سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ، انسداد دہشتگردی عدالت میں ٹرائل شروع
سانحہ کے مرکزی کردار ڈی آئی جی رانا عبدالجبار اور ایس پی ڈاکٹر اقبال نے حاضری سے استثنیٰ مانگ لیا
8 سو سی ڈیز، 90 ہزار دستاویزات، تشدد کے واقعات پر مبنی 7 ہزار تصاویر 120 ملزمان کے حوالے
ثبوت گاڑیوں میں لائے گئے، ثبوتوں کے ڈھیر دیکھ کر پولیس ملزمان ہکے بکے رہ گئے
ملزمان کسی رو رعایت کے مستحق نہیں، حاضری یقینی بنائی جائے، عوامی تحریک کے وکلاء کی استدعا
سانحہ ماڈل ٹاؤن سٹیٹ ٹیررازم ہے، سچ سامنے لانا نظام انصاف کی ذمہ داری ہے: بیرسٹر علی ظفر
انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مزید سماعت 23، ہائیکورٹ میں 21 نومبر کو ہو گی
لاہور (16 نومبر 2017) انسداد دہشت گردی کی عدالت لاہور میں 14 بے گناہوں کو قتل کیے جانے کے سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس پر باضابطہ ٹرائل کا آغاز ہو گیا۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے وکلاء اور مستغیث جواد حامد نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے پرتشدد واقعات پر مبنی 8 سو سی ڈیز، 90 ہزار دھمکی آمیز بیانات کی کاپیاں اور 7 ہزار تصاویر جن میں قتل و غارت گری میں ملوث پولیس افسران و اہلکار صاف دکھائی دے رہے ہیں، یہ تمام ثبوت 120 ملزمان کے حوالے کیے گئے۔ عوامی تحریک کے وکلاء سانحہ سے متعلق ثبوت گاڑیوں میں لائے۔ ثبوتوں کے ڈھیر دیکھ کر ملزم اہلکار ہکے بکے رہ گئے۔ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ پر باضابطہ ٹرائل شروع ہو گیا ہے۔ پہلے ہی روز سانحہ کے مرکزی کردار ڈی آئی جی رانا عبدالجبار اور ایس پی ڈاکٹر اقبال نے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دی جس کی شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے وکلاء نے سخت مخالفت کی اور کہا کہ ملزموں کا ٹرائل کے موقع پر عدالت میں حاضر ہونا قانونی تقاضا ہے۔ ملزمان کے وکلاء نے بھاری بھرکم ثبوتوں پر موقف اختیار کیا کہ ثبوتوں کی تصدیق کروائی جائے، عوامی تحریک کے وکلاء نے ملزمان کے وکلاء کے اس مطالبہ کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مطالبہ ٹرائل کو التواء کا شکار بنانے کے سوا کچھ نہیں، رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ 120 ملزمان کو وہی ثبوت فراہم کیے گئے ہیں جو استغاثہ کے ساتھ عدالت میں جمع کروائے گئے۔ یہ ثبوت ماسٹر ریکارڈ کے عین مطابق ہیں۔
سماعت کے بعد اے ٹی سی کے باہر عوامی تحریک کے وکلاء رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ، نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، مستغیث جواد حامد، سردار غضنفر حسین ایڈووکیٹ، شکیل ممکا ایڈووکیٹ، یاسر ملک ایڈووکیٹ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شریف برادران جس کیس میں بھی ملوث ہوں عدالتوں سے استثنیٰ بھی مانگتے ہیں اور آنکھیں بھی دکھاتے ہیں۔ ہم نے تمام ثبوت ملزموں کے حوالے کر دیئے۔ اے ٹی سی میں مزید سماعت 23 نومبر کو ہو گی۔
دریں اثناء جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک کیے جانے کے سنگل بنچ کے حکم کے خلاف حکومتی انٹراکورٹ اپیل کی سماعت کے دوران شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے وکیل بیرسٹر علی ظفر ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ ریاست اور نظام انصاف کی ذمہ داری ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے سچ کو سامنے لائے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن سٹیٹ ٹیررازم ہے اور ریاست کے ایک صوبے نے بے گناہوں کی جانیں لیں، ابہام کے خاتمے کیلئے جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک کیے جانے سمیت وہ تمام اقدامات بروئے کار لائے جائیں جن سے سانحہ کے اصل محرکات اور ذمہ داران سامنے آسکیں۔ ورنہ ریاست پر اس کے شہری کا اعتماد متزلزل ہو گا۔ آئین، نظام انصاف، قرآن و سنت سچائی پر زور دیتے ہیں اور اب تک کے صوبائی حکومت کے رویے سے نظر آیا ہے کہ وہ سچ کو چھپا رہی ہے اور جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کے پبلک ہونے سے خوف زدہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کون سانحہ میں ملوث ہے کون نہیں ہے اس کا فیصلہ بھی سچ کی بنیاد پر چاہتے ہیں۔ حکومتی انٹراکورٹ اپیل پر مزید سماعت 21 نومبر کو ہو گی۔
تبصرہ