راہ میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔کسی بھی سانحہ پر حکمران لفظوں کے مذمتی بیانات سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہیں جبکہ دوسری طرف غیر ملکی فنڈنگ بھی جاری ہے، کالعدم تنظیمیں نام بدل کر کام جاری رکھے ہوئے ہیں، مدارس کی رجسٹریشن کا عمل مکمل نہیں ہوا، دہشتگردوں کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی اور دہشت گردی اور کرپشن کے گٹھ جوڑ کے خاتمے کیلئے حکومت سمیت پارلیمنٹ نے بھی دانستہ خاموشی ختیار کررکھی ہے۔
اب تو صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اسمبلی میں حکومت کی حلیف جماعتوں کی طرف سے قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف تقریریں ہورہی ہیں مگر حکومت ان کے خلاف کوئی اقدام بروئے کار نہیں لارہی۔پاک آرمی کی ضرب عضب کی عظیم کامیابیوں کو متنازعہ بنانے کیلئے ملکی سلامتی کے اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانے کا یہ طرز عمل ملک دشمنی پر مبنی ہے۔ اس کے پیچھے کوئی اور نہیں خود وزیراعظم ہیں۔ ن لیگ کی قیادت نے پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کیلئے چھوٹے صوبوں کے اتحادی لیڈروں کی ڈیوٹی لگارکھی ہے۔ وزیراعظم کی سوچی سمجھی پالیسی ہے کہ آدھے وزیر اور اتحادی افواج پاکستان پر تنقید اور آدھے وزیر مذمتیں کریں۔ اگر وہ اس حوالے سے سنجیدہ ہوتے تو افواج پاکستان پر تنقید کرنے والی جماعتوں کو حکومتی اتحاد سے نکال باہر کرتے۔ ان کاایسا نہ کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وزراء کی طرف سے اپنے اتحادیوں کے فوج مخالف بیانات کی مذمت اور لا تعلقی قوم کے ساتھ ایک اور دھوکہ ہے۔ اس سے پہلے بھی اس ملک کے نام نہاد وزیر دفاع اور دیگر وزراء و سینیٹرز فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ اس طرزِ عمل کے ذریعے ضرب عضب کے ذریعے جیتی جانے والی جنگ کو سیاسی میدان میں نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ جب تک دہشتگردوں کے ہمدرد یہ حکمران موجود ہیں دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ تماشہ بنی رہے گی اور حکومت اپنے رویے سے ہزاروں شہداء کا مذاق اڑاتی رہے گی۔
ظلم اور کرپشن کے خاتمے کیلئے ذمہ داروں کا کیفر کردار تک پہنچنا ضروری ہے۔ ان حکمرانوں نے ملک کو تباہی کی طرف دھکیل دیا ہے اور ان کی غیر سنجیدگی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے عوام پاکستان انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔ ہر طبقہ اپنے حقوق کے لئے احتجاجی مظاہرے کررہا ہے، شہر بہ شہر دھرنے جاری ہیں، لوڈ شیڈنگ عروج پر ہے، کسان اپنی فصلیں جلا رہے ہیں، لوگ خود کشیوں اور خود سوزیوں پر مجبور ہیں، مہنگائی اپنے عروج پر ہے، بچوں کے اغواء کی حالیہ لہر نے تمام ماں باپ کو پریشان اور خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ ان تمام مسائل کی موجودگی ان حکمرانوں کی نااہلیت ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔
ضرب عضب کی کامیابی سے علاقہ غیر میں تو امن بحال ہو گیا مگر پنجاب بدستور انتہا پسندوں، دہشتگردوں اورمجرموں کا بیس کیمپ ہے۔ صرف کراچی یا سندھ نہیں پنجاب میں بھی رینجرز آپریشن کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ جرائم کی جڑیں اقتدار کے ایوانوں میں ہیں۔ جب تک جرائم پیشہ عناصر کے سرپرست اور ظلم کو تحفظ دینے والے یہ حکمران اور ان کا قائم کردہ یہ فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام زمیں بوس نہیں ہوگا، جرم، بدامنی، لاقانونیت، خوف و ہراس اور دہشت گردی وانتہاء پسندی اسی طرح پھیلتی رہے گی۔ جو حکمران نئی نسل کو تحفظ کا احساس، نوجوانوں کو روزگار، کمزور کو انصاف نہیں دے سکتے اور دیگر مسائل سے نبرد آزما نہیں ہوسکتے، ان سے یہ گمان کرنا کہ وہ پاکستان کو لوڈشیڈنگ، توانائی، مسئلہ کشمیر، معیشت کی بحالی سمیت دیگر داخلی و خارجی بحرانوں سے نکال لیں گے، یہ محض غلط فہمی اور خود فریبی ہے۔
لہذا حکمرانوں کی سیاسی و معاشی دہشت گردی کی شفاف تحقیقات کیلئے عوام کو آئین و قانون کے تحت اپنا کردار بروئے کار لانا ہوگا۔ جب تک عوام فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرینگے، حکمرانوں کا شفاف احتساب نا ممکن ہے۔ موجودہ کرپٹ نظام میں 100 الیکشن بھی ہو جائیں تو اس سے جمہوریت نہیں بلکہ شخصی اقتدار مضبوط ہوگا۔ موجودہ نظام اور طرز حکمرانی نے کرپشن، دہشتگردی اور ناانصافی کو پروان چڑھایا۔ جب تک یہ حکمران مسلط رہیں گے، دہشت گردی، کرپشن، بیڈگورننس اور بنیادی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ پاکستان عوامی تحریک قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں ظالم نظام کی تبدیلی اور 19 کروڑ عوام کو ان کے آئینی، قانونی، جمہوری حقوق دلوانے کے لئے اپنا سیاسی جمہوری کردار ادا کررہی ہے اور ہمیشہ کرتی رہے گی۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، ستمبر 2016
تبصرہ