جدید منتظمیت: ادارہ کی تشکیل۔۔ اہمیت و ضرورت (سلسلہ تعلیم و تربیت، حصہ: 4)

صاحبزادہ مسکین فیض الرحمان درانی، مرکزی امیر منہاج القرآن انٹرنیشنل

انسان فطرتی طور پر اللہ کا بندہ ہے۔ اللہ کی بندگی، اس کا فطری تقاضا ہے۔ بندگی کا تقاضا ہے کہ انسان اپنی انفرادی زندگی کی طرح اجتماعی اور قومی زندگی بھی اپنے خالق و مالک کی رضا ، اس کے احکام و فرامین اور قانون(divine laws) کے مطابق گزارے کیونکہ وہ اس کے نیک و بد اور اچھائی برائی کا زیادہ علم رکھنے والا ہے۔

انسان کی ہدایت کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے تین طرح کا الوہی انتظام فرمایا:

  1. انسان کی نظری تعلیم و تربیت کے لیے سب سے پہلے کائنات(COSMOS) کو اس طرح بنایا کہ وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی مرضی کا ایک عملی اظہار(physical expression) بن گئی۔انسان دیکھ رہا ہے کہ اربوں کھربوں شموس و قمور لمحہ بھر اللہ تبارک وتعالیٰ کی مرضی کے خلاف حرکت نہیں کرتے،اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ سب کا اپنا اپنا مدار ہے، اربوں سال گزر گئے ہیں بغیر چون و چرا سب اپنے خالق و مالک کے بتائے ہوئے راستے پر رواں دواں ہیں۔ قانون الہی پر عمل کرنے کی وجہ سے سب شر فساد اور تباہی سے محفوظ ہیں۔
  2. دوسری طرف انسان کے اندر نیکی اور بدی کی پہچان کے لیے وجدانی شعور (potential nature) رکھ دیا گیا ہے۔
  3. یہ اہتمام بھی فرمایا کہ انبیاء ، رُسل اور پیغمبروں کے ذریعے مخلوق کے بنیادی حقوق، حق و باطل اور ظلم و انصاف کو انسانوں کی قابل فہم زبان میں کھول کر بتا دیا گیا۔

اس الوہی انتظام کے باوجود بھی جو لوگ راہ راست پر نہ رہیں وُہ بلا شبہ ظالم ہیں۔ اس سہ گانہ حسنِ انتظام کے ذریعے انسان کو ایک دوسرے کے بنیادی حقوق کے احترام کا درس دیا گیا ہے۔ حکم الہی ہے کہ حق سب کا یکساں ادا کرنا ہے خواہ کوئی کتنا بے بس اور کمزور کیوں نہ ہو، اللہ کی نظر میں کمزور اور طاقتور سب انسان برابر ہیں۔ یہ ہی اللہ کی ہدایت ہے جو شر وفساد سے بچاتی ہے۔

انسانی بنیادی حقوق

اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا میں ہر انسان کو جن بنیادی حقوق سے نوازا ہے قران کریم نے ان کی پوری تفصیل کو دو اشیاء کے ذکر میں بہت جامع انداز میں مذکور فرمایا ہے:

  1. پہلی چیز ’’مستقر‘‘ (halting place, abode) ہے۔ جس میں رہن سہن اور رہائش کے سب لوازمات اور تقاضے شامل ہیں۔
  2. دوسری چیز ’’متاع‘‘(property and possesions) یعنی ایسے اموال، اسباب، سامان اور ذرائع کہ جس سے دنیا میں جینے کے دیگر تقاضے اور لوازمات پورے کیے جاتے ہیں۔

باالفاظِ دیگر مستقر سے مراد وہ تمام لوازمات ہیں جن سے رہنے سہنے، رہائش ،سکونت، ملک اور ریاست کے قیام دوام کے لیے سیاسی، تمدّنی اور تہذیبی ضروریات پوری کی جاتی ہیں اور متاع میں سامانِ معیشت اور مادّی لوازمات کہ جس میں خوردونوش، بُود وباش اور زندگی کو قائم و دائم رکھنے کے اسباب، ذرائع اور وسائل شامل ہوتے ہیں۔ یہ ہر انسان کے وہ بنیادی حقوق ہیں جن کو کوئی دوسرا انسان جبراً غصب (userp) نہیں کر سکتا اور اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے ان حقوق کو زبر دستی، مکرو فریب، دھوکا اور دہونس سے کسی سے چھیننے کی کوشش کرتا ہے تواللہ پر ایمان رکھنے والے لوگ قانون الٰہی اور عدالت کے ذریعے جابر شخص یا جابر ٹولہ(mafia) کی مزاحمت کر کے اُس کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی سے روکیں گے اوراسلامی معاشرہ(Islamic society) اپنے اقدار کے ذریعے جابر کو یہ موقع نہیں دے گا کہ وہ کسی کے بنیادی حقوق کو جبرو استبداد کے ذریعے ہتھیا سکے۔

دنیا کے قدیم ادوار اور موجودہ دور کے کسی بھی ملک اور ریاست کے آئین اور دستور (constitution) میں انسان کے ان دو بنیادی حقوق؛ مستقر اور متاع کا ذکر اس جامع و مانع انداز میں درج نہیں ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نوع انسانی کو اپنی کتابِ ہدایت میں عطا فرمائے ہیں۔یہ دونوں قانون الہی کا حصہ ہیں۔ معاشرہ میں باعزت اور مستحکم زندگی گزارنے کے لیے قران حکیم کی یہ دو اصطلاحات مستقر اور متاع انسانی زندگی کی نشوو نما کے لیے بہت وسیع معنیٰ اور مفہوم کے حامل ہیں۔ انسان اشرف المخلوقات اور مقصود کائنات ہے، اللہ تعالیٰ نے زمین میں جو کچھ پیدا کیا وہ انسان کی فلاح و بہبود، استفادہ اور بقا کے لیے ہے اور اسی میں انسانیت کی بہتری کا سامان ہے۔یہ انسان پر مبنی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور فرامین کی روشنی میں ان کا صحیح استعمال کرے ، اور سب انسانوں کو ان حقوق سے برابر استفادہ کرنے دے، اپنے حقوق جائز طریقے سے حاصل کرے، کسی پر ظلم نہ کرے اور نہ کسی کو اپنے اوپر ظلم کرنے دے۔

شر و فساد کی وجوہات

ابتدائے آفرینش سے آج تک بنی نوع انسان کی نفسیات، مشکلات، اختلافات، تنازعات اور باہمی شر و فساد کے وجوہات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی زندگی اور معاشرہ کے سنگین مسائل کے تین مرکزی نکات؛ مستقر، متاع اور قانون الٰہی سے رُو گردانی یعنی جہالت ہیں۔ ظالم انسان اللہ تعالیٰ کی ہدایت، احکام اور فرامین سے انحراف اور رُو گردانی کر کے ان تین نکات کا انسانی زندگی کو تباہ کرنے کے لیے ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ مستقر اور متاع وُہ بنیادی انسانی حقوق ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر انسان کو یکساں عطا کیے ہیں۔ ان کے عادلانہ استعمال (judicious utilization) کے بارے میں اللہ تعالیٰ ہدایت فرماتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہدایت ، حکم اور قانون پر عمل نہیں کرتا ہے وہ شر، فساد اور تنازعہ پیدا کرتا ہے اور ظالم ہوتا ہے۔جو شخص اللہ تعالیٰ کے قانون شریعت(divine law) کو توڑنے کا جرم کرتا ہے وُہ تنازعہ(conflict) پیدا کرتا ہے،جو بڑھتے بڑھتے فساد، لڑائی،جھگڑے اور جنگ و جدل کی صورت اختیار کرتا ہے اور یوں پورا معاشرہ افتراق اور انتشار کا شکار ہو کر خوف اور غم کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔

اس وقت پوری دنیا ، ہر ملک اور قوم شدید خوف کا شکار ہے۔ ہر انسان کا دل غم زدہ اور خوف میں مبتلا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ دنیا کے کسی خطہ میں بھی اس وقت انسانی حقوق کے تحفظ کا وہ حقیقی جذبہ معاشرے میں موجود نہیں ہے کہ جس کا تعلق ضمیر (conscience) سے ہو۔ انسانی حقوق کی ادائیگی کے لیے فرائض کی تکمیل کا تعلق انسان کے ضمیر کی پاکیزگی،ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا شوق، جوابدہی کی فکر، انسانی شعور کی بیداری اور شدتِ احساس سے ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جوابدہی کے شدت احساس(vehement perception) کا تعلق ان حقوق و فرائض سے ہوتا ہے جو فرد پر اپنی ذات، سماج، نوع انسانی اور پھر اس خالق و مالک کے سلسلہ میں عائد ہوتے ہیں جو اس کے چھوٹے بڑے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے اور اس کے ہر راز اور ظاہر و باطن سے واقف ہے۔ شدت احساس ہر انسان میں پنہاں وہ قوت محرّکہ(driving force) ہوتی ہے جو اُس کو دوسروں کے ایتائے حقوق اور اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے مجبور کرتی ہے۔

خوف و غم کی وجوہات

خوف و غم کی وجوہات کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ ان کی فہرست بہت طویل ہے، ظالم انسانوں، آمروں ،بے رحم بادشاہوں، حکومتی اداروں کے بے رحم رشوت خور حکّام اور عمّال کا خوف، عوام کے حقوق سے غافل عوامی نمائندگان، قانون ساز اسمبلیوں کے ان پڑھ، نا اہل، بے ہنر اور نالائق اراکین اسمبلی، حکومتی وزراء اور مشیروں کا لوگوں کے مسائل سے بے فکر ہونے کا غم، علماء سُواور خود ساختہ مشائخ کا خوف جو اپنے پیروکاروں کا خون چوستے ہیں۔بے جا ذہنی تصوّرات اور توہمّات کی ہیبت، بڑھاپے اور موت کا خوف، عاقبت کا غم، روٹی کپڑا اور مکان کی فکر، جہالت اورنا انصافی کا ڈر ، باہمی اختلافات، تنازعات اور جنگ کی وحشت، یہ سب مختلف موجباتِ خوف وغم ہیں جن کی بنیادی وجہ انسانی حقوق کی پامالی ہے۔

شومئے قسمت سے آج ہمارا وطن عزیز’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ اللہ تعالیٰ کے ودیعت کردہ انسانی بنیادی حقوق کے حوالہ سے نہ اسلامی ہے اور نہ جمہوریہ۔ یہاں کے خود ساختہ حکمران؛ اداروں کے نا اہل اور بد دیانت سربراہان، حکّام و عمّال اور اراکین اسمبلی اللہ کی کتاب ِ ہدایت اور علم و حکمت سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اسلام کی ترویج و اشاعت اور غلبہ دین حق کی بحالی کا فریضہ سر انجام نہیں دے رہے ہیں اور وطن عزیز میں اسلام کی ترویج و اشاعت اور غلبہ دین حق کے لیے کام نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی جمہور کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے کسی طرح کی جدو جہد کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کی سیاہ کاریوں کی وجہ سے یہ ملک نہ اسلامی ہے اور نہ ہی یہاں حقیقی معنوں میں جمہور کی حکومت ہے۔

اس کے علاوہ غاصب حکمران اپنی ناپاک حرکتوں کی وجہ سے پاکستان یعنی’’پاک لوگوں کے رہنے کا استھان‘‘ ہونے کی حیثیت بھی اس مُلک سے چھیننے پر تُلے ہوئے ہیں اور یہاں اس تہذیب و تمدّن کو رائج کیا جا رہا ہے کہ جس کو دیکھ کر ہندو اوربے دین لوگ بھی شرم سے نظریں جھکانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ عوام انتہائی بے بسی اور لاچاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا جا رہا ہے۔ رعایا اور محکوم طبقات پر یشان حال ہیں۔ ہر طرف مسائل کا انبار ہے، چین و سکون عنقا اور شر وفساد عام ہے۔ ہر جگہ لڑائیاں جھگڑے فسادات اور دہشت گردی کا عالم ہے۔ حکومت فرقہ بازی اور قومی انتشار و افتراق کی سر پرستی کرتی ہے۔ فرقوں کو آپس میں لڑایا جا رہا ہے اور حکومت افرادِ وطن کے بنیادی حقوق کو معطّل کر کے ان کو ریاستی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا رہی ہے۔

حکمرانوں کے فرائض

اسلامی ریاست، اسلامی معاشرہ اور اسلامی حکومت کے سربراہان اور حکّام کا بنیادی فریضہ رعایا کے ہر فرد کو بنیادی حقوق کی بہرصورت فراہمی کا ہوتا ہے، حکومت کے لیے اہلیت کا معیار رعایا کی بنیادی حقوق کی حفاظت ہوتا ہے۔ یہ اسی طور پر ممکن ہے جب حکمران تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی حکومت چلانے کا فریضہ سر انجام دینے والے اُن کے خلفاء، ائمہ، اُمراء اور حکّام و عمّال کے لیے بھی علم و حکمت سے بہرہ ور ہونا لازم ہوتا ہے۔ وطن عزیز کے سربراہان مملکت اور حکومتی اداروں کے ذمہ داران، ناظمین، حکّام اور عمّال کے لیے قران حکیم میں درج متعدد آیات کریمہ میں علم و حکمت کے حصول اور تفکیر و تدبیر سے متعلق ہدایات دعوت فکر دیتے ہیں کہ وُہ اس امرکاپوری سنجیدگی سے جائزہ لیں کہ کیا ان کی علمی، فکری اور نظریاتی اہلیت اس قابل ہے کہ وہ قانون الہی کی رُوسے حکومتی مناصب پر فائز ہوں؟

دنیا میں مختصر وقت گزارنے کے بعد ہر شخص نے اللہ جل شانہ‘ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنے اعمال و افعال کا جواب دینا ہے۔ حکومتی اُمراء (اُولی الامر) ہونے کی حیثیت سے دنیاوی زندگی میں بھی عوام الناس اور حاملین امانت(public) کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی اللہ جل شانہ‘ اُن سے اپنی عطا کردہ ریاست اور امانت کی حفاظت کے بارے سوال کرے گا جبکہ حکومتی مناصب ،عہدے اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہر وقت کوشاں بعض حکومتی منصبدار اور پارٹی لیڈر عوام الناس کے سامنے اپنے جوابدہی اور محاسبہ (accountability) کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے اور جب کوئی انہیں اس جانب متوجہ کرے تو ایک عجیب مضحکہ خیز جواب یہ دیتے ہیں کہ ان کی اہلیت اور موزونیت کا فیصلہ تو ہر پانچ سال کے بعد عوام ان کا انتخاب کر کے خود کرتی ہے۔ عوام کی نظروں میں وُہ ’’ اہل ، امین، صادق اور عادل‘‘ ہیں جبھی تو وہ ان کو منتخب کرتے ہیں۔

حقیقت کے برعکس ان کی یہ سوچ بہت بڑی بھول ہے، درحقیقت یہ ان کی وُہ آزمائش ہے کہ جس پر پورا اترنے کے لیے اُن کو تھوڑے عرصہ کے لیے دنیا میں بھیجا گیا ہے۔لیکن ان کی بدقسمتی کہ وہ اس ’’علم‘‘ سے محروم ہیں۔ الیکشن جیتنے کے لیے جو کچھ جتن وہ کرتے ہیں اور جس ناجائز طریقے سے وہ اپنے آپ کو منتخب کراتے ہیں، اُن کا ’’ضمیر‘‘(conscience) اُن کی ہر ناجائز حرکت پر ان کو تنبیہ کرتا ہے۔ اسمبلی میں ناجائز طریقے سے جانے اور اقتدار حاصل کرنے والے اس شخص کو سمجھاتابھی ہے؛ ملامت بھی کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے پر ٹوکتا بھی ہے اور ان کو ان کے ظلم کا احساس بھی دلاتا ہے لیکن اس کے ارد گرد رہنے والے شیطانی پارٹی کے لوگ چاروں طرف سے گھیر کر اُس کو ’’حق‘‘ پر ہونے کا یقین دلا تے ہیں۔

یہ وہ نازک مرحلہ ہوتا ہے کہ اس کا نفس امارّہ(dominearing self) اور فطرت بالفعل(actual nature) اُس کے نفسِ لوّامہ(accusisng self) اور فطرت سلیمہ(potential nature) کو مغلوب کر لیتاہے ۔ حرص و ہوا، طلب مسند و اقتدار اور ہَوسِ زر اُس کے دیدۂِ بینا پر پردہ ڈال کراُس کو اندھا کر دیتی ہے اور وُہ ہر ناجائز اسباب و وسائل اور حرام ذرائع استعمال کر کے ناجائز انتخابی سسٹم(corrupt election system) کے ذریعے اپنے آپ کو کامیاب کراتا ہے۔ اللہ کے قانون،اس کے اقتدار اعلیٰ اور حکومت کو نہ ماننے والے لوگ اگر اس قسم کے ہتھکنڈوں کا استعمال کر کے سیاست کاری کرتے ہیں تو بات اس حد تک تو سمجھ میں آجاتی ہے کہ ایسے بے دین افراد اللہ تعالیٰ؛ اُس کے قانون اور علم و حکمت سے محروم، نا بلد اور ناواقف ہونے کی بنا پر ایسا کرتے ہیں لیکن ایک مسلم ملک کے باسی اللہ کے قوانین کو پسِ پشت ڈال کر حرام اور ناجائز طریقے سے جب ایک اسلامی ملک کے مناصب حاصل کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ کیا کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ کے قانون، شریعت اور واضح احکام کی خلاف ورزی کی ایسی جرات کر سکتا ہے؟

منصب داروں کی مسئولیت ایک لازمی امر ہے۔ فرمان نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق ہر شخص مسئول ہے اور اُس سے اس کے ماتحت اور محکوم کے حقوق اور فرائض کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ سن لو! تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیّت(زیر نگران، ماتحت، محکوم افراد) کے متعلق سوال کیا جائے گا۔‘‘

مسئولیت مرتبہ کے مطابق ہوتی ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ مرتبہ اور عہدہ کے مطابق انسان سے سوال کیا جائے گا، جو شخص جتنے بڑے منصب اور مرتبہ پر فائز ہو گااس سے اسی طرح کا سوال کیا جائے گا۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، نومبر 2016

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top