واقعۂ کربلاء درحقیقت اذیت رسول اﷲ ہے
تحریر: عین الحق بغدادی
دنیا میں آقا علیہ السلام کی بعثت سے پہلے اور بعد بے شمار شہادتیں ہوئیں صحابہ کرام، تابعین اور بعد کے آنے والے ادوار میں آج تک بڑے بڑے اکابرین امت شہادت سے سرفراز ہوتے رہے لیکن کسی شہادت کو وہ شہرت اور دوام نہ مل سکا جو شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے حصے میں آئی۔ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے دراصل سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک باب ہے۔ شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ میں کمال نبوتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اظہار اپنی پوری آب و تاب سے ہوتا ہے۔ اس لئے اس شہادت کو امام حسین رضی اللہ عنہ کی شخصیت کے تناظر میں نہیں آئینہ کمالاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دیکھا جائے تو پھر اس کی عظمت سمجھ میں آتی ہے۔
کسی بھی ہستی کے ساتھ تعلق کی دو شکلیں ہوتی ہیں: ایک یہ کہ اُس کے اَحکامات اور تعلیمات پر عمل کرنا اور اس کی پیروی کرنا، دوسرا یہ کہ اُس کی ذات اور شخصیت کے ساتھ قلبی و روحانی تعلق استوار کرنا اور دل و دماغ میں اس کے اکرام و احترام کو جاگزیں کرنا۔ اِسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعلق کی بھی دو نوعیتیں ہیں: ایک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس ہے اور دوسری آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات ہیں۔ تعلیمات سے پیروی اور اتباع کا تعلق ہوتا ہے اور وہ عبادات اور اَعمال کی بجاآوری کی صورت میں ہوتا ہے، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس سے تعلق والہانہ محبت و عقیدت اور بے پناہ ادب و اِحترام کی شکل میں ہوتا ہے۔ اِس پس منظر میں درج ذیل آیاتِ قرآنی ملاحظہ فرمائیں:
’’بے شک اللہ اور اس کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ ا) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔ بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لیے ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اور جو لوگ مومِن مَردوں اور مومِن عورتوں کو اذیتّ دیتے ہیں بغیر اِس کے کہ انہوں نے کچھ (خطا) کی ہو تو بے شک انہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (اپنے سَر) لے لیا۔‘‘
الاحزاب، 33: 56-58
غور کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ تعلق کی اَصل اور بنیاد عمل نہیںبلکہ محبت ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا اظہار کرنے کے لیے درود و سلام کا عمل چنا اور س عمل میں اپنے ساتھ فرشتوں اوراہلِ ایمان کو شامل کیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا۔‘‘
الانشراح، 94: 4
یہ سب کچھ اِس لیے کیا تاکہ اﷲ تعالیٰ کا حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی ہوجائے۔ اِس سے پتہ چلا کہ وہ عمل جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کرنے کے لیے کیا جائے اُس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راحت ہوتی ہے۔ اِس کے برعکس سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 56 کا اگلی آیات سے ربط ملاحظہ کریں تو یہ مضمون کاملاً سمجھ میں آجائے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لیے ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
(الاحزاب، 33: 57)
اﷲ تعالیٰ اذیت سے پاک ہے۔ یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ جو اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں، اُسے ناراض کرتے ہیں مگر اﷲ تعالیٰ کو اذیت نہیں دی جا سکتی کیونکہ اس کی ذات اذیت سے پاک ہے۔ گویا آیت مذکورہ میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی اذیت کو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذیت سے جوڑ دیا۔ کہ جو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دیتا ہے وہ اﷲ تعالیٰ کو اذیت دیتا ہے، اور جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف پہنچائے دنیا و آخرت میں دونوں جگہ اﷲ تعالیٰ اُس پر لعنت بھیجتا ہے۔ یعنی رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینے والے کے لیے دنیا و آخرت میں لعنت کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ قرآن کے مطابق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اَزواجِ مطہرات سے نکاح اِس لیے ممنوع فرما دیا گیا کہ اِس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت ہوگی اور یہ حکم کسی عرصے کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات بھی ابدی ہے اور احساسات، خوشی و اذیت بھی ابدی ہے۔ جس طرح حیاتِ طیبہ میں اذیت پہنچتی تھی اُسی طرح حیاتِ طیبہ کے بعد ابد الآباد تک پہنچتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلق اور نسبت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس شہر اور اس کے اہالیان کی حرمت اور ادب و احترام بھی واجب ہے اور جو کوئی اس کا خیال نہ رکھے اس سے بھی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت پہنچتی ہے۔ چنانچہ شہر مدینہ کے تقدس اور فضائل میں وارِد کثیر اَحادیث میں سے چند ایک درج ذیل ہیں جن سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر کی بے حرمتی کرنے والے کی تمام عبادتیں ردّ کر دی گئیں اور ساکنانِ مدینہ سے برائی کا اِرادہ کرنے والے کو اﷲ تعالیٰ اِس طرح پگھلائے گا جس طرح نمک پانی میں پگھل جاتا ہے ۔ اگر ساکنانِ مدینہ کے ساتھ اذیت کا حال ہے تو پھر جو شخص رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دے اُسے کیوں کر بخشا جا سکتا ہے!صحیح مسلم میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اہلِ مدینہ کو تکلیف دینا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ دوزخ میں اسے اس طرح پگھلائے گا جس طرح آگ میں سیسہ پگھلتا ہے یا جس طرح پانی میں نمک پگھلتا ہے۔‘‘ اس روایت میں اہلِ مدینہ سے برائی کرنا تو درکنار برائی کا اِرادہ کرنے والے کو بھی جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔ اِس پس منظر میں دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گلشن سے کوئی ایک پھول بھی توڑ دے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گوارا نہیں، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت ہوتی ہے۔ ان فرامین کی روشنی میں پھر ہم کیا جانے کہ نواسۂ رسول، جگر گوشۂ بتول امام حسین علیہ السلام کے سامنے اُن کے خاندان کے اوراُن کے دیگر ساتھی ایک ایک کر کے شہید کر دیے جائیں، علی اکبر کو شہید کر دیا جائے، امام عالی مقام کا سر مبارک تن سے جدا کر کے نیزے کی نوک پر لٹکایا جائے اور حضرت سکینہ کو صحرائے کربلا میں رُلا دیا جائے تو کیا وہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت نہیں ہوگی؟ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا اِس سے بڑی بھی کوئی اذیت ہو سکتی ہے؟ اِسی بنا پر اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینے والے پر لعنت کی۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ شہرِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہریوں پر ظلم روا رکھنے والے کی عبادتیں بھی قبول نہیں ۔ پس جس شخص نے مدینہ شہر کی بے حرمتی کی اُس کی سزا یہ ہوگی کہ اُس کی ساری عبادتیں ردّ ہو جائیں گی۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور حضرت سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کیا: ’’اے اللہ! جو بھی اہلِ مدینہ پر ظلم کرے یا انہیں ڈرائے تو تو اسے ڈرا۔ اور اس پر اللہ تعالیٰ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ اس سے اللہ تعالیٰ فرائض قبول فرمائے گا نہ نوافل۔ ‘‘ (طبرانی، المعجم الکبیر)یزید کے لشکر نے مسجدِ نبوی میں گھوڑے باندھے،تین دن کے لیے اذان اور امامت بند کروا دی،تین دن کے لیے شہرِ نبی کو اس بد بخت لشکر کے لیے حلال کر دیا گیا،اہلِ مدینہ پر وہ ظلم ڈھائے جنہیں بیان کرنے سے صاحبِ ایمان حیا کرتا ہے۔ ان ارشادات کی روشنی میں یزیدی لشکر اور اُسے بھجنے والے کبارے میں آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں، کیونکہ نصوصِ قطعیہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن حکیم میں کس کس بات پر اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینے والوں پر لعنت کی ہے اور کس کس فعل کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے باعثِ اذیت قرار دیا ہے۔ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 61 میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اور جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (اپنی بد عقیدگی، بد گمانی اور بدزبانی کے ذریعے) اذیت پہنچاتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘
لہٰذا آقاے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کی بنا پر اُن نفوسِ قدسیہ یعنی اہل بیتِ اَطہار کی اذیت بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذیت ہے، ان سے محبت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہے، ان کی خوشی اور راحت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی اور راحت ہے، انہیں تکلیف اور اذیت دینا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف اور اذیت دینا ہے، پس انہیں اذیت دینے والے جنت سے دور ہو گئے اور دوزخ کے حق دار بنے۔ ان پر لعنت ہوئی کیونکہ یہ نفوسِ قدسیہ خود ساری جنت کے مالک اور وارِث ہیں۔ اِس کی وضاحت ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد مبارک سے ملتی ہے۔ حضرت مِسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’میری جان کے دو حصے فاطمہ ہے۔ ‘‘
’’صحیح مسلم‘‘ میں ہے حضرت مِسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’میری بیٹی میرے جسم کا دوتہائی حصہ ہے، اُس کی پریشانی مجھے پریشان کرتی ہے اور اُس کی تکلیف مجھے تکلیف دیتی ہے۔ ‘‘
اِن تمام احادیث میں ایک ہی نکتہ بیان ہوا ہے کہ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیھا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کا دہ تہائی حصہ ہیں۔ جو سیدہ کو اذیت و تکلیف دے وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دیتا ہے، اور اﷲ تعالیٰ نے کہا کہ جو میرے حبیب کو اذیت دے وہ ملعون اور جہنم کا ایندھن ہے۔ حضرت ابو حنظلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’فاطمہ تو میرے جسم کا دو تہائی حصہ ہے، جس نے اسے ستایا اُس نے مجھے ستایا۔ ‘‘ (مسند احمد بن حنبل)
اہلِ بیتِ اَطہار کا دشمن رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمن ہے۔ جو کوئی بدبخت اِن ہستیوں کے ساتھ جنگ کرے گا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے ساتھ جنگ کریں گے اور جو اِن نفوسِ قدسیہ کے ساتھ صلح کرے گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اُس سے صلح فرمائیں گے۔ ایک حدیث میں تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں تک فرما دیا: ’’جو ہمارے اہلِ بیت سے بغض رکھے وہ منافق ہے۔ ‘‘ (مسند احمد بن حنبل)
اِسی طرح سیدنا علی کرم اﷲ وجھہ کا فرمان ہے: ’’کبھی کوئی منافق ہم سے محبت نہیں کر سکتا اور کوئی مومن ہم سے بغض نہیں رکھ سکتا۔ ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ)
اہلِ بیتِ اَطہار کے فضائل و مناقب کے ضمن میں وارِد مذکورہ بالا تمام اَحادیث شیعہ مکتبِ فکر کی نہیں بلکہ اہلِ سنت و جماعت کی کتب سے ہیں۔ اہلِ سنت وجماعت کے ائمہ اَحادیث نے انہیں نقل کیا ہے۔ اِن فرامینِ مقدسہ کے بعد اہلِ بیتِ اَطہار کو اذیت دینا اور مسلمانی کا دعویٰ کرنا اور پھر جنت کی توقع رکھنا
ایں محال است و خیال است و جنوں
ایک بات ذہن نشین رہے کہ سنیت عشقِ مصطفی ا، محبتِ اہلِ بیت اور تعظیمِ صحابہ کا نام ہے۔ جس نے اہلِ بیت اور صحابۂ کرام سے محبت کی وہی حقیقی اہل سنت ہے۔ جن لوگوں کے دل اہلِ بیت کی محبت سے خالی تھے اُنہوں نے ہر دور میں محبانِ اہلِ بیت پر شیعہ ہونے کا الزام لگایا، یہ الزام سراسر فتنہ اور بدبختی ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ پر محبتِ اہلِ بیت کے ’’جرم‘‘ میں شیعہ ہونے کا الزام لگایا گیا۔ اہلِ سنت و جماعت کے بقیہ تین ائمہ - امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل ث - بھی اِس اِلزام سے نہ محفوظ رہے۔ امام شافعی جو اپنے وقت کے مجدد اور قطب ہوئے کو تو یہاں تک کہا گیا کہ یہ صرف شیعہ ہی نہیں بلکہ رافضی بھی ہیں۔ امام شافعی نے اس کے جواب میں جو شعر پڑھا اس کا مفہوم ہے: محبتِ اہلِ بیت میرا مذہب ہے، اگر اہلِ بیت کی محبت سے بندہ رافضی ہوتا ہے تو دنیا میں مجھ سے بڑا رافضی کوئی نہیں۔
اہل بیت کی محبت کو دل میں جاگزیں کرنے سے ہی حضورنبی اکرم اسے تعلق اورمحبت نصیب ہوتی ہے اس محبت کو استقامت سے بڑھاتے جانے کی محنت سے ایمان کو جلا ملتی ہے اسلامی شعائر پر عمل کرنے کی توفیق نصیب ہوتی بلکہ ایمان کو تروتازگی اور بہار نصیب رہتی ہے اور باطنی دنیا سے خزاں ہمیشہ کے لئے رخصت ہو جاتی ہے۔ لہذا ہمیں پورا سال بالعموم اور ماۂ محرم میں بالخصوص وقعۂ کربلاء کو زندہ رکھ کر آلِ بیت سے محبت کا ثبوت دینا چاہیے۔
تبصرہ