میثاقِ مدینہ کی روشنی میں پاکستانی معاشرے کی تشکیلِ نو

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

انسان کی یہ فطرت رہی کہ اگر اسے آزاد اور بے لگام چھوڑ دیا جائے تو اس کے شہوانی جذبات ابھر جاتے ہیں اور یہ شتر بے مہار کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اگر اسے ایک ضابطے میں رکھا جائے تو یہ دل و دماغ کو حد میں رکھتا ہے۔ گویا ضابطے کا عمل تہذیب کا نقطۂ آغاز ہے۔ ضابطے جب ترقی کرتے ہیں تو قانون بنتے ہیں اور یہ قانون بڑھتے بڑھتے ایک میثاق یا آئین کے درجے کو چھو لیتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی، خوش حالی اور امن و امان کی صورت حال اس معاشرے میں قانون کی عمل داری کو ظاہر کرتی ہے۔ کسی معاشرے میں جس قدر قانون کی عمل داری ہوگی، معاشرے میں اُسی قدر عدل و انصاف، آسودگی اور امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوگی۔

یوں تو انسان نے اوائل زمانے ہی سے بقاے انسانی اور مل جل کر رہنے کے لیے کسی نہ کسی حد تک آپس میں ضابطے طے کر لیے ہوں گے۔ جیسے جیسے انسانی ترقی ہوتی چلی گئی، ویسے ویسے یہ ضابطے بھی ترقی کے مدارج طے کرتے چلے گئے۔ صدیوں پر صدیاں گزرتی چلی گئیں اور حضرت آدم e سے لے کر حضرت عیسیٰ e تک تمام نبی اپنی اپنی امتوں کو تہذیب و اخلاق سکھاتے گئے، مگر قابلِ غور بات یہ ہے کہ ہزاروں سال گزر جانے کے باوجود ضابطوں کا یہ عمل ابھی انفرادیت کی حد تک ہی چل رہا تھا اور روئے زمین پر کہیں بھی معاشرتی سطح کو نہیں چھو سکا تھا۔

آخر بشریت اپنے اوجِ کمال کو اس وقت پہنچی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہِ صفا پر اپنی بعثت کا اعلان فرمایا۔ اس کے ساتھ ہی انسانیت کے کمال کا دور شروع ہوا۔ یہ دور اپنے اوج پر اس وقت پہنچا جب آفتابِ رسالت مدینہ منورہ میں طلوع ہوا۔ اس وقت کا یثرب گوناگوں مسائل کا شکار تھا اور یہاں دو قسم کے لوگ موجود تھے:

  1. قبائلِ اوس و خزرج کے سادہ لوح کاشت کار، جنہیں بعد میں انصارِ مدینہ کا لقب ملا۔
  2. یثرب کی معیشت پر قابض یہودی۔

یثرب میں آباد یہودی تیز اور موقع شناس تھے جب کہ اوس و خزرج کے لوگ سادہ لوح تھے؛ جو کہ قوت، طاقت اور بہترین معاشی وسائل رکھنے کے باوجود آپس میں لڑتے رہتے تھے اور یہودی ان کے خلفشار سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے تھے۔ رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ ہجرت کے بعد انصارِ مدینہ نے انہیں اپنا نجاتِ دہندہ سمجھتے ہوئے سر آنکھوں پر رکھا اور گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ ہادیِ برحق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہرِ مدینہ کو باضابطہ چلانے اور دشمنوں کی جانب سے مستقل خطرے کا سدِ باب کرنے کے لیے، معاشرے کے تمام فریقین یہود، مشرکین اور مسلمانوں کو نظم کی ایک لڑی میں پرو دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ کاوش محض زبانی کلامی نہیں بلکہ یہ تاریخِ انسانیت میں پہلا باضابطہ دستور تھا، جسے ’میثاقِ مدینہ‘ کا نام دیا گیا۔

میثاقِ مدینہ کی اہمیت محض تاریخِ اسلام میں ہی جاوداں نہیں بلکہ پوری تاریخِ انسانیت ایسی روشن مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ میثاقِ مدینہ محض ایک روایتی معاہدہ نہ تھا بلکہ یہ ایک سماجی، دفاعی، فلاحی اور عوامی میثاق تھا۔ اس تاریخی میثاق نے مدینہ کے شہریوں کو نئی دنیا سے متعارف کرایا۔ ہر طرف امن و امان، خوش حالی اور بھائی چارہ کی بادِ بہاری چلتی دکھائی دے رہی تھی اور لوگوں کے چہروں پر خوشیوں، مسرتوں اور اخوت کے پھول کھلتے نظر آرہے تھے۔ اس لحاظ سے میثاقِ مدینہ نہ صرف مدینہ کی پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد بنا بلکہ مصطفوی انقلاب کا پیش خیمہ بنا۔

اگر ہم ہجرتِ مدینہ سے قبل کے یثرب کے ساتھ موجودہ پاکستانی معاشرے کا موازنہ کرتے ہیں تو بہت سے مشترکہ حقائق دکھائی دیتے ہیں۔ اس حوالے سے میثاقِ مدینہ کے 63 آرٹیکلز میں سے صرف چند آرٹیکلز کی روشنی میں موجودہ گھمبیر صورتِ حال کے ساتھ تقابلی جائزہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ موجودہ پاکستانی معاشرہ میثاقِ مدینہ سے پہلے کے یثرب سے کس حد تک مماثلت رکھتا ہے اور ان حالات میں میثاقِ مدینہ کی روشنی میں ایک ضابطہ اخلاق طے کرنے کی کس حد تک ضرورت ہے؟

1۔ پاکستانی معاشرہ میں فکری وحدت کا فقدان:

جب ہم پاکستانی معاشرے کا گہری نظر سے موازنہ کرتے ہیں تو اس کا شیرازہ بکھرا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں اس میں نہ قومیت نظر آتی ہے اور نہ ہی جمہوریت دکھائی دیتی ہے۔ یہاں نہ تو اِتحادِ امت کا کوئی تصور نظر آتا ہے اور نہ ہی مذہبی ہم آہنگی عمل پیرا نظر آتی ہے۔ اس میں نہ تو بین المذاہب رواداری کا کوئی عکس دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی دستور کی عملی شکل اور اطلاق نظر آتا ہے۔ نہ ہی ریاست کا احترام ملحوظِ نظر رکھا جاتا ہے اور نہ ہی آئینی طبقات کی یکجائیت کا کوئی عملی تصور دکھائی دیتا ہے۔ مملکتِ خدادا پاکستان میں نہ تو فرائض کی ادائیگی کا التزام ہے اور نہ ہی حقوق کے مساویانہ نظام کا انتظام۔ یہاں نہ تو معاشی کفالت کا انتظام ہے اور نہ ہی سماجی فلاح و بہبود کا کوئی مثالی ڈھانچہ موجود ہے، حتی کہ بنیادی انسانی حقوق کی سرے سے کوئی ضمانت ہی نہیں ہے۔

ہاں اگر ایسا ہے تو صرف دستور کی حد تک ہے جو کہ تحریری طور پر کتابی شکل میں موجود ہے۔ ہمیں وہ دستور عملی طور پر کسی شکل میں اُس طرح نظر نہیں آتا کہ ہر شہری کو مذہب یا رنگ و نسل کی تفریق کے بغیر یکساں حقوق میسر ہوں۔ یہاں کسی کو مال و جان کا یقینی تحفظ نہیں ہے، کیوں کہ نہ تو یہاں امن ہے اور نہ ہی امان۔ نہ یہاں امن کی کوئی ضمانت دی جا سکتی ہے اور نہ ہی جان و مال کی حفاظت کی۔ نہ یہاںکسی کی عزت کا تحفظ ہے اور نہ ہی کسی کی آبرو کا۔ ایسا کہتے ہوئے ہمیں بہت دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں،جہاں ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا قانون رائج ہے۔

بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے جب بطور گورنر جنرل حلف اٹھایا تو متحدہ ہندوستان کے آخری وائسرے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا: ’میں آپ سے اپیل کروں گا کہ آپ پاکستان میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے نظام کو نافذ کریں، جس کے اندر رواداری بھی تھی، اخوت بھی تھی، بھائی چارہ بھی تھا اور انسانیت کی خیرخواہی بھی موجود تھی۔‘

قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کا جواب کچھ یوں دیا: ’مجھے کسی اکبر کی طرف دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں پاکستان میں ریاستِ مدینہ کا وہ نظام نافذ کروں گا جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ سو سال قبل میثاقِ مدینہ کی صورت میں نافذ فرمایا تھا۔‘

اندازہ کیجیے کہ قائداعظم کا یہ خواب تھا جس کے تحت لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کے نفاذ کی خاطر یہ خطۂ پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ آج ہم پاکستان کو دیکھتے ہیں تو وہی صورتِ حال واضح ہوتی ہے جومدینہ کی تاریخ میں جنگِ بُعاث کے موقع پر دکھائی دیتی تھی۔ یہ جنگ اس قدر ہولناک اور خون ریز تھی کہ قبیلہ اَوس اور قبیلہ خزرج کے تقریباً تمام نامور بہادر میدانِ جنگ میں کام میں آگئے تھے۔ اس قدر جانی نقصان کے سبب دونوں قبائل کی افرادی قوت جاتی رہی اور وہ جلد ہی ہر شعبہ میں کمزور ہو گئے۔ گویا آج پاکستانی قوم بھی اوس و خزرج کی طرح اپنے دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب باہمی لڑائیوں اور انتشار کا شکار ہوکر اپنی جڑیں خود کھوکھلا کر رہی ہے۔ اس خطرناک صورتِ حال میں طاقت، قوت اور وقار حاصل کرنے کا راستہ صرف اتحاد و یگانگت ہے۔

2۔ یثرب کا فکری انتشار:

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرتِ مدینہ سے قبل یثرب کی سرزمین کسی باقاعدہ دستور یا نظام نہ ہونے کی وجہ سے جہنم زار بنی ہوئی تھی۔ ہر طرف بد امنی، افراتفری، خونریزی، بربریت اور نفاق کا دور دورہ تھا۔ اُس دور میں انصارِ مدینہ کے دو قبائل اوس اور خزرج آباد تھے۔ دوسری طرف یہود کے تین قبیلے بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ تھے جو پورے یثرب پر غالب تھے۔ کہنے کو وہاں برائے نام قبائلی نظام موجود تھا مگر اُس نظام کے اندر کسی انسان کی عزت و آبرو، جان و مال کی حفاظت اور اُس کے مذہبی و روایتی رسوم و رواج اور ثقافت کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں تھی۔

یہ سب طبقات کسی ایسے مسیحا کی تلاش میں تھے جو وہاں امن و امان قائم کر سکے اور لوگوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ یقینی بنا سکے۔ گردشِ دوراں کے مارے مفلوک الحال لوگوں نے جب پیغمبر رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسیحا کے طور پر پہچان لیا،کیونکہ وہ جان چکے تھے کہ ان کی تعلیمات امن و آشتی پر مبنی، محبت پر استوار، رواداری پر ایستادہ، اخوت و بھائی چارے پر مبنی اور داخلی و خارجی دونوں طرح کے امن کی ضامن ہیں۔ اس پر مستزاد وہ ہر طرح کے فسق و فجور کے خاتمے کی ضمانت بھی فراہم کرتی ہیں۔ وہ ہر طرح کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی استحصال کے خاتمے کی ضامن بھی ہیں۔ وہ دولت کی مساویانہ تقسیم اور آسائش میں سب کو شریک اور امن و امان میں سب کو ذمہ دار بنانے پر قائم ہیں۔ انہوں نے ان روشن اور فلاحی حقائق پر متفقہ طور پر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا پیشوا تسلیم کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلاشرکتِ غیرے سربراہِ ریاست منتخب کر لیا۔

پاکستان کی موجودہ صورتِ حال بھی ہم سے ایک متفقہ قیادت لانے کا تقاضا کرتی ہے جسے دین کا کامل شعور ہونے کے ساتھ ساتھ عصری اور عالمی تقاضوں سے مکمل آگہی حاصل ہو۔ جس نے دنیا بھر کا مشاہداتی جائزہ لیا ہو اور اسے دنیا بھر میں امن، انسان دوستی، برداشت اور رواداری کا نمونہ سمجھا جاتا ہو۔ لہٰذا ہم سے وقت یہی تقاضا کر رہا ہے کہ ہم تمام وابستگیوں اور تعصبات کو بالاے طاق رکھتے ہوئے مصطفوی انقلاب کے نعرۂ مستانہ پر لبیک کہتے ہوئے پوری قوم کو ایک نکتے پر مجتمع کریں۔

3۔ اُمتِ واحدہ کا تصور (اِشکالات کا اِزالہ):

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ تشریف لاتے ہی سب سے پہلے تمام طبقات کو ایک وحدت میں پرونے کے لیے اتفاقِ رائے سے دستور مرتب کیا جسے ’میثاق‘ یا ’الصحیفۃ‘ کہتے ہیں۔ اُس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی مرتبہ اُمتِ واحدہ کا تصور دیا یعنی geographical nation کا تصور دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام مذاہب میں باہمی اتحاد کا نظریہ دیا۔ اس طرح مختلف ثقافتوں اور مختلف قبائل کو ایک دستور کی چھتری تلے جمع کر دیا۔ یوں تاریخِ انسانی میں پہلی بار ایک معاشرے میں موجود تمام مذاہب کی مشترکہ ریاست کا وجود جنم لے رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میثاقِ مدینہ کے پہلے آرٹیکل میں فرمایا:

هٰذَا کِتَابٌ مِنْ مُحَمّدٍ النّبِیِّ (رَسُوْلِ اﷲِ)، بَیْنَ الْـمُؤْمِنِینَ وَالْـمُسْلِمِینَ مِنْ قُرَیْشٍ وَ(أَهْلِ) یَثْرِبَ، وَمَنْ تَبِعَهُمْ فَلَحِقَ بِهِمْ وَجَاهَدَ مَعَهُمْ.

’یہ (دستوری) دستاویز (اللہ کے) نبی (اور رسول) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے جاری کردہ ہے۔ یہ (اس معاہدہ پر مبنی ہے جو) قریش اور اہل یثرب کے مومنین و مسلمین اور اُن لوگوں کے مابین طے پایا ہے، جو اِن کی پیروی کرتے ہوئے ان کے اتحاد میں شامل ہوئے ہیں (یا بعد ازاں شامل ہوں گے) اور ان کے ساتھ مل کر جد و جہد کریں گے۔‘

تاریخِ انسانی کے سب سے پہلے دستور کے دوسرے آرٹیکل میں فرمایا گیا:

إِنَّهُمْ أُمَّةٌ وَاحِدَةٌ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ.

’تمام (دنیا کے دیگر) لوگوں کے بالمقابل ان کی ایک علیحدہ سیاسی وحدت (قومیت) ہوگی۔‘

یعنی یہ اُمت واحدہ ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ یَهُوْدَ بَنِي عَوْفٍ أُمَّةٌ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ، لِلْیَهُوْدِ دِیْنُهُمْ وَلِلْمُسْلِمِیْنَ دِیْنُهُمْ مَوَالِیهِمْ وَأَنْفُسُهُمْ، إِلَّا مَنْ ظَلَمَ أَوْ أَثِمَ فإِنَّهٗ لَا یُوْتِغُ إِلاَّ نَفْسَهٗ وَأَهْلَ بَیْتِهٖ.

(سیرت ابن هشام، 3: 34۔ البدایة والنهایة، 3: 225)

’بنو عوف کے یہودی، اہلِ ایمان کے ساتھ ایک سیاسی وحدت تسلیم کیے جاتے ہیں، یہودیوں کے لیے ان کا دین اور مسلمانوں کے لیے ان کا دین، موالی ہوں یا اصل، ہاں جو ظلم یا گناہ کرے گا تو وہ اپنے نفس اور اپنے اہل خانہ کے علاوہ کسی کو ہلاک نہیں کرے گا۔‘

یعنی بنو عوف کے یہود مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک امت کے تصور کو فروغ دے رہے ہیں۔

دوسری جگہ فرمایا گیا ہے:

أُمَّةٌ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ.

’کہ مومنین میں سے امت ہیں۔‘

آج کے دور میں تصورِ امت کو سمجھنا نہایت ضروری ہے جو موجودہ کشیدہ صورتِ حال سے نکلنے کے لیے معاون ثابت ہوگا۔ اس وقت بھی ہمیں گروہی سیاست کو ترک کرتے ہوئے ہر طرح کے برادری ازم، فرقہ واریت، طبقاتی تقسیم، لسانی اور صوبائی تعصبات کو خیرباد کہہ کر قومی و ملی تصور کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے اور یہ سب اتحاد و یگانگت کی بنیاد پر ممکن ہوگا۔

مملکتِ خدا داد لاکھوں افراد کے خون سے سینچا ہوا ایک لہلہاتا چمن ہے۔ یہ بھی ہمارے لیے ریاستِ مدینہ کی طرز پر کلمۂ طیبہ کی بنیاد پر بنی ایک نظریاتی ریاست ہے۔ اس اسلامی ریاست کے در و دیوار اور رہنے والے شہریوں کی مال و جان کی حفاظت ہمیں پوری جانفشانی اور تن دہی کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر ہمیں چاہیے کہ ہم قومی و ملی مفادات کو اپنے ذاتی مفادات پر ترجیح دیں اور مادرِ وطن کے لیے تن، من اور دھن قربان کرنے سے دریغ نہ کریں۔

لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عملی طور پر ہمارے حکمران ایسا کر رہے ہیں۔ جواب ہے: نہیں!

4۔ باہمی نزاع میں ریاستی اتھارٹی کو حَکَم ماننا:

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیادت کے اتحاد کا تصور بھی دیا:

وَإِنَّکُمْ مَهْمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیهِ مِنْ شَیْئٍ، فَإِنَّ مَرَدَّهٗ إِلَی اﷲِ وَإِلٰی مُحَمَّدٍ صلی الله علیه وآله وسلم.

’اور جب کبھی تم میں کسی چیز کے متعلق اختلاف پیدا ہو جائے تو اسے اللہ اور (اس کے رسول) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوٹایا جائے گا۔‘

[آرٹیکل نمبر: 27]

قابلِ غور بات ہے کہ کیا آج ہم اَحکامِ شریعت کی طرف رجوع کر رہے ہیں؟ غیروں کے اشاروں پر امت کو تفرقہ بازی میں دھکیل کر ، انتہا پسندی، تکفیریت اور تنگ نظری کو فروغ دے رہے ہیں۔ ہم میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو غیروں کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔ ہم اپنی مرضی کی شریعت گھڑ کر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جہاد ہے۔ اس جہاد کے نام پر ہم فساد بر پا کر کے امت کے شیرازہ کو پارہ پارہ کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ جہاد صرف وہی ہے جو قرآن نے بیان فرمایا ہے اورجس کی تفسیر و تشریح خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی بھی جنگی مہم روانہ کرنے سے قبل ہدایات دیتے تھے کہ خبردار! کسی راہب یا مذہبی رہنما کو قتل نہ کرنا؛ کسی خاتون، بزرگ، اپاہج اور بچے کو قتل نہ کرنا؛ کسی کمزور پر ہاتھ نہ اٹھانا؛ فصلیں خراب نہ کرنا، پھل دار درختوں کو نقصان نہ پہنچانا اور تاجروں کی املاک کو بھی کسی قسم کی گزند نہ پہنچانا۔ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم کے دور میں مسلم فوج ان ہدایات پر سختی سے عمل پیرا رہتی تھی۔ اس کی تفصیلات متعدد کتبِ احادیث و سیر اور تالیفاتِ تاریخ میں میسر ہیں۔

5۔ کسی کے ظلم کا بدلہ دوسرے سے لینے کی ممانعت

یہ قانونِ فطرت ہے کہ ہر انسان اپنے کیے کا جواب دہ ہے اور کوئی رشتہ، ناتا یا تعلق کسی کے عمل پر قصوروار ثابت نہیں ہو سکتا۔ یہ انسان کی کم ظرفی ہوتی ہے کہ کسی کے گناہ کی سزا کسی اور کو دے دی جاتی ہے۔ میثاقِ مدینہ میں بھی اس امر کو ملحوظِ نظر رکھا گیا تھا۔ اس حوالے سے آرٹیکل نمبر بیالیس میں تحریر ہوا:

وَإِنَّهٗ مَنْ فَتَکَ فَبِنَفْسِهٖ فَتَکَ وَأَهْلِ بَیْتِهٖ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ، وَإِنَّ اﷲَ عَلٰی أَبَرِّ هٰذَا.

’اور ان میں سے جو فرد (یا جماعت) ظلم و تعدی کا اِرتکاب کرے تو اس نے اپنی جان کو اور اپنے اہل و عیال کو ہی ہلاکت میں ڈالا ، سوائے اس کے کہ اس پر ظلم ہوا ہو۔ اور اللہ تعالیٰ اس (دستور) کی پاس داری کا ضامن ہے۔‘

یعنی اﷲ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذمہ دار اور ضامن ہیں۔

ہمارا دین بھی ہمیں یہی تلقین کرتا ہے کہ کسی کے جرم کا بدلہ کسی اور سے نہیں لیا جا سکتا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کسی بھی انفرادی سطح کے عمل کا قصور وار کسی قوم، فرقے، گروہ یا مذہب کے ماننے والوں کو قرار نہیں دے سکتے۔ ہم سب سے پہلے پاکستانی ہیں اور دیگر وابستگیاں ہمارے لیے ضمنی حیثیت کی حامل ہیں۔

6۔ ایفاے عہد پر ریاستی تحفظ کی فراہمی:

میثاقِ مدینہ میں ایفاے عہد کرنے والوں کو ریاستی تحفظ فراہم کرنے کی بھی یقین دہائی کرائی گئی۔ اس ضمن میں فرمایا:

وَإِنَّ اﷲَ جَارٌ لِـمَنْ بَرَّ وَاتَّقٰی وَمُحَمَّدٌ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم.

’اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کا محافظ و نگہبان ہے جو اس دستور کے معاہدات کی پاس داری کرے اور خلاف ورزی اور عہد شکنی سے پرہیز کرے اور اسی طرح اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (بھی اس کے محافظ و نگہبان) ہیں۔‘

(آرٹیکل نمبر 62)

اس ضمن میں پاکستان کے ہر رہائشی کے مال، جان، آبرو اور حقوق کی ادائیگی ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ بدقسمتی سے ہماری حکومت کا کام صرف اور صرف اپنے اور اپنے گھرانے کے بنک اکائونٹس کو بڑھانا اور لوٹے ہوئے حرام مال کو آف شور کمپنیوں میں چھپانا اور سب حقائق واضح ہونے کے باوجود اس پر ڈھٹائی دکھانا ہے۔ اے کاش! ہمارے حکمرانوں کو معلوم ہو جائے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق حاکم قوم کا خادم ہوتا ہے۔

7۔ ظلم کے خلاف بلا امتیاز اجتماعی اقدام:

میثاقِ مدینہ میں ظلم، لوٹ مار، نا انصافی اور فتنہ و فساد کے خلاف بلاامتیاز اجتماعی اقدام کی بھی یقین دہانی کرائی گئی۔ اس ضمن میں واضح طور پر تحریر کیا گیا:

وَإِنَّ الْـمُؤْمِنِینَ الْـمُتَّقِینَ عَلٰی مَنْ بَغٰی مِنْهُمْ أَوِ ابْتَغٰی دَسِیعَةَ ظُلْمٍ أَوْ إِثْمٍ أَوْ عُدْوَانٍ أَوْ فَسَادٍ بَیْنَ الْـمُؤْمِنِینَ۔ وَإِنَّ أَیْدِیَهُمْ عَلَیْهِ جَمِیعًا وَلَوْ کَانَ وَلَدَ أَحَدِهِمْ.

’اور یہ کہ تما م تقویٰ شعار مومنین ہر اس شخص کے خلاف متحد ہوں گے جو سرکشی اختیار کر ے، قانون شکنی کرے؛ ظلم، گناہ، تعدی یا بدعنوانی کا ارتکاب کرے یا پُراَمن اَہلِ ایمان کو فتنہ و فساد میں مبتلا کرے۔ ایسے شخص کی مخالفت میں ایمان والوں کے ہاتھ ایک ساتھ اٹھیں گے اگرچہ وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔‘

[آرٹیکل نمبر 15]

انصاف کی عمل داری اسلام کے اوصاف میں سے ایک ہے۔ قبیلہ بنو مخزوم کی فاطمہ نامی خاتون والے معاملہ پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثِ مبارک سب کچھ واضح کر دینے کے لیے کافی ہے۔ مگر ہمارے حکمران دن دیہاڑے نہ صرف خود دہشت گردی کرتے ہیں بلکہ دہشت گردوں کے نمائندوں کو قانون کی وزارت کا قلم دان دے کر قانون کا منہ چڑاتے ہیں۔

8۔ یکساں قانون کے نفاذ کا عزم:

کسی بھی فریق کی جانب سے کیے گئے ظلم کے خلاف مشترکہ کارروائی کرنے اور تمام طبقات کے لیے یکساں قانون کی پاس داری کرنے اور عوام کو انصاف کی فراہمی کی بھی یقین دہانی کرائی گئی۔ اس ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

وَإِنَّ الْـمُؤْمِنِینَ یُبِیْئُ بَعْضُهُمْ عَلٰی بَعْضٍ بِمَـا نَالَ دِمَاءَ هُمْ فِی سَبِیلِ اﷲِ.

’اور اہلِ ایمان راہِ خدا میں ہونے والے اپنے جانی نقصان کا ایک دوسرے کی جانب سے (باہمی امداد کے طور پر دشمن سے) انتقام لیں گے۔ (دشمنوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے شہریوں کے انتقام کی ذمہ داری ریاست پر ہوگی۔)‘

(آرٹیکل نمبر 22)

یعنی دشمن کے خلاف سب مل کر سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑے ہوں گے۔

وَإِنَّهٗ لَا یَحُولُ هٰذَا الْکِتَابُ دُونَ ظَالِمٍ وَآثِمٍ.

’اور یہ دستور کسی ظالم، مجرم، باغی یا عہد شکن کو تحفظ فراہم نہیں کر ے گا۔‘

[آرٹیکل نمبر 60]

وَإِنَّهٗ مَنْ خَرَجَ آمِنٌ وَمَنْ قَعَدَ آمِنٌ بِالْـمَدِینَةِ إِلَّا مَنْ ظَلَمَ أَوْ أَثِمَ.

’اور جو (کسی غرض سے) مدینہ سے باہر جائے گا وہ بھی امان اور حفاظت کا مستحق ہوگا اور جو مدینہ میں قیام پذیر رہے، وہ بھی امان اور حفاظت کا مستحق ہوگا، سوائے اس کے کہ جو ظالم ہو، قانون شکن ہو، یا فساد انگیزی یا سازش کرنے والا ہو۔‘

(آرٹیکل نمبر 61)

بدقسمتی سے ہمارے ہاں قانون کی پابندی کا لفظ دوسروں کے لیے تصور کیا جاتا ہے۔ خاص کر جو اقتدار میں ہوتا ہے، وہ تو خود کو قانون سے ماورا تصور کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ خود کو سات خون کیا بلکہ 17 جون 2014ء کے 14 خون تک معاف تصور کرتا ہے۔ وہ شاید یہ نہیں جانتا کہ سدا حکمرانی صرف اور صرف اللہ رب العزت ہی کی ہے اور اس کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔

9۔ قصاص کا حصول۔۔۔ مشترکہ ذمّہ داری:

اللہ رب العزت کی نظر میں شرک کے بعد سب سے ناپسندیدہ گناہ خونِ ناحق ہے۔ اس حوالے سے میثاقِ مدینہ میں مقتول کے لیے قانونِ قصاص اور قاتل کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا تمام افراد کی مشترکہ ذمہ داری قرار پائی۔ اس حوالے سے آرٹیکل نمبر 25 میں واضح باقاعدہ ضابطہ اخلاق موجود ہے۔

وَإِنّهٗ مَنِ اعْتَبَطَ مُؤْمِنًا قَتْلاً عَنْ بَیِّنَةٍ فَإِنَّهٗ قَوَدٌ بِهٖ إِلَّا أَنْ یَرْضٰی وَلِیُّ الْـمَقْتُولِ، وَإِنَّ الْـمُؤْمِنِینَ عَلَیْهِ کَافَّةٌ وَلَا یَحِلُّ لَـهُمْ إِلَّا قِیَامٌ عَلَیْهِ.

’اور جو شخص کسی مومن کو (ناحق) قتل کرے گا اور اس کی شہادت واضح ہوگی تو اس قتل کے عوض قصاص واجب ہو جائے گا سوائے اس کے کہ اس مقتول کا ولی اس کے عوض خون بہا لینے پر رضا مند ہو جائے۔ اور تمام اہل ایمان مل کر اس قصاص کی تنفیذ کرائیں گے ( گویا قصاص ریاستی ذمہ داری بن جائے گی)۔ مسلمانوں کے لیے اور کوئی چیز جائز نہ ہوگی سوائے اس کے کہ سب اس قاتل کے خلاف متحد ہو کر اٹھ کھڑے ہوں۔‘

اگر ہم آج کے منظر نامے پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ ہم کس قدر ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والے ہیں۔ ذرا سوچیے! من حیث القوم ہم نے کتنا متحد ہوکر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ پوری قوم نے کیمرے کی آنکھ سے دس بارہ گھنٹے پر مشتمل اس معرکۂ حق و باطل کو واضح انداز سے دیکھا ہے۔ قاتل بھی صاف دکھائی دے رہے ہیں اور مقتول بھی سامنے ہیں۔ ظالم بھی بے نقاب ہے اور مظلوم بھی سب کے سامنے ہیں۔ کیسے ایک پولیس افسر رعونت کے نشے سے سرشار ہو کر ادارہ منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ کو تسخیر کرنے کا حکم دے رہا ہے۔ اس قدر واضح حقائق کے باوجود قوم نے خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا ہے۔ غور طلب بات ہے کہ ہم نے کس قدر مؤثر اجتماعیت کے ساتھ اس سانحے کے مظلومین اور شہداء کو انصاف دلانے کے لیے کوششیں کی ہیں۔

ہم تو اپنی مذہبی وابستگیوں اور سیاسی وفاداریوں کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے ہیں، ہم اپنا محاسبہ کریں کہ ہم نے کس قدر ریاستی دہشت و بربریت کا شکار مظلوموں کا ساتھ دیا ہے۔

اس ارضِ پاک پر مخلوقِ الٰہی کے ساتھ کیسے کیسے ظلم ہوئے ہیں۔ اللہ کو حاضر ناضر جانتے ہوئے بتایئے کہ ان میں سے کتنے مظلوموں کو انصاف ملا ہے اور ہم کتنے مظلوموں کے ساتھ انصاف دلوانے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں؟

10۔ قاتل کی مدد کرنا ناقابلِ معافی جرم:

اسلام ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دینے اور ظالم کا ہاتھ روکنے کا حکم دیتا ہے۔ یہی حکم میثاقِ مدینہ میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے آرٹیکل نمبر 26 ملاحظہ ہو:

وَإِنَّهٗ لَا یَحِلُّ لِـمُؤْمِنٍ أَقَرَّ بِمَـا فِی هٰذِہِ الصّحِیفَةِ وَآمَنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ أَنْ یَنْصُرَ مُحْدِثًا وَلَا یُؤْوِیهِ، وَأَنّهٗ مَنْ نَصَرَهٗ أَوْ آوَاهُ، فَإِنَّ عَلَیْهِ لَعْنَةَ اﷲِ وَغَضَبَهٗ یَوْمَ الْقِیَامَةِ. وَلَا یُؤْخَذُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ.

’کسی ایمان والے کے لیے جو اس صحیفہ کے مندرجات کی تعمیل کا اقرار کر چکا ہے اور اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے، یہ ہرگز جائز نہ ہو گا کہ وہ کسی قاتل یا مجرم کی مدد کرے یا اسے پناہ دے۔ اور جو کسی ایسے شخص کی مدد کرے گا یا اسے پناہ دے گا تو روزِ قیامت اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور اس کا غضب ہوگا۔ نہ اس کی توبہ قبول کی جائے گی اور نہ کوئی بدلہ۔‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثِ مبارک کے مطابق کسی غلط بات پر اپنی قوم یا قبیلے یا گروہ کی مدد کرنے کی مثال ایسے ہی ہے، جیسے کوئی اونٹ کنویں میں گر رہا ہو اور تم اس کی ٹانگ پکڑ کر خود بھی اسی کے ساتھ جا گرو۔ اس حوالے سے واضح مثالیں موجود ہیں کہ ہمارے حکمران روزِ روشن کی طرح عیاں قاتل، لٹیرے، کرپٹ اور دہشت گرد عناصر کی سرکوبی کرنے کے بجائے اپنے مفادات کی خاطر الٹا ان کی وکالت کر رہے ہوتے ہیں۔

اس ملک میں سب کچھ ایسے ہو رہا ہے جیسے جنگل کا قانون ہے۔ جس کا جب جی چاہے مملکتِ خداداد کی حرمت کو پامال کرکے چلتا بنے۔ مگر یہاں قانون کی حکمرانی نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کے قاتلوں سے گھٹنے ٹیک کر مہینوں تک مذاکرات کی بھیک مانگی جاتی ہے۔ حقائق بتاتے ہیں کہ یہاں پر ایک متفقہ قیادت کا تصور نہیں رہا۔

اگر ہم موجودہ حقائق کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں وہی صورتِ حال درپیش ہے ، جو رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ آمد سے پہلے یثرب کی تھی۔ موجود حوالے سے دیکھا جائے تو ہمیں میثاقِ مدینہ کی روشنی میں ایک ایسا ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے معاشرے میں رواداری اوربرداشت کے فروغ اور ہر ایک کو بنیادی ضروریات اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔

دیکھا جائے تو پاکستانی معاشرے میں کوئی بھی ایسی سیاسی جماعت موجود نہیں ہے، جو اس نظام کے مخالف بھی ہو اور اس کے مقابل نظام تیار کرنے کی اہلیت بھی رکھتی ہو۔ اس ضمن میں صرف پاکستان عوامی تحریک ہی واحد سیاسی جماعت ہے، جو اس ظالمانہ نظام کو برملا للکارتی بھی ہے اور اس کے مقابل میثاقِ مدینہ کی روشنی میں مصطفوی انقلاب کا نعرہ بھی لگاتی ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کوئی روایتی سیاسی جماعت نہیں ہے جو محض زبانی جمع خرچ کرتی ہے بلکہ اس نے اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے باقاعدہ دس نکاتی ایجنڈا بھی واضح کیا ہے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سادہ لوح پاکستانی عوام جو میڈیا وار سے متاثر ہو کر حقیقت کو کہیں گنوا بیٹھے ہیں، کو سیاسی اور دینی شعور دے کر پاکستان عوامی تحریک کے جھنڈے تلے لا کر عالم گیر مصطفوی انقلاب کی جدوجہد کا باقاعدہ حصہ بنایا جائے۔ یاد رہے کہ اگر وطنِ عزیز کی غیور عوام اٹھ کھڑے ہوئے تو وہ دن دور نہیں جب صہیونیت کا پروردہ وہ نظام جس نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنایا ہوا ہے، اسے لپیٹ دیا جائے اور اس کی جگہ میثاقِ مدینہ سے ماخوذ مصطفوی انقلاب بپا کیا جائے گا۔ ان شاء اﷲ! وہ دن دور نہیں جب پاکستانی قوم پاکستان عوامی تحریک کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر مصطفوی انقلاب کا ہراول دستہ بن کر تاریخِ عالم میں ایک نئی اور جاوداں مثال بن کر اٹھیں گے اور مصطفوی انقلاب کا سویرا طلوع کر کے ہی دم لیں گے۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اکتوبر 2017

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top