کیا کراماتی بچوں سے پوچھا جائے گا کم عمری میں اربوں کی جائیدادیں کس جادو کی چھڑی سے خریدیں؟ ڈاکٹر طاہرالقادری
وزیراعظم کاقوم سے خطاب اور
پارلیمنٹ میں دیا گیا موقف سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے بیان سے متصادم ہے
سربراہ عوامی تحریک
وزیر ریلوے کی توجہ اپنے محکمے کے علاوہ باقی ہر مسئلہ پر ہے، ٹرین حادثے اور قیمتی
جانوں کے ضیاع پر افسوس ہے
لاہور (3 نومبر 2016) پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا ہے کہ کیا کراماتی بچوں سے پوچھا جائے گا کہ کم عمری میں اربوں کی جائیدادیں کس جادو کی چھڑی سے خریدی گئیں؟ وزیراعظم نے قوم سے خطاب اور پارلیمنٹ کے فلور پر جو موقف دیا وہ سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے بیان سے متصادم ہے۔ یہ کہنا کہ کوئی بچہ ان کی زیر کفالت نہیں 2013 ء میں الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے گوشواروں سے متصادم ہے۔
دولت کے ماخذ اور دولت کی آمدروفت اور نقل و حرکت کے بارے میں اگر زور دے کر پوچھا گیا تو امید سے نہیں کہا جا سکتا کہ سماعت خیر و عافیت سے جاری رہ سکے گی۔ ہماری اطلاع کے مطابق 7 ماہ کے طویل عرصہ میں کاغذات میں ضروری ردوبدل اور تبدیلیاں عمل میں لائی جا چکی ہیں۔ دیکھتے ہیں تحقیقات کرنے والوں کا دائرہ اختیار کب چیلنج ہوتا ہے اور عوام اور آئین کی ’’حقیقی نمائندہ پارلیمنٹ ‘‘ شفاف تحقیقات کی خاطر کون سا نیا قانون پاس کرتی ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے 3 نومبر 2016ء کو عوامی تحریک کے سینئر رہنماؤں سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کرپشن کا یہ واحد کیس ہے جس کے ثبوت ملزمان کے بیانات اور خود چلتے پھرتے ملزمان اور ان کی جائیدادیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے خلاف پٹیشن کی منطوری اور سماعت کے آغاز سے میاں نواز شریف کی بطور وزیراعظم اخلاقی حیثیت ختم ہو گئی ہے مگر شریف برادران کی جمہوریت اور اخلاقیات کا آپس میں کیا لینا دینا؟۔
انہوں نے کہا کہ کمیشن پہلے بھی کئی بنے اور آئندہ بھی بنیں گے مگر رپورٹیں منظر عام پر نہیں آتیں۔ ماڈل ٹاؤن پر بننے والے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ بھی ابھی آنا باقی ہے۔ سپریم کورٹ کن ٹی او آرز کے تحت کارروائی کو آگے بڑھاتی ہے اس کے بارے میں فی الحال کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ کچھ سوالوں کے جواب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سامنے آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ دبئی کی جب سٹیل مل بیچی گئی تھی تو وہ پیسہ 1982 ء سے 2000 ء تک کہاں پڑا رہا؟ اور پھر جدہ کیسے پہنچا اور پھر 2005 ء میں یہ پیسہ کن ذرائع سے لندن پہنچا جبکہ آف شور کمپنیاں بتارہی ہیں یہ فلیٹس 90ء کی دہائی میں خریدے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کیسی خریداری ہے جس میں رہائش 90 ء سے پہلے اختیار کر لی گئی جبکہ ادائیگی پچیس سال بعد ہوئی؟۔ اس عرصہ میں مذکورہ فلیٹس میں کس حیثیت اور معاہدے کے تحت رہائش اختیار کی گئی؟ یہ ایک علیحدہ سوال ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ ریکارڈ بالآخر حکومت نے پیش کرنا ہے دیکھتے ہیں حکمرانوں کے خلاف اصلی ریکارڈ کس طرح تحقیقاتی فائلوں کا حصہ بنتا ہے کیونکہ مارکیٹ میں اصلی اور نقلی دونوں قسم کے ریکارڈ دستیاب ہیں۔
دریں اثناء سربراہ عوامی تحریک نے ٹرین حادثہ اور قیمتی جانوں کے ضیاع پر دلی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوام کے محافظ ادارے خونی ادارے بن چکے ہیں۔ قومی ادارے نالائقوں کے ہاتھ میں ہیں اس لیے عوام غیر محفوظ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر ریلوے کی توجہ اپنے محکمے کے علاوہ باقی ہر مسئلے پر ہے۔
تبصرہ