حقیقت علم اور مروجہ تعلیمی نظام

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری MES Annual Assambly 2016 کے موقع پر کیے گئے خطاب کا خلاصہ

تلخیص:علی وقار قادری

یہ امر ذہن نشین رہے کہ علم صرف وہ نہیں جو ہم حواس خمسہ کو استعمال کر کے گر دو نواح سے حاصل کرتے ہیں۔ وہ علم جو ان معلومات کی بنیاد پر ذہن انسانی پرمنکشف ہو تا ہے وہ علم کا ظاہر ہوتا ہے، حقیقی علم نہیں۔ حقیقی علم مذکورہ علم سے مختلف چیز ہے جو نور سے پید ا ہو تا ہے۔ ہمارا جسم ظاہر ہے اور اس کے اند ر اس کی حقیقت روح کی صورت میں موجود ہے اور وہ روح نور ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسا کہ زبان سے ادا کئے جانے والے الفاظ ’’ظاہر‘‘ ہیں جبکہ ان الفاظ کی حقیقت ان میں پوشید ہ معانی میں ہوتی ہے۔ وہ حقیقت نور ہے اور وہی حقیقی علم ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے لوگ پڑھتے ہیں، ڈگریاں حاصل کرتے ہیں لیکن ان کی شخصیت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فر مایا کہ نماز بُر ے کاموں سے روکتی ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہم نماز بھی ادا کرتے ہیں اور برے کاموں کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ ہم نے نماز کا ظاہر تو اپنا لیا مگر اس کی روح کو بھلا دیا۔ نتیجہ یہ ہو ا کہ جس نماز نے ہمارے اندر نور پیدا کر کے کر دار سازی کرنی تھی وہ نور ہی پیدا نہ ہوسکا۔ نتیجتاً کر دار سازی بھی ممکن نہ رہی۔ یہی حال تعلیم کا ہے۔ علم عاجزی پیدا کرتا ہے مگر ہماری تعلیم ہمیںمتکبر کر کے اخلاقیات سے بھی روکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ الفاط جنہوں نے ہمارے اندر داخل ہو کر نور پیدا کرنا تھا وہ اس سے قاصرہیں۔

علمِ حقیقی کے اجزا ئے تر کیبی اور خصوصیات

حقیقی علم تین خصوصیات کا حامل ہوتا ہے:

  1. علم کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسان میں چیزوں کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت پیدا کر دیتا ہے۔
  2. دوسری خصوصیت یہ ہے کہ علم نااہل کے پاس ٹھہر تا نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ کی خاص عطاہے۔
  3. تیسرے درجے میںانسان ان اشیاء کی حقیقت، ابتداء اور انتہاء سے واقف ہو جاتا ہے، جن کو پہلے محض یادکیے ہوئے تھا۔

جو لوگ علم کی تیسری منزل کو عبور کرتے ہیں وہ معاملات کی ابتداء و انتہاء کو جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ الا سلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری جو باتیں سالوں پہلے بتا چکے ہیں، لوگ آج اس کو درست قرار دیتے نظر آتے ہیں۔

اہل علم کے طبقات

قرآن مجید کی سورۃ بنی اسرائیل میں تین چیزوں کو ذریعۂ علم قرار دیا گیا ہے کہ ان تینوں ذرائع سے حاصل کئے گئے علم کی باز پُرس ہوگی:

  1. آنکھ
  2. کان
  3. قلب

آنکھ اور کان کا ذریعۂ علم ہو نا تو واضح ہے مگر دل کا ذریعہ علم ہونا غور طلب ہے۔ اللہ کے نزدیک سب سے مضبوط ذریعۂ علم قلب ہی ہے۔

  • اہل علم کا ایک طبقہ وہ ہے جو دنیا میں مروجہ طریق ہائے کا ر سے منسلک ہو کر علم حاصل کر تا ہے۔ وہ کتابیں پڑھتا ہے۔ معلوم حقائق پر غور کرتا ہے۔ یہ طبقہ دین، سائنس، معیشت، سیاست اور معاشرت کسی بھی شعبہ سے وابستہ ہو سکتا ہے لیکن اس طبقہ کا عمومی رویہ یہی ہو گا۔
  • اہل علم کا دوسرا طبقہ صوفیا ء کا ہے۔ ان کے پاس بھی علم ہے لیکن یہ کتابیں پڑھتے پڑھاتے نہیں ہیں۔ ان کا طریق تد ریس کتابی اور مباحثی اند از کا نہیں۔ یہ اپنی بات پر کتب کے ریفرنس نہیں دیتے۔ بس وہ Conclusive Remarks دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ علم غلط ہے۔ وہ علم صحیح ہے مگر اس علم کو Academic درجہ حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کو ریفرنس کے ساتھ Furnishنہیں کیا جا سکتا۔ جو ان کی بات پر اعتقاد رکھتے ہیں وہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور جو اعتقا د نہیں رکھتے وہ کبھی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اس طبقے کو علم، وجدان، عرفان اور الہام کے ذریعے حاصل ہو تا ہے۔
  • اہل علم کا تیسرا طبقہ وہ ہے جس پر اللہ جل مجدہ وجدان، الہام اور عرفان کے دروازے بھی کھول دیتا ہے اور کتابی علم کے لحاظ سے بھی متبحر (sound)کر دیتا ہے۔ یعنی پہلے دونو ں طبقات کے خواص کو ملا کر یہ طبقہ اٹھایا جاتا ہے۔ ان کواللہ تعالیٰ Academicمیں بھی مضبوط کر دیتا ہے اوران پر وجد ان کادروازہ بھی کھلا رہتا ہے۔ ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں مگر جب ہوتے ہیں تو بہت بڑے ہوتے ہیں۔

فلسفۂ تخلیق اور تصورِ علم

اسلام کی رو سے ہر چیز کا خالق حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ حتی کہ ہمارے ذہن میں آنے والے ہرخیال اور نظریہ کا خالق ِحقیقی بھی اللہ تعالیٰ ہے۔ کیو نکہ اللہ کے سوا کوئی نقطہ ابتدا ء نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس خالق نے نئی سوچ دنیا میں ٹرانسفر کیسے کرنی ہے؟ ہم زمین پر ہیں اوروہ عرش معلی پر ہے۔ ہمارے سارے جسم کا تعلق زمین سے ہے مگر ہمارے اندر ایک چیز ایسی بھی ہے جو یہاں کی نہیں بلکہ عالم بالا کی ہے۔ عالم بالامیں نئے افکار پیدا ہوتے ہیں، نئے عوامل واقع ہوتے ہیں۔ ان نئے افکار کو عالم بالا سے کھینچ کر زمین پر لانے والی روح ہے۔

اس کو ہم ٹیلی سکوپ کی مثال کے ذریعے بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ ٹیلی سکوپ لمبائی میں بہت بڑا ہوتا ہے جس میں تین بڑے لینزز ہوتے ہیں۔ ایک اس کے اوپر ہوتا ہے جو آسمان کی طر ف ہوتا ہے۔ ایک نیچے ہوتا ہے اور ایک اس کے ٹاپ پر لگا ہوتا ہے جس پر آنکھ رکھ کر انسان دیکھتا ہے۔ نظر آنے والا لینز سامنے ہے۔ جس پر انسان نے آنکھ رکھی ہوئی ہے، وہ اوپر ہے۔ اوپر سے نیچے دیکھتے ہوئے انسان سامنے آسمان کا مشاہدہ کیسے کرسکتا ہے؟ اس کے لیے اس کے نیچے (Bottom) ایک Reflector لگا ہوتا ہے جو سامنے کے مناظر آنکھ کو دکھاتا ہے۔ اوپر والا لینز تو آسمان کی باتیں لاکر Reflector پر ڈالتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اس Reflectorکیquality کتنی ہے؟وہ کتنا صاف ہے ؟ اگرReflector صاف ہو گا تو وہ ساری خبریں اس لینز کو منتقل کر دے گا جس پر آنکھ ہے اور اگر وہ گدلا ہو گا، میلا ہو گا، غیر معیاری ہوگا تو وہ ادھوری اور نامکمل خبریں منتقل کر ے گا۔

اوپر والا لینز جو خبریں لا رہا ہے وہ روح کی مانند ہے جو عالم بالا کی خبریں لاتی ہے۔ Reflector قلب ہے جو جتنا صاف و شفاف ہو گا خبریں اتنی ہی منتقل کریگا۔ قرآن نے اسی لیے قلب کو ذریعۂ علم کہا۔ قلب صاف و شفاف نہ ہو تو روح کی خبریں گمراہی کا باعث بنتی ہیں۔

علم جدید کی تخلیق میں وجدان کادخل

آج پرانی باتوں سے نئے افکار و نظریات نہیں پیدا ہو رہے۔ پرانی باتوں سے جو کچھ سامنے آنا تھا، آچکا اور کتابوں میں درج ہے۔ پرانی باتوں سے نئی سوچ پیدا نہیںہو سکتی۔ نئی سوچ کے لیے اس بارگاہ سے رابطہ کرنا ہوگا جہاں نئی سوچیں تخلیق ہوتی ہیں۔ یہ نئی سوچ زمین پر وجدا ن کی صورت میں منتقل ہوتی ہے۔ جب قوموں پر کڑا وقت آتا ہے تو نئے نظر یات ہی قوموں کو بچاتے ہیں۔ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی ان نئے نظریات کا شاخسانہ ہے جو 1994ء میں شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری نے قوم کو تحفہ میں دیا۔

پاکستانی نظامِ تعلیم کے احوال

اس وقت پاکستان میں تعلیمی ادارے کاروبار بن چکے ہیں اور طلبہ برائے ڈگری اور برائے نوکری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ قائد ا عظم کا نظریۂ تعلیم کر دار سازی اور اخلاقیات کے فروغ پر مبنی تھا مگر ہمارے ہاں تعلیم اخلاقیات، قومیت، پاکستانیت اور اسلامیت سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ پاکستانی نظامِ تعلیم کس حد تک زوال کا شکار ہوچکا ہے۔ آیئے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

  1. پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے۔ یہ بچے دہشت گر دوں کے ہاتھ استعمال ہوتے ہیں۔
  2. فاٹا میں 6 ہزار سرکاری سکولز ہیں جن میں سے 1036 بند پڑے ہیں۔
  3. پورے فاٹا میں تین کالجز ہیں۔
  4. پنجاب میں 52930سر کاری سکولز ہیں۔ جن میں 20ہزار سکولز میں بنیادی سہولتیں میسر نہیں۔ یہ سکولز پینے کے پانی، واش رومز اور چار دیواری سے بھی محروم ہیں۔
  5. کل بچے جو سکول جاتے ہیں ان میں 37%پرائیویٹ سکولز میں جاتے ہیں۔ پرائیویٹ اور سرکاری سکولز سے نکلنے والے بچوں کے اذہاں میں فرق نے معاشرے میں بڑے خلیج پیدا کر دی ہے۔
  6. طالبات کے لیے اداروں کا خاص طور پر فقدان ہے۔ کل موجود ادارے ان کی کل تعداد کے 20% کے لیے ہیں۔
  7. IMFکی مینیجنگ ڈائریکٹر Christine Lagardeکہتی ہیں کہ پاکستان بد قسمتی سے آج چند ایسے ملکوں میں سے ہے جو تعلیم پر سب سے کم خرچ کرتے ہیں۔ جب یہ صورت حال ہے تو قوم کیسے بنے گی؟ انہوں نے مزید کہاکہ تعلیم کا شعبہ تین سرفہرست کرپٹ ترین شعبوں میں سے ایک ہے۔
  8. کر پشن میں 165ملکوں میں سے پاکستان کا 117واں نمبر ہے۔
  9. 2009ء میں ایک تعلیمی پالیسی دی گئی کہGDP کا بڑا حصہ تعلیم پر خرچ کیا جائے گا۔ 13ارب 50کروڑ کی رقم سکولز کے لیے مختص کی گئی مگر آج تک جاری نہ ہو سکی۔

منہاج ایجو کیشن سوسائٹی کا ایک جائزہ

  1. اس سسٹم میں 650سکولز کام کر رہے ہیں۔
  2. ڈیڑھ لاکھ سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں۔
  3. 12ہزار سے زائد اساتذہ اس سسٹم سے منسلک ہیں۔
  4. جن علاقوں میں کوئی تعلیمی چین نہیں مثلاًوادی نیلم اور گلگت، بلتستا ن، ان علاقوں میں بھیMES اپنی خدمات دے رہی ہے۔
  5. اس سال MESکے بچوں کا میٹر ک کا مجموعی نتیجہ 90%ہے۔
  6. ہر سال MES کے طلبہ کسی نہ کسی بورڈ میں پوزیشن لیتے ہیں۔
  7. آزاد کشمیر میں MESکے 50سکولز ہیں، جو آزاد کشمیر میں سب سے بڑی ایجو کیشن چین ہے۔
  8. MESسالانہ بنیادوں پر 8سے 10کروڑ روپے کی سکالر شپ دیتی ہے۔
  9. اب تک 6لاکھ سے زائد بچے MESکے سکولز سے استفادہ کر کے اپنی پریکٹیکل زندگی میں داخل ہو چکے ہیں۔
  10. MESنے کالجز کے قیام کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ لاہور میں MCMT(منہاج کالج آف مینیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی )کے نام سے ایک لڑکوں اور ایک لڑکیوں کا کالج قائم کیا جا چکا ہے۔ اور ملک کے دوسرے شہروں میں اس کے قیام کی تیاری جاری ہے۔
  11. اندرون سندھ، اندرون پنجاب اور قبائل علاقہ جات میں بھی سکولز کے قیام پر کام جاری ہے۔
  12. MESکے سکولز کے نظام کو شفاف اور متحرک بنانے کے لیے Schools Managment Software ہیڈ آفس کی طر ف سے سکولز کو مہیا کیا جا رہا ہے۔
  13. دیگر سکولز میں جو اسلامیات پڑھائی جاتی ہے وہ نہایت ناکافی ہے۔ بطور مسلمان ہمیں تما م بنیادی چیزوں کا علم ہونا چاہیے۔ اس ضرورت کے پیش نظر MESنے اسلامیات کا اپنا نصاب تیار کیا ہے جس کے تحت پریپ سے کالج لیول تک کتب آئیں گی۔ سر دست یہ کتب کلاس پنجم تک آچکی ہیں اور آئندہ سال ہفتم تک آجائیں گی۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ جو ہماری اسلامیا ت پڑھے گا وہ دین کی حقیقی اور بنیادی تعلیمات سے ان کی روح کے مطابق آشنا ہوجائے گا۔
  14. اس سال نصاب کی 36نئی کتب تیاری کے مرحلہ میں ہیں جس کے بعد پنجم تک MESکا اپنا نصاب ہو گا۔
  15. MESکا ٹریننگ ڈیپارٹمنٹ پروفیشنل بنیادوں پر ٹریننگ کر ارہا ہے۔ سابقہ 6ماہ میں 70سے زائد سکولز کی ٹریننگ کی جا چکی ہے۔

اگر ہم صحیح معنوں میں تعلیم کے فروغ کے لئے اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو استعمال میں لائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم مملکتِ خداداد پاکستان سے جہالت کے اندھیرے ختم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ بامقصد تعلیم کا فروغ ہی اس ملک سے انتہاء پسندی اور دہشت گردی کی فکری جڑوں کے اکھاڑنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی اس مشن پر رواں دواں ہے اور ضربِ علم کے ذریعے اس مصطفوی مشن کو ان شاء اللہ العزیز جاری و ساری رکھے گی۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، جنوری 2017

تبصرہ

ویڈیو

پیش آمدہ مواقع

Ijazat Chains of Authority
Top