اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے جن میں 56 فی صد لڑکیاں ہیں: ڈاکٹر حسین محی الدین
پاکستان میں شرح خواندگی 58 فی صد، سری لنکا میں 95، ایران میں
85، بھارت میں 74 فی صدہے
فاٹا میں ایک ہزار سکول بند ہیں، ایجوکیشن کا میلینیم ہدف 2015 ایک بھی حاصل نہ
ہوا، ایم ای ایس کی تقریب سے خطاب
لاہور (15 نومبر 2016) تحریک منہاج القرآن کے صدر ڈاکٹر حسین محی الدین نے ایم ای ایس کی ’’اینول اسمبلی 2016 ء‘‘ الحمراء ہال میں منعقدہ سکالر شپ دینے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے جن میں 56فیصد لڑکیاں ہیں۔ دہشت گردی سے متاثرہ علاقہ فاٹا میں ایک ہزار سکول بند پڑے ہیں۔ شرح خواندگی 60 فیصد سے کم ہو کر 58 فیصد ہو گئی۔ پنجاب میں 22 فیصد، بلوچستان میں 50 فیصد، فاٹا میں 74 فیصد، سندھ میں 55 فیصد، خیبرپختونخوا میں 35 فیصد سکولوں میں پینے کا صاف پانی نہیں۔ یہی صورت حال واش روم، چاردیواری، بجلی اور اساتذہ کی ہے کیا اسے تعلیمی ترجیحات کہتے ہیں؟ وہ 15 نومبر 2016ء کو منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کی ’’اینول اسمبلی‘‘ تقریب میں خطاب کر رہے تھے۔
اس تقریب میں پنجاب بھر سے سینکڑوں طلباء وطالبات، ان کے والدین اور اساتذہ نے شرکت کی۔ ڈاکٹر حسین محی الدین نے کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے تعلیم برائے امن کے ویژن کے تحت غریب اور پسماندہ طبقات کے بچوں اور بچیوں کو معیاری تعلیم مہیا کرنے کیلئے ایم ای ایس منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ جس کے تحت اس وقت ملک بھر میں ساڑھے 6 سو سکول قائم کیے گئے ہیں۔ جن میں ڈیڑھ لاکھ بچے زیر تعلیم اور 12 ہزار اساتذہ تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔
تقریب میں بچوں اور بچیوں میں 10 لاکھ روپے کے نقدسکالر شپ دئیے گئے۔ ایم ای ایس کے ایم ڈی راشد حمید کلیامی، وائس چانسلر منہاج یونیورسٹی لاہور ڈاکٹر اسلم غوری، بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد اقبال، سینئر صحافی و اینکر حبیب اکرم، ضمیر آفاقی، ڈاکٹر نعیم مشتاق، کاشف مرزا، دیوان محی الدین، انیس الرحمن، سہیل رضا، پروفیسر وکٹرعزرایا، عمر شریف بخاری، طاہر نوید چوہدری اور جواد حامد نے تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔
ڈاکٹر حسین محی الدین نے کہا کہ جب تک حکومتوں نے تعلیم کو پہلی ترجیح نہ بنایا پاکستان انتہا پسندی اور جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتا رہے گا۔ 2009 ء میں قومی پالیسی برائے تعلیم کے تحت یہ طے کیا گیا تھا کہ تعلیمی شعبہ کیلئے ہر سال ترقیاتی بجٹ میں زمینی ضروریات کے مطابق اضافہ ہو گا مگر 2016 ء میں تعلیمی کم ہوتے ہوتے 1350 ارب روپے کی کمی واقع ہوئی۔ حکمرانوں کے پاس موٹرویز، میٹروبسوں، اورنج ٹرینوں، نجی رہائش گاہوں کی چار دیواری کیلئے اربوں، کروڑوں روپے ہیں تو تعلیم کو عام کرنے کیلئے کیوں نہیں؟
انہوں نے کہا کہ جو اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں ان میں 25 فیصد سندھ، 10 فیصد خیبرپختونخوا، 7 فیصد بلوچستان، 3 فیصد فاٹا جبکہ 52 فیصد بچوں کا تعلق پنجاب سے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 100فیصد شرح خواندگی اور انرولمنٹ کا میلینم ہدف جو 2015 ء میں حاصل ہونا چاہیے تھا ابھی تک اسے حاصل نہیں کیا جا سکا۔ سکول جانے کی عمر کے 44فیصد بچے سکول نہیں جا پاتے۔ حکمران انرولمنٹ کے اعداد و شمار تو جاری کرتے ہیں مگر ڈراپ آؤٹ کی شرح نہیں بتاتے۔ سرکاری سکولوں کا معیار تعلیم بھوٹان، مالدیپ اور یوگنڈا سے بھی گیا گزراہے۔ تعلیمی اعتبار سے پاکستان کا شمار افریقی پسماندہ ممالک میں ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں شرح خواندگی 98 فیصد جبکہ سری لنکا میں 95، ایران میں 85 اور بھارت میں 74 فیصد سے زائد ہے۔ سیاسی جماعتیں، سماجی تحریکیں اور والدین تعلیم کے شعبے پر زیادہ سے زیادہ رقوم مختص کیے جانے کے حوالے سے حکمرانوں کو مجبور کریں۔ تقریب کے اختتام پر اسٹوڈنٹس بچوں اور بچیوں میں انعامات تقسیم کیے گئے۔ مختلف سکولوں سے آئے ہوئے بچوں نے ٹیبلو، تقریریں اور ملی نغمے بھی پیش کیے۔
تبصرہ