آواز خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
’’آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھو‘‘ کے مصداق کسی شخصیت کے مقام و مرتبہ کو معلوم کرنے کے لئے اس شخصیت کے بارے میں رائے عامہ کا جاننا ضروری ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ اسے کس رنگ میں دیکھتے ہیں۔ اس حوالے سے جائزہ لیا جائے تو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ان چند نابغہ روزگار ہستیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنے علم و عمل، فکرو فلسفہ اور سیرت و کردار سے کروڑوں افراد کو متاثر کیا ہے اور لاکھوں افراد کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا ہے۔ آپ دین اسلام کو جس جدید، منفرد اور اچھوتے انداز میں پیش کررہے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ بالخصوص انہوں نے آج کے عقل پرست اور مادیت زدہ نوجوانوں کے دل و دماغ سے تشکیک کا ازالہ کرکے اس کی جگہ یقین کی سرمدی اور لازوال دولت بھردی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور خدمات کے کئی گوشے اور پہلو ہیں۔ جن میں سے ایک نہایت اہمیت کا حامل گوشہ یہ ہے کہ آپ نے کسی مخصوص مسلکی و گروہی تعصب میں پڑے بغیر قرآنی فکر کی دعوت و تعلیم کا اس کی روح کے مطابق صحیح معنوں میں ابلاغ کیا ہے۔ بالخصوص آپ نے وضعیت کے سانچوںکو توڑتے ہوئے اسرائیلیات اور عقلیات کے ان تمام الجھائو کا قلع قمع کیا ہے جو متقدمین کی تفسیر میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کی دعوتی حکمت عملی اور مفسرانہ بصیرت سے امت اجابت کی اصلاح و تربیت کے علاوہ پوری امت دعوت بھی فیض یاب ہورہی ہے۔ آپ کی تحقیق نے ایسے ایسے گھمبیر مسائل کو حل کیا ہے جن کا تعلق دین اسلام کے اہم پہلوئوں اور عقیدہ و عمل کے ضابطوں کے ساتھ تھا۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نہ صرف ایک فکر، ایک تاریخ اور موجودہ صدی کی اہم علمی شخصیت ہیں بلکہ اب ان کی ذات اور ان کا نام خود ایک حوالہ بن چکا ہے جو بلاشبہ کسی بھی ذات اور شخصیت کا سب سے بڑا مقام و مرتبہ ہے جس پر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی خاص توجہات، اپنے مرشد گرامی کے خاص فیض، اپنے والدین کی خاص تربیت، اپنے اساتذہ کرام کے علم و عمل اور بزرگان دین کی خاص دعائوں کے توسل اور اپنی محنت، لگن، خلوص اور خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے اپنی زندگی ہی میں فائز ہوچکے ہیں۔
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی علمی و تحقیقی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے کہ ان کی زندگی مسلسل محنت، جدوجہد اور عزم مصمم کی خوبصورت کڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانہ آپ کی علمی قدرو منزلت کا معترف ہے اور اپنے پرائے سب اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ اگر ان کے اعزازات کا جائزہ لیا جائے تو ان کی فہرست بڑی طویل ہے۔ جن میں سے چند اہم اعزازات درج ذیل ہیں:
- 1971ء میں آل پاکستان مسلم ایجوکیشنل کانفرنس نے آپ کو قائداعظم گولڈ میڈل سے نوازا۔
- 1972ء میں پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈل حاصل کیا اسی سال پاکستان کلچرل گولڈ میڈل بھی ملا۔
- 1984ء میں ملی خدمات کے اعتراف میں کاروان شفقت پاکستان نے گولڈ میڈل اور سند امتیاز سے نوازا۔
- 1984ء ہی میں نمایاں خدمات کے صلے میں آپ کو قرشی گولڈ میڈل کے علاوہ سند امتیاز دی گئی۔
- انٹرنیشنل بائیو گرافیکل سنٹر (IBC) آف کیمبرج انگلینڈ کی طرف سے تعلیم اور سماجی بہبود کیلئے دنیا بھر میں عظیم خدمات کے صلے میں آپ کو The International Man of the Year 1998-99 قرار دیا گیا۔
- امریکن بائیو گرافیکل انسٹی ٹیوٹ (ABI) کی طرف سے دنیا کے سب سے بڑی غیر حکومتی تعلیمی منصوبے چلانے، 250 کتب (جبکہ اب کتب کی تعداد 500 سے زائد ہوچکیہے) کے مصنف ہونے، 5000 سے زائد موضوعات پر دنیا کے مختلف خطوں اور اداروں میں لیکچرز دینے، تحریک منہاج القرآن کے بانی اور منہاج انٹرنیشنل یونیورسٹی کے چانسلر ہونے کی خدمات کے صلے میں ’’دی انٹرنیشنل کلچرل ڈپلومہ آف آنر‘‘ (The International Cultural Diploma of Honour) دیا گیا۔
- امریکن بائیو گرافیکل انسٹی ٹیوٹ (ABI) کی طرف سے دنیا بھر میں مختلف میدانوں میں معاشرے کے لئے غیر معمولی خدمات کے اعتراف پر International Who's of contemporary achievement کے پانچویں ایڈیشن میں پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پر ایک باب شامل اشاعت کیا گیا ہے۔
- بیسویں صدی کے International Who is Who کی طرف سے آپ کو Certificate of Recognition دیا گیا۔
- مختلف شعبہ ہائے زندگی میں موثر خدمات انجام دینے پر بیسویں صدی کا Achievement Award ملا۔
- امریکن بائیو گرافیکل انسٹیٹیوٹ (ABI) کی طرف سے آپ کو بیسویں صدی کی غیر معمولی شخصیت (Outstanding Man of the 20th Century) کا خطاب دیا گیا۔
- بیسویں صدی میں غیر معمولی علمی خدمات پر Leading Intellectual of the World کا خطاب دیا گیا۔
- فروغ تعلیم کے لئے آپ کی بے مثال خدمات پر International Who is Who کی طرف سے Individual Achievement Award دیا گیا۔
- بے مثال تحقیقی خدمات پر آپ کو ABI کی طرف سے Key of Success کا اعزاز دیا گیا۔
علاوہ ازیں قومی اور بین الاقوامی جامعات (Universities) میں آپ کی فکرو شخصیت اور خدمات پر تحقیقی کام بھی ہورہے ہیں۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، فروری 2017
تبصرہ