اجتماعیت کی برکتیں اور رجوع الی القرآن

مورخہ: 01 جون 2017ء

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب

ترتیب و تدوین: صاحبزادہ محمد حسین آزاد الازہری
معاونت: نازیہ عبدالستار

پہلی قسط

28 رمضان المبارک 2005ء کو جامع مسجد المنہاج بغداد ٹاؤن کے شہر اعتکاف میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’اجتماعیت کی برکتیں اور رجوع الی القرآن‘‘ کے موضوع پر خصوصی خطاب فرمایا۔ اب آمدِ ماہ رمضان کی مناسبت سے جو نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔ اس خطاب کو ایڈیٹ کرکے بالاقساط شائع کیا جارہا ہے۔ جو قارئین مکمل خطاب سننا چاہیں وہ وی سی ڈی نمبر 493 سماعت کریں۔ شکریہ (منجانب: ادارہ دختران اسلام)

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْکِتٰبَ يَتْلُوْنَهُ حَقَّ تِلاَوَتِهِ ط اُولٰٓئِکَ يُؤْمِنُوْنَ بِهِ.

(البقرة، 2: 121)

’’(ایسے لوگ بھی ہیں) جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسے پڑھنے کا حق ہے، وہی لوگ اس (کتاب) پر ایمان رکھتے ہیں‘‘۔

معزز خواتین و حضرات! اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں عمل خیر پر جمع کیا۔ جمع ہونے میں برکت ہے اور پھوٹنے میں خسارہ ہے۔ اس اجتماعی اعتکاف کی بہت بڑی برکت یہ بھی ہے کہ یہ اتباع حج بھی ہے۔ یعنی حج کی پیروی ہے کس نکتے میں؟ اجتماعیت میں جیسے نماز باجماعت پڑھیں اور نماز کے لئے جمع ہوں تو اکیلے پڑھنے سے ثواب بڑھ جاتا ہے۔ جمعہ کی نماز کے لئے زیادہ لوگ جمع ہوں تو پنجگانہ جماعت سے ثواب بڑھ جاتا ہے۔ عید کے لئے اور لوگ جمع ہوں تو جمعہ سے ثواب بڑھ جاتا ہے۔ حج کے لئے پوری امت کے لوگ جمع ہوں تو کل عبادات سے ثواب بڑھ جاتا ہے۔ یہ جس تسلسل سے ثواب بڑھتا گیا اگر اس تسلسل کے بنیادی نکتہ پر غور کریں تو وہ اجتماعیت ہے۔ جیسے جیسے تعداد بڑھتی گئی ویسے ویسے ثواب بڑھتا گیا۔

اس طرح جب ہر عمل میں مل کر اکٹھا ہوکر عمل کرنے والوں کی تعداد بڑھتی رہی تو ثواب بڑھتا رہے گا لہذا اعتکاف میں بھی تعداد جتنی بڑھتی جائے گی اتنا ثواب بڑھتا جائے گا۔ یہ ثواب اجتماعیت کی برکت کا ہوگا۔ جس طرح بندے جمع ہوتے ہیں اس طرح اللہ تعالیٰ ثواب بھی جمع کردیتا ہے۔ اللہ کو مخلوق کے جمع ہونے سے محبت ہے اور اپنی ذات کے لئے اس نے تنہائی رکھی ہے اور سورہ فاتحہ میں تلقین فرمائی:

اِيَاکَ نَعْبُدُ وَاِيَاکَ نَسْتَعِيْنُ.

(الفاتحه، 1: 4)

’’(اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں‘‘۔

اگر آپ اکیلے بھی نماز پڑھ رہے ہوں تو آپ الفاظ بدل کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد مانگتا ہوں۔ اگر اکیلے بھی ہیں تو فرمایا کہو ایاک نعبد جمع کا صیغہ استعمال کرو اور کہو وایاک نستعین یہاں بھی جمع کا صیغہ استعمال کرو کیونکہ اس میں بڑی برکت ہے۔

اب آپ بھی اپنی جمع کی ہوئی برکت کو بڑھانا چاہتے ہیں تو آپ بھی ہر سال اس عمل جمع کو اور بڑھائیں۔ اس عمل کو جاری رکھیں اور تعداد کو جمع کرتے چلے جائیں کیونکہ جہاں لوگ اللہ کی عبادت کے لئے اور اللہ کے ذکر کے لئے جمع ہوجاتے ہیں وہیں فرشتے بھی آکر جمع ہوجاتے ہیں۔ یہ پھر مزید اضافے کی بات ہے کیونکہ فرشتوں کا کوئی عدد مقرر نہیں ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے بے حساب اور لاتعداد فرشتے مقرر کئے ہیں جو زمین پر گلی کوچوں میں اور راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اور تلاش کرتے ہیں کہ لوگ اللہ کے ذکر اور عبادت کے لئے کہاں جمع ہیں؟ وہ مجالس الذکر و حلقات ذکر کو تلاش کرتے ہیں اور جہاں لوگ اللہ کے ذکر اور عبادت کے لئے جمع ہوتے ہیں وہاں فرشتے ایک دوسرے کو آوازیں دیتے ہیں کہ آجاؤ مراد مل گئی۔ یعنی آپ کا جمع ہونا فرشتوں کی مراد ہے۔

ایک بات یاد رکھ لیں سب کچھ جمع ہونے سے ملتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب حضرت خضر علیہ السلام کو پانے کے لئے ان کی تلاش میں نکلے تو وہ بھی انہیں وہاںملے جہاں دو دریا جمع ہورہے تھے اور جہاں دریا جمع ہورہے تھے حضرت خضر علیہ السلام نے اسی جگہ کو پسند کیا یعنی جہاں جمع تھی وہاں ٹھکانہ بنایا۔ اس کا مطلب یہ ہے جہاں بہت سے وجود جمع ہوجائیں وہاں اللہ والے بھی ملتے ہیں۔ وہاں برکت ہوتی ہے۔ کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا ذکر اللہ کو زیادہ پسند ہوتا ہے اور وہ اس سے راضی ہوجاتا ہے تو پھر آسمانوں کے سارے دروازے کھول دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ان پر بارش کردو لہذا اس سے وہ ساروں کو نہلا دیتا ہے۔ جہاں دو دریا جمع ہوئے وہاں موت بھی زندگی میں بدل گئی۔ کیونکہ وہاں مردہ مچھلی زندہ ہوگئی تھی تو پتہ چلا تفرق موت ہے اور جمع حیات ہے۔ یہ تصوف کا نیا باب ہے اور کسی جماعت سے منسلک ہونے کی ضرورت کا تصور ہے۔ اسی جمع سے جماعت ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

وعلیکم بالجماعۃ.

(سنن ترمذی، ج4، ص465، حديث: 2165)

یعنی لوگو! تنہا تنہا مت پھرو کسی جماعت سے چمٹ جاؤ (وابستہ ہوجاؤ) اور جماعت کا دامن تھام لو۔ امت کے اندر جماعت سے مراد سواد الاعظم ہے جو سب سے بڑی جماعت ہے۔

(سنن ابن ماجه، ج2، ص1303، حديث: 3950)

عقیدہ کے اعتبار سے فرمایا جو چھوٹے چھوٹے ہوں وہ شیطان کے راستے ہیں ادھر نہ جاؤ، اس کو فرمایا ’’الفرقہ‘‘ (وہ تفرقہ ہے) اور ’’الجماعہ‘‘ جہاں زیادہ لوگ جمع ہوں وہ سواد الاعظم ہے۔ وہ حق پر ہے۔ لہذا جماعت کا دامن تھام لو۔ کیوں؟ آقا علیہ السلام نے فرمایا کیونکہ یداللہ علی الجماعۃ.

(سنن ترمذی4، ص466، حديث: 2167)

جہاں جماعت ہوتی ہے وہاں اللہ کا ہاتھ ان کے سر پر ہوتا ہے (اللہ کی حفاظت کا ہاتھ ان کے سر پر ہوتا ہے) سو آپ لوگوں کو جمع کیا کرو اور جمع میٹھی زبان سے ہوتے ہیں کڑوی زبان سے نہیں ہوتے۔ اپنے کردار میں اخلاق اور پیار کا اضافہ کریں اور جو لوگ منسلک نہیں ہیں وہ کسی جماعت سے منسلک ہوجائیں۔ ’’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ کے مصداق یہ میری نصیحت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان بھی ہے کہ اجتماعیت کے ساتھ چلو تنہا نہ چلو اور قرآن نے بھی ارشاد فرمایا:

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ يَدْعُوْنَ اِلَی الْخَيْرِ.

(آل عمران،3: 104)

’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں ‘‘۔

تنہا رہنے میں خیر نہیں جبکہ جماعت کے ساتھ رہنے میں خیر، برکت اور حفاظت ہے۔ میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ہماری جماعت منہاج القرآن سب سے اچھی ہے۔ سب سے اچھی وہ ہے جو اللہ کی نگاہ میں اچھی ہے۔ آپ ہر ایک کو جانچ لیں اور پرکھیں جو اچھی لگے اس کے ساتھ مل جائیں۔ کسی جماعت کو پرکھنے کے لئے دو پیمانے یا دو چیزیں بنیادی ہوتی ہیں۔ ایک اس جماعت کا مشن، اس کا نظریہ اور اس کا عقیدہ کیا ہے؟ دوسری اس کی قیادت کیونکہ جماعت کا کوئی وجود نہیں ہوتا اس کی قیادت کے بغیر۔ لہذا یہ دیکھیں کہ جس نے اس جماعت کو لے کر چلنا ہے وہ طاقتور ہے یا کمزور؟ کیونکہ اس نے صرف دنیا میں نہیں بلکہ آخرت کے دن بھی کام آنا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں اللہ پاک نے فرمایا:

يَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اُنَاسٍم بِاِمَامِهِمْ.

(بنی اسرائيل،17: 71)

’’وہ دن (یاد کریں) جب ہم لوگوں کے ہر طبقہ کو ان کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے‘‘۔

یعنی قیامت کے دن تمام گروہوں اور جماعتوں کو ان کے قائد، لیڈر اور پیشوا کے نام سے بلایا جائے گا۔ دوسرا قیادت ہے کیونکہ قیادت امامت ہے۔ لہذا جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیئے ہوئے پیمانہ پر پورا اتریں۔ بس اس کو چن کر اسی کے ساتھ ہوجائیں۔ اسی کو رفاقت کہتے ہیں جب ساتھ ہوگئے تو رفاقت ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ ایسی رفاقتوں کو پسند کرتا ہے اور فرمایا:

وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِيْقًا.

(النساء، 4: 69)

’’انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں‘‘۔

اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ یہ کتنے اچھے رفیق ہیں۔ اس لئے کہ اللہ کو رفاقت پسند ہے یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کو کوئی اور نام نہیں دیا بلکہ صحابی کا نام دیا ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنگت والے اور صحبت والے ہیں۔ یہ رفاقت ہے اس سے بڑی کوئی شے نہیں ہے لہذا جہاں دل مطمئن ہو وہاں رفاقت و سنگت اختیار کرلیں۔ بس یہ نصیحت ہے کہ تنہا نہ رہیں کیونکہ تنہائی میں ایمان کا خطرہ ہے اور اجتماعیت میں حفاظت ہے۔

اللہ رب العزت نے فرمایا:

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْکِتٰبَ يَتْلُوْنَهُ حَقَّ تِلاَوَتِهِ ط اُولٰٓئِکَ يُؤْمِنُوْنَ بِهِ.

(البقرة، 2: 121)

’’(ایسے لوگ بھی ہیں) جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسے پڑھنے کا حق ہے، وہی لوگ اس (کتاب) پر ایمان رکھتے ہیں‘‘۔

ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں ہم نے کتاب دی۔ (یعنی قرآن) پھر وہ لوگ اس کی تلاوت یوں کرتے ہیں جیسے تلاوت کرنے کا حق ہوتا ہے۔ (یعنی اس کو یوں پڑھتے ہیں جیسے پڑھنے کا حق ہے۔) یہی لوگ ہیں جنہوں نے اس پر ایمان لانے کا بھی حق ادا کیا ہے۔ اسی طرح اللہ رب العزت نے حضور علیہ السلام کی بعثت کا بیان کرتے ہوئے قرآن مجید میں چار مقاصد بیان کئے ہیں اور چاروں میں ہر جگہ سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کا مقصد یہ بیان کیا ہے۔ ’’یتلوا علیکم ایاتنا‘‘۔ ’’تمہارے اوپر ہماری کتاب کی آیات تلاوت فرماتے ہیں‘‘۔ قرآن کی آیات کی تلاوت کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مذہب قرار دیا گیا ہے۔ اب غور کریں اگر آپ قرآن کی تلاوت کثرت سے کریں گے تو آقا علیہ السلام کے اس منصب سے حصہ اور فیض پائیں گے یا نہیں۔

لہذا تلاوت قرآن کو معمولی چیز نہ سمجھو یہ منصب رسالت کا حصہ ہے۔ اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوسرا منصب ہے۔ ویعلمہم الکتاب پھر انہیں قرآن کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔ لہذا تلاوت قرآن اور تعلیم قرآن یہ آقا علیہ السلام کے منصب نبوت کا حصہ ہیں۔ اگر آپ قرآن سے ربط اور تعلق پیدا کریں گے اگر قرآن کی تلاوت کرکے اس کا ترجمہ کرکے پڑھیں گے اور سمجھیں گے تو آقا علیہ السلام کے مناصب جلیلہ میں سے آپ کو فیض، حصہ اور برکت ملے گی۔ گویا قرآن بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی جوڑتا ہے اور بارگاہ الہٰی سے بھی جوڑتا ہے۔ پھر قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ساتویں پارے کے آغاز میں بڑے پیار کی بات کرتے ہوئے کچھ سچے عیسائی اہل کتاب کی تعریف کی ہے اور فرمایا ہے:

وَاِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْيُنَهُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ ج يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِيْنَ.

(المائدة، 5: 83)

’’اور (یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بعض سچے عیسائی) جب اس (قرآن) کو سنتے ہیں جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اتارا گیا ہے تو آپ ان کی آنکھوں کو اشک ریز دیکھتے ہیں۔ (یہ آنسوؤں کا چھلکنا) اس حق کے باعث (ہے) جس کی انہیں معرفت (نصیب) ہوگئی ہے۔ (ساتھ یہ) عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم (تیرے بھیجے ہوئے حق پر) ایمان لے آئے ہیں سو تو ہمیں (بھی حق کی) گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ لے‘‘۔

یعنی جب وہ بعض عیسائی قرآن کو سنتے ہیں تو ان کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈب ڈبا جاتی ہیں اور آنسو گرنے لگ جاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے رونے کی کیفیت اتنی پسند آگئی کہ قرآن کا مضمون بنادیا اور انہیں توفیق نصیب ہوئی کہ وہ ایمان لے آئے۔ انہوں نے حق کو پہچان لیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ جو ایمان والے ہیں۔ ان کی علامت یہ ہے کہ جب وہ قرآن سنتے ہیں تو ان کے ایمان بڑھ جاتے ہیں۔ لہذا کوئی کمزوری جو ہمارے ناقص عمل کی وجہ سے رہ جاتی ہے وہ قرآن کی آیتوں کی تلاوت سے ختم ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ اللہ کا ذکر سنتے ہیں تو ان کے دل لرز جاتے ہیں۔ جس کے بارے میں دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُکِرَ اﷲُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيٰـتُهُ زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا.

(الانفال، 8: 2)

’’ایمان والے (تو) صرف وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلامِ محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں ‘‘۔

یعنی جب ان پر اللہ کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو آیتیں ان کے ایمان کو بڑھا دیتی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے تمہارے پاس دو چیزیں بھیجی ہیں۔

قَدْ جَآئَکُمْ مِّنَ اﷲِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِيْنٌ.

(المائدة، 5: 15)

’’بے شک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)‘‘۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نور فرمایا کہ اللہ کی طرف سے تمہارے پاس ایک نور آیا ہے اور دوسری روشن کتاب آئی ہے یعنی قرآن۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو نور ہدایت کا سرچشمہ قرار دیا ہے۔ پھر سورہ آل عمران میں فرمایا:

وَکَيْفَ تَکْفُرُوْنَ وَاَنْتُمْ تُتْلٰی عَلَيْکُمْ اٰيٰتُ اﷲِ وَفِيْکُمْ رَسُوْلُهُ.

(آل عمران، 3: 101)

’’اور تم (اب) کس طرح کفر کرو گے حالاں کہ تم وہ (خوش نصیب) ہو کہ تم پر اللہ کی آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں اور تم میں (خود) اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں‘‘۔

ارشاد فرمایا: لوگو! تم کبھی کافر نہیں ہوسکتے، بہک نہیں سکتے، گمراہ نہیں ہوسکتے، پھسل نہیں سکتے اور ہدایت ربانی سے محروم نہیں ہوسکتے اگر دو شرائط پر تم پورے اترتے رہو۔ ایک تم پر میری آیتیں تلاوت ہوتی رہیں اور تم قرآن کو سنتے رہو۔ اور دوسرا یہ عقیدہ، احساس، تصور اور کیفیت تمہاری رہے کہ رسول ہمارے اندر ہیں یعنی ہم میں رسول موجود ہیں۔ موجود ہونے سے مراد ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے ساتھ تمہارا رجوع، ربط اور تعلق زندہ و تابندہ ہونا چاہئے۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے living relationship رکھو۔ ایسے داستانی، حکایتی اور روایتی تعلق نہ رکھو بلکہ حقیقی تعلق رکھو۔ فیکم کا مطلب یہ ہے زندہ تعلق رکھو تاکہ تمہیں احساس ہو کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کی برکتیں نصیب ہوں گی۔ فرمایا: اگر ہدایت کے ان دو چشموں پر تمہاری نگاہ رہے اور تمہارا عمل رہے اور تمہارا ہاتھ رہے اور تمہارا تمسک رہے تو تم کبھی گمراہ نہیں ہوسکتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کے لئے کہا:

اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَهْدِيْ لِلَّتِيْ هِيَ اَقْوَمُ.

(بنی اسرائيل، 17: 9)

’’بے شک یہ قرآن اس (منزل) کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو سب سے درست ہے‘‘۔

اگر کوئی چاہتا ہے کہ ایسی پختہ ہدایت کی راہ پر چلے اور پکی سڑک پر چلے جہاں کیچڑ نہ ہو، جہاں پھسلن نہ ہو جہاں انسان دب نہ جائے، بہک نہ جائے اور چاہتا ہے کہ پختہ ہدایت کی راہ پر چلتا رہے تو فرمایا یہ قرآن ہے جو تمہیں عطا کردیا اور دوسرا وفیکم رسولہ اور ہاتھ دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رہے۔ پھر تمہیں دنیا کی کوئی طاقت بہکا نہیں سکتی۔ یہی مشن ہے منہاج القرآن کا، منہاج القرآن کے مشن کے یہ تین تمسکات ہیں۔ اگر ایک جملے میں مکمل کروں تو یوں ہے کہ دھیان صرف مولا کی طرف رہے۔ ہاتھ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن اور قدموں پر رہے اور راستہ قرآن کا رہے۔ پھر دنیا کی کوئی طاقت آپ کو راہِ مستقیم سے ہٹا نہیں سکتی۔ الحمدللہ یہ واحد مشن ہے جس میں یہ تین تمسکات رجوع الی اللہ (تمسک باللہ) رجوع الی الرسول (تمسک بالرسول)، رجوع الی القرآن (تمسک بالقرآن) اپنے شباب پر یکجا ہیں۔ (جاری ہے)

ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، جون 2017

تبصرہ

تلاش

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top