فروغ پذیر انتہا پسندانہ رُجحانات اور اداروں کا کردار

مورخہ: 01 مئی 2017ء

امن و سلامتی کے پیامبر دین اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے پاکستان میں بدقسمتی سے انتہا پسندی، دہشت گردی، فرقہ واریت اور عدمِ برداشت کے غیر اِسلامی و غیر اِنسانی رویے دن بدن اپنی جڑیں گہری کرتے چلے جارہے ہیں۔ انتہا پسندانہ و متشدد رویوں نے زندگی کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اِختلاف سیاسی ہو یا سماجی، مذہبی ہو یا معاشی؛ پہلے ہی مرحلہ میں ردّ عمل انتہائی اور جان لیوا ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے واقعات آئے روز پیش آتے ہیں جنہیں ذہن میں لاتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان واقعات کے ذمے دار عوام اور حکومتی انتظامی ادارے دونوں ہیں۔ عوام میں قانون کا احترام، قانون پر اعتماد اور معاملے کی تہہ تک جانے کی صلاحیت کا فقدان ہے جب کہ حکومتی ادارے بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ نتیجہ سوسائٹی کے اندر انتشار، فساد اور خون ریزی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

گزشتہ 10 سال کے اندر پیش آنے والے واقعات پر نگاہ دوڑائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ مذہبی و سیاسی انتہا پسندی کے باعث بیشتر واقعات میں کئی بے گناہ لوگوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔ حالاں کہ دین اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ بیان کیا جائے تو یہ جان و مال کے تحفظ اور حرمت کا دین ہے کہ جس میں کسی بے گناہ کو نقصان پہنچانے اور شدید ردّ عمل دینے کی ممانعت ہے۔ نیز سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی بھی خبر پر آنکھیں بند کر کے یقین کرلینے کی بھی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ اس حوالے سے تحقیق اور تصدیق کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے اور سنی سنائی باتوں پر کان نہ دھرنے کے احکامات صادر کیے گئے ہیں۔ حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ عبد الولی خان یونی ورسٹی میں مشال خان نامی نوجوان کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا وہ ہمارے مذکورہ بالا خدشات کو تقویت دیتا ہے کیونکہ مشال خان کے قتل کے مرکزی کردار وجاہت کے حوالے سے مجسٹریٹ کو دیا گیا جو بیان قومی میڈیا نے نقل کیا ہے، اس کے مطابق ملزم وجاہت کا کہنا ہے کہ اس نے یونی ورسٹی انتظامیہ کے کچھ ممبرز کے کہنے پر مشال خان کے خلاف اِشتعال پھیلایا اور طلبہ کو تشدد پر اُکسایا۔ بہرحال اس ضمن میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اَز خود نوٹس لے چکے ہیں اور خیبر پختونخواہ کی حکومت نے جوڈیشل کمیشن بھی تشکیل دے رکھا ہے۔ ہمیںکمیشن کی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے تاکہ پس پردہ اصل حقائق منظر عام پر آسکیں۔

جہاں تک انسانی جان کے تحفظ اور حرمت کا تعلق ہے تو اس حوالے سے قرآنی آیات، متعدد احادیث مبارکہ اور خلفاے راشدین کے اقوال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہیے۔ (سنن ابن ماجہ)

حضرت ابو ہریرہ g سے مرو ی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ (قتلِ ناحق کے نتیجے میں) جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔ (صحیح مسلم)

یہاں اِستعارے کی زبان میں بات کی گئی ہے یعنی ممکن ہے کہ ہتھیار کا اشارہ کرتے ہی وہ شخص طیش میں آجائے اور غصہ میں بے قابو ہو کر اسے چلا دے۔ اس عمل کی مذمت اور قباحت بیان کرنے کے لیے اسے شیطان کی طرف منسوب کیا گیا ہے تاکہ لوگ اِسے شیطانی فعل سمجھیں اور اس سے باز رہیں۔ ایک حدیث مبارکہ میں تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید (اور تباہ) ہو جانا ہلکا (واقعہ) ہے۔ (سنن ترمذی)

اسی طرح صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں کے جان و مال کو بھی ہر طرح کا تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان کسی غیر مسلم شہری کو ناحق قتل کرے گا اللہ تعالیٰ اُس پر جنت حرام فرما دے گا۔ (سنن ابی داؤد)

اس طرح سے بے شمار احادیث اور آثار و اقوال غیر مسلموں کے جان و مال کے تحفظ پر وارد ہوئے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسلام میں تو حیوانات و نباتات کے تحفظ کے بارے میں بھی خصوصی تعلیمات دی گئی ہیں۔ لہٰذا کسی پر بھی الزام لگا کر اس کی جان لینے والے اپنے اعمال، ایمان اور اپنی مسلمانیت کا جائزہ لیں کہ وہ کس طرح قتل ناحق کا اِرتکاب کرکے معاشرے میں فساد پھیلانے کے ساتھ ساتھ جہنم کا ایندھن بن رہے ہیں۔ بے گناہوں کی جان لینے والے قیامت کے دن اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سامنا کیسے کریں گے جن کا فرمان ہے کہ مومن کی حرمت کعبہ کی حرمت سے زیادہ ہے اور یہ کہ کوئی اپنے بھائی کو ناحق قتل کرنا دور کی بات اس کی طرف ہتھیار کا رخ بھی نہ کرے۔ مردان یونی ورسٹی میں پیش آنے والے واقعے نے پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی متشدد اور انتہا پسندانہ سوچ کو نمایاں کیا ہے کہ کس طرح اپنے ذاتی، گروہی اور فروعی اختلافات کی بنیاد پر ثواب اور جنت کے حصول کے لیے انسانی جان سے کھیلنے کے خلافِ قرآن و حدیث، خلافِ اِنسانیت اور خلافِ آئین و قانون جرم کے اِرتکاب میں کوئی عار محسوس نہیں کیا جارہا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے انتہا پسندانہ نظریات کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے سدباب کے لیے 600 صفحات پر مشتمل تاریخی ڈاکومنٹ دیا ہے۔ اس کے علاوہ فروغِ اَمن اور اِنسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے 36 کتب پر مشتمل نصاب بھی مرتب کیا ہے کہ کس طرح سوسائٹی کے تمام طبقات بشمول طلباء و طالبات اور نوجوانوں کو انتہا پسندانہ اور متشدد سوچ اور خارجی فکر سے بچایا جا سکتا ہے۔18 اپریل کو ایک قومی اخبار نے خبر دی کہ بعض بدنام زمانہ غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں نے پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کروانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس ضمن میں جعلی ویب اور سوشل میڈیا اکائونٹس کے ذریعے توہین آمیز مواد جاری کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف مسالک کے مابین گمراہ کن فتاویٰ جاری کر کے انہیں لڑوایا جائے گا اور لوگوں کو احتجاج اور قتل و غارت گری پر اکسایا جائے گا۔ پاکستان اس وقت نازک ترین حالات سے گزر رہا ہے۔ حکومتی اداروں کو چاہیے کہ وہ کوئی واقعہ رونما ہوجانے کے بعد حرکت میں آنے کی بجائے قبل از وقت حالات کی نزاکت کو بھانپیں اور گستاخانہ مواد کی اشاعت کا سد باب کریں۔ حکومت کے خلاف احتجاجی پوسٹس کرنے والے کو تو ایجنسیاں فوری پکڑ لیتی ہیں مگر توہین آمیز مواد شائع کرنے والوں کو نہیں پکڑا جاسکتا! علمائ، ججز، وکلاء اور پروفیسرز و اساتذہ کرام کو چاہیے کہ وہ اتحاد اور یکجہتی کے لیے اپنا قومی و ملی کردار ادا کریں اور فتنہ و فساد بپا کرنے کی اندرونی و بیرونی سازشوٍں کو ناکام بنائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سادہ لوح طلباء، خواتین و حضرات اور نوجوانوں کو فکر و شعور دینے کی ضرورت ہے کہ وہ بلا سوچے سمجھے کسی وقتی اور سطحی اشتعال کے تحت شدید ردّ عمل دینے سے گریز کریں اور ہرگز قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں بلکہ ایک مہذب اور باشعور قوم کو تشکیل دینے اور جدید معاشرے کا تشخص پروان چڑھانے کے لیے آئین و قانون کی پاس داری کریں کہ یہی ہمارے پیارے دین اِسلام کی تعلیمات ہیں۔ (چیف ایڈیٹر)

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، مئی 2017

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top