ڈاکٹر محمد طاہرالقادری۔۔۔ عظیم مصلح
محمد احمد طاہر
ہم لوگ چراغوں کی طرح ظلمتِ شب میں
جل جل کے زمانے کو جِلا دیتے رہیں گے
طوفاں اٹھیں، آندھیاں راہوں کو مٹادیں
ہم لوگوں کو منزل کا پتہ دیتے رہیں گے
’’اصلاح معاشرہ‘‘ ایک ایسا خوشگوار فریضہ ہے جس کی ضرورت و اہمیت اور افادیت ہر دور میں مسلّم رہی ہے۔ اگر تاریخ بنی نوع انسان پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ معاشرے میں جب بھی کسی قسم کا بگاڑ پیدا ہوا تو خالق کائنات نے انبیاء و رسل عظام (علیہم السلام) کی شکل میں مصلحین (Reformers) مبعوث فرمائے اور یہ سلسلہ نبی آخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اختتام پذیر ہوا۔
بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان اقدس انا خاتم النبیین لانبی بعدی کی روشنی میں پھر یہ ذمہ داری ’’العلماء ورثۃ الانبیاء‘‘ اور ’’علماء امتی کا نبیاء بنی اسرائیل‘‘ کے مصداق امت مصطفوی کے جید علماء کرام اور صلحاء عظام کو منتقل کردی گئی۔ الحمدللہ یہ فریضہ ان نفوس قدسیہ نے بھرپور نبھایا ہے اور تاامروز نبھارہے ہیں اور (ان شاء اللہ) یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔
ان مصلحین (Reformers) نے اپنی اپنی بساط اور صلاحیتوں کے مطابق نامساعد حالات میں بھی اصلاح امت کا فریضہ سرانجام دیا۔ اللہ جل وعلا نے ہر صدی میں ایک یا ایک سے زائد مجددین و مصلحین مبعوث فرمائے۔ ان میں سے چند اسماء گرامی ملاحظہ فرمائیں:
پہلی صدی
- حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ (م101ھ)
- حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (م 150ھ)
- حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ (م 187ھ)
- حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ (م 199ھ)
دوسری صدی
- حضرت امام محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (م 204ھ)
- حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ (164ھ)
- حضرت امام حسن بن زیاد حنفی رحمۃ اللہ علیہ (م 204ھ)
تیسری صدی
- حضرت امام ابو جعفر طحاوی رحمۃ اللہ علیہ (م 239ھ)
- حضرت امام ابو جعفر طبری رحمۃ اللہ علیہ (324ھ۔310ھ)
- حضرت امام محمد بن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ (م 311ھ)
- حضرت امام ابو منصور ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ (م 333ھ)
- حضرت امام ابوالحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ (م 330ھ)
چوتھی صدی
- حضرت امام ابوحامد الاسفرائینی (م 471ھ بمطابق 1080ء)
- حضرت امام باقلانی احمد بن طیب (م 403ھ)
پانچویں صدی
حضرت امام محمد بن محمدغزالی رحمۃ اللہ علیہ (م 450ھ)
چھٹی صدی
حضرت سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ (471ھ)
ساتویں صدی
- حضرت امام تقی الدین الدقیق العید رحمۃ اللہ علیہ (م 702)
- حضرت شیخ عمر شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ (536ھ۔632ھ)
آٹھویں صدی
- حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الہٰی رحمۃ اللہ علیہ (ولادت 636ھ)
- حافظ زین الدین عراقی رحمۃ اللہ علیہ(م 806ھ بمطابق 1402ء)
- حضرت امام سراج الدین بلقینی رحمۃ اللہ علیہ (828ھ بمطابق 1462ء)
- حضرت امام شمس الدین الجزری رحمۃ اللہ علیہ (م 833ھ بمطابق 1428ء)
نویں صدی
- حضرت امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (911ھ بمطابق 1505ء)
- حضرت امام شمس الدین سخاوی رحمۃ اللہ علیہ (903ھ بمطابق 1494ء)
دسویں صدی
- محدث کبیر علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ (م 911ھ)
- علامہ شہاب الرملی رحمۃ اللہ علیہ
گیارہویں صدی
- شیخ احمد فاروقی الف ثانی سرہندی (971ھ بمطابق 1032ء)
- شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (958ھ بمبابق 1551ء)
بارہویں صدی
- حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
- سلطان محی الدین اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ (1027ھ بمطابق 1618ء)
- محمد عبدالباقی الزرقانی رحمۃ اللہ علیہ (م 1122ھ بمطابق 1701ء)
- حضرت امام عبدالغنی نابلسی رحمۃ اللہ علیہ (م 1143ھ بمطابق 1731ء)
تیرہویں صدی
- شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (م 1239ھ بمطابق 1824ء)
- شاہ غلام علی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (1240ھ بمطابق 1825ء)
- علامہ سید محمد امین بن عمر عابدین شامی (م 1252ھ بمطابق 1836ء)
چودہویں صدی
- حضرت امام احمد رضا خان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (1340ھ بمطابق 1921ء)
- شیخ علامہ یوسف بن اسماعیل النبہانی رحمۃ اللہ علیہ (1350ھ بمطابق 1941ء)
- ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ (م 1346ھ بمطابق 1938ء)
پندرہویں صدی
شیخ الاسلام ڈاکٹر علامہ محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی جو فروری 1951ء کو سر زمین جھنگ میں پیدا ہوئے۔ رواں سال 19 فروری 2017ء کو آپ کی عمر مبارک 66 برس ہوجائے گی۔ آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے وہ مقام حاصل کیا ہے کہ چار دانگ عالم میں آپ کا شہرہ ہے اور عرب و عجم میں آپ کو ’’شیخ الاسلام‘‘ کے عظیم لقب سے ملقب کیا جاتا ہے۔ شیخ الاسلام کی زندگی کے کئی گوشے ہیں جیسے محدث، مبلغ، فقیہ، معلم، مقرر، سیاستدان، وکیل، سفیر امن، مصلح، عالم، مفتی، مناظر، مفسر، مصنف، منتظم۔
آپ نے اپنی زندگی کے ہر گوشے پر گرانقدر خدمات سرانجام دیں مگر بطور مصلح (Reformer) آپ کی خدمات عالیہ ناقابل فراموش ہیں۔
مملکت خداداد پاکستان گذشتہ کئی دہائیوں سے مشکلات کا شکار ہے۔ آج ان مشکلات اور مسائل کو دیکھ کر پاکستان کو مسائلستان (شومئی قسمت) کہنا بجا لگتا ہے۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے نہ صرف ان معاشرتی مسائل کی نشاندہی کی بلکہ ایک ایک معاشرتی مسئلے کا باقاعدہ حل تجویز فرمایا۔
ہر مسئلے پر باقاعدہ تصنیف (کتاب) لکھی۔ ان کتب میں نہ صرف عوام کو مخاطب کیا گیا ہے بلکہ بعض مسائل کے حل کے لئے صاحبان اقتدار کو بھی نہ صرف خطاب کیا گیا ہے بلکہ انہیں جھنجھوڑ کر ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا گیا ہے۔
آپ کی اصلاحی کوششوں کا دائرہ کار صرف پاکستان کی حد تک مقید نہیں ہے بلکہ امت مسلمہ کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اصلاح انسانیت تک پھیلا ہوا ہے۔ ذیل میں دیئے گئے جدول میں آپ کی تحریر کردہ اصلاح معاشرہ پر مبنی کتب کا جائزہ لیجئے:
اسلامی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل، عصر حاضر فلسفہ اجتہاد، مذہبی او رغیر مذہبی علوم کے اصلاح طلب پہلو، ایمان پر باطل کا حملہ اور اس کا تدارک، بلاسود بنکاری اور اسلامی معیشت، فروغ امن اور انسداد دہشت گردی کا اسلامی نصاب، فرقہ پرستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے؟ تربیت کا قرآنی منہاج، حقیقت جہاد، نظام مصطفی ایک ایمان افروز اصطلاح، اجتہاد اور اس کا دائرہ کار، تحقیقِ مسائل کا شرعی اسلوب، اسلام اور اہل کتاب، قرآنی فلسفہ عروج و زوال، فتنہ خوارج، الجہاد الاکبر، دہشت گردی اور فتنہ خوارج (فتویٰ)، ہمارا دینی زوال اور اس کے تدارک کا سہ جہتی منہاج، فساد قلب اور اس کا علاج، معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل، دور حاضر میں طاغوتی یلغار کے چار محاذ، اسلام میں محبت اور عدم تشدد۔
یہ تمام تصانیف درج ذیل معاشرتی مسائل کی اصلاح پر مبنی ہیں:
- مذہبی و دینی مسائل
- سماجی و معاشرتی مسائل
- سیاسی و حکومتی مسائل
معاشی و اقتصادی مسائل
مذہبی و دینی مسائل
- اس وقت پاکستان مجموعی زوال کا شکار ہے جس میں مذہبی اور دینی مسائل بھی حل طلب ہیں۔ اس میں اولین مسئلہ ایمان کی حفاظت ہے۔ طاغوتی طاقتیں مسلمانوں کے ایمانی جذبہ کی طاقت سے خائف ہیں بایں وجہ انہوں نے مسلمانوں کے ایمان، یقین اور توکل کو کمزور کرنے کے لئے عالمی سطح پر منصوبہ بندی کی۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ
یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
اسلام کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
شیخ الاسلام مدظلہ نے ایمان پر باطل کا سہ جہتی حملہ اور اس کے تدارک پر مستقل ایک تصنیف لطیف تقریباً 150 صفحات کی تحریر فرمائی۔ اس میں تین حملے صراحت سے ذکر فرمائے اور پھر اس کے تدارک کا حل بھی تجویز فرمایا۔
- پوری امت مسلمہ بالعموم اور مسلمانان ہند بالخصوص تقریباً گزشتہ تین سو سال سے زوال کا شکار ہیں۔ آپ نے اس موضوع پر بھی قلم اٹھایا اس کا حق ادا کردیا۔ اس حوالے سے آپ نے ہمارا دینی زوال اور اس کے تدارک کا سہ جہتی منہاج پر مشتمل ایک تصنیف پیش کی۔ دراصل یہ کتابچہ ہے مگر موضوع کے اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ نے تحریر فرمایا:
زوال کے اسباب تدارک کا سہ جہتی منہاج
- جدید مغربی اور مادی افکار کی یلغار Scientific Presentation of Islam
- اہل دین کے قول و عمل کا تضاد گفتار و کردار میں وحدت (Unity)
- مضطرب قلب و دماغ اور بے چین روح Spiritual presentation of Islam
- ہمارے زوال نے ہمارے نظام تعلیم کو بھی متاثر کیا۔ ہمارے جدید و قدیم تعلیمی ادارے اپنی افادیت کھوچکے ہیں۔ آپ نے اس موضوع پر بھی قوم کی توجہ مبذول کرائی اور ا س موضوع پر 1987ء کو ایک مستقل نہایت پر تاثیر کتابچہ مذہبی اور غیر مذہبی علوم کے اصلاح طلب پہلو تحریر فرمایا۔
- اجتہاد بھی ہمارا ایک دینی و مذہبی مسئلہ ہے۔ بہت سے مکاتب فکر اس کے حق میں ہیں اور بہت سے مکاتب فکر اس کے خلاف ہیں۔ اس پر شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آواز بلند کی تھی۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے بھی اس مختلف فیہ مسئلہ کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اجتہاد کے فلسفے پر مشتمل 1984ء کو مختصر مگر جامع کتابچہ عصر حاضر اور فلسفہ اجتہاد قلم بند فرمایا۔ اس میں آپ نے فلسفہ کا معنی و مفہوم کے ساتھ اس کی ماہیت، اس کی ضرورت و اہمیت اور افادیت واضح فرمائی۔
علاوہ ازیں اسی موضوع پر ایک اور کتابچہ 1984ء میں ہی بعنوان اجتہاد اور اس کا دائرہ کار تحریر فرمایا۔ کتابچہ ھذا میں اجتہاد اور اس کے دائرہ کار کو نہایت خوبصورت انداز میں بیان فرمایا۔ آپ نے یوں بیان کیا:
آج انفرادی اجتہاد کی بجائے ریاستی سطح پر اجتماعی اجتہاد کیا جائے۔
- ہمارے دینی ومذہبی مسائل کا ایک پہلو تحقیق و استنباط مسائل کا اختلاف ہے۔ ہمارے ہاں ہر مکتبہ فکر اس سلسلہ میں الگ الگ من پسند طریقہ کار اپنائے ہوئے ہے اور صرف اسی کو صائب سمجھتا ہے۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے اس موضوع پر بھی 1985ء میں ایک نہایت موثر کتابچہ تحقیق مسائل کا شرعی اسلوب تصنیف فرمایا۔ یہ کتابچہ تقریبا75 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں قرآن و حدیث کی روشنی میں تحقیق مسائل کا اسلوب بڑی عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔
- موجودہ دور میں عالمی سامراجی طاقتیں مذاہب و ادیان اور اقوام و ملل کو آپس میں لڑانے کی سازشیں کررہی ہیں۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے اس مسئلہ کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے حال ہی میں 2014ء میں ایک نہایت خوبصورت آب زر سے لکھے جانے کے قابل تصنیف لطیف ’’اسلام اور اہل کتاب‘‘ تصنیف فرمائی ہے۔ یہ کتاب تقریباً 480 صفحات پر مشتمل ہے۔ بین المذاہب مکالمے پر نہایت موزوں تصنیف ہے۔ کتاب ہذا میں تعلیمات قرآن و سنت اور تصریحات آئمہ دین کی روشنی میں موضوع کو نہایت خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
سماجی و معاشرتی مسائل
- انسانی جسم میں قلب (دل) کو وہی مقام حاصل ہے جو ایک دارالحکومت کو کسی ریاست یا سلطنت میں ہوتا ہے۔ انسان کے جملہ افعال و اعمال کا دارو مدار قلب کی کیفیت پر ہوتا ہے۔ محسن انسانیت حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان عالیشان کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جسے قلب کہتے ہیں۔ اگر یہ ٹھیک ہو تو پورا جسم ٹھیک ہوتا ہے اور اگر یہ خراب ہو تو پورا جسم خراب ہوجاتا ہے۔
معاشرے میں وہ لوگ جو دنگا فساد اور ظلم و زیادتی کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دراصل اپنے فساد قلب کا شکار ہوتے ہیں۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے اسی فلسفہ کے پیش نظر ’’فساد قلب اور اس کا علاج‘‘ تقریباً 130 صفحات پر مشتمل 1989ء کو تحریر فرمائی۔ اس کتاب کے پانچ ابواب ہیں۔ اس میں فساد قلب کی مختلف صورتیں اور ان کا علاج تجویز فرمایا ہے۔
- فساد قلب کی صورتیں
- فساد قلب کا علاج
- اللہ تعالیٰ سے تعلق بندگی کا انقطاع اور اس کے اسباب
- صحبت صلحاء اور ذکر الہٰی
- حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق غلامی کا انقطاع اور اسکے اسباب
- طریق زہد یا طریق عشق
- ہر دور میں حق اور باطل کے درمیان معرکہ رہا ہے۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرارِ بولہبی است
موجودہ دور میں بھی سامراجی و طاغوتی طاقتوں نے امت مسلمہ کے خلاف اپنی سازشوں کے مختلف محاذ کھول رکھے ہیں۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے اسی موضوع پر نہایت موزوں کتابچہ تحریر فرمایا اور امت مسلمہ کو بالعموم اور پاکستانی قوم کو بالخصوص متنبہ فرمایا۔ اس کتابچے کا عنوان ہے ’’دور حاضر میں طاغوتی یلغار کے چار محاذ‘‘۔ اس کتابچے میں امت مسلمہ پر ہونے والے چار سمت سے حملوں کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔
پہلا حملہ: مادیت (روحانیت سے دوری)
دوسرا حملہ: اشراقیت (آزاد خیالی اور آزاد روی)
تیسرا حملہ: متنبیت (جھوٹی نبوت، مجددیت اور قیادت کے دعویدار)
چوتھا حملہ: معرضیت (بانیٔ اسلام سے دوری)
- امت مسلمہ بالعموم اور پاکستانی قوم بالخصوص تفرقہ بازی اور فرقہ پرستی کا شکار ہے۔ اس سے مسلم وحدت یا تو ختم ہوچکی ہے یا ختم ہوتی جارہی ہے۔ اسی سے امت مسلمہ باہم دست و گریباں ہے۔
شیخ الاسلام مدظلہ العالی نے اس موضوع پر اتنی شاندار اور موزوں کتاب لکھی کہ موضوع کا حق ادا کردیا۔ یہ کتاب جنوری 1985ء کو شائع ہوئی۔ کتاب ھذا تقریباً 110 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں تفرقہ بازی کیوں ہوتی ہے؟ اس کے اسباب و علل کی نشاندہی کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں تفرقہ بازی کے خاتمے کے لئے نہایت کار آمد نسخہ ہائے کیمیا تجویز فرمائے ہیں۔ کتاب فرقہ پرستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے؟ کے عنوان سے معنون کی گئی ہے۔ آپ نے اتحاد و اخوت کے فروغ اور فرقہ پرستی کے خاتمہ کا ممکن لائحہ عمل یوں تجویز فرمایا:
- عقائد و اعمال کے مشترک پہلو اور بنائے اتحاد
- مثبت اور غیر تنقیدی اسلوب تبلیغ
- حقیقی رواداری کا عملی مظاہرہ اور اکراہ کا قرآنی فلسفہ
- دینی تعلیم کے لئے مشترکہ اداروں کا قیام
- علماء کے لئے جدید عصری تعلیم کا انتظام
- تہذیب و اخلاق کے لئے موثر روحانی تربیت کا انتظام
- فرقہ پرستانہ سرگرمیوں کے خاتمے کے لئے چند قانونی اقدامات
- علاوہ ازیں قوموں کے عروج و زوال کے فلسفہ پر مشتمل نہایت خوبصورت اور دل پذیر کتابچہ بعنوان قرآنی فلسفہ عروج و زوال تحریر فرمایا۔
- آج کی نوجوان نسل دین سے بغاوت اختیار کرچکی ہے۔ عقائد کمزور ہوچکے ہیں اور ذوق بندگی سے کوسوں دور جاچکے ہیں۔ ایسا کیسے ہوا ہے اور ایسا کیوں ہوا ہے؟ اس موضوع پر نہایت پرسوز انداز میں ایک کتابچہ ’’نوجوان نسل دین سے دور کیوں‘‘؟ تحریر فرمایا۔
- دین سے دوری کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے رویوں میں پیار، امن اورمحبت نکل چکی ہے اور نفرت، کدورت اور انتہا پسندی بھر آئی ہے۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے اسی تناظر میں ایک نہایت خوبصورت اور دل کو موہ لینے والی کتاب ’’اسلام میں محبت اور عدم تشدد‘‘ تصنیف فرمائی۔ کتاب ہذا گذشتہ برس 2015ء میں شائع ہوئی۔ کتاب تقریباً 280 صفحات پر مشتمل ہے۔
- شیخ الاسلام مدظلہ کا نہایت خوبصورت تجدیدی کارنامہ ’’فروغ امن اور انسداد دہشت گردی‘‘ کے اسلامی نصاب کی اشاعت ہے۔ آپ نے معاشرے کے مختلف طبقات کے لئے الگ الگ نصاب مرتب فرمایا ہے۔
- نصاب برائے طلباء و طالبات
- نصاب برائے اساتذہ، وکلاء اور دیگر دانشور طبقات
- نصاب برائے ریاستی سیکورٹی کے ادارہ جات اور افسران
- نصاب برائے آئمہ، خطباء اور علماء
(جاری ہے)
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، فروری 2017
تبصرہ