سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ٹرائل ہو جاتا تو سانحہ قصور نہ ہوتا، احتجاجی مارچ سے رہنماؤں کا خطاب
سانحہ قصور کے ذمہ دار شہباز شریف، رانا ثناء کو او ایس ڈی بنایا اور طلب کیا جائے: ڈاکٹر طاہرالقادری
’’جسٹس فار زینب‘‘ بچوں اور بچیوں کے احتجاجی مارچ کی قیادت کی، شہباز شریف، رانا ثناء کو برطرف کیا جائے، بچوں کے نعرے
اب جاتی امراء کی طرف مارچ کرنا ہوگا: شیخ رشید، سیدھی گولیاں مارشل لاء دور میں بھی نہیں ماری جاتی تھیں : قمر الزمان کائرہ
17 جنوری کے احتجاج سے ڈرانے کیلئے قصور میں پولیس نے ڈائریکٹ فائرنگ کی: کامل علی آغا، ایسا لادین معاشروں میں بھی ظلم نہیں ہوتا: منظور وٹو
جیسے حکمران ہو تے ہیں ویسے ہی جرائم ہوتے ہیں: ناصر شیرازی رہنماؤں کا چیف جسٹس سے سانحہ قصور کی ایف آئی آر منگوانے کی اپیل
لاہور (11 جنوری 2018) پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مختلف سکولوں کے بچوں اور بچیوں کی طرف سے ’’جسٹس فار زینب‘‘ احتجاجی مارچ کی قیادت کرتے ہوئے کہا کہ اگر سنگین جرائم جڑ سے ختم کرنے ہیں تو پھر شہباز شریف، رانا ثناء اللہ کو او ایس ڈی بنانا اور عدالتوں میں طلب کرنا ہو گا، فائرنگ کا حکم ایس پی، ڈی ایس پی کی سطح کا افسر دیتا ہے۔ شہباز شریف صرف لاشوں کی قیمت لگاتے ہیں۔ تیس، تیس لاکھ لے کر قصور پہنچ گئے، حکمرانوں میں اتنی جرات نہیں کہ دن کی روشنی میں قصور جا تے، جب حکمران پبلک کو فیس نہ کرسکیں تو پھر انہیں سٹیپ ڈاؤن کر جانا چاہیے، میں چیف جسٹس سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ قصور کے سانحہ کی ایف آئی آر منگوائیں کسی کو نامزد نہیں کیا گیا ہو گا، 4دن کے بعد معاملہ کمزور ایف آئی آر کی وجہ سے ختم ہو جائے گا، یہی انکا طریقہ واردات ہے۔
بچوں اور بچیوں کے ہمراہ احتجاجی مارچ میں شیخ رشید احمد، قمر الزمان کائرہ، میاں منظور احمد وٹو، سینیٹر کامل علی آغا، ناصر شیرازی، خرم نواز گنڈا پور، ڈاکٹر حسن محی الدین، ڈاکٹر حسین محی الدین، چوہدری فیاض احمد وڑائچ و دیگر رہنما شریک تھے۔ بچوں اور بچیوں نے انٹرنیشنل مارکیٹ سے منہاج القرآن سیکرٹریٹ تک احتجاجی مارچ کیا اور ’’شہباز حکومت ختم کرو‘‘، ’’گو شہباز گو‘‘ اور ’’جسٹس فار زینب‘‘ کے نعرے لگائے۔
احتجاجی مارچ کے اختتام پر شیخ رشید نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک اس نہج پر آگیا کہ اب جاتی امراء کی طرف مارچ کرنا ہو گا اور انہیں اٹھا کر لانا ہو گا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کا ٹرائل ہوا ہوتا تو سانحہ قصور پیش نہ آتا۔ قمر الزمان کائرہ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ مارشل لاؤں میں ہم احتجاج کرتے، لاٹھیاں کھاتے اور لاٹھیاں مارتے بھی تھے مگر گولیاں نہیں چلائی جاتی تھیں، ، سیدھی گولیاں چلانے والی درندگی کا آغاز شریف دور حکومت میں ہوا۔ ہم ماڈل ٹاؤن کے شہدا کو بھی انصاف دلائیں گے، زینب کو بھی اور پولیس بربریت کا شکار ہونیوالے قصور کے شہریوں کو بھی اس درندگی کے ساتھ حکومت کو نہیں چلنے دیں گے۔
سینیٹر کامل علی آغا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو اسلام آباد جانے سے روکنے کیلئے ماڈل ٹاؤن میں لاشیں گرائی گئیں اور 17جنوری کے پر امن احتجاج کو روکنے کیلئے قصور میں لاشیں گرائی گئیں، یہ لاشیں گرا کو خوف و ہراس پھیلاتے ہیں کہ کوئی انکے سیاسی، معاشی جرائم پر آواز نہ اٹھا سکے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا زینب کیس میں نوٹس لینے پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔
میاں منظور احمد وٹو نے کہا کہ جو معاشرے ہمارے اللہ اور رسول ﷺ کو نہیں مانتے، ان معاشروں میں بھی ریاستی ادارے احتجاج پر سیدھی گولیاں نہیں برساتے۔ نواز شریف اور شہباز شریف اللہ کی پکڑ میں آگئے اب انہیں کوئی نہیں بچا سکے گا۔
ناصر شیرازی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکمران پہاڑ کی چوٹی پر ہوتا ہے اور جو کچھ چوٹی پر ہوتا ہے وہی نیچے ہو رہا ہوتا ہے، قوم کو اب فیصلہ کرناہو گا کہ قوم کی ہر زینب کو بچانا ہے تو اس درندہ حکومت سے جان چھڑانا ہو گی۔
سربراہ عوامی تحریک نے مزید کہا کہ بھلوال اور فیصل آباد میں بھی بچوں کے ساتھ درندگی ہوئی، وزراء کہتے ہیں یہ واقعات کئی سال سے ہو رہے ہیں۔ یہ درندگی کی انتہا ہے۔ میڈیا نے درندگی کو بے نقاب کیا تو یہ اس پر برس رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیدھی گولیاں مارنے کا حکم دینے والے کا کوئی نا م نہیں بتاتا، جسٹس باقر نجفی کمشن نے بھی اپنی رپورٹ میں لکھا کہ میں نے ایک ایک سے پوچھا کہ فائرنگ کا حکم کس نے دیا۔ انہوں نے لکھا کہ سب سے لب سی رکھے تھے جس کا مطلب ہے حکم کہیں اوپر سے آیا۔ ہم سمجھتے ہیں اوپر نواز شریف اورشہباز شریف کے سوا کون بیٹھا تھا؟
تبصرہ