دینی امور کی انجام دہی، جدید تفہیم کی ضرورت

ذیشان احمد مصباحی
منظر الاسلام ازہری

دنیا آخرت کی زندگی میں کامیابی کے لئے امتحان گاہ ہے۔ اسی دنیا کی صالح زندگی پر آخرت کی کامیابی انحصار کرتی ہے۔ اسی لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الدنيا مزرعة الآخرة.

(طبقات شافعيه 6/ 356)

’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے‘‘۔

اس تناظر میں دنیا کی تحصیل اسلام کی نظر میں صرف آخرت کی تحصیل کے لئے ہے۔ دنیاوی جدوجہد کا مقصود اگر آخرت ہے تو بالواسطہ طور پر یہ جدوجہد خالص دینی جدوجہد ہے۔ اسی طرح ہر وہ مصروفیت جس کا تعلق بظاہر دین سے ہو مگر اس کا مقصود دنیا کا حصول ہو، اس کے ذریعے، دولت، شہرت اور عزت حاصل کی جارہی ہو تو وہ بظاہر دینی شغل ہوگا لیکن فی الواقع وہ خالص دنیوی کام کہلائے گا۔ وہ اہل دنیا کی نظر میں دینی کام ہوگا لیکن آخرت میں کھل جائے گا کہ ایسا کام دنیا کے لئے دینی تجارت تھا اور بس۔

احادیث مبارکہ میں اس طالب علوم دین کے بارے میں جس کا مقصود دنیا کا حصول ہو، یہ کہا گیا ہے کہ جب آخرت میں وہ آئے گا تو اس سے کہا جائے گا کہ تمہاری جدوجہد جس مقصد کے لئے تھی وہ دنیا میں حاصل ہوگئی، اب آخرت میں تمہارے لئے کوئی حصہ نہیں ہے۔ ایسی روایتوں سے بھی مذکورہ بالا بات کی تائید ہوتی ہے۔

اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا اپنے آپ میں کوئی بری یا ناپاک شے نہیں ہے اور نہ ہی دنیوی دولت، عزت اور شہرت کا حصول اسلامی نقطہ نظر سے کوئی بری چیز ہے، اصل برائی دنیا کو مقصود بنانا ہے، کیونکہ مومن کا مقصود ہمیشہ آخرت کی زندگی ہوا کرتی ہے، دنیا اہل کفر کا مقصود و مطلوب ہے۔ اس لحاظ سے دین کی خاطر اگر کوئی دنیوی عزت و شہرت یا دولت حاصل کرتا ہے تو ایسا کرنا خالص دینی کام کہلائے گا اور بظاہر دنیاوی کام ہی کیوں نہ ہو فقط نیت کے بدلنے سے ایک ہی کام دنیاوی ہوجائے گا اور وہی کام دینی ہوجائے گا۔

اس کے ساتھ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جہاں آخرت کے مقصود ہونے کے لحاظ سے یہ کہا گیا کہ:

الدنيا سجن للمومن.

(حيلة الاولياء، 6/ 389)

’’دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے‘‘۔

وہیں پر قرآن پاک میں یہ بھی وارد ہوا کہ

وَلَا تَنْسَ نَصِيْبَکَ مِنَ الدُّنْيَا.

(القصص: 77)

’’اور دنیا سے (بھی) اپنا حصہ نہ بھول ‘‘۔

مطلب یہ ہے کہ مومن کا ایک حصہ اس دنیا سے بھی وابستہ ہے اور یہ اس لئے کہ اسے اسی دنیا میں آخرت کی کھیتی کرنی ہے، اگر اسے دنیاوی زندگی کا حصہ نہیں ملا تو وہ اپنی کھیتی کو بار آور بھلا کیسے بناسکتا ہے۔

دینی کام کے مفہوم اور دائرہ عمل کا تعین صرف کام کرنے والے کی نیت سے کیا جاسکتا ہے۔ ہر وہ کام جو دینی جذبے کے تحت کیا جائے وہ دینی کام ہے۔ دینی کام کی واحد خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اندر نیت دین کی ہوگی۔ اگر یہ خصوصیت نہ پائی جائے تو عام مشاغل دین ہی نہیں، رکوع و سجود بھی خالص دنیا داری ٹھہریں گے۔ اس خصوصیت کے بغیر نہ نماز نماز ہے اور نہ روزہ روزہ اور اگر یہ خصوصیت موجود ہو تو عام مشاغل دنیا بھی خالص دینی کام کہلائیں گے۔

اسلام کے تصورِ دین کی وسعت

یہ بات مزید وضاحت کے ساتھ اس وقت سمجھ میں آئے گی جب ہم اسلام کے تصورِ دین کو سمجھ لیں۔ اسلام کے اندر دین کا تصور بہت وسیع اور جامع ہے۔ اسلام کے مطابق دین پر عمل کرنے کے لئے ایسا بالکل ہی ضروری نہیں ہے کہ انسان صحرا نوردی اختیار کرلے اور ترک دنیا کو اپنے اوپر لازم کرلے۔ اسلام کا تصورِ دین دنیوی زندگی کے ہر پہلو کو محیط ہے۔ اسلام میں دنیوی زندگی ہی دراصل دینی زندگی ہے اگر اس کا مقصود آخرت ہو۔ اسلام دین اللہ ہے اور دین دراصل طرز عمل کا نام ہے۔ اب ہر وہ طرز عمل جس میں اللہ کی رضا جوئی کا پاس و لحاظ رکھا جائے وہ دینی طرز عمل ہے اور اسی طرح ہر وہ کام جس میں اللہ کی رضا جوئی کا پاس و لحاظ نہ رکھا جائے وہ دنیوی کام ہے۔

دینی کام کو مزید سمجھنے کے لئے ہمیں اسوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حیات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے۔ اللہ کے پیغمبر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اصحاب رسول کی زندگی میں دینی اور دنیوی کام کی کوئی تفریق نظر نہیں آتی ہے۔ وہ دنیا کے تمام جائز و درست کاروبار کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی زندگی میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا کہ وہ یہ کہیں کہ فلاں فلاں کام دینی ہیں اور فلاں فلاں کام دنیوی۔ وہ دنیا کے تمام کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور وہ تمام دنیوی مشاغل عین دینی کام ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کے کام کے اندر بالذات کوئی دینی حسن تھا بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی پوری زندگی کا مقصود اللہ و رسول کی اطاعت اور خوشنودی بن گیا تھا۔

آج ایک بار پھر اس بات کی ضرورت آن پڑی ہے کہ مشاغل دنیا کو دینی اور دنیوی خانوں میں تقسیم کرنے سے زیادہ ہم اس بات کی فکر کریں کہ ہم اپنی زندگی کے رخ کو صحیح سمت کیسے دیں۔ اگر ہم اپنی زندگی کو آخرت اساس (Based on Hereafter life) بنادیں تو پھر خودبخود ہمارے ہاتھوں سے ہونے والا ہر کام دینی کام بن جائے گا۔ نیتوں کا تزکیہ ضروری ہے، اگر یہ ہوگیا تو پھر ہماری ہر جدوجہد مکمل دین بن جائے گی اور ہمارا دین کی طرف بھاگنا بھی دین کے لئے ہوگا اور دنیا کی طرف بھاگنا بھی فی الواقع دین کے لئے ہوگا۔ اخلاص نیت کے بغیر امامت و خطابت دنیا داری ہے اور اخلاصِ نیت کے ساتھ سیاست و حکومت عین دین داری ہے۔

اسلام توازن کا حامل دین

قرآن کریم نے دین و دنیا کا مفہوم بیان کرتے ہوئے دونوں کے درمیان توازن کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ نہ تو محض دینی تصور پر اس کی کامل توجہ مرکوز ہے اور نہ ہی دنیا پر اس کا مکمل دھیان۔ وہ جس قدر دین کی دعوت دیتا ہے اسی قدر دنیا سے تعلق پر بھی ابھارتا ہے۔

اسلام کا تصور دین سمجھ لینے سے دنیا کا مفہوم خود واضح ہوجاتا ہے۔ عربی لغت کے اعتبار سے دین کا مفہوم ’’قرب‘‘ ہے جبکہ قرآن کریم نے دین کا استعمال ’’جزا‘‘ اور ’’بدلہ‘‘ کے طور پر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم نے دین کے مفہوم کا ایک وسیع تصور سورہ مائدہ میں اس اعلان کے ساتھ دیا:

اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا.

’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا ‘‘۔

(المائدة: 3)

اس آیت کے وسیع تر مفہوم میں دین و دنیا کے تمام تصورات کا بیان ہے۔ اس میں عقائد، عبادات، اخلاق، شخصی اور ملکی قوانین، معاشی نظام، عمرانیات، تاریخی و سماجی اور انسانی علوم، نفسیاتی معارف، حقوق انسانی، سائنسی علوم کے مختلف اقسام، میڈیکل سائنس، تکنیکی سائنس، کمپیوٹر سائنس، وسائل زندگی مثلاً کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا استعمال اور اس سے استفادہ، ذرائع ابلاغ میں شرکت اور اس سے استفادہ غرض کہ اس آیت میں انسانی تصورات کے تمام چیزوں کو ’’دین‘‘ کا جامع لفظ استعمال کرکے شامل کرلیا گیا ہے۔ ان میں بعض احکام کا تفصیلی اور بعض کا جزوی بیان قرآن کریم نے کئی جگہوں پر خود اپنے الفاظ میں کیا ہے اور زندگی کے بعض دوسرے شعبوں کی طرف حدیث رسول نے کبھی اجمالاً اور کبھی تفصیلاً اشارہ کیا۔

قرآن میں دنیا کی مذمت کیوں کی گئی؟

یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم نے ایک درجن سے زائد مقام پر دنیا کی مذمت بیان کی ہے اور اسے لہو و لعب سے تعبیر کیا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کو سمجھنے کے لئے دین و دنیا کا مفہوم الگ الگ سمجھنا ضروری ہوگا۔

قرآن یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میںجہاں بھی دنیا کی مذمت کا بیان ہے ان تمام آیتوں اور حدیثوں میں دنیا کا غلط استعمال اور اسے آخرت پر ترجیح دینے کی وجہ سے اس کی مذمت کی گئی ہے۔ اگر ان آیتوں اور حدیثوں کو مطلق رکھا جائے تو انسان کی زندگی مشکل میں پڑ جائے گی۔ دین و دنیا میں تفریق کے حوالے سے زہد و رقائق پر لکھی گئی کتابوں میں موجود معارف کو صحیح طور پر نہ سمجھا گیا۔ ابوبکر ابن ابی دنیا کے ’’مؤلفات‘‘ اور امام غزالی کی ’’احیاء‘‘ (جس کے ابوابِ زہد تقریباً ابن ابی دنیا کی کتابوں سے ہی ماخوذ ہیں) کا اسی طرح غلط مفہوم اخذ کیا گیا ہے جس طرح کہ قرآن کی آیتوں سے یہ معنی سمجھ لیا گیا کہ مسلمانوں کو دنیا کی ضرورت ہی نہیں۔ پھر اگر کچھ مسلمان نئے علوم سے استفادہ کرکے آخرت سنوارنے کا ارادہ رکھتے تھے تو جاہل صوفیوں اور گندم نما جو فروشوں نے زہد کے نام پر ستیا ناس کردیا۔ یہی وہ جاہلانہ تصریح اور زہد کا غلط مفہوم تھا جس نے عہد وسطی کے مسلمانوں کو نئے علوم میں مہارت حاصل کرنے سے روک دیا اور جو قوم سربراہی کا جذبہ لے کر آئی تھی وہ ذہنی غلامی کی زنجیروں میں اس قدر جکڑ گئی کہ آج در بدر ٹھوکریں اس کی زیست کا مقدر اور مغرب کی جی حضوری اس کا نقش تقدیر ہے۔

قرآن کریم نے سورہ قصص کی آیت نمبر77 میں فرمایا:

وَابْتَغِ فِيْمَآ اٰتٰـکَ اﷲُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيْبَکَ مِنَ الدُّنْيَا.

’’اللہ تعالیٰ نے جو کچھ عطا کیا ہے اس کے ذریعہ سے آخرت تلاش کیجئے اور ہاں دنیا سے بھی اپنا حصہ نظر انداز نہیں کیجئے‘‘۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کو آخرت کی تیاری کی جگہ کہا ہے۔ قرآن کریم نے سورہ بقرہ میں فرمایا:

وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی.

’’اور (آخرت کے) سفر کا سامان کرلو بے شک سب سے بہترزادِ راہ تقویٰ ہے ‘‘۔

(البقرة: 197)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ دنیا کا استعمال اگر آخرت کی تیاری کے لئے کیا جائے، اخلاق و آداب کی روشنی میں زندگی بسر کی جائے تو دین اور دنیا کے تصورات میں کوئی فرق نہیں۔

اسلام زندہ روحانیت کا نام ہے

اسلام مردہ رسم پرستی نہیں بلکہ زندہ روحانیت کا نام ہے۔ اس لئے دین کے نام پر ہونے والے اعمال و اشغال میں اگر روحانیت پائی جاتی ہے تب تو وہ کام صحیح معنوں میں دینی کام ہے بصورت دیگر وہ رسم پرستی اور دین سے دور ایک غیر دینی روایت ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں اسکی درجنوں مثالیں مل سکتی ہیں۔ آج ہماری اذانیں روح بلالی سے خالی ہیں اور ہمارے فلسفے تلقین غزالی سے بے واسطہ ہیں۔ صورت حال یہ آن پڑی ہے کہ دین کو رسم بنالیا گیا ہے اور مسلمانوں کے کلچر کو اسلام سمجھ لیا گیا ہے۔ ہماری نمازیں حضور قلبی سے خالی اور محض ظاہری قوانین کی پابند ہیں۔۔۔ ہمارے روزے خصوصی افطار پارٹیوں کا وسیلہ بنتے جارہے ہیں۔۔۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے زیادہ مدرسوں میں اپنے نام کی تختیاں لٹکانے کی فکر ہے۔۔۔ حج ہمارے لئے بہترین ذریعہ سیر و سیاحت بن گیا ہے۔

رسم پرستی سے صالح مقاصد کا خاتمہ

یہ تو بنیادی ارکان اسلام میں ہماری نیتوں کے فساد کی مثالیں ہیں۔ اب ان روایتوں کو دیکھئے جو اچھے مقاصد کے تحت مسلم سماج میں رائج ہوئیں پھر رسم پرستی نے ان روایتوں کو باقی رکھا اور ان کے پس پردہ جو صالح مقاصد تھے انہیں یا تو غائب کردیا یا ان کے تصور کو مدھم کردیا۔

اس میں کچھ شک نہیں کہ مسلم دنیا اور خاص طور برصغیر میں دین کے نام پر ایسے ایسے کام کئے جارہے ہیں جس کا تعلق یا تو ہندوستانی تہذیب و ثقافت سے ہے یا محدود ذہن کی دریافت ہے یا ناقص معلومات کا نتیجہ یا شخصیت پرستی کا ثمرہ ہے۔ اس کی درجنوں مثالیں چادر و گاگر، نیاز ونذور اور مزارات پر پھول بیچنے والوں کے طرز عمل سے اخذ کئے جاسکتے ہیں۔ وہ مزارات جنہیں ہمارے اکابر اور اسلاف نے تقرب الی اللہ کی علامت قرار دیا تھا آج پیروں فقیروں کا تجارتی مرکز بن کر رہ گیا ہے۔ وہ خانقاہیں جہاں سے صدائے حق کی باز گشت سنائی دیتی تھی اور جس کی خاموش نگاہوں نے غیر مسلموں کو بغیر کسی لق و دق کے خوش اسلوبی کے ساتھ اسلام قبول کرنے پر مجبور کردیا تھا، آج یہ خانقاہیں دین کے نام پر بے دینی، علم کے نام پر جہالت اور عمل کے بدلہ الحاد کا اڈہ بنے بیٹھے ہیں۔ یہ ایسے امور ہیں جن کا دینِ صحیح سے کچھ بھی تعلق نہیں، یہ محض ہماری رسمیں ہیں جسے ہم نے اپنی سمجھ کے مطابق دین کا درجہ دے رکھا ہے۔

  • مثال کے طور پر مردوں کے ایصال ثواب کے لئے تیسرے، ساتویں یا چالیسویں روز قرآن خوانی اور صدقات و خیرات کی روایت پڑی۔ اب ایصال ثواب کا نام رہ گیا باقی یہ مجلسیں خویش و اقرباء کے لئے دعوت اور جشن کی پارٹیاں بن گئیں۔ فقراء پر صرف کرنے کی بات خیالی رہ گئی یہاں تو اچھے خاصے امرا ناراض ہونے لگے کہ چہلم کی دعوت میں ہمارے لئے کھانے کا صحیح اہتمام نہیں تھا۔ اس سے بڑھ کر جہالت اور رسم پرستی نے یہ گل کھلایا کہ یہ تصور عام ہوگیا کہ اگر سوئم، ہفتم یا چہلم کی مجلس نہ ہوئی یا کسی اور دن ایصال ثواب کردیا گیا تو ثواب ہی نہیں پہنچے گا۔
  • اسی طرح مسلم معاشرے میں موقع بہ موقع دینی محافل کا انعقاد مذہبی روح کو تازہ کرنے کے لئے شروع کیا گیاتھا۔ اب یہ دینی محافل جلسہ پھر کانفرنس اور اس سے بڑھ کر تفریح کا سامان بنتی چلی گئیں۔ دین کے نام پر ہونے والے ان جلسوں اور کانفرنسوں سے دینی روح غائب ہوتی چلی گئی۔ واعظین سے لے کر منتظمین تک اور عام سامعین و حاضرین تک کے دل اصلاحِ نفس اور اصلاحِ معاشرہ کے جذبے سے خالی ہوگئے۔ جلسے ڈرامائی انداز میں ہونے لگے اور صرف اس بات کا نعرہ لگتا رہا کہ غوث کا دامن نہیں چھوڑیں گے جب کہ دامن غوث الوریٰ کو تھامنے کے حوالے سے کوئی پرزور بات نہیں کہی گئی۔
  • ہرکس و ناکس کی وفات پر اس کے عرس کا اہتمام۔۔۔ نماز میں شرکت سے زیادہ عرس میں شرکت کا جنون۔۔۔ ہر محلے میں ایک کمرے میں جامعہ اور دارالعلوم کے قیام کا سلسلہ۔۔۔ یہ سب غیر متعلق امور کو رسماً اور جبراً دینی امور بنانے کی مثالیں ہیں۔ افسوس اس کا نہیں ہے کہ ان امور کو بہت زیادہ اہمیت دے دی گئی بلکہ افسوس اس کا ہے کہ دین کی جو روح تھی وہ دبتی چلی گئی۔ مسلمانوں کی فلاحِ دین و دنیا کے حوالے سے جو ضروری امور تھے وہ بے اہمیت ہوکر رہ گئے اور پوری توجہ ان اضافی امور پر مرکوز ہوگئی۔ حد تو یہ ہوئی کہ یہی علامتِ سنیت اور پھر مقصودِ سنیت بن گئے۔

دینی امور میں قائم ترتیب میں تبدیلی

مذہبی ماحول میں پچھلے پچاس سالوں سے موجودہ تعطل نے دینی کام کے مفہوم کو حد سے زیادہ محدود کرکے رکھ دیا ہے۔ عام نگاہوں میں اعراس اور جلسوں کا انعقاد ہی دین کا اصل کام رہ گیا ہے۔ اس کے برعکس اسلام اور مسلمانوں کے عمومی مفاد کے لئے جدوجہد کرنا بالخصوص اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور مسلمانوں کے تحفظ کے لئے جدید ذرائع کو استعمال کرنا، یہ تمام دینی امور کے تعین کے لئے کھینچی ہوئی لکیروں سے باہر کا کام معلوم ہوتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ عصرِ حاضر میں دین کا وسیع تصور بہت محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ اسی طرح دینی امور میں قائم ترتیب بھی اکثر بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے اس کی بہت سی مثالیں ہیں:

  1. علوم و فنون کی ایک قسم تو وہ ہے جس کا تعلق براہ راست احکام شریعت مثلاً نماز و روزہ کے احکام سے ہے جبکہ دوسری قسم موجودہ زندگی کے لازمہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسلام کے تصور دین میں چونکہ بشرط ایمان و اخلاص تمام کاروبارِ جہاں شامل ہے۔ اس طرح تمام معاصر علوم کا تعلق دین اور اقامت دین سے ہے، خواہ براہ راست ہو خواہ بالواسطہ۔ مگر موجودہ عہد میں علوم کو دینی اور عصری میں تقسیم کرکے عصری علوم کی تحصیل سے مسلمانوں میں بے نیازی پیدا کردی گئی تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ اب یہ طلسم ٹوٹ رہا ہے۔ جب یہ طلسم ٹوٹ جائے گا تو مدارس کی طرح اسکولوں کی اہمیت بھی مسلم معاشرے میں مسلّم ہوجائے گی یا اسکول اور مدرسے خود ہی ایک چھت کے نیچے جمع ہوجائیں گے۔

امام غزالی کی احیاء العلوم پڑھئے تو معلوم ہوگا کہ جس طرح دینی احکام کی تفہیم و تبلیغ کے لئے علوم قرآن و حدیث کی تحصیل ضروری ہے اسی طرح مسلمانوں کی صحت اور دیگر مسائل حیات کو حل کرنے کے لئے طب اور دوسرے ان علوم کی تحصیل بھی فرض کفایہ ہے جن کی ضرورت عام معاشرتی زندگی میں پیش آتی رہتی ہے۔

  1. مسلمانوں کے اجتماعی وقار کے دفاع اور شریعت کی تبلیغ و اشاعت کے لئے جدید ذرائع ابلاغ نعمت غیر مترقبہ کے طور پر سامنے آئے ہیں لیکن مسلمان ان کی دینی و عصری اہمیت کو سمجھنے سے اب تک قاصر ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہر گلی کے نکڑ پر ایک مدرسہ اور ہر شہر اور ضلع میں کئی ایک بڑے مدارس تو قائم ہیں اور ہورہے ہیں۔ مگر دین کے حقیقی فہم کے فروغ کے لئے جدید ذرائع ابلاغ کو منظم طور پر استعمال نہیں کیا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ بھی دین کے مفہوم کے گڈمڈ اور محدود ہوجانے کی وجہ سے ہے۔ یہ افسوس ناک باتیں ہمیں تصور دین کی تجدید اور دینی کام کی تفہیم جدید کی دعوت دے رہی ہیں۔

دینی امور کیا ہیں؟

برق رفتاری، سرعت، سہولت اور آسانیاں عصر حاضر کی پہچان ہے۔ دنیا کے کسی بھی گوشے میں بیٹھ کر پلک جھپکتے ہی آپ دوسرے گوشے تک اپنی آواز پہنچاسکتے ہیں۔ موبائل فون، انٹرنیٹ اور انٹرنیٹ پر پھیلے ہوئے مختلف برقی شعبے مثلاً گوگل، یوٹیوب، فیس بک اور ٹیوٹر نے دنیا کو ترقی کے اس بام عروج پر پہنچادیا ہے جس کا کچھ عرصہ پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ترقی کے موجودہ عہد کو (Digital Age) ڈیجیٹل ایج سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ ڈیجیٹل ایج نے زندگی کے تمام شعبے پر اپنا گہرا اثر چھوڑنے کے ساتھ ساتھ دینی کام کے مفہوم میں بھی زبردست انقلاب پیدا کیا ہے۔ پوری دنیا میں عام طور پر اور ترقی یافتہ ممالک میں خاص طور پر مطبوعہ کتابوں کا رواج اٹھتا جارہا ہے۔ مطبوعہ کتابیں بیچنے والی بڑی بڑی دکانیں اپنا زمینی کاروبار بند کرکے ڈیجیٹل ایج میں شامل ہورہی ہیں۔ اب آپ کو اکثر کتابیں ڈیجیٹل آلات میں مقید بڑی آسانی سے مل جائیں گی۔ عصر حاضر کی ان ایجادات سے استفادہ کرکے آسان سے آسان تر اسلوب میں اسلام کا پیغامِ محبت اور نظامِ اخلاق عام کرنا دینی کام کے وسیع مفہوم اور دائرہ عمل میں داخل ہے۔

آج کے ڈیجیٹل زمانہ میں دعوتی کام کو آگے بڑھانے کے لئے ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا جائے، انٹرنیٹ کے سوشل نیٹ ورک مثلاً یو ٹیوب، فیس بک، ٹیوٹر وغیرہ کا استعمال کیا جائے۔ شریعت کا بڑا معروف قاعدہ ہے کہ

مالايتم الواجب الابه فهو واجب.

’’ واجب کی ادائیگی کے لئے جو چیز ضروری ہے وہ بھی واجب ہوتی ہے‘‘۔

عصر حاضر کی ایجادت اسلام کی دعوت و تبلیغ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں لہذا ان چیزوں پر خرچ کرنا نہ صرف ضروری ہے بلکہ یہ خرچ کرنا بھی دینی امور پر خرچ کرنا کہلائے گا۔

مقصودِ زندگی: رضائے الہٰی

قرآن کریم کی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی تمام خلقت کو کچھ نہ کچھ ذمہ داری سونپ رکھی ہے۔ نظام شمسی، نظام قمری، لیل و نہار کی گردش، ہوائوں کا چلنا، بادلوں کا گرجنا، ایک مربوط نظام اور خاص عمل کے تحت ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے دائرہ عمل میں رہ کر اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ اطاعت ربانی میں مصروف ہے۔ دوسری طرف انسان ہے جس کی زندگی بھی عمل سے مربوط ہے۔ بغیر عمل انسان کی زندگی کا کوئی معنی نہیں۔ ایک شخص کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ وہ تسلسل کے ساتھ نماز میں مصروف ہے اور مسجد سے باہر قدم بالکل ہی نہیں رکھتا، اس سے پوچھا کہ تمہارے نان و شبینہ کا مسئلہ کیسے حل ہوتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میرے بھائی نے میرے نان و شبینہ کی ذمہ داری لے رکھی ہے اور میں نے اپنا پورا وقت عبادت الہٰی میں گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا: جائو کام کاج کرو، تمہارا بھائی تم سے زیادہ عبادت گزار ہے۔

اس فرمان نبوی سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کا عمل، کام کاج جو کچھ بھی ہو اس کی خصوصیت رضائے الہٰی اور تقرب الی اللہ ہونا چاہئے۔ لہذا مسلمان کا ہر عمل تقرب الی اللہ کی خصوصیت سے مربوط ہونا چاہئے۔ اس اعتبار سے دین و دنیا کے کام میں تفریق کی کوئی ضرورت نہیں۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، نومبر 2016

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top