خلیفہ دوم: امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ

مضمون نگار: محمد احمد طاہر

خلیفہ دوم حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی اسلام کے لئے روشن خدمات، جرات و بہادری، عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں، فتوحات اور شاندار کردار اور کارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن ہے۔

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تاریخ انسانی کا ایسا نام ہے جس کی عظمت کو اپنے ہی نہیں بیگانے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ وہ نبی نہیں تھے مگر اللہ نے ان کی زبان حق پر وہ مضامین جاری کردیئے جو وحی کا حصہ بن گئے۔ قبول اسلام کے بعد وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے شیدائی بن کر فاروق کہلائے۔

تعارف

آپ رضی اللہ عنہ کا نام عمر بن خطاب، لقب فاروق اور کنیت ابو حفص ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ سے قبل چالیس مرد اور گیارہ عورتیں نور ایمان سے منور ہوچکی تھیں۔

آپ رضی اللہ عنہ ’’عام الفیل‘‘ کے تقریباً 13 سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور نبوت کے چھٹے سال پینتیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوکر حرم ایمان میں داخل ہوئے۔

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں کہ جن کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے خصوصی طور پر دعا مانگی تھی۔

اللهم اعز الاسلام باحب هذين الرجلين اليک بابی جهل او بعمر ابن الخطاب...

(جامع ترمذی، کتاب المناقب، رقم: 3681)

’’اے اللہ! تو ابوجہل یا عمر بن خطاب دونوں میں سے اپنے ایک پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما‘‘۔

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ مراد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹھہرے۔ ایمان کی لازوال دولت تو اللہ رب العزت نے حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی قسمت میں لکھ دی تھی تو پھر یہ دولت ابوجہل کے حصے میں کیونکر آتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کو بارگاہ الہٰی میں شرف قبولیت سے نوازا گیا اور چند دنوں بعد اسلام کا سب سے بڑا دشمن یعنی عمر بن خطاب اسلام قبول کرکے اسلام کا سب سے بڑا خیر خواہ اور جانثار بن گیا۔

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اہل اسلام نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر خوشی منائی ہے۔

(سنن ابن ماجه، باب فضل عمر، رقم: 103)

آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے سے نہ صرف اسلامی تاریخ میں انقلابی تبدیلی آئی بلکہ مسلمانوں کی قوت و عظمت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔ وہ مسلمان جو پہلے اپنے اسلام کو ظاہر کرتے ہوئے شدید خطرات محسوس کرتے تھے، اب اعلانیہ خانہ کعبہ میں عبادت انجام دینے لگے۔

چنانچہ اس سلسلے میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام ہمارے لئے ایک فتح تھی اور ان کی امارت ایک رحمت تھی۔ خدا کی قسم ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔ پس جب وہ اسلام لائے تو آپ نے مشرکین مکہ کا سامنا کیا یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا۔ تب ہم نے خانہ کعبہ میں نماز پڑھی۔

(المعجم الکبير للطبرانی، رقم: 8820)

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لوکان نبی بعدی لکان عمر بن الخطاب.

(جامع ترمذی، کتاب المناقب، رقم:3686)

اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا۔

اسی طرح ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

کانت فی الامم محدثون ليسوابانبياء فان کان فی امتی فعمر.

(ديلمی، مسند الفردوس، رقم: 4839)

تم سے پہلی امتوں میں محدثون ہوا کرتے تھے جو کہ انبیاء نہیں تھے اور اگر میری امت میں سے کوئی محدث ہے تو وہ عمر ہے۔

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ (Ten blessed companions) میں شامل ہیں۔ یعنی آپ ان دس خوش نصیب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شامل ہیں۔ جن کے بارے میں حضور سرور کائنات فخرموجودات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی بشارت عطافرمائی۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم پر ایک شخص داخل ہوگا وہ جنتی ہے چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ داخل ہوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس ایک اور جنتی آنے والا ہے پس اس مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ (جامع ترمذی، کتاب المناقب، رقم:3694)

حضور تاجدار مدینہ سرور قلب و سینہ احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف آپ کے لئے جنت کی بشارت دی بلکہ حشر کے دن بارگاہ ایزدی میں آپ کا کیا مقام و مرتبہ ہوگا۔ اس کے بھی احوال بیان فرمائے۔ چنانچہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اول من يصافحه الحق عمرو اول من تسليم عليه و اول من ياخذ بيده فيدخله الجنة.

(سنن ابن ماجه، باب فضل عمر، رقم: 104)

حق تعالیٰ سب سے پہلے جس شخص سے مصافحہ فرمائے گا وہ عمر ہے اور سب سے پہلے جس شخص پر سلام بھیجے گا اور سب سے پہلے جس کاہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل فرمائے گا وہ عمر ہے۔

مزید برآں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عمر بن خطاب اہل جنت کا چراغ ہے۔

(الهيثمی، مجمع الزوائد، 9/74)

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ذاتی اوصاف

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ حد درجہ ذہین، سلیم الطبع، بالغ نظر اور صائب الرائے تھے۔ قرآن پاک کے متعدد احکامات آپ رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق نازل ہوئے مثلاً اذان کا طریقہ، عورتوں کے لئے پردہ کا حکم اور شراب کی حرمت۔ آپ رضی اللہ عنہ شجاعت، فصاحت و بلاغت اور خطابت میں یکتائے زمانہ افراد میں سے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ ادبیات میں ذوق لطیف کے حامل اور شعر کے اعلیٰ نقاد تھے۔ ابتداء میں بلیغ شعر کہتے مگر دینی خدمت نے اتنا غلبہ پالیا کہ اس ذوق کے اظہار کا موقع نہیں ملتا تھا۔ آپ شعر جاہلیت میں اصلاح کے علمبردار تھے۔ فنون حرب اور سپہ گری میں شجاعان عرب میں نہایت ممتاز و منفرد تھے۔ اپنے والد کی شہرہ آفاق نساب تھے۔ زندگی کا اکثر و بیشتر حصہ فیضان نبوت سے سیرابی میں بسر کیا۔ مگر محتاط مزاج کی بنا پر احادیث کی روایت بہت کم فرماتے۔ فقہ اور اجتہاد میں بلند مقام رکھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رضوان اللہ عنہم) جن تک آئمہ فقہ کے سلاسل جاکر ملتے ہیں، آپ رضی اللہ عنہ کے تربیت یافتہ تھے۔ آپ کے تفقہ کی صداقت کی گواہی اس مشہور واقعہ سے ملتی ہے کہ ایک یہودی اور منافق مسلمان میں کسی بارے میں تنازعہ ہوا۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیصلہ کروایا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیانات کے بعد فیصلہ یہودی کے حق میں دیا۔ وہ منافق مسلمان حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا کہ آپ حمیت دینی میں اس کا ساتھ دیں گے مگر جب آپ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقدمہ کا فیصلہ فرماچکے ہیں اور اب منافق مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے تو تلوار اٹھا کر منافق کا سرقلم کردیا۔ قرآن کریم نے سورہ نسآء میں اس فیصلہ کی توثیق کی اور مستقل طور پر یہ اصول طے پایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلہ کو آخری حیثیت حاصل ہے اور جو اس فیصلہ کو درست تسلیم نہ کرے وہ مومن نہیں ہے۔

(تاريخ اسلام، بشير احمد تمنا، ص140)

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا علمی مقام

اسلام کی آمد سے قبل عرب میں لکھنے اور پڑھنے کا کوئی خاص رواج نہ تھا۔ جب حضور نبی اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے تو قبیلہ قریش میں صرف سترہ آدمی ایسے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی اسی زمانہ میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ چنانچہ امیرالمومنین سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرامین، آپ کے خطوط، آپ کے خطبات اور توقیعات، اب تک سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ جن سے آپ رضی اللہ عنہ کی قوت تحریر، برجستگی کلام اور زور تحرو تقریر کا ایک اندازہ ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ (بصرہ کے گورنر) کے نام آپ کے ایک خط کے چند کلمات کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

’’اما بعد (اے ابوموسیٰ!) عمل کی مضبوطی یہ ہے کہ آج کا کام، کل پر نہ اٹھاکر رکھیں، اگر ایسا کرو گے تو تمہارے پاس بہت سارے کام اکٹھے جمع ہوجائیں گے اور تم پریشان ہوجائو گے، پہلے کس کام کو کریں اور کس کام کو چھوڑ دیں اس طرح کچھ کام نہیں ہوسکے گا‘‘۔۔۔

فصاحت و بلاغت کا یہ عالم تھا کہ آپ کے بہت سے مقولے عربی ضرب المثل بن گئے، جو آج بھی عربی ادب کی جان ہیں۔ اسی طرح آپ کو علم الانساب میں بھی ید طولیٰ اور کمال حاصل تھا۔

دورِ فاروقی کی فتوحات اور طرز حکمرانی

آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مسلمانوں کو بے مثال فتوحات اور کامیابیاں نصیب ہوئیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے قیصر و کسریٰ کو پیوند خاک کرکے اسلام کی عظمت کا پرچم لہرانے کے علاوہ شام، مصر، عراق، جزیرہ، خوزستان، عجم، آرمینہ، آذربائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران فتح کئے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں 3600 علاقے فتح ہوئے، 900جامع مساجد اور 4 ہزار مساجد تعمیر ہوئیں۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں بیت المال اور عدالتیں قائم کیں، عدالتوں کے قاضی مقرر کئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے سن تاریخ کا اجراء کیا جو آج تک جاری ہے۔ مردم شماری کرائی، نہریں کھدوائیں، شہر آباد کروائے، دریا کی پیداوار پر محصول لگایا اور محصول مقرر کئے، حربی تاجروں کو ملک میں آنے اور تجارت کرنے کی اجازت دی۔ جیل خانہ قائم کیا، راتوںکو گشت کرکے رعایا کا حال دریافت کرنے کا طریقہ نکالا۔ پولیس کا محکمہ قائم کیا۔ جابجا فوجی چھائونیاں قائم کیں، تنخواہیں مقرر کیں، پرچہ نویس مقرر کئے۔ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک مسافروں کے لئے مکانات تعمیر کروائے۔ گم شدہ بچوں کی پرورش کے لئے روزینے مقرر کئے۔ مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کروائے۔ مکاتب و مدارس (Schools and institutions) قائم فرمائے۔ معلمین اور مدرسین (Teachers) کے مشاہرے مقرر کئے۔ تجارت کے گھوڑوں پر زکوٰۃ مقرر کی۔ وقف کا طریقہ ایجاد کیا، مساجد کے آئمہ کرام اور موذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں، مساجد میں راتوں کو روشنی کا انتظام کیا۔ علاوہ ازیں آپ رضی اللہ عنہ نے عوام کے لئے بہت سے فلاحی و اصلاحی احکامات اور اصطلاحات جاری کیں۔ (تاریخ اسلام، بشیر احمد تمنا، ص133)

شہادت کی خبر

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود دی۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہ احد پر تشریف لے گئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ تھے۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ وجد میں آگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا:

اثبت احد، فما عليک الا نبی او صديق او شهيدان.

(صحيح البخاری، کتاب فضائل صحابة، رقم: 3483)

اے احد! ٹھہر جا۔ تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں۔

روضہ اقدس میں قبر:

26 ذوالحجہ 23ھ کو آپ رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ شدید زخمی ہوگئے۔ چار دن تک آپ موت و حیات کی کشمکش میں رہے۔ آخر وقت پر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس جائو اور ان سے کہو عمر آپ کو سلام کہتا ہے۔ سلام کرنے کے بعد عرض کرنا کہ عمر بن خطاب آپ سے اجازت مانگتا ہے کہ اسے اپنے دونوں دوستوں کے پاس قبر کی جگہ مل جائے۔ جب حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ بیٹھی ہوئی زارو قطار رو رہی ہیں۔ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سلام پہنچایا اور ان کی خواہش پیش کی۔ حضرت ام الومنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے وہ جگہ اپنی قبر کے لئے رکھی ہوئی تھی مگر آج میں عمر کو اپنے آپ پر ترجیح دیتی ہوں کہ انہیں اس جگہ پر دفن کیا جائے۔

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ واپس پہنچے تو لوگوں نے بتایا کہ عبداللہ بن عمر آگئے۔ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے بٹھادو۔ آپ رضی اللہ عنہ کو بٹھادیا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہو کیا جواب لے کر آئے ہو؟ انہوں نے کہا: آپ کی خواہش کے مطابق جواب ملا ہے۔ یہ سن کر کہا: الحمدللہ! مجھے اس سے زیادہ کسی اور بات کی خواہش نہ تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ میری خواہش پوری ہوگئی ہے۔ جب میری روح قفس عنصری سے پرواز کرجائے تو ایک بار پھر حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اجازت مانگنا۔ اگر وہ بطیب خاطر اجازت دے دیں تو مجھے حجرہ اقدس میں دفن کردینا اور اگر وہ اجازت نہ دیں تو مجھے مسلمانوں کے عام قبرستان میں لے جاکر دفنا دینا۔

یکم محرم الحرام 24ھ کو اپنے بیٹے سے کہا: میری پیشانی زمین سے لگادو۔ اس طرح سجدے کی حالت میں جان، جان آفرین کے سپرد کردی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔

آپ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت دس سال پانچ ماہ اکیس دن بنتا ہے۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اکتوبر 2016

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top