حضرت غوث الاعظم کی تعلیمات اور عصر حاضر میں ان کی ضرورت و اہمیت

ڈاکٹر ممتاز احمد سدیدی

عصر حاضر کے انسان نے سائنسی، صنعتی اور اقتصادی ترقی کی جن منزلوں کو چھولیا ہے، آج سے فقط سو سال پہلے کے انسان کو اس کا تصور بھی نہیں تھا۔ جدید ترین ذرائع ابلاغ نے دنیا بھر کو ایک گائوں کی صورت دے دی ہے۔ دنیا بھر میں کہیں کوئی اہم واقعہ رونما ہوتا ہے تو یہ خبر دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے لیکن آج کا انسانی معاشرہ تمام تر ترقی کے باوجود کھوکھلے پن کا شکار ہے۔ تیز ترین ذرائع آمد و رفت اور جدید ترین ذرائع ابلاغ کے باوجود معاشرہ انسانیت، ہمدردی، اخلاقی اقدار اور قربتوں سے محروم ہوکر بے انصافی، عدم مساوات اور بے اطمینانی کی گہری کھائی میں گرا ہوا ہے۔ آخر اس مرض کی دوا کیا ہے؟

خاتم الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کے ساتھ نبوت و رسالت کا سلسلہ اپنے کمال اور اختتام کو پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی کے دین کو سربلند رکھنے اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو نئے ولولوں اور حوصلوں سے آشنا کرنے کے لئے امت مسلمہ کو عظیم شخصیات سے نوازا۔

جب بھی امت مسلمہ علمی، عملی، روحانی اور سیاسی زوال کا شکار ہوئی، اللہ تعالیٰ نے مسلم امہ کو کسی ایسے فرد سے نوازا جس کے وجود نے صحرائوں کو گلشن بنادیا اور مسلمانوں کو سر اٹھا کر جینے کا ڈھنگ سکھادیا۔ اس بات کی نشاندہی سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں فرماگئے ہیں:

إِنَّ اﷲَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُّجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا.

(سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم، 4: 109، الرقم: 4291)

’’اللہ تعالیٰ اس امت کی (سربلندی کے لئے) ہر صدی کے آغاز میں ایسی شخصیت کو پیدا فرماتا ہے جس کے ذریعے تجدید و احیائے دین کا فریضہ سرانجام پاتا ہے‘‘۔

قطب ربانی سیدنا الشیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ بھی ایسی ہی حیات آفرین شخصیتوں میں سے ایک ہیں۔ جن کی کتاب زیست کا ایک ایک ورق خزاں رسیدہ چمن کے لئے باد بہاری کا ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ آپ کی تعلیمات نے عالم اسلام کے مرکز بغداد میں ٹوٹ پھوٹ کے شکار معاشرے کو حیات نو کا مژدہ سنا کر مسلم امہ کے نحیف و ناتواں بدن میں نئی روح پھونک دی۔ تب سے اب تک آپ کی تعلیمات امت مسلمہ کو روح کی غذا فراہم کررہی ہیں۔ عصر حاضر میں آپ کی نورانی تعلیمات ماضی کی نسبت زیادہ اہم ہوگئی ہیں کیونکہ مادیت بھی ماضی کی نسبت کہیں زیادہ قوت کے ساتھ انسانیت اور اخلاقی اقدار کے ساتھ نبرد آزما ہے۔ ایسے حالات میں سکون نا آشنا دلوں سے خود غرضی، لالچ اور مال کی محبت کو نکال کر محبت، ایثار اور سکون سے ہمکنار وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے دل و دماغ قرآن و حدیث کی روح سے آشنا ہوں۔ آج بھی اگر مسلم امہ حضرت غوث الاعظم  رضی اللہ عنہ کی ان حیات آفرین تعلیمات کو اپنالے جو قرآن و حدیث کے صحیح فہم پر مبنی ہیں تو آج بھی عالم اسلام اپنی تمام محرومیوں سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔

حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے زمانہ کا تاریخی پسِ منظر

حضرت سیدنا الشیخ عبدالقادر جیلانی تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے تقریباً چونتیس سال بعد چھٹی صدی کے آغاز میں رشد و ہدایت کا فریضہ سرانجام دینے کے لئے میدان کارزار میں اتر چکے تھے۔ آپ کا دور مسلمانوں کے سیاسی نشیب و فراز، مذہبی کشمکش، مادیت پرستی اور اخلاقی بے راہ روی کا دور تھا۔ ان حالات میں آپ نے علم کی ترویج اور امت کی روحانی تربیت کے ساتھ ایک خاموش انقلاب بپا کردیا۔ آپ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے دنیا کی بے ثباتی کو عیاں کیا اور فکر آخرت کو اجاگر کیا۔ تجدید و احیائے دین کے لئے آپ کی کوششوں کی وجہ سے ہی آپ کو محی الدین کے لقب سے یاد کیا گیا۔

ملک شام کے ایک سکالر ڈاکٹر عبدالرزاق الگیلانی اپنی کتاب ’’الشیخ عبدالقادر الجیلانی، الامام الزاہد القدوۃ‘‘ کے ص102 پر لکھتے ہیں:

’’ہم بغداد میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:

  1. پہلا حصہ 488ھ میں آپ کی بغداد آمد سے 521ھ میں مسند تدریس پر فائز ہونے تک ہے۔
  2. دوسرا حصہ 521ھ سے لے کر 562ھ میں آپ کے وصال تک ہے اور یہ علم کے چراغ جلانے، تعلیم دینے اور وعظ و ارشاد کا مرحلہ ہے‘‘۔

اخلاقی اقدار کی اصلاح

حضرت سیدنا الشیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے اخلاقی زوال پر بہت دلگیر ہوتے اور مسلمانوں کو جھنجھوڑتے ہوئے بہت خوبصورت اور بلیغ انداز میں دین کے دامن سے وابستہ ہونے کی تلقین فرماتے۔ آپ کا ارشاد ہے:

’’فاجروں، فاسقوں، ریا کاروں، بدعات میں مبتلا گمراہوں اور خوبیوں سے محروم مدعیوں کے باعث اسلام گریہ کناں ہے اور مدد کو پکار رہا ہے۔ کتا اپنے مالک کو اس کی حفاظت، شکار، زراعت اور جانوروں کے معاملے میں نفع دیتا ہے۔ حالانکہ اس کتے کا مالک اسے رات کے وقت ایک لقمہ یا چند چھوٹے چھوٹے لقمے کھلاتا ہے اور اے انسان تو اپنے رب کی نعمتیں پیٹ بھر کر کھاتا ہے اور ان نعمتوں سے اللہ تعالیٰ کی منشاء کو پورا نہیں کرتا اور ان نعمتوں کا حق ادا نہیں کرتا، اس کے احکام کو بجا نہیں لاتا اور اس کی حدود کا خیال نہیں رکھتا‘‘۔

(الفتح الربانی، عبدالقادر الجيلانی، صفحه31)

اسلامی غیرت و حمیت

آپ کے دل میں اسلامی غیرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور آپ اپنے وابستگان کے دل میں بھی یہی غیرت و حمیت دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ کے یہ جذبات اور احساسات الفتح الربانی میں منقول درج قول سے عیاں ہیں:

’’تیرا برا ہو، تیرے اسلام کی قمیض تار تار ہے، تیرے ایمان کا کپڑا ناپاک ہے، تو برہنہ ہے، تیرا دل جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے، تیرا باطن مکدر ہے، تیرا سینہ اسلام کے لئے کشادہ نہیں۔ تیرا ظاہر آراستہ اور باطن خراب ہے، تیرے صحیفے سیاہ ہوچکے ہیں اور تیری دنیا جو تجھے بہت عزیز ہے تیرے ہاتھوں سے نکلنے والی ہے، قبر اور آخرت تیرے سامنے ہیں۔ اپنے حال کی آگہی رکھ‘‘۔

گفتار کی تاثیر و قوت

اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیدنا الشیخ عبدالقادر جیلانی کے وعظ میں کچھ ایسی تاثیر رکھ دی تھی جس کی مثال بہت کم ملے گی۔ غنیۃ الطالبین کی چودہ اور الفتح الربانی کی باسٹھ مجلسوں کا مطالعہ کرنے سے واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ جب بولنے والے کی زبان کے پیچھے احوال بھی موجود ہوں تو ایک ایک بات دلوں میں اترتی جاتی ہے۔

ڈاکٹر عبدالرزاق الگیلانی حضرت غوث صمدانی کے مواعظ کی تاثیر کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’وعظ و ارشاد کے منصب پر فائز ہونے والوں کو بہت ہی کم بیان کی وہ قوت عطا ہوئی ہوگی جو حضرت عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو مرحمت ہوئی۔ آپ حضرت کے مواعظ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر ورق اور ہر صفحہ پر گفتار کی تاثیر اور قوت واضح طور پر محسوس کریں گے بلکہ آپ اس بات کو بلا تخصیص کسی مجلس کی چند سطور پر پڑھ کر بھی محسوس کرسکتے ہیں‘‘۔

(الشيخ عبدالقادر الجيلانی، عبدالرزاق الگيلانی، ص46)

مواعظ کی وسعت

شہباز لامکانی حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کے مواعظ کی اہمیت اور وسیع افادیت کا ذکر کرتے ہوئے ابن رجب حنبلی لکھتے ہیں:

’’الشیخ عبدالقادر 520ھ کے بعد لوگوں کے سامنے (معلم ومربی کی حیثیت سے) ظاہر ہوئے تو آپ کو لوگوں میں عظیم مقبولیت حاصل ہوئی۔ آپ کی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں نے اپنے عقائد کو درست کیا اور آپ سے عظیم نفع حاصل کیا۔ آپ کے دم قدم سے (معتزلی اور اسماعیلی مذہب کے مقابلے میں) مذہب اہل سنت کو تقویت ملی‘‘۔

(قلائد الجواهر، علامه الشيخ محمد بن يحيیٰ، صفحه33)

آپ کا معمول تھا کہ آپ ہفتے میں تین دن وعظ فرمایا کرتے۔ آپ کے صاحبزادے حضرت شیخ عبدالوہاب گیلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’میرے والد ہفتے میں تین دن وعظ فرمایا کرتے تھے۔ جمعہ اور منگل کی صبح کو اپنے مدرسہ میں جبکہ اتوار کی صبح کو اپنی خانقاہ میں وعظ فرمایا کرتے تھے‘‘۔

(شذرات الذهب فی اخبار من ذهب، امام عبدالحی بن احمد الحنبلی، ج6، ص332)

آپ کے مواعظ حسنہ نے جہاں معصیت کا شکار مسلمانوں کو شریعت کی پیروی پر ابھارا وہیں غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد کو بھی متاثر کرکے ایمان کی چاشنی سے آشنا کیا۔ آپ کے ہاتھ پر اہل بغداد کی بڑی تعداد تائب ہوئی اور بغداد کے اکثر یہودی اور عیسائی آپ کے دست حق پرست پر ایمان لائے۔ (الفتح الربانی، ص220)

راہِ عزیمت کی تلقین

قطب الاقطاب حضرت سیدنا الشیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ عزیمت کی راہ پر چلنے والوں میں ایک نمایاں شخصیت تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ آپ کے محببین بھی رخصت کے متلاشی نہ بنیں بلکہ عزیمت کی اسی راہ پر چلیں جس پر چلنے والے پچھتائے نہیں بلکہ خوش ہی رہے۔ الفتح الربانی صفحہ 142 میں درج ہے کہ

’’پاک ہے وہ ذات جس نے میرے دل میں مخلوق کو نصیحت کرنے کا جذبہ ڈال دیا اور اسے میری زندگی کا مقصد بنادیا۔ اے لوگو! رخصت کی تلاش سے گریز کرو اور عزیمت کی راہ کو اپنائو جس نے رخصت کو اپناکر عزیمت کو چھوڑ دیا اس کا ایمان خطرے میں ہے۔ عزیمت کی راہ مَردوں کے لئے ہے کیونکہ وہ انتہائی کٹھن اور تلخ ہے اور رخصت عورتوں اور بچوں کے لئے ہے کیونکہ وہ انتہائی آسان ہے‘‘۔

شریعت کی پابندی

آپ اپنے مریدین اور شاگردوں کو فقہ و تصوف کی تلقین فرمایا کرتے اور خصوصی طور پر اس بات کی طرف بھی توجہ دلاتے تھے کہ جو تصوف، فقہ کے تابع نہیں وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والا نہیں۔ آپ کا ارشاد گرامی ہے:

’’شریعت جس حقیقت کی گواہی نہ دے وہ زندیقیت ہے۔ اپنے رب کی بارگاہ کی طرف کتاب و سنت کے دو پروں کے ساتھ پرواز کرو۔ اپنا ہاتھ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک میں دے کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری دو۔ فرض عبادتوں کا ترک زندیقیت اور گناہوں کا ارتکاب معصیت ہے‘‘۔

حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی ہمہ جہت تعلیمات ہر دور میں مسلمانوں کے لئے مشعل راہ رہی ہیں اور یہ تعلیمات آج بھی اہل اسلام کے لئے نشان راہ ہیں اور آنے والے کل میں بھی اپنی اہمیت کو منواتی رہیں گی۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، جنوری 2017

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top