شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تصنیف ’توبہ و استغفار‘ ایک تعارف
جلیل احمد ہاشمی
توبہ گناہوں بھری زندگی سے طبعاً نفرت ہو جانے پر ندامت اور شرمندگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور دستِ سوال دراز کرنے کا نام ہے۔ یہ ایک ایسا فعل ہے جس کا منتظر خود رب ذوالجلال والاکرام ہے۔ انسانی قلوب پر اثر انداز ہونے والی ظاہری اور باطنی ظلمتوں کے باعث ہماری روحانی اقدار اس حد تک پستی کا شکار ہو چکی ہیں کہ اصلاحِ احوال کی کوئی صورت دور دور تک نظر نہیں آرہی۔ مسلمان بحیثیت مجموعی دین سے دوری کے باعث مادیت و دہریت اور لا دینیت جیسے لا تعداد گمراہ کن فتنوں میں مبتلا ہو کر شیطنت کے ہم نوا بنے بیٹھے ہیں اور اسی میں اپنی عافیت و سلامتی کے متلاشی ہیں۔
ہمیں نفس کے دھوکے اور مغالطے سے بچنے اور شیطان کے شر سے ہوشیار رہنے کی سخت ضرورت ہے۔ نام نہاد جاہل مبلغین کے خود ساختہ نظریات نے ہمیں عمل کی طرف راغب ہونے سے روک رکھا ہے اور یہ امر سب سے زیادہ ہلاکت انگیز ہے۔ اس ضمن میں ’’بغیر عمل کئے مغفرت و بخشش کا امیدوار ہونا۔۔۔ زبانی توبہ و استغفار پر ہی خود کو نیک و صالح تصور کر لینا۔۔۔ احادیث کے صحیح مفہوم سے نا آشنا ہو کر صرف زبانی گنتی کے عمل کو کافی سمجھنا۔۔۔ خوفِ خدا کے بجائے صرف اور صرف امید و رجا کو تھام لینا۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی وسعتِ رحمت، وسعتِ عفو و درگذر کے بھروسے پر نام نہاد جرأت کا اظہار کرتے ہوئے بے خوف ہوجانا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت و سفارش پر اس قدر بھروسہ کرنا کہ عمل کے حوالے سے بالکل ہی فارغ ہوجاتا‘‘۔ یہ اور اس قسم کی بے شمار باطل توضحیات انسان کو رجوع الی اللہ سے روکتی ہیں۔
ایسے ماحول میں اصلاحِ احوال کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے باقاعدہ ایک نظم کے ساتھ مختلف روحانی و تربیتی اجتماعات میں گناہوں میں لت پت بندوں کو رجوع الی اللہ کا حقیقی پیغام توبہ و استغفار کی شکل میں صحیح فکر کے ساتھ دینا شروع کیا۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے پاکستان بھر میں اس منفرد اخلاص بھری کاوش کی اندازے سے کہیں بڑھ کر پذیرائی ہوئی اور لوگ جوق در جوق ان اجتماعات میں شرکت کرنے لگے۔ مادی تہذیب سے مرعوب نئی نسل کے نوجوان جو اخلاقی، روحانی اور تہذیبی روایات کو فراموش کرکے محض دنیوی زندگی ہی کو اپنا مرکز و محور سمجھ بیٹھے تھے، دور و نزدیک سے کشاں کشاں تحریک منہاج القرآن میں شمولیت اختیار کرنے لگے۔
شیخ الاسلام کی توبہ و استغفار کے موضوع پر رجوع الی اللہ کی اس مخلصانہ دعوت کے نتیجے میں الحمد للہ لاکھوں نوجوانوں کی زندگیاں بدل چکی ہیں اور آج وہ تحریک منہاج القرآن کے دست و بازو بن چکے ہیں۔ بلاشبہ توبہ و استغفار حقیقی سعادت و کامرانی اور اُخروی نجات کی راہ ہے۔
ایک عرصے سے اس ضرورت کو شدت سے محسوس کیا جا رہا تھا کہ شیخ الاسلام کے توبہ و استغفار کے موضوع پر کئے گئے خطابات کو کتابی شکل دی جائے تاکہ اِن کے اثرات سے ہر خاص و عام مزید مستفید ہوسکے۔ چنانچہ شیخ الاسلام کے توبہ و استغفار پر گئے گئے خطابات کو کتابی شکل دی گئی اور آج یہ کتاب ’’توبہ و استغفار‘‘ ہی کے نام سے ہر خاص و عام کی تربیت میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ ذیل میں اس کتاب کے ابواب کا ایک تعارفی خاکہ بیان کیا جارہا ہے۔
کتاب کے مندرجات
- اس تصنیف کے پہلے باب کو توبہ کے معانی کے بیان سے شروع کیا گیا ہے۔ توبہ لغوی اعتبار سے اعترافِ گناہ، احساسِ ندامت اور گناہ سے روگردانی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے سے عبارت ہے۔ علاوہ ازیں آیاتِ قرآنی کی روشنی میں توبہ کی اہمیت، حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توبہ کی اہمیت اور صحابہ و سلف صالحین کے اقوال و اعمال کی روشنی میں توبہ کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا گیا ہے۔
- دوسرے باب میں توبہ کی شرائط و فضیلت کو بیان کیا گیا ہے۔ انسان کو استقامت اور تقوی و پرہیزگاری اختیار کرتے ہوئے قلبی شہوات سے آگاہ رہنے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ جوانی میں توبہ کی فضیلت اور معانی مانگنے کے عمل سے اللہ تعالیٰ کی محبت کو بیان کرکے توبہ کی طرف رغبت دلائی گئی ہے۔ بلاشبہ توبہ روحانی مقام کی کنجی ہے۔ اسی سے ہر روحانی مقام کی ابتداء ہوتی ہے اور راہ کھلتی ہے۔
- تیسرے باب میں توبہ کے آداب کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ کوئی عمل بھی آداب بجا لائے بغیر کامیاب نہیں ہوتا۔ بعض صالحین کے قبول توبہ کے واقعات کے بیان نے اس باب کی اہمیت کو خوب اجاگر کیا ہے۔
- چوتھا باب توبہ کی اقسام اور اس کے متعلقات کو محیط ہے۔ توبہ کی عمومی اقسام توبہ النصوح، توبہ انابت، توبہ اِستجابت اور توبہ اِستحیاء ہیں۔ اس کے علاوہ درجات بندگی اور روحانی پختگی کے اعتبار سے بھی توبہ کی اقسام بیان کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں اس باب میں انسانی اعضاء سے سرزد ہونے والے گناہوں کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے تاکہ ان سے بر وقت آگاہ ہو کر ہر کوئی اپنی بخشش کا بندوبست کرسکے۔
- پانچویں باب میں توبہ اور خشیت الٰہی کو بیان کیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث اور آثار و اقوال کے ساتھ ساتھ صالحین کا اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و بکاء کے ذکر سے قارئین کے قلوب کو آتشِ شوق سے لبریز کرنے کا سامان بہم کیا گیا ہے۔
- چھٹے اور ساتویں باب میں طلب مغفرت کے مخصوص اوقات و ایام کے بیان کے ساتھ ساتھ بعض تائبین کے ایمان افروز اور روح پرور واقعات بیان کئے گئے ہیں۔
- آٹھویں باب میں غفلت سے بیداری کی شرائط اور تقاضوں کا ذکر کیا گیا ہے جس کے بغیر توبہ تکمیل پذیر نہیں ہوسکتی۔ پھر محاسبہ اور مراقبہ کی حقیقت اور اس سے متعلق ایک عمومی غلط فہمی کو دور کیا گیا ہے۔
- نویں باب میں توبہ اور دعا کے باہمی تعلق پر انتہائی اہمیت کی حامل ایمان افروز گفتگو کی گئی ہے جس سے دل خود بخود دعا کی طرف مائل ہوتا ہے۔ دعا کیا ہے! یہ ایک گنہ گار کے اعترافِ گناہ پر دل کی اتھاہ گہرایوں میں جنم لینے والی شرمندگی اور ندامت کے احساس کو زبان دینے کا نام ہے۔
- دسویں باب میں منتخب اور معروف قرآنی اور نبوی دعاؤں کا ذکر کیا گیا ہے جو قبولیت توبہ کے لئے تیر بہدف وسیلہ کا درجہ رکھتی ہیں۔
اردو زبان میں 548 صفحات پر مشتمل یہ عظیم مفصل اور ضخیم کتاب غالباً گذشتہ کئی صدیوں میں پہلی ایسی کتاب ہے جو توبہ و استغفار کے حوالے سے تمام پہلوؤں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس کے مطالعہ سے توبہ کے ذریعے رجوع الی اللہ کا داعیہ قاری کے من میں جنم لیتا محسوس ہوتا ہے اور یہی اس تصنیف کا واحد مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا ہے کہ وہ اس کوشش کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، مئی 2017
تبصرہ