کسان پیکج کسانوں کیلئے تھا تو وہ سڑکوں پر سراپا احتجاج کیوں ہیں؟ ڈاکٹر طاہرالقادری
سلطنت شریفیہ کے فرمانروا مزاج کے خلاف بات کرنیوالوں کو جیلوں میں ڈال دیتے ہیں
1991 کے بعد دوسری بار 2016 میں زرعی پیداواری اہداف منفی رہے، سربراہ عوامی تحریک
عوامی تحریک کے کارکنوں کو کسانوں کے احتجاج میں شرکت کی ہدایت دے دی ہے
لاہور (28 ستمبر 2016) پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ کسانوں کو گرفتار کرنے والے زراعت اور کاشتکار کے دشمن ہیں، کسان پیکج کسانوں کیلئے تھا تو وہ سڑکوں پر سراپا احتجاج کیوں ہیں؟ سلطنت شریفیہ کے فرمانروا اپنے مزاج کے خلاف بات کرنیوالوں کو جیلوں میں ڈال دیتے ہیں، پولیس حکمران خاندان کی باڈی گارڈ بن چکی ہے، کسانوں کی گرفتاریاں اور انکی تذلیل قابل مذمت ہے تمام کسانوں کو فی الفور رہا کیا جائے، کسانوں کا احتجاج قانونی ہے، عوامی تحریک کے کارکنوں کو احتجاج میں شرکت کی ہدایت کر دی ہے۔ وہ پاکستان عوامی تحریک کسان ونگ کے رہنماؤں سے ٹیلی فون پر گفتگو کر رہے تھے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار 1991 اور اب دوسری بار 2016 میں زرعی پیداوار ی اہداف منفی رہے، کاٹن کے ایکسپورٹر پاکستان کو اپنی ضرورت کیلئے کاٹن امپورٹ کرنی پڑی اور دونوں بار حکومت شریف برادران کی تھی۔ انہوں نے کہاکہ کسان اناج پیدا کرنا بند کردیں تو گندم کا امپورٹ بل پٹرول کے امپورٹ بل سے بڑھ جائے گا، انہوں نے کہاکہ آج بھی کھادیں دنیا میں سب سے زیادہ مہنگی پاکستان میں ہیں، سبسڈی کے ڈرامے دھوکہ ہیں۔ آلو، پیاز ٹماٹر تک انڈیا سے منگوانے والے حکمران اپنے کاروباری مفادات پر پاکستان کے مفاد کو ترجیح دیں۔ پاکستان کا کسان جب تک پاؤں پر کھڑا رہے گا دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو نہیں گرا سکے گی۔ کسان صرف 19 کروڑ عوام کو ہی نہیں پال رہے بلکہ انکی محنت کا تعلق اب براہ راست پاکستان کی سیکیورٹی سے لنک ہو چکا ہے۔ آج پاکستان کے پانی کو بند کرنے اور زراعت کا پہیہ جام کرنے کی دشمن باتیں کر رہاہے مگر افسوس اس نازک مرحلے پر پاکستان کا کسان سلطنت شریفیہ کے مظالم کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ گنا اگانے والے کاشتکار کے بیٹے بھوکے مر رہے ہیں جبکہ چینی پیدا کرنیوالے صنعتکاروں کے بچے دنیا بھر کے مہنگے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ کھاد استعمال کرنے والا کسان نہ تن ڈھانپنے کیلئے کپڑا خرید سکتا ہے اور نہ پیٹ بھر کر کھانا کھا سکتا ہے جبکہ کھادیں بنانے والے تین کارخانوں کے مالکان کا سالانہ منافع 50 ارب سے زائد ہے۔ اس ظلم اور نا انصافی پر کسان احتجاج کیوں نہ کریں۔ انہوں نے کہاکہ کسان خود کو تنہا نہ سمجھیں، عوامی تحریک اور پوری قوم انکے ساتھ ہے۔
تبصرہ